مزدور رہنما شہید عثمان غنی
عثمان غنی ٹریڈ یونین تحریک کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جمہوری سیاست کے بھی ایک فعال اور متحرک رہنما تھے
HOUSTON:
17 ستمبر1995 کا دن پاکستان کے محنت کشوں بالخصوص بینکنگ انڈسٹری کے ملازمین کو ہمیشہ ایک غم انگیز اور دکھ بھرے دن کے طور پر یاد رہے گا۔
اس دن کی منحوس صبح ایک ایسے شخص کو قتل کیا گیا کہ جس نے اپنی جوانی سے لے کر زندگی کے آخری سفر تک ظلم اور جبر کے خلاف اور محنت کشوں کے حق میں اپنی آواز اور سرخ پرچم کو بلند رکھا۔
یہ شخصیت شہید مزدور رہنما عثمان غنی کی تھی کہ جن کا تعلق گوکہ مسلم کمرشل بینک لمیٹڈ کی سی بی اے یونین سے تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اپنی جدوجہد اور قربانیوں کی بدولت نہ صرف یہ کہ بینکنگ انڈسٹری بلکہ بحیثیت مجموعی پاکستان کی مزدور تحریک کو بھی کم از کم دو دہائیوں تک متاثر کیے رکھا۔
عثمان غنی 1948 میں کراچی میں پیدا ہوئے، میٹرک NJV ہائی اسکول جب کہ گریجویشن کی ڈگری کراچی یونیورسٹی سے حاصل کی۔ عثمان غنی نے 70 کی دہائی کے آغاز میں مسلم کمرشل بینک میں ملازمت اختیار کی اور 1972 میں انھوں نے ادارہ کی سی بی اے یونین کے انتخابات میں عہدہ صدارت کے لیے بھارتی اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔
عثمان غنی کا مزدور تحریک میں یہ سفر اُن کی زندگی کے آخری لمحات تک جاری رہا اور اس تمام عرصے میں ٹریڈ یونین تحریک اور پیپلز پارٹی کی جمہوری سیاست اُن کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ وہ ایک بے باک ، نڈر اور فائٹر مزدور رہنما تھے جس کی سزا انھیں بار بار بھگتنا پڑی۔
1973 میں مسلم کمرشل بینک کے ملازمین کے لیے پرافٹ بونس کے حصول کا مرحلہ درپیش تھا اور عثمان غنی بینک کے ہیڈ آفس کے مرکزی ہال میں ملازمین کے ایک بڑے احتجاجی جلسے سے خطاب کررہے تھے کہ پولیس نے اچانک شرکاء پر لاٹھی چارج شروع کردیا اور اسٹیج پر چڑھ کر عثمان غنی کو گرفتار کیا اور راتوں رات انھیں کراچی سینٹرل جیل منتقل کردیا گیا۔ شہید رہنما کی مزدور تحریک کے حوالے سے یہ پہلی گرفتار تھی۔
یہ اُن کی پہلی گرفتار ضرور تھی مگر آخری یقیناً نہیں کیونکہ جب ہم بینکنگ انڈسٹری کی ٹریڈ یونین تاریخ پر نظر ڈالتے اور اُس کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عثمان غنی وہ واحد رہنما تھے کہ جنھیں مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کی پادش میں سب سے زیادہ مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔
عثمان غنی ٹریڈ یونین تحریک کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جمہوری سیاست کے بھی ایک فعال اور متحرک رہنما تھے، اپنی نوجوانی ہی کے دور سے وہ پاکستان پیپلز پارٹی سے منسلک ہوگئے ۔
کراچی کا ایک قدیم علاقہ چنیسر گوٹھ اُن کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ وہ پارٹی کے مختلف عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ انھیں یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے انھیں پارٹی کے صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ سے بھی نوازا تھا۔ عثمان غنی اُن چند مزدور رہنمائوں میں شامل ہیں جن کی خدمات اور قربانیوں کو شہید محترمہ بینظیر بھٹو انتہائی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتی اور اُن کی رائے کو اہمیت دیتی تھیں۔
ہم اس لیے بھی عثمان غنی کو پاکستان کے معاشرہ میں سربلند دیکھتے ہیں کہ انھوں نے نہ صرف یہ کہ فوجی ڈکٹیٹرز اور مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں مزدور طبقے کے حقوق کا دفاع کرتے ہوئے جیل کی سزا بھگتی بلکہ خود اپنی پارٹی کے دور حکومت میں بھی وہ محنت کشوں کے مفادات پر سمجھوتہ کرنے کے بجائے جیل جانے کو ترجیح دیتے تھے۔
عثمان غنی نیشنلائزڈ بنگس اور قومی ملکیتی اداروں کی پرائیویٹائزیشن کے مخالف رہنمائوں میں شمار ہوتے تھے اور ان کی آخری گرفتاری فروری 1991 میں نواز شریف کے دور حکومت میں اس وقت عمل میں آئی کہ جب پاکستان کے ایک سو ساٹھ سے زائد قومی ملکیتی ادارہ جات کی سی بی اے یونینز نے قومی اداروں کی پرائیویٹائزیشن کے خلاف وفاقی سطح پر مزدور ٹریڈ یونینز کا ایک اتحاد قائم کیا جس کا نام آل پاکستان اسٹیٹ انٹرپرائزز ورکرز ایکشن کمیٹی "apsewac" رکھا گیا تھا۔ (راقم الحروف کو اس تنظیم کا سینئرنائب صدر منتخب کیا گیا)۔
اس ایکشن کمیٹی نے نجکاری کے عمل کے خلاف پورے ملک میں ایک دن کی اپنے ادارہ جات میں مکمل ہڑتال کی کال دی جس میں بنکس کی ٹریڈ یونینز نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس ہڑتال کی پاداش میں حکومت وقت نے شہید عثمان غنی، مسلم کمرشل بینک ہی سے تعلق رکھنے والے دیگر دو ٹریڈ یونین رہنمائوں کے علاوہ راقم الحروم کو کئی ماہ تک پابند سلاسل رکھا۔ طویل اسیری کے بعد جب ہماری رہائی عمل میں آئی تو بینکنگ انڈسٹری کی دنیا ہی بدل چکی تھی اور مسلم کمرشل بینک کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالہ کیا جاچکا تھا۔
یہاں سے عثمان غنی کی قائدانہ صلاحیتوں کی آزمائش کا انتہائی کٹھن دور شروع ہوتا ہے۔ مسلم کمرشل بینک کے پرائیویٹ سیکٹر کے حوالہ کیے جانے اور شہید عثمان غنی کی طویل قید و بند کی وجہ سے اُن کے ادارہ میں ٹریڈ یونین کی قوت منتشر اور کمزور پڑچکی تھی، ملازمین بینک مایوس تھے اور پرائیویٹائزیشن کے بعد کے دور میں انھیں اپنے روزگار اور مستقبل کی فکر لاحق تھی۔
عثمان غنی نے رہائی کے بعد انتہائی تحمل اور بردباری سے کام لیا، نئے تبدیل شدہ حالات کو سمجھا اور پھر حکمت عملی مرتب کی۔ انھوں نے محنت کشوں کی بکھری ہوئی قوت اور ٹریڈ یونین کی کھوئی ہوئی توانائی کو اپنی بے لوث قیادت کے بل بوتے پر دوبارہ متحد کرلیا اور انتہائی مختصر عرصے میں اپنے بینک میں اپنی یونین کو ایک بار پھر ناقابل تردید اور ناقابل تسخیر قوت کے طور پر دوبارہ کھڑا کردیا۔
مسلم کمرشل بینک کی سی بی اے یونین کا فعال اور متحرک ہونا درحقیقت صنعت بینکاری کے محنت کشوں کے لیے ایک مثبت پیغام تھا اور وہ یہ کہ پرائیویٹائزیشن کے دور میں بھی منظم ، متحد اور حکمت عملی سے کام لے رک سرمایہ دارانہ نظام کے محنت کشوں کے حقوق پر حملہ کو روکا جاسکتا ہے۔ 17 ستمبر 1995 کی صبح جب وہ اپنی رہائش گاہ چنیسر گوٹھ سے اپنے دفتر کے لیے روانہ ہوئے تو کالاپل کے وسط میں نامعلوم سفاک قاتلوں نے انھیں گولیوں سے بھون ڈالا اور مزدوروں کے اس رہنما کو مزدوروں سے ہمیشہ کے لیے جدا کردیا۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)
( سترہویں برسی پر خصوصی مضمون)
17 ستمبر1995 کا دن پاکستان کے محنت کشوں بالخصوص بینکنگ انڈسٹری کے ملازمین کو ہمیشہ ایک غم انگیز اور دکھ بھرے دن کے طور پر یاد رہے گا۔
اس دن کی منحوس صبح ایک ایسے شخص کو قتل کیا گیا کہ جس نے اپنی جوانی سے لے کر زندگی کے آخری سفر تک ظلم اور جبر کے خلاف اور محنت کشوں کے حق میں اپنی آواز اور سرخ پرچم کو بلند رکھا۔
یہ شخصیت شہید مزدور رہنما عثمان غنی کی تھی کہ جن کا تعلق گوکہ مسلم کمرشل بینک لمیٹڈ کی سی بی اے یونین سے تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اپنی جدوجہد اور قربانیوں کی بدولت نہ صرف یہ کہ بینکنگ انڈسٹری بلکہ بحیثیت مجموعی پاکستان کی مزدور تحریک کو بھی کم از کم دو دہائیوں تک متاثر کیے رکھا۔
عثمان غنی 1948 میں کراچی میں پیدا ہوئے، میٹرک NJV ہائی اسکول جب کہ گریجویشن کی ڈگری کراچی یونیورسٹی سے حاصل کی۔ عثمان غنی نے 70 کی دہائی کے آغاز میں مسلم کمرشل بینک میں ملازمت اختیار کی اور 1972 میں انھوں نے ادارہ کی سی بی اے یونین کے انتخابات میں عہدہ صدارت کے لیے بھارتی اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔
عثمان غنی کا مزدور تحریک میں یہ سفر اُن کی زندگی کے آخری لمحات تک جاری رہا اور اس تمام عرصے میں ٹریڈ یونین تحریک اور پیپلز پارٹی کی جمہوری سیاست اُن کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ وہ ایک بے باک ، نڈر اور فائٹر مزدور رہنما تھے جس کی سزا انھیں بار بار بھگتنا پڑی۔
1973 میں مسلم کمرشل بینک کے ملازمین کے لیے پرافٹ بونس کے حصول کا مرحلہ درپیش تھا اور عثمان غنی بینک کے ہیڈ آفس کے مرکزی ہال میں ملازمین کے ایک بڑے احتجاجی جلسے سے خطاب کررہے تھے کہ پولیس نے اچانک شرکاء پر لاٹھی چارج شروع کردیا اور اسٹیج پر چڑھ کر عثمان غنی کو گرفتار کیا اور راتوں رات انھیں کراچی سینٹرل جیل منتقل کردیا گیا۔ شہید رہنما کی مزدور تحریک کے حوالے سے یہ پہلی گرفتار تھی۔
یہ اُن کی پہلی گرفتار ضرور تھی مگر آخری یقیناً نہیں کیونکہ جب ہم بینکنگ انڈسٹری کی ٹریڈ یونین تاریخ پر نظر ڈالتے اور اُس کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عثمان غنی وہ واحد رہنما تھے کہ جنھیں مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کی پادش میں سب سے زیادہ مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔
عثمان غنی ٹریڈ یونین تحریک کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جمہوری سیاست کے بھی ایک فعال اور متحرک رہنما تھے، اپنی نوجوانی ہی کے دور سے وہ پاکستان پیپلز پارٹی سے منسلک ہوگئے ۔
کراچی کا ایک قدیم علاقہ چنیسر گوٹھ اُن کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ وہ پارٹی کے مختلف عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ انھیں یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے انھیں پارٹی کے صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ سے بھی نوازا تھا۔ عثمان غنی اُن چند مزدور رہنمائوں میں شامل ہیں جن کی خدمات اور قربانیوں کو شہید محترمہ بینظیر بھٹو انتہائی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتی اور اُن کی رائے کو اہمیت دیتی تھیں۔
ہم اس لیے بھی عثمان غنی کو پاکستان کے معاشرہ میں سربلند دیکھتے ہیں کہ انھوں نے نہ صرف یہ کہ فوجی ڈکٹیٹرز اور مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں مزدور طبقے کے حقوق کا دفاع کرتے ہوئے جیل کی سزا بھگتی بلکہ خود اپنی پارٹی کے دور حکومت میں بھی وہ محنت کشوں کے مفادات پر سمجھوتہ کرنے کے بجائے جیل جانے کو ترجیح دیتے تھے۔
عثمان غنی نیشنلائزڈ بنگس اور قومی ملکیتی اداروں کی پرائیویٹائزیشن کے مخالف رہنمائوں میں شمار ہوتے تھے اور ان کی آخری گرفتاری فروری 1991 میں نواز شریف کے دور حکومت میں اس وقت عمل میں آئی کہ جب پاکستان کے ایک سو ساٹھ سے زائد قومی ملکیتی ادارہ جات کی سی بی اے یونینز نے قومی اداروں کی پرائیویٹائزیشن کے خلاف وفاقی سطح پر مزدور ٹریڈ یونینز کا ایک اتحاد قائم کیا جس کا نام آل پاکستان اسٹیٹ انٹرپرائزز ورکرز ایکشن کمیٹی "apsewac" رکھا گیا تھا۔ (راقم الحروف کو اس تنظیم کا سینئرنائب صدر منتخب کیا گیا)۔
اس ایکشن کمیٹی نے نجکاری کے عمل کے خلاف پورے ملک میں ایک دن کی اپنے ادارہ جات میں مکمل ہڑتال کی کال دی جس میں بنکس کی ٹریڈ یونینز نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس ہڑتال کی پاداش میں حکومت وقت نے شہید عثمان غنی، مسلم کمرشل بینک ہی سے تعلق رکھنے والے دیگر دو ٹریڈ یونین رہنمائوں کے علاوہ راقم الحروم کو کئی ماہ تک پابند سلاسل رکھا۔ طویل اسیری کے بعد جب ہماری رہائی عمل میں آئی تو بینکنگ انڈسٹری کی دنیا ہی بدل چکی تھی اور مسلم کمرشل بینک کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالہ کیا جاچکا تھا۔
یہاں سے عثمان غنی کی قائدانہ صلاحیتوں کی آزمائش کا انتہائی کٹھن دور شروع ہوتا ہے۔ مسلم کمرشل بینک کے پرائیویٹ سیکٹر کے حوالہ کیے جانے اور شہید عثمان غنی کی طویل قید و بند کی وجہ سے اُن کے ادارہ میں ٹریڈ یونین کی قوت منتشر اور کمزور پڑچکی تھی، ملازمین بینک مایوس تھے اور پرائیویٹائزیشن کے بعد کے دور میں انھیں اپنے روزگار اور مستقبل کی فکر لاحق تھی۔
عثمان غنی نے رہائی کے بعد انتہائی تحمل اور بردباری سے کام لیا، نئے تبدیل شدہ حالات کو سمجھا اور پھر حکمت عملی مرتب کی۔ انھوں نے محنت کشوں کی بکھری ہوئی قوت اور ٹریڈ یونین کی کھوئی ہوئی توانائی کو اپنی بے لوث قیادت کے بل بوتے پر دوبارہ متحد کرلیا اور انتہائی مختصر عرصے میں اپنے بینک میں اپنی یونین کو ایک بار پھر ناقابل تردید اور ناقابل تسخیر قوت کے طور پر دوبارہ کھڑا کردیا۔
مسلم کمرشل بینک کی سی بی اے یونین کا فعال اور متحرک ہونا درحقیقت صنعت بینکاری کے محنت کشوں کے لیے ایک مثبت پیغام تھا اور وہ یہ کہ پرائیویٹائزیشن کے دور میں بھی منظم ، متحد اور حکمت عملی سے کام لے رک سرمایہ دارانہ نظام کے محنت کشوں کے حقوق پر حملہ کو روکا جاسکتا ہے۔ 17 ستمبر 1995 کی صبح جب وہ اپنی رہائش گاہ چنیسر گوٹھ سے اپنے دفتر کے لیے روانہ ہوئے تو کالاپل کے وسط میں نامعلوم سفاک قاتلوں نے انھیں گولیوں سے بھون ڈالا اور مزدوروں کے اس رہنما کو مزدوروں سے ہمیشہ کے لیے جدا کردیا۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)
( سترہویں برسی پر خصوصی مضمون)