’’آٹوپائلٹ‘‘ پر بھی زبردست آغاز
پی ایس ایل کو بڑا اچھا آغاز مل گیا اس سے اگلے میچز میں بھی فائدہ ہوگا، پی سی بی تو سویا ہوا تھا
''ہیلو سلیم بھائی کیسے ہیں، آپ یقینا پی ایس ایل کے میچز دیکھنے لاہور جا رہے ہوں گے''
کراچی ایئرپورٹ پر سامان کی اسکیننگ کراتے ہوئے جب میں نے یہ جملہ سنا تو ساتھ ایک نوجوان لڑکا موجود تھا، اس نے بتایا کہ وہ اور فیملی کے کئی ارکان پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب دیکھنے کیلیے جا رہے ہیں، علی ظفر و دیگر کی پرفارمنس اور پھر زبردست کرکٹ ایک ٹکٹ میں دو مزے مل رہے ہیں اور کیا چاہیے۔
یہ کہہ کر وہ آگے چلا گیا اور مجھے اطمینان کا احساس ہوا کہ پی سی بی کی جانب سے ہائپ نہ بنانے کے باوجود ایونٹ میں لوگوں کی دلچسپی برقرار ہے،میں نے اس بار نئی ایئرلائنز ''فلائی جناح'' کا انتخاب کیا اور پہلا ہی سفر خاصا خوشگوار گذرا، جہاز، اسٹاف اور دیگر سہولتیں سب بہت عمدہ تھیں، فلائٹ میں شفاعت علی سے بھی ملاقات ہوئی،کہتے ہیں دنیا میں سب سے مشکل کام لوگوں کو ہنسانا ہے اور شفاعت اس میں مہارت رکھتے ہیں، وہ براڈ کاسٹر ادارے کی اسائمنٹ پر جا رہے تھے۔
لاہور ایئرپورٹ سے ٹیم ہوٹل تک میں پی ایس ایل کا کوئی پوسٹر، بینر یا بورڈ وغیرہ تلاش کرتے رہا کوئی نظر نہ آیا، شاید دوسرے علاقوں میں کچھ پبلسٹی ہوئی ہو کیونکہ اب تو چیئرمین ایڈورٹائزنگ بجٹ بھی بڑھا چکے،ہوٹل میں ریسٹورنٹ کے باہر البتہ کپتانوں کا بڑا بینر لگا ہوا تھا جس سے احساس ہوا کہ پی ایس ایل کا میلہ سجنے والا ہے، یہ ہوٹل تو عام دنوں میں بھی رش کی وجہ سے شاپنگ مال کے جیسا لگتا ہے۔
اب پی ایس ایل کی وجہ سے تو بالکل ہی بھرا ہوا تھا، بڑی تعداد سیکیورٹی اہلکاروں کی بھی تھی، دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، پاکستان میں جب سے کرکٹ واپس آئی حکام فول پروف سیکیورٹی فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے،ٹیموں کی آمدورفت کے وقت ہوٹل والا روڈ اور باقی روٹ عام ٹریفک کیلیے بند ہوتا ہے، ہوٹل میں دو الگ لفٹس ٹیموں کیلیے رکھی گئی ہیں، ایک ریسٹورینٹ بھی ان کیلیے مختص ہے۔
صبح ناشتے کے وقت خاص طور پر بڑا رش ہوتا ہے اس لحاظ سے کھلاڑیوں کی پرائیویسی کیلیے بھی یہ فیصلہ اچھا ثابت ہوا،ٹیم کے فلور میں کوئی غیر متعلقہ شخص نہیں جا سکتا، بعض کھلاڑیوں سے بھی ملاقات ہوئی، ایک نے مذاق میں کہا کہ کھانے کا بڑا مسئلہ بن چکا، نینڈوز کھانے کا موڈ ہے لیکن باہر سے کچھ منگوانے کی اجازت نہیں، یہیں ہوٹل کا مہنگا اور کم مرچوں والا کھانا لینا پڑتا ہے،میں یہ سن کر مسکرانے لگا ،ویسے آپ کو ایک بات بتاتا چلوں، کرکٹ ایونٹس کے دوران ناشتہ تو مفت میں ملتا ہے لیکن اگر میچ نہ ہو تو باقی وقت کا کھانا پلیئرز کو اپنے ڈیلی الاؤنس سے خود خریدنا ہوتا ہے۔
بعض ٹیموں کی پالیسی الگ بھی ہے، میچ کے دوران اسٹیڈیم میں لنچ یا ڈنر کا بندوبست کیا جاتا ہے،کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے اونر ندیم عمر سے بات ہوئی تو میں نے کہا کہ لگتا ہے سرفراز احمد کو قیادت سے ہٹانے کا فیصلہ آپ کیلیے بیحد مشکل تھا اسی لیے پریس کانفرنس میں جذباتی ہو گئے، انھوں نے جواب دیا کہ سرفراز میرے لیے بچوں جیسا ہے۔
18 سال سے ہم دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہیں، اس لیے مجھے تھوڑا عجیب سا محسوس ہو رہا تھا لیکن سرفراز نے اچھے اسپورٹسمین کی طرح ٹیم کی بھلائی کیلیے اس فیصلے کو تسلیم کیا،اسٹیڈیم روانگی سے قبل کچھ سیاسی بریکنگ نیوز سامنے آئیں، راستے میں بھی ایک جگہ صورتحال تھوڑی کشیدہ سے تھی،ڈائریکٹر میڈیا عالیہ رشید نے اس بار صحافیوں کیلیے ایک بڑی سہولت مہیا کرا دی، ویسے انھیں لبرٹی چوک سے پیدل چل کر آنا پڑتا تھا۔
اب وین دستیاب ہے، ماضی میں دبئی میں بھی پی ایس ایل میچز کے دوران ایسا ہوتا رہا،میں عباس رضا کے ساتھ آیا، انھوں نے مجھے اس سہولت سے فائدہ نہ اٹھانے دیا وجہ نسبتا قریب کار پارکنگ ملنا بنی،پھر چند منٹ کا کہہ کر اچھا خاصا پیدل چلوایا، اس پر وہ کہنے لگے اچھا ہے آپ کا وزن تھوڑا کم ہو جائے گا،لفٹ میں ڈان کے سینئر صحافی محمد یعقوب سے ملاقات ہوئی۔
میڈیا سینٹر کے انتظامات رضا راشد نے سنبھالے ہوئے تھے، وہ اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے صحافیوں میں بہت مقبول ہیں، میری کئی صحافی دوستوں محمد عقیل،اعجاز شیخ،اظہر مسعود،قادر خواجہ و دیگر سے ملاقات ہوئی، بیشتر اپنے اچھے کام کی وجہ سے منفرد مقام بنا چکے ، کم کراؤڈ دیکھ کرمیں نے تشویش ظاہر کی تو یوسف انجم نے کہا کہ تقریب شروع ہونے تک اسٹیڈیم بھر چکا ہو گا اور پھر ایسا ہی ہوا، باہر بھی بڑی تعداد میں لوگ قطاروں میں موجود تھے۔
ایک جگہ لاہور قلندرز کے اونر عاطف رانا کو دیکھا جو مداحوں کے ساتھ سیلفیز بنوا رہے تھے،وزیراعظم کو بھی میچ دیکھنے آنا تھا لیکن شاید ملکی حالات کی وجہ سے نہ آ سکے، محسن نقوی ابھی سیاسی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں، وزیر اعلیٰ ہونے کی وجہ سے پروٹوکول بھی الگ ہے، اس لیے میڈیا سے بھی دور دور ہیں، پی سی بی میں سلمان نصیر اپنے علاوہ انھیں کسی کے پاس نہیں جانے دیتے،افتتاحی تقریب زبردست تھی جس کا اصل کریڈٹ ٹرانس گروپ کو جاتا ہے، علی ظفر و دیگر کی پرفارمنس سے شائقین خوب لطف اندوز ہوئے،مکمل اندھیرا ہونے کے بعد لیزر شو اور آتشبازی نے سماں باندھ دیا۔
میں نے علی کو بھی عمدہ اینتھم اور ان کی پرفارمنس پر مبارکباد دی، وہ کرکٹ کے بڑے دلدادہ ہیں،اسٹیڈیم کا ماحول بتا رہا تھا کہ پی ایس ایل جیسے ایونٹس ہمارے لیے کتنے ضروری ہیں،ملکی حالات سے پریشان لوگ سب کچھ بھلا کر چند گھنٹے اچھی طرح گذار کر گھر واپس گئے ہوں گے، میچ میں بھی خوب چوکے چھکے لگے، اگلے دن میری شاہین آفریدی سے ملاقات ہوئی ، انھیں دیکھ کر مداح بھی جمع ہو گئے۔
بااخلاق شاہین نے سب کے ساتھ تصاویر بنوائیں، میں نے ان کا انٹرویو بھی کیا جو آپ جلد کرکٹ پاکستان پر دیکھیں گے، گوکہ میں مختصر وقت کیلیے لاہور گیا لیکن اچھی ملاقاتیں ہو گئیں، میچ بھی دیکھ لیا، پی ایس ایل کو بڑا اچھا آغاز مل گیا اس سے اگلے میچز میں بھی فائدہ ہوگا، پی سی بی تو سویا ہوا تھا، آٹوپائلٹ موڈ پر جہاز منزل کی طرف رواں رہا، اب تو کنٹرول سنبھال کر اچھے انتظامات کرنے چاہیئں تاکہ ایونٹ کا اختتام بھی کامیابی کے ساتھ ہو۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
کراچی ایئرپورٹ پر سامان کی اسکیننگ کراتے ہوئے جب میں نے یہ جملہ سنا تو ساتھ ایک نوجوان لڑکا موجود تھا، اس نے بتایا کہ وہ اور فیملی کے کئی ارکان پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب دیکھنے کیلیے جا رہے ہیں، علی ظفر و دیگر کی پرفارمنس اور پھر زبردست کرکٹ ایک ٹکٹ میں دو مزے مل رہے ہیں اور کیا چاہیے۔
یہ کہہ کر وہ آگے چلا گیا اور مجھے اطمینان کا احساس ہوا کہ پی سی بی کی جانب سے ہائپ نہ بنانے کے باوجود ایونٹ میں لوگوں کی دلچسپی برقرار ہے،میں نے اس بار نئی ایئرلائنز ''فلائی جناح'' کا انتخاب کیا اور پہلا ہی سفر خاصا خوشگوار گذرا، جہاز، اسٹاف اور دیگر سہولتیں سب بہت عمدہ تھیں، فلائٹ میں شفاعت علی سے بھی ملاقات ہوئی،کہتے ہیں دنیا میں سب سے مشکل کام لوگوں کو ہنسانا ہے اور شفاعت اس میں مہارت رکھتے ہیں، وہ براڈ کاسٹر ادارے کی اسائمنٹ پر جا رہے تھے۔
لاہور ایئرپورٹ سے ٹیم ہوٹل تک میں پی ایس ایل کا کوئی پوسٹر، بینر یا بورڈ وغیرہ تلاش کرتے رہا کوئی نظر نہ آیا، شاید دوسرے علاقوں میں کچھ پبلسٹی ہوئی ہو کیونکہ اب تو چیئرمین ایڈورٹائزنگ بجٹ بھی بڑھا چکے،ہوٹل میں ریسٹورنٹ کے باہر البتہ کپتانوں کا بڑا بینر لگا ہوا تھا جس سے احساس ہوا کہ پی ایس ایل کا میلہ سجنے والا ہے، یہ ہوٹل تو عام دنوں میں بھی رش کی وجہ سے شاپنگ مال کے جیسا لگتا ہے۔
اب پی ایس ایل کی وجہ سے تو بالکل ہی بھرا ہوا تھا، بڑی تعداد سیکیورٹی اہلکاروں کی بھی تھی، دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، پاکستان میں جب سے کرکٹ واپس آئی حکام فول پروف سیکیورٹی فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے،ٹیموں کی آمدورفت کے وقت ہوٹل والا روڈ اور باقی روٹ عام ٹریفک کیلیے بند ہوتا ہے، ہوٹل میں دو الگ لفٹس ٹیموں کیلیے رکھی گئی ہیں، ایک ریسٹورینٹ بھی ان کیلیے مختص ہے۔
صبح ناشتے کے وقت خاص طور پر بڑا رش ہوتا ہے اس لحاظ سے کھلاڑیوں کی پرائیویسی کیلیے بھی یہ فیصلہ اچھا ثابت ہوا،ٹیم کے فلور میں کوئی غیر متعلقہ شخص نہیں جا سکتا، بعض کھلاڑیوں سے بھی ملاقات ہوئی، ایک نے مذاق میں کہا کہ کھانے کا بڑا مسئلہ بن چکا، نینڈوز کھانے کا موڈ ہے لیکن باہر سے کچھ منگوانے کی اجازت نہیں، یہیں ہوٹل کا مہنگا اور کم مرچوں والا کھانا لینا پڑتا ہے،میں یہ سن کر مسکرانے لگا ،ویسے آپ کو ایک بات بتاتا چلوں، کرکٹ ایونٹس کے دوران ناشتہ تو مفت میں ملتا ہے لیکن اگر میچ نہ ہو تو باقی وقت کا کھانا پلیئرز کو اپنے ڈیلی الاؤنس سے خود خریدنا ہوتا ہے۔
بعض ٹیموں کی پالیسی الگ بھی ہے، میچ کے دوران اسٹیڈیم میں لنچ یا ڈنر کا بندوبست کیا جاتا ہے،کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے اونر ندیم عمر سے بات ہوئی تو میں نے کہا کہ لگتا ہے سرفراز احمد کو قیادت سے ہٹانے کا فیصلہ آپ کیلیے بیحد مشکل تھا اسی لیے پریس کانفرنس میں جذباتی ہو گئے، انھوں نے جواب دیا کہ سرفراز میرے لیے بچوں جیسا ہے۔
18 سال سے ہم دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہیں، اس لیے مجھے تھوڑا عجیب سا محسوس ہو رہا تھا لیکن سرفراز نے اچھے اسپورٹسمین کی طرح ٹیم کی بھلائی کیلیے اس فیصلے کو تسلیم کیا،اسٹیڈیم روانگی سے قبل کچھ سیاسی بریکنگ نیوز سامنے آئیں، راستے میں بھی ایک جگہ صورتحال تھوڑی کشیدہ سے تھی،ڈائریکٹر میڈیا عالیہ رشید نے اس بار صحافیوں کیلیے ایک بڑی سہولت مہیا کرا دی، ویسے انھیں لبرٹی چوک سے پیدل چل کر آنا پڑتا تھا۔
اب وین دستیاب ہے، ماضی میں دبئی میں بھی پی ایس ایل میچز کے دوران ایسا ہوتا رہا،میں عباس رضا کے ساتھ آیا، انھوں نے مجھے اس سہولت سے فائدہ نہ اٹھانے دیا وجہ نسبتا قریب کار پارکنگ ملنا بنی،پھر چند منٹ کا کہہ کر اچھا خاصا پیدل چلوایا، اس پر وہ کہنے لگے اچھا ہے آپ کا وزن تھوڑا کم ہو جائے گا،لفٹ میں ڈان کے سینئر صحافی محمد یعقوب سے ملاقات ہوئی۔
میڈیا سینٹر کے انتظامات رضا راشد نے سنبھالے ہوئے تھے، وہ اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے صحافیوں میں بہت مقبول ہیں، میری کئی صحافی دوستوں محمد عقیل،اعجاز شیخ،اظہر مسعود،قادر خواجہ و دیگر سے ملاقات ہوئی، بیشتر اپنے اچھے کام کی وجہ سے منفرد مقام بنا چکے ، کم کراؤڈ دیکھ کرمیں نے تشویش ظاہر کی تو یوسف انجم نے کہا کہ تقریب شروع ہونے تک اسٹیڈیم بھر چکا ہو گا اور پھر ایسا ہی ہوا، باہر بھی بڑی تعداد میں لوگ قطاروں میں موجود تھے۔
ایک جگہ لاہور قلندرز کے اونر عاطف رانا کو دیکھا جو مداحوں کے ساتھ سیلفیز بنوا رہے تھے،وزیراعظم کو بھی میچ دیکھنے آنا تھا لیکن شاید ملکی حالات کی وجہ سے نہ آ سکے، محسن نقوی ابھی سیاسی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں، وزیر اعلیٰ ہونے کی وجہ سے پروٹوکول بھی الگ ہے، اس لیے میڈیا سے بھی دور دور ہیں، پی سی بی میں سلمان نصیر اپنے علاوہ انھیں کسی کے پاس نہیں جانے دیتے،افتتاحی تقریب زبردست تھی جس کا اصل کریڈٹ ٹرانس گروپ کو جاتا ہے، علی ظفر و دیگر کی پرفارمنس سے شائقین خوب لطف اندوز ہوئے،مکمل اندھیرا ہونے کے بعد لیزر شو اور آتشبازی نے سماں باندھ دیا۔
میں نے علی کو بھی عمدہ اینتھم اور ان کی پرفارمنس پر مبارکباد دی، وہ کرکٹ کے بڑے دلدادہ ہیں،اسٹیڈیم کا ماحول بتا رہا تھا کہ پی ایس ایل جیسے ایونٹس ہمارے لیے کتنے ضروری ہیں،ملکی حالات سے پریشان لوگ سب کچھ بھلا کر چند گھنٹے اچھی طرح گذار کر گھر واپس گئے ہوں گے، میچ میں بھی خوب چوکے چھکے لگے، اگلے دن میری شاہین آفریدی سے ملاقات ہوئی ، انھیں دیکھ کر مداح بھی جمع ہو گئے۔
بااخلاق شاہین نے سب کے ساتھ تصاویر بنوائیں، میں نے ان کا انٹرویو بھی کیا جو آپ جلد کرکٹ پاکستان پر دیکھیں گے، گوکہ میں مختصر وقت کیلیے لاہور گیا لیکن اچھی ملاقاتیں ہو گئیں، میچ بھی دیکھ لیا، پی ایس ایل کو بڑا اچھا آغاز مل گیا اس سے اگلے میچز میں بھی فائدہ ہوگا، پی سی بی تو سویا ہوا تھا، آٹوپائلٹ موڈ پر جہاز منزل کی طرف رواں رہا، اب تو کنٹرول سنبھال کر اچھے انتظامات کرنے چاہیئں تاکہ ایونٹ کا اختتام بھی کامیابی کے ساتھ ہو۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)