چند لوگوں پر تنقید کا مطلب پوری فوج نہیں
پنجاب کی کچی آبادیوں سے کچھ مشکوک غیرملکی ملے ہیں، وزیر قانون پنجاب
پاکستان کے تیسرے بڑے شہر فیصل آباد میں 1958ء میں پیدا ہونے والے رانا ثناء اللہ کا خاندان جالندھر ہوشیارپور (بھارت) سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوا، اِن کا تعلق ایک مڈل کلاس زمیندار گھرانے سے ہے۔ شیر محمد خان کے اس صاحبزادے نے ابتدائی تعلیم کے بعد کامرس میں بیچلر کی ڈگری گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے حاصل کی، تاہم قانون کی پڑھائی کے لئے لاہور کا رخ کرلیا۔
پنجاب لاء کالج سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ میں باقاعدہ وکالت بھی کی۔ سیاست کا آغاز اپنے آبائی علاقہ سے کرنے کے بعد 1987ء میں انہوں نے شادی کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رحمت سے نوازتے ہوئے ایک بیٹی عطاء کی۔ 1990ء میں یہ پہلی بار پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ کر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور ڈپٹی اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بعدازاں پیپلزپارٹی سے اختلافات کے باعث انہوں نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر لی اور 1997ء میں دوبارہ ن لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر پنجاب اسمبلی پہنچ گئے۔
آج مسلم لیگ نواز کے اہم ترین رہنمائوں میں شمار ہونے والے صوبائی وزیر قانون و بلدیات رانا ثناء اللہ 2002ء، 2008ء اور 2013ء سے مسلسل رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ آمریت کے خلاف ہمیشہ برسر پیکار رہنے والی اس جمہوریت پسند سیاسی شخصیت کو متعدد بار قید و بند اور جبر و تشدد کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں لیکن وہ کبھی بھی اپنے اصولی موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ''ایکسپریس'' نے قومی و صوبائی سطح کے اہم معاملات پر میاں برادران کے قریبی ساتھی صوبائی وزیر قانون و بلدیات رانا ثناء اللہ کی رائے جاننے کے لئے ایک نشست کا اہتمام کیا، جس کی تفصیل ذیل میں قارئین کے لئے پیش کی جا رہی ہے۔
ایکسپریس: بعض حلقوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ وفاقی حکومت آج جن سخت حالات سے دوچار ہے، اس کی بڑی وجہ مشرف ہیں، اگر آج حکومت مشرف کو باہر جانے دے تو اس کے بہت سے معاملات درست ہو جائیںگے، اس میں کتنی صداقت ہے؟
رانا ثناء اللّٰہ: اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرف کیس کو بنیاد بنا کر فوج اور وفاقی حکومت کے درمیان بعض عناصر نے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی اور یہ وہ عناصر ہیں، جو کبھی بھی فوج اور حکومت کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان عناصر میں ریٹائرڈ لوگ، ٹیکنو کریٹ اور مسترد سیاستدان بھی شامل ہیں، جو مفاد پرست، ابن الوقت اور اقتدار پرست ہے۔ ان کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ فوج اور سیاستدانوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوں اور آمریت ملک پر نافذ ہو تاکہ ان کی نوکری کا بندوبست ہو سکے۔ اسی ٹولے نے اس بار بھی غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن وفاقی حکومت اور فوجی قیادت نے بڑا مثبت رویہ اختیار کرتے ہوئے برداشت کا مظاہرہ کیا۔ آج میں آپ کو بالکل سچائی سے بتا سکتا ہوںکہ فوج اور حکومت اس بات پر متفق ہے کہ مشرف کا کیس عدالت میں ہے اور وہ جو فیصلہ کرے، اس کی مرضی ہے۔
ایکسپریس: ایک تاثر یہ ہے کہ آج فوجی آمریت اور مشرف کے خلاف سب سے زیادہ بیانات دینے والے وہ لوگ ہیں، جنہیں مشرف کے دور حکومت میں جبر کا نشانہ بنایا گیا، جیسے خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف وغیرہ، ان معززین کے بیانات سے حکومت کے فوج سے تعلقات خراب ہوئے۔ لگتا ہے کہ پارٹی نے اب ان افراد کو زیادہ بات کرنے سے روک دیا ہے اور اب جیو والے معاملے میں پارٹی پالیسی کو آپ کے بیانات کے ذریعے بیان کیا جا رہا ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں؟
رانا ثناء اللّٰہ: دیکھیں! جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مشرف دور میں جن لوگوں پر زیادہ تشدد ہوا وہ بیانات دے رہے ہیں، تو اس لائن میں تو میں بھی کھڑا ہوں۔ یہ بات اس طرح سے درست نہیں،کیوں کہ باقی تو صرف ایک ایک مرتبہ جبکہ میں تو مشرف کے دور حکومت میں دو بار نشانہ بنا ہوں۔ خواجہ سعد یا خواجہ آصف نے جو بات کی تھی، اسے غلط معنی پہنائے گئے کہ یہ فوج کے خلاف بیانات تھے۔ ایک ادارے کے طور پر فوج کی وطن کے لئے بے پناہ قربانیاں ہیں، آئی ایس آئی نے دہشتگردی کے خلاف بھرپور کردار ادا کیا۔ چند روز قبل بھی وہاڑی میں ایک میجر دہشتگردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے، تو بطور ادارہ یہ قوم کا فخر ہے، البتہ اداروں میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جیسے جماعتوں میں ہوتے ہیں، وہ جماعتوں کے قوانین کی پاسداری نہ کرتے ہوئے مخالف چلتے ہیں۔
میں نہیں سمجھتا کہ جنرل مشرف نے جب سول حکومت پر قبضہ کیا اور آئین کو توڑا تو اس میں ساری فوج ملوث تھی بلکہ یہ صرف چند لوگوں کا فیصلہ تھا تو ایسے ہی لوگوں کے خلاف بات کی گئی تو اس میں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ یہ ساری فوج کے بارے میں نہیں ہے۔ کیوں کہ اگر پوری فوج کے خلاف بات ہو تو پھر ہم شہدا اور ان کے خاندانوں کو کیا منہ دکھائیں گے، جو ملک پر قربان ہو گئے۔ میں سمجھتا ہوں تنقید ادارے پر نہیں بلکہ خاص عناصر پر ہے اور ان لوگوں کی نشاندہی بھی ہونی چاہیے۔
ایکسپریس: لوگ کیا یہ تاثر لینے میں حق بجانب نہیں کہ جیو اور فوج کے معاملہ میں حکومت نے جان بوجھ کر فوج کے مقابلے میں جیو کا ساتھ دیا؟
رانا ثناء اللّٰہ: حکومت نے کسی کے مقابلے میں کسی کا ساتھ نہیں دیا، ہم نے صرف آزادی صحافت کا ساتھ دیا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صحافت کی آزادی اس ملک میں آئین و قانون اور جمہوریت کی بالادستی کی ضامن ہے۔ جیو کے خلاف میڈیا میں جو رد عمل آیا اس میں کاروباری مفادات بھی کار فرما ہیں، جس کے مستقبل میں نتائج کچھ اچھے نہیں ہوں گے۔ اب آج کل تمام چینلز نے یہ نیا رواج دے دیا ہے کہ کیبل آپریٹر کے ذریعے آزادی صحافت کو کنٹرول کیا جائے، اگر یہ بات مسلمہ ہو گئی کہ کیبل آپریٹر کو لالچ یا دھونس دے کر کسی بھی چینل کو بند کروایا جاسکتا ہے تو آپ مجھے بتائیں کل کوئی سیاسی جماعت ایسا کیوں نہیں کرے گی، کیا ان کے پاس کارکن نہیں، چھوٹی سے چھوٹی پارٹی کے پاس بھی کثیر تعداد میں کارکن ہے، جو اپنے خلاف بات ہونے پر کیبل آپریٹر کو فون کرے کہ بند کرو اس چینل کو تمہاری ''ایسی کی تیسی''۔
ایکسپریس: آپ کے نزدیک جیو کے معاملے کا حتمی نتیجہ کیا نکل سکتا ہے؟
رانا ثناء اللّٰہ: جہاں تک جیو پرآئی ایس آئی کے چیف کی تصویر لگا کر آٹھ گھنٹے ٹرانسمیشن چلائی گئی، یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی کیوں کہ میڈیا کا عمومی رویہ ہی یہ بن چکا ہے۔ میں آپ کو وزیراعظم اور صدر زرداری سمیت کئی مثالیں دے سکتا ہوں کہ اسی طرح خبر دی جاتی ہے۔ اس دن جیو کا ایک اہم ساتھی موت و حیات کی کشمکش میں تھا، اس لئے جذبات کا عنصر بھی نمایاں تھا، لیکن ٹرانسمیشن پیمرا رولز کے خلاف تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس پر کارروائی کرنے سے زیادہ بہتر بات یہ تھی کہ اس غلطی کو بنیاد پر بنا کر میڈیا، حکومت اور ادارے ایک ضابطہ اخلاق تیار کر لیتے، پھر اس ضابطے سے کوئی باہر نہ جاتا۔ دوسرا جیو کو معذرت کرنی چاہیے تھی اور اس نے کی بھی ہے۔ اخبارات میں چھ کالم کی خبر لگتی ہے اور معذرت چھپتی ہے صرف ایک کالم اور یہ ہمیشہ قبول کی گئی ہے۔
بعدازاں میں ایک مذہبی واقعہ کو طول دیا گیا جو بہت خطرناک چیز تھی۔ حکومت نے اس میںجیو کا ساتھ نہیں دیا بلکہ اس صورت سے بچنے کی کوشش کہ کہیں جیو کے لوگوں کو قتل ہی کرنا نہ شروع کر دیا جائے، تو پھر کیا بنتا؟ یہ چیز حکومت نے سمجھی لیکن دیگر چینلز نے اس بارے میں سوچا ہی نہیں کہ اس کے کتنے بھیانک نتائج سامنے آ سکتے تھے۔ کل کسی اور ٹی وی کی کوئی اور بات پکڑی جا سکتی ہے۔ لہٰذا ہم نے اس رویہ کی مذمت کی اور جو بالکل درست ہے۔
ایکسپریس:تحریک انصاف جن چار حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ کر رہی ہے، اس پر آپ کی پارٹی غور کیوں نہیں کر رہی؟ کیوں کہ آج تحریک انصاف کی طرف سے جلسے، جلوسوں کے ذریعے حکومت پر دبائو ڈالنے کی جو کوششیں جاری ہیں، وہ تھم سکتی ہیں؟
رانا ثناء اللّٰہ: دیکھیں! وہ صرف یہ بات نہیں کر رہے کہ چار حلقوں کو کھولا جائے، تحریک انصاف کی قیادت اور اس کی پالیسی بدنیتی پر مبنی ہے جو ملک میں انارکی پھیلانا چاہتے ہیں۔ جب وہ چارحلقوں کی بات کر لیتے ہیں تو بعد میں جب شیخ رشید آتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ ایک حلقے میں بھی دھاندلی ثابت ہو گئی تو ان اسمبلیوں کو حرام قرار دے دیا جائے۔ دوسرا تحریک انصاف انگوٹھے کے نشانات کی تصدیق کا مطالبہ کرتی ہے تو اس کے بارے میں الیکشن کمیشن اور نادار یہ کہہ چکا ہے کہ سیاہی غیر معیاری تھی، اس لئے یوں تصدیق ممکن نہیں۔
الیکشن کمیشن اس بات کو قبول کر چکا ہے کہ اس کا نظام معیار کے مطابق نہیں تھا۔ جب میں پولنگ اسٹیشن ووٹ ڈالنے گیا تومیں نے انگوٹھا بھی لگایا، اب اگر میری شناخت نہیں ہوتی تو اس میں میرا کیا قصور ہے، دوسرا اگر ایک حلقے سے 30 ہزار ووٹ کی شناخت نہیں ہوتی تو وہ جعلی کیسے ہو گئے، پھر یہ کون بتائے گا کہ یہ 30ہزار ووٹ اے کو پڑے ہیں یا بی کو۔ اس کے علاوہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے یہ کہا تھا کہ اگر آپ کو الیکشن کمیشن پر اعتبار نہیں تو آپ ایک کمیٹی بنا دیں، جو الیکشن کمیشن کو بھی پوچھ لے، سیاہی کو بھی دیکھ لے، انگوٹھوں اور کاغذ کو بھی چیک کر لے، سارا کچھ کر کے اپنی رپورٹ دے دے۔ اس کمیٹی کا سربراہ بھی تحریک انصاف کے جسٹس( ر) وجہہ الدین کو بنادیں لیکن وہ اس بات پر بھی نہیں مانے۔
یہی بات کہے جا رہے ہیں کہ انگوٹھوں کی شناخت کروائی جائے۔ پھر اگر جعلی انگوٹھوں کے ذریعے ووٹ ڈالے جا رہے تھے، تو وہاں ہر امیدوار کے پولنگ ایجنڈے بیٹھے ہوتے ہیں، جو ووٹ ڈالنے والے کی خود تصدیق کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ ہر جگہ اور خصوصاً لاہور میں چاک و چوبند میڈیا موجود تھا، کسی نے کوئی بات نہیں کی، یہ خود بھی نہیں بولے لیکن جب نتائج آئے تو دھاندلی کا شور مچا دیا۔
ایکسپریس: ایسی کچھ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کے دارالحکومت ارومچی میں دہشتگردوں کے حملہ کے بعد پاکستان کے شمالی وزیرستان میں فوج نے ٹارگٹڈ آپریشن کیا۔ اس کی وجوہات یہ بتائی جا رہیں کہ چوں کہ سنکیانگ مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور وہاں کچھ تحریکیں چل رہی ہیں اور چین سمجھتا ہے کہ انہیں طالبان سپورٹ کرتے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں ان حملوں کا کوئی باہمی تعلق ہے؟
رانا ثناء اللّٰہ: دیکھیں! جہاں تک طالبان کا تعلق ہے تو اس معاملہ میں کوئی ربط ہو بھی سکتا اور نہیں بھی، کیوں کہ طالبان ادھر ادھر کارروائیاں تو کرتے ہیں۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ اس صوبے سے بھی کچھ لوگ شمالی وزیرستان میں بیٹھے ہوں، کیوں کہ وہاں افغانستان، تاجکستان، ایران اور روسی ریاست کے لوگ بیٹھے ہیں۔
ایکسپریس: طالبان سے مذاکرات میں حالیہ سست روی کی وجہ کیا ہے؟ کچھ حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ تاخیر کی وجہ آپریشن کے ردعمل کو کائونٹر کرنے کے لئے تیاری کرنا ہے؟
رانا ثناء اللّٰہ: نہیں مذاکرت میں کوئی سست روی نہیں ہے، مذاکرات جیسے پہلے ہو رہے تھے، وہ اب بھی ہو رہے ہیں۔ مذاکرت طویل اس وجہ سے ہو رہے ہیں کہ آنے جانے کا راستہ یا تو ہے نہیں اگرہیں تو بہت کٹھن ہے، جس کی وجہ سے زیادہ آنا جانا نہیں ہوتا۔ لیکن یہ بات درست نہیں کہ مذاکرات پہلے بڑی تیزی اور اب سستی سے ہو رہے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے میڈیا پر رننگ کمنٹری ہو رہی تھی، جسے مناسب نہ سمجھ کر بند کر دیا گیا ہے، بہرحال مذاکرات ہو رہے ہیں۔ جو آپریشن کی بات ہے تو ایسا کچھ نہیں ہو رہا لیکن یہ طے شدہ ہے کہ اگر کسی بھی گروپ پر حملہ ہوتا ہے تو اس کا جواب دیا جائے۔
ایکسپریس: پنجاب کی بات کریں تو آپ نے کچھ عرصہ قبل غیرملکی میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ پنجاب میں بھی کچھ ایسے مقامات ہیں جہاں کارروائی کی ضرورت ہے اور صوبائی حکومت اس کے لئے منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ حقیقت کیا ہے؟۔
رانا ثناء اللّٰہ: نہیں یہ بات ایسے نہیں ہے، دیکھیں! کراچی میں لیاری ہے، وہ کیوں لیاری ہے، اس لئے کہ کہا جاتا ہے کہ وہاں کوئی چلا جائے تو ساری زندگی باہر نہ آئے تو اس کا پتہ نہیں چلتا، کیوں کہ وہاں کوئی گلی سیدھی ہے نہ گھر۔ اسی طرح ہمارے شہروں کے ساتھ کچی آبادیاں بنی ہوئی ہیں، جہاں کوئی گلی ہے نہ سیوریج کا نظام، تو ایسے علاقے جرائم پیشہ افراد کی بہترین آماجگاہ ہوتے ہیں۔ ہم نے ایسے علاقے کی نشاندہی کی تھی، جس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ وہاں بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں اور ان لوگوں کو چیک بھی کیا جائے تاکہ مجرموں کو پکڑا جا سکے۔
ہم نے یہ کام مکمل کر لیا ہے، ہمیںکچھ لوگ ملے ہیں، جن کے پاس تصدیق شدہ دستاویزات نہیں تھیں، یعنی اگر افغان مہاجر ہے تو وہ وہاں کیوں رہ رہا ہے۔ کچھ غیر ملکی منشیات کے دھندہ میں ملوث بھی پائے گئے اور کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن پر شکوک و شبہات ہیں، ان کی تفیتش کا عمل جاری ہے۔ اب ہم ایسا کر رہے ہیں کہ نادرا کے ساتھ مل کر ایسے سوفٹ ویئر پر کام کر رہے ہیں کہ ایک آدمی کا جب انگوٹھا لگایا جائے تو اس کا سارا بائیوڈیٹا سامنے آ جائے۔ اگر اس کا شناختی کارڈ نہیں بنا ہوا تو کیوں نہیں بنا؟ یہ سارے اقدامات قانون کے نفاذ کے ساتھ امن و امان برقرار رکھنے کے لئے کئے جا رہے ہیں۔
ایکسپریس: فرقہ وارانہ فسادات کسی بھی معاشرہ کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہوتا ہے۔ آپ کے دعوئوں کے باوجود گزشتہ دور حکومت اور اب بھی یہ فسادات جاری ہیں۔ سانحہ راولپنڈی، بادامی باغ، گوجرہ، اب چند روز قبل جھنگ میں وکلاء پر مقدمات کا اندراج ہوا ہے تو ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے کیا حکومت کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کر رہی ہے؟
رانا ثناء اللّٰہ: فرقہ وارانہ فسادات روکنے کے لئے حکومت اپنی طرف سے سخت اقدامات کر رہی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے معاشرے میں ایسے لوگوں کے لئے اگر ہمدردی کے جذبات نہیں ہیں تو ان سے نفرت بھی نہیں ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو لوگ فرقہ واریت کو ابھارتے ہیں، انہیں قوم کا لیڈر بنا کر پیش نہیں کیا جانا چاہیے، تو ہمیں بحیثیت قوم اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
ایکسپریس: پنجاب میں تھانہ کلچر بھی کبھی بدلے گا؟۔ گزشتہ دور حکومت ختم ہونے سے قبل میاں شہباز شریف نے عوام سے معافی مانگی تھی کہ وہ تھانہ کلچر بدل نہیں سکے، کیا اس بار بھی انہیں اپنا بیان دوہرانا پڑے گا؟
رانا ثناء اللّٰہ: نہیں اس بار انشاء اللہ انہیں اپنا بیان دہرانا نہیں پڑے گا کیوں اس معاملہ میں اب بہت موثر پیش رفت ہوگی اور رواں سال کے آخر تک یہ چیز آپ کو نظر آنی شروع ہو جائے گی۔ پنجاب میںکوئی 709 کے قریب پولیس سٹیشن ہیں، جہاں ہم پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سب انسپکٹرز بھرتی کر رہے ہیں، ان کو ہم تقریباً ایک سے ڈیڑھ سال تک بہت عمدہ ٹریننگ دیں گے۔ اسی طرح این ٹی ایس کے ذریعے کانسٹیبل بھرتی کئے جائیں گے، اس کے علاوہ انسداد دہشتگردی فورس کھڑی کر رہے ہیں، جو جدید تربیت اور آلات سے لیس ہو گی، یہ سال کے آخر تک آ جائے گی، اس فورس کے آنے کے بعد باقی پولیس پھر معمول کے جرائم کی طرف بھرپور توجہ دے گی۔
دوسرا ہم تحصیل سطح پر آئی ٹی کا سسٹم لا رہے ہیں، جہاں پر لوگوں کو 17اقسام کے مسائل کے حل کے لئے تھانے یا کچہری نہیں جانا پڑے گا۔ دیکھیں! تھانوں میں قتل یا ڈکیتیاں کرنے والے بھی جاتے ہیں لیکن ان لوگوں سے پہلے ہم عام شہریوں کی فکر کریں گے، جو مجرم ہے نہ ملزم، انہیں بھی لائسنس یا کریکٹر سرٹیفکیٹ بنوانے کے لئے جانا پڑتا ہے تو اس طرح کے مزید 15اقسام کے مسائل اب اس آئی ٹی سنٹر میں ہی حل ہو جائیں گے۔ ہم ان چیزوں کو تھانے سے نکال کر پہلے تحصیل سطح پر لا رہے ہیں اور پھر اسے مزید پھیلایا جائے گا، جہاں کوئی پولیس اہلکار نہیں ہوگا بلکہ پڑھے لکھے بچے بیٹھ کر لوگوں کے مسائل سن کر حل کریں گے۔
اس طرح سے ہم عام شہری کو تھانہ کلچر سے ویسے ہی الگ کر رہے ہیں، باقی مجرموں اور ملزموں کے لئے ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ تفتیش کا نظام درست کیا جائے کیوں کہ ساری گڑ بڑ ہی یہاں ہوتی ہے۔ تو اس مسئلہ کے حل کے لئے ہم نے گزشتہ دور حکومت میں ہی بنیاد رکھ دی تھی، اس وقت 4 ارب روپے کی لاگت سے ایشیاء کی سب سے بڑی فرانزک لیبارٹریز بنائی گئی ہے، اب ہم تفتیش کا پورا نظام ہی اس پر لا رہے ہیں تاکہ تھانیدار کی یہ صوابدید ہی نہ رہے کہ یہ آدمی مجرم ہے یا نہیں ہے۔ فرانزک لیبارٹریز میں ڈی این اے ٹیسٹ کے ساتھ کرائم سین سے 14اقسام کے شواہد مل سکتے اور ان کا یہ دعوی ہے کہ شواہد سے وہ جس ملزم کو جوڑیں گے وہ دنیا بھر میں واحد ہوگا۔
ایکسپریس: یہ عام تاثر ہے کہ حکومت بلدیاتی انتخابات سے بھاگ رہی ہے، گزشتہ دور گزر گیا، اب بھی آثار نہیں، کیوں؟
رانا ثناء اللّٰہ: اس میں دراصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں انویسٹی گیٹو صحافت کا رواج نہیں، ایک بار جو بات منہ سے نکل گئی پھر اسے ہی بغیر تحقیق کے دوہرانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ اگست 2013ء میں سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے لئے قانون سازی کا حکم دیا تو سب سے پہلے پنجاب نے قانون بنایا، پھر از سر نو حلقہ بندیوںکا حکم ملا تو وہ بھی ہم نے سب سے پہلے کر لیں، لیکن پھر عدالت میں رٹ کر دی گئی کہ انتظامیہ نے حلقہ بندیاں درست نہیں کیں اور غیر جماعتی کے بجائے جماعتی الیکشن کروائے جائیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی سربراہی میں بننے والے بنچ نے کہا کہ ازسرنوحلقہ بندیاں درست ہیں کیوں کہ یہ انتظامیہ نے ہی کرنی تھیں لیکن آپ غیرجماعتی الیکشن والی بات ختم کریں۔
اس کے بعد شیڈول الائونس ہوگیا، کاغذات مل گئے، سکروٹنی ہوگئی۔ بعدازاں 8ہزار میں سے صرف 366 حلقوں کے بندوں نے حلقہ بندیوں پر اعتراض کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں دوبارہ رٹ کر دی اور یہ بندے تحریک انصاف کے تھے۔ ہم نے پھر کہا کہ ان کی شکایت کا ازالہ کریں گے اور اسے مان بھی لیں گے لیکن الیکشن کو چلنے دیں کیوں کہ لوگوں نے پمفلٹ چھپوا لئے ہیں، کمپین کر لی ہے اور دیگر اخراجات بھی کر دیئے ہیں، لیکن ہائی کورٹ نے انکار کر دیا۔ اب اس بات کے بعد یہ تاثر دینا ہے کہ حکومت یا ن لیگ الیکشن نہیں چاہتی تو سراسر غلط ہے۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو ازسرنوحلقہ بندیوں کرنے کا حکم دیا ہے، وہ کرے، ہم الیکشن کروا دیں گے۔
ایکسپریس: آپ کے حلقہ انتخاب فیصل آباد کی بات کریں تو یہ پنجاب کا تیسرا بڑا شہر ہے لیکن یہاں طبی سہولیات کا یہ حال ہے کہ عرصہ دراز سے صرف ایک بڑا الائیڈ ہسپتال ہے جہاں ایک طرف حافظ آباد، سرگودھا اور دوسری طرف چیچہ وطنی تک سے مریض لائے جاتے ہیں۔ فیصل آباد میں میٹرو چلانے کی باتیں ہو رہی ہیں، یہ بھی چلنی چاہیے لیکن کیا اس سے پہلے شہر کو ایک اور بڑے ہسپتال کی ضرورت نہیں؟
رانا ثناء اللّٰہ: الائیڈ ہسپتال جیسے تین اور ہسپتال بھی فیصل آباد میں موجود ہیں، ایک سول ہسپتال دوسرا غلام محمد آباد ہسپتال اور تیسرا میرے حلقے سمن آباد میں بنایا گیا ہے، جو پہلے 50بیڈ کا تھا، اب اسے 250بیڈز تک لے جایا جا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں فیصل آباد میں مزید ہسپتال کی ضرورت نہیں بلکہ ان ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کی ہے۔ اب معاملہ تو یہ ہے کہ کوئی ڈاکٹر لاہور سے نکلنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ باقی جو میٹرو کی بات ہے تو ہم نے جو منصوبہ بنایا ہے، وزیراعلٰی نے اس کی منظوری دیدی ہے۔ ایکسپرس وے کی طرز پر بننے والا یہ منصوبہ مسافر کو موٹروے سے اٹھائے گا اور فیصل آباد شہر میں لے آئے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ فیصل آباد کے لئے میٹرو بس سے بڑا کوئی اور تحفہ ہو ہی نہیں سکتا۔
ایکسپریس: شیر علی گروپ سے آپ کے پرانے اختلافات چلے آ رہے ہیں، ان کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ ان کے میاں نواز شریف سے خاندانی مراسم ہیں اور میاں صاحب رشتہ داروں کو بڑی اہمیت دیتے ہیں تو ایسے میں آپ نے کیسے اپنی امتیازی حیثیت کو برقرار رکھا ہوا ہے؟
رانا ثناء اللّٰہ: دیکھیں! جہاں تک رشتہ داری کی بات ہے تو پارٹیاں رشتہ داری کی بنیاد پر نہیں چلتیں، پارٹی میں میرا اور ان کا اپنا اپنا مقام ہے۔ میاں نواز شریف نے میرے اور ان میں کبھی کوئی تفریق نہیں کی۔ دوسرا میرا ان سے جو اختلاف ہے، وہ پارٹی کے لئے ہے، جو میں سمجھتا ہوں درست ہے۔ ورنہ اگر ہم دونوں وہاں مل جائیں تو ہماری اجارہ داری قائم ہو جائے گی تو باقی لوگوں کا کباڑہ ہو جائے گا۔ اب گزشتہ الیکشن میں میاں صاحب نے ہم دونوں کو اپنے ساتھ بٹھایا، ایک سیٹ پر انہوں نے کہا کہ یہ بندہ ٹھیک ہے، میں نے کہا دوسرا ٹھیک ہے، لیکن اس سے پارٹی کو فائدہ ہوا کہ قیادت کو فیصلہ میں آسانی ہو گئی اور وہ فیصلے کی آسانی تھی کہ ہم نے فیصل آباد میں قومی اسمبلی کی تمام (11) اور صوبائی اسمبلی کی 22 میں سے 21نشستیں جیت لیں۔
اچھا پھر جب الیکشن قریب آئے تو کچھ لوگوں نے کہا کہ ہماری صلح کروائی جائے تو میں نے کہا ٹھیک ہے کر لیتے ہیں۔ پھر جب ٹکٹوں کی تقسیم شروع ہوئی تو انہوں نے کہا کہ فلاں حلقے میں چوہدری شیر علی کے دوسرے بیٹے کو ٹکٹ دیا جائے تو میں نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ غلط ہے، کیوں کہ ایک حلقے میں آپ کو ٹکٹ مل چکا ہے، اگر ہماری اولادوں نے ہی الیکشن لڑنے ہیں تو باقی لوگ پھر ایسے ہی دھکے کھاتے رہیں گے، تو انہوں نے کہا اس سے صلح ختم ہو جائے گی تو میں نے کہا کوئی مسئلہ نہیں۔ اچھا اب ایک دلچسپ بات آپ کو بتائوں کہ جس صوبائی حلقہ سے میں نے الیکشن لڑا، اسی حلقہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن عابدشیر علی نے لڑا اور جب رزلٹ آئے تو میرے ووٹ 56 ہزار کچھ تھے اور عابد شیر علی کے بھی 56ہزار کچھ تھے۔ اب لڑائی کا سب سے زیادہ اثر تو اس حلقے میں ہونا چاہیے تھا لیکن اس کی وجہ کیا تھی کہ میں نے یا انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا اس کو ووٹ نہ دیں۔
ایکسپریس: پیپلزپارٹی سے وہ کون سے اختلافات تھے، جن کی وجہ سے آپ نے انہیں خدا حافظ کہہ کر ن لیگ میں شمولیت اختیار کر لی؟ جبکہ یہ وہ پارٹی ہے جس کی وجہ سے آپ پہلے بار ایوان میں پہنچے اور ضیاء الحق کا مشکل دور بھی آپ گزار چکے تھے۔
رانا ثناء اللّٰہ: پہلے تو میں آپ کو بتائوں کہ جنرل مشرف کی حکومت میں جو جبروتشدد کیا گیا، ٹارچرسیلز میں لے جایا گیا، اس کی مثال نہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ مشرف کے دور میں جو جبروتشدد مجھ پر ہوا ایسا جنگی قیدیوں کے ساتھ بھی نہیں ہوتا۔ لیکن ضیاء کے دور میں بھی قید اور نظر بند کر دیا جاتا، کوئی عدالت سنتی نہیں تھی، بس پڑے ہیں وہاں، تو اس سارے دور میں پیپلزپارٹی کے ساتھ چلے، لیکن جب پی پی پر اچھا وقت آیا، یعنی 1993ء میں تو لوگ اس پارٹی کی طرف دوڑے، اس دوڑ میں ہمارے شہر سے میاں زاہد سرفراز اور چوہدری نذیرکوہستان والے بھی شامل ہوگئے، جو ضیاء کے ساتھی اور ہم پر تشدد میں براہ راست ملوث تھے۔ جب یہ لوگ پیپلزپارٹی میں آئے تو میرے اعتراض پر پارٹی نے مجھے نکال دیا، جس کے بعد میں نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔
ایکسپریس: تقریباً 5بار آپ رکن صوبائی اسمبلی بن چکے ہیں، کبھی قومی اسمبلی میں جانے کی خواہش نہیں پیدا ہوئی؟ حالاں کہ متعدد سیاستدان بشمول آپ کی پارٹی کے، صوبائی سے قومی اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں؟
رانا ثناء اللّٰہ: اس بار قومی اسمبلی میں جانے کی خواہش ضرور ابھری تھی، لیکن اگر یہ فیصلہ ہو جاتا ہے کہ میاں شہباز شریف قومی اسمبلی میں جائیں گے تو پھر لازماً میں بھی چلا جاتا لیکن بعد میں ایسا نہیں ہوسکا تو میں بھی یہیں رہ گیا۔ اور جب تک زندگی ہے میاں شہباز شریف پنجاب کے مستقل وزیراعلیٰ ہیں کیوں کہ اس عہدے پر ان کے علاوہ کوئی اور جچتا ہی نہیں۔
ایکسپریس: عرصہ دراز سے آپ کا شہباز شریف سے تعلق ہے، کیا کبھی کسی معاملہ پر ناراضگی بھی ہوئی؟
رانا ثناء اللّٰہ: نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا، کیوں کہ ناراضگی تب ہوتی ہے جب کہیں کوئی بدنیتی شامل ہو۔ میاں شہباز شریف نیک نیت آدمی ہیں، تو ایسے میں جب کوئی آدمی ایسی بات کرتا ہے، جو آپ کو پسند نہیں تو اس کی نیت پر شک نہ ہونے کی وجہ سے ناراضگی نہیں بنتی۔ دوسرا یہ ہے کہ جب کبھی کسی معاملہ پر وہ چڑھائی کریں تو ہم نیچے اور کبھی ہم بھی چڑھائی کریں تو وہ بھی خاموش ہو جاتے ہیں۔
آئیڈیل حضرت عمرفاروقؓ 10ماہ کے نواسے کے ساتھ وقت گزارنااچھا لگتا ہے
پیارے نبی کریمؐ کے بعد آئیڈیل شخصیت حضرت عمر فاروقؓ ہیں۔ ان دنوں فارغ اوقات اپنے 10ماہ کے نواسے حسن کے ساتھ گزارنا بہت اچھا لگتا ہے، باقی وقت میں کتب پڑھتا ہوں، جن میں اسلامی تاریخ اور کرنٹ افیئر سے متعلق مواد ہو۔ میوزک میں میرا جھکائو نصرت فتح علی خان کی طرف ہے، جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ میرے شہر سے تھے، دوسرا عارفانہ کلام بھی بہت پسند ہے۔ آج کل تو فلمیں دیکھنے کا موقع نہیں ملتا لیکن جب دیکھا کرتے تھے تو سب سے زیادہ جو فلم اچھی لگی وہ پاکستانی فلم تہذیب تھی۔ ہاکی پسندیدہ کھیل ہے، جو میں نے خود بھی کھیلی۔ کھلاڑیوں میں ہاکی میں سمیع اللہ اور کرکٹ میں آر یا پار کی طرز پر کھیلنے والے شاہد خان آفریدی بہت پسند ہیں۔ ملنے جلنے کے حوالے سے اداکارہ ریما اچھی خاتون لگیں۔ پسندیدہ ٹی وی اینکر حامد میر ہے۔
افتخار محمد چوہدری ایک سال مزید رہ جاتے تو سب سے زیادہ ٹف ٹائم ہمیں ملتا
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے قریبی لوگ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ وہ کسی کا اثر قبول نہیں کرتے تھے، وہ اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ اور اگر انہیں مزید ایک سال مل جاتا تو جتنا ٹف ٹائم انہوں نے ہمیں دینا تھا، ماضی میں ایسا کسی سے نہ ہوا ہوتا۔ آپ نے دیکھا بھی ہوگا کہ ہماری حکومت کے پہلے چھ یا سات ماہ وہ چیف جسٹس رہے تو جب بلدیاتی الیکشن کا معاملہ آیا تو پنجاب کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی، اس کے علاوہ دیگر معاملات میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔ دیکھیں! افتخار محمد چوہدری نے آئی ایس آئی، پیپلزپارٹی اور ن لیگ کا کبھی دبائو قبول نہیں کیا۔ میں یہ سمجھتا ہوںکہ وہ انسان تھے، کوئی فرشتہ نہیں، ان کا کوئی فیصلہ غلط ہو سکتا ہے لیکن یہ کہنا کہ انہوں نے کسی کے دبائو یا کہنے پر ایسا کیا تو یہ سوفیصد غلط اور جھوٹ ہے۔
وہ ایک آزاد آدمی تھے اور ہیں، انہوں نے اپنے 24 سالہ مدت ملازمت کے دوران عدالتی معاملات میں کسی قسم کا دبائو قبول نہیں کیا۔ اچھا میں اب آپ کو ایک دلچسپ واقعہ سنائوں کہ افتخار چوہدری بلوچستان ہائی کورٹ میں تھے تو وہاں ان کے ایک قریبی دوست، جو وزیر تھے، کا کیس آ گیا۔ افتخار چوہدری نے کہا کہ آپ اپنا کیس کسی اور کے پاس منتقل کروا لیں لیکن انہوں نے کہا کہ مجھے آپ (افتخارچوہدری) پر پورا اعتماد ہے۔ جس روز کیس کا فیصلہ سنایا گیا، اس سے ایک روز قبل وہ افتخار چوہدری کے گھر آئے، افتخار چوہدری نے انہیں چائے پلائی اور گپ شپ بھی کی۔ اگلے روز جب فیصلہ آیا تو وہ وزیر صاحب کے خلاف آیا، وزیر صاحب کو جیل ہوگئی۔ جیل میں افتخار چوہدری نے انہیں کھانا بھی بھجوایا اور سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے خبر گیری بھی کرتے رہے، لیکن قانون و انصاف پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ افتخار چوہدری نے انہیںکہا کہ دوستی اپنی جگہ پر لیکن انصاف کرنا میری فرض ہے۔
پنجاب لاء کالج سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ میں باقاعدہ وکالت بھی کی۔ سیاست کا آغاز اپنے آبائی علاقہ سے کرنے کے بعد 1987ء میں انہوں نے شادی کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رحمت سے نوازتے ہوئے ایک بیٹی عطاء کی۔ 1990ء میں یہ پہلی بار پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ کر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور ڈپٹی اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بعدازاں پیپلزپارٹی سے اختلافات کے باعث انہوں نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر لی اور 1997ء میں دوبارہ ن لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر پنجاب اسمبلی پہنچ گئے۔
آج مسلم لیگ نواز کے اہم ترین رہنمائوں میں شمار ہونے والے صوبائی وزیر قانون و بلدیات رانا ثناء اللہ 2002ء، 2008ء اور 2013ء سے مسلسل رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ آمریت کے خلاف ہمیشہ برسر پیکار رہنے والی اس جمہوریت پسند سیاسی شخصیت کو متعدد بار قید و بند اور جبر و تشدد کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں لیکن وہ کبھی بھی اپنے اصولی موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ''ایکسپریس'' نے قومی و صوبائی سطح کے اہم معاملات پر میاں برادران کے قریبی ساتھی صوبائی وزیر قانون و بلدیات رانا ثناء اللہ کی رائے جاننے کے لئے ایک نشست کا اہتمام کیا، جس کی تفصیل ذیل میں قارئین کے لئے پیش کی جا رہی ہے۔
ایکسپریس: بعض حلقوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ وفاقی حکومت آج جن سخت حالات سے دوچار ہے، اس کی بڑی وجہ مشرف ہیں، اگر آج حکومت مشرف کو باہر جانے دے تو اس کے بہت سے معاملات درست ہو جائیںگے، اس میں کتنی صداقت ہے؟
رانا ثناء اللّٰہ: اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرف کیس کو بنیاد بنا کر فوج اور وفاقی حکومت کے درمیان بعض عناصر نے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی اور یہ وہ عناصر ہیں، جو کبھی بھی فوج اور حکومت کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان عناصر میں ریٹائرڈ لوگ، ٹیکنو کریٹ اور مسترد سیاستدان بھی شامل ہیں، جو مفاد پرست، ابن الوقت اور اقتدار پرست ہے۔ ان کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ فوج اور سیاستدانوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوں اور آمریت ملک پر نافذ ہو تاکہ ان کی نوکری کا بندوبست ہو سکے۔ اسی ٹولے نے اس بار بھی غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن وفاقی حکومت اور فوجی قیادت نے بڑا مثبت رویہ اختیار کرتے ہوئے برداشت کا مظاہرہ کیا۔ آج میں آپ کو بالکل سچائی سے بتا سکتا ہوںکہ فوج اور حکومت اس بات پر متفق ہے کہ مشرف کا کیس عدالت میں ہے اور وہ جو فیصلہ کرے، اس کی مرضی ہے۔
ایکسپریس: ایک تاثر یہ ہے کہ آج فوجی آمریت اور مشرف کے خلاف سب سے زیادہ بیانات دینے والے وہ لوگ ہیں، جنہیں مشرف کے دور حکومت میں جبر کا نشانہ بنایا گیا، جیسے خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف وغیرہ، ان معززین کے بیانات سے حکومت کے فوج سے تعلقات خراب ہوئے۔ لگتا ہے کہ پارٹی نے اب ان افراد کو زیادہ بات کرنے سے روک دیا ہے اور اب جیو والے معاملے میں پارٹی پالیسی کو آپ کے بیانات کے ذریعے بیان کیا جا رہا ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں؟
رانا ثناء اللّٰہ: دیکھیں! جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مشرف دور میں جن لوگوں پر زیادہ تشدد ہوا وہ بیانات دے رہے ہیں، تو اس لائن میں تو میں بھی کھڑا ہوں۔ یہ بات اس طرح سے درست نہیں،کیوں کہ باقی تو صرف ایک ایک مرتبہ جبکہ میں تو مشرف کے دور حکومت میں دو بار نشانہ بنا ہوں۔ خواجہ سعد یا خواجہ آصف نے جو بات کی تھی، اسے غلط معنی پہنائے گئے کہ یہ فوج کے خلاف بیانات تھے۔ ایک ادارے کے طور پر فوج کی وطن کے لئے بے پناہ قربانیاں ہیں، آئی ایس آئی نے دہشتگردی کے خلاف بھرپور کردار ادا کیا۔ چند روز قبل بھی وہاڑی میں ایک میجر دہشتگردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے، تو بطور ادارہ یہ قوم کا فخر ہے، البتہ اداروں میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جیسے جماعتوں میں ہوتے ہیں، وہ جماعتوں کے قوانین کی پاسداری نہ کرتے ہوئے مخالف چلتے ہیں۔
میں نہیں سمجھتا کہ جنرل مشرف نے جب سول حکومت پر قبضہ کیا اور آئین کو توڑا تو اس میں ساری فوج ملوث تھی بلکہ یہ صرف چند لوگوں کا فیصلہ تھا تو ایسے ہی لوگوں کے خلاف بات کی گئی تو اس میں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ یہ ساری فوج کے بارے میں نہیں ہے۔ کیوں کہ اگر پوری فوج کے خلاف بات ہو تو پھر ہم شہدا اور ان کے خاندانوں کو کیا منہ دکھائیں گے، جو ملک پر قربان ہو گئے۔ میں سمجھتا ہوں تنقید ادارے پر نہیں بلکہ خاص عناصر پر ہے اور ان لوگوں کی نشاندہی بھی ہونی چاہیے۔
ایکسپریس: لوگ کیا یہ تاثر لینے میں حق بجانب نہیں کہ جیو اور فوج کے معاملہ میں حکومت نے جان بوجھ کر فوج کے مقابلے میں جیو کا ساتھ دیا؟
رانا ثناء اللّٰہ: حکومت نے کسی کے مقابلے میں کسی کا ساتھ نہیں دیا، ہم نے صرف آزادی صحافت کا ساتھ دیا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صحافت کی آزادی اس ملک میں آئین و قانون اور جمہوریت کی بالادستی کی ضامن ہے۔ جیو کے خلاف میڈیا میں جو رد عمل آیا اس میں کاروباری مفادات بھی کار فرما ہیں، جس کے مستقبل میں نتائج کچھ اچھے نہیں ہوں گے۔ اب آج کل تمام چینلز نے یہ نیا رواج دے دیا ہے کہ کیبل آپریٹر کے ذریعے آزادی صحافت کو کنٹرول کیا جائے، اگر یہ بات مسلمہ ہو گئی کہ کیبل آپریٹر کو لالچ یا دھونس دے کر کسی بھی چینل کو بند کروایا جاسکتا ہے تو آپ مجھے بتائیں کل کوئی سیاسی جماعت ایسا کیوں نہیں کرے گی، کیا ان کے پاس کارکن نہیں، چھوٹی سے چھوٹی پارٹی کے پاس بھی کثیر تعداد میں کارکن ہے، جو اپنے خلاف بات ہونے پر کیبل آپریٹر کو فون کرے کہ بند کرو اس چینل کو تمہاری ''ایسی کی تیسی''۔
ایکسپریس: آپ کے نزدیک جیو کے معاملے کا حتمی نتیجہ کیا نکل سکتا ہے؟
رانا ثناء اللّٰہ: جہاں تک جیو پرآئی ایس آئی کے چیف کی تصویر لگا کر آٹھ گھنٹے ٹرانسمیشن چلائی گئی، یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی کیوں کہ میڈیا کا عمومی رویہ ہی یہ بن چکا ہے۔ میں آپ کو وزیراعظم اور صدر زرداری سمیت کئی مثالیں دے سکتا ہوں کہ اسی طرح خبر دی جاتی ہے۔ اس دن جیو کا ایک اہم ساتھی موت و حیات کی کشمکش میں تھا، اس لئے جذبات کا عنصر بھی نمایاں تھا، لیکن ٹرانسمیشن پیمرا رولز کے خلاف تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس پر کارروائی کرنے سے زیادہ بہتر بات یہ تھی کہ اس غلطی کو بنیاد پر بنا کر میڈیا، حکومت اور ادارے ایک ضابطہ اخلاق تیار کر لیتے، پھر اس ضابطے سے کوئی باہر نہ جاتا۔ دوسرا جیو کو معذرت کرنی چاہیے تھی اور اس نے کی بھی ہے۔ اخبارات میں چھ کالم کی خبر لگتی ہے اور معذرت چھپتی ہے صرف ایک کالم اور یہ ہمیشہ قبول کی گئی ہے۔
بعدازاں میں ایک مذہبی واقعہ کو طول دیا گیا جو بہت خطرناک چیز تھی۔ حکومت نے اس میںجیو کا ساتھ نہیں دیا بلکہ اس صورت سے بچنے کی کوشش کہ کہیں جیو کے لوگوں کو قتل ہی کرنا نہ شروع کر دیا جائے، تو پھر کیا بنتا؟ یہ چیز حکومت نے سمجھی لیکن دیگر چینلز نے اس بارے میں سوچا ہی نہیں کہ اس کے کتنے بھیانک نتائج سامنے آ سکتے تھے۔ کل کسی اور ٹی وی کی کوئی اور بات پکڑی جا سکتی ہے۔ لہٰذا ہم نے اس رویہ کی مذمت کی اور جو بالکل درست ہے۔
ایکسپریس:تحریک انصاف جن چار حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ کر رہی ہے، اس پر آپ کی پارٹی غور کیوں نہیں کر رہی؟ کیوں کہ آج تحریک انصاف کی طرف سے جلسے، جلوسوں کے ذریعے حکومت پر دبائو ڈالنے کی جو کوششیں جاری ہیں، وہ تھم سکتی ہیں؟
رانا ثناء اللّٰہ: دیکھیں! وہ صرف یہ بات نہیں کر رہے کہ چار حلقوں کو کھولا جائے، تحریک انصاف کی قیادت اور اس کی پالیسی بدنیتی پر مبنی ہے جو ملک میں انارکی پھیلانا چاہتے ہیں۔ جب وہ چارحلقوں کی بات کر لیتے ہیں تو بعد میں جب شیخ رشید آتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ ایک حلقے میں بھی دھاندلی ثابت ہو گئی تو ان اسمبلیوں کو حرام قرار دے دیا جائے۔ دوسرا تحریک انصاف انگوٹھے کے نشانات کی تصدیق کا مطالبہ کرتی ہے تو اس کے بارے میں الیکشن کمیشن اور نادار یہ کہہ چکا ہے کہ سیاہی غیر معیاری تھی، اس لئے یوں تصدیق ممکن نہیں۔
الیکشن کمیشن اس بات کو قبول کر چکا ہے کہ اس کا نظام معیار کے مطابق نہیں تھا۔ جب میں پولنگ اسٹیشن ووٹ ڈالنے گیا تومیں نے انگوٹھا بھی لگایا، اب اگر میری شناخت نہیں ہوتی تو اس میں میرا کیا قصور ہے، دوسرا اگر ایک حلقے سے 30 ہزار ووٹ کی شناخت نہیں ہوتی تو وہ جعلی کیسے ہو گئے، پھر یہ کون بتائے گا کہ یہ 30ہزار ووٹ اے کو پڑے ہیں یا بی کو۔ اس کے علاوہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے یہ کہا تھا کہ اگر آپ کو الیکشن کمیشن پر اعتبار نہیں تو آپ ایک کمیٹی بنا دیں، جو الیکشن کمیشن کو بھی پوچھ لے، سیاہی کو بھی دیکھ لے، انگوٹھوں اور کاغذ کو بھی چیک کر لے، سارا کچھ کر کے اپنی رپورٹ دے دے۔ اس کمیٹی کا سربراہ بھی تحریک انصاف کے جسٹس( ر) وجہہ الدین کو بنادیں لیکن وہ اس بات پر بھی نہیں مانے۔
یہی بات کہے جا رہے ہیں کہ انگوٹھوں کی شناخت کروائی جائے۔ پھر اگر جعلی انگوٹھوں کے ذریعے ووٹ ڈالے جا رہے تھے، تو وہاں ہر امیدوار کے پولنگ ایجنڈے بیٹھے ہوتے ہیں، جو ووٹ ڈالنے والے کی خود تصدیق کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ ہر جگہ اور خصوصاً لاہور میں چاک و چوبند میڈیا موجود تھا، کسی نے کوئی بات نہیں کی، یہ خود بھی نہیں بولے لیکن جب نتائج آئے تو دھاندلی کا شور مچا دیا۔
ایکسپریس: ایسی کچھ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کے دارالحکومت ارومچی میں دہشتگردوں کے حملہ کے بعد پاکستان کے شمالی وزیرستان میں فوج نے ٹارگٹڈ آپریشن کیا۔ اس کی وجوہات یہ بتائی جا رہیں کہ چوں کہ سنکیانگ مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور وہاں کچھ تحریکیں چل رہی ہیں اور چین سمجھتا ہے کہ انہیں طالبان سپورٹ کرتے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں ان حملوں کا کوئی باہمی تعلق ہے؟
رانا ثناء اللّٰہ: دیکھیں! جہاں تک طالبان کا تعلق ہے تو اس معاملہ میں کوئی ربط ہو بھی سکتا اور نہیں بھی، کیوں کہ طالبان ادھر ادھر کارروائیاں تو کرتے ہیں۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ اس صوبے سے بھی کچھ لوگ شمالی وزیرستان میں بیٹھے ہوں، کیوں کہ وہاں افغانستان، تاجکستان، ایران اور روسی ریاست کے لوگ بیٹھے ہیں۔
ایکسپریس: طالبان سے مذاکرات میں حالیہ سست روی کی وجہ کیا ہے؟ کچھ حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ تاخیر کی وجہ آپریشن کے ردعمل کو کائونٹر کرنے کے لئے تیاری کرنا ہے؟
رانا ثناء اللّٰہ: نہیں مذاکرت میں کوئی سست روی نہیں ہے، مذاکرات جیسے پہلے ہو رہے تھے، وہ اب بھی ہو رہے ہیں۔ مذاکرت طویل اس وجہ سے ہو رہے ہیں کہ آنے جانے کا راستہ یا تو ہے نہیں اگرہیں تو بہت کٹھن ہے، جس کی وجہ سے زیادہ آنا جانا نہیں ہوتا۔ لیکن یہ بات درست نہیں کہ مذاکرات پہلے بڑی تیزی اور اب سستی سے ہو رہے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے میڈیا پر رننگ کمنٹری ہو رہی تھی، جسے مناسب نہ سمجھ کر بند کر دیا گیا ہے، بہرحال مذاکرات ہو رہے ہیں۔ جو آپریشن کی بات ہے تو ایسا کچھ نہیں ہو رہا لیکن یہ طے شدہ ہے کہ اگر کسی بھی گروپ پر حملہ ہوتا ہے تو اس کا جواب دیا جائے۔
ایکسپریس: پنجاب کی بات کریں تو آپ نے کچھ عرصہ قبل غیرملکی میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ پنجاب میں بھی کچھ ایسے مقامات ہیں جہاں کارروائی کی ضرورت ہے اور صوبائی حکومت اس کے لئے منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ حقیقت کیا ہے؟۔
رانا ثناء اللّٰہ: نہیں یہ بات ایسے نہیں ہے، دیکھیں! کراچی میں لیاری ہے، وہ کیوں لیاری ہے، اس لئے کہ کہا جاتا ہے کہ وہاں کوئی چلا جائے تو ساری زندگی باہر نہ آئے تو اس کا پتہ نہیں چلتا، کیوں کہ وہاں کوئی گلی سیدھی ہے نہ گھر۔ اسی طرح ہمارے شہروں کے ساتھ کچی آبادیاں بنی ہوئی ہیں، جہاں کوئی گلی ہے نہ سیوریج کا نظام، تو ایسے علاقے جرائم پیشہ افراد کی بہترین آماجگاہ ہوتے ہیں۔ ہم نے ایسے علاقے کی نشاندہی کی تھی، جس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ وہاں بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں اور ان لوگوں کو چیک بھی کیا جائے تاکہ مجرموں کو پکڑا جا سکے۔
ہم نے یہ کام مکمل کر لیا ہے، ہمیںکچھ لوگ ملے ہیں، جن کے پاس تصدیق شدہ دستاویزات نہیں تھیں، یعنی اگر افغان مہاجر ہے تو وہ وہاں کیوں رہ رہا ہے۔ کچھ غیر ملکی منشیات کے دھندہ میں ملوث بھی پائے گئے اور کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن پر شکوک و شبہات ہیں، ان کی تفیتش کا عمل جاری ہے۔ اب ہم ایسا کر رہے ہیں کہ نادرا کے ساتھ مل کر ایسے سوفٹ ویئر پر کام کر رہے ہیں کہ ایک آدمی کا جب انگوٹھا لگایا جائے تو اس کا سارا بائیوڈیٹا سامنے آ جائے۔ اگر اس کا شناختی کارڈ نہیں بنا ہوا تو کیوں نہیں بنا؟ یہ سارے اقدامات قانون کے نفاذ کے ساتھ امن و امان برقرار رکھنے کے لئے کئے جا رہے ہیں۔
ایکسپریس: فرقہ وارانہ فسادات کسی بھی معاشرہ کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہوتا ہے۔ آپ کے دعوئوں کے باوجود گزشتہ دور حکومت اور اب بھی یہ فسادات جاری ہیں۔ سانحہ راولپنڈی، بادامی باغ، گوجرہ، اب چند روز قبل جھنگ میں وکلاء پر مقدمات کا اندراج ہوا ہے تو ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے کیا حکومت کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کر رہی ہے؟
رانا ثناء اللّٰہ: فرقہ وارانہ فسادات روکنے کے لئے حکومت اپنی طرف سے سخت اقدامات کر رہی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے معاشرے میں ایسے لوگوں کے لئے اگر ہمدردی کے جذبات نہیں ہیں تو ان سے نفرت بھی نہیں ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو لوگ فرقہ واریت کو ابھارتے ہیں، انہیں قوم کا لیڈر بنا کر پیش نہیں کیا جانا چاہیے، تو ہمیں بحیثیت قوم اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
ایکسپریس: پنجاب میں تھانہ کلچر بھی کبھی بدلے گا؟۔ گزشتہ دور حکومت ختم ہونے سے قبل میاں شہباز شریف نے عوام سے معافی مانگی تھی کہ وہ تھانہ کلچر بدل نہیں سکے، کیا اس بار بھی انہیں اپنا بیان دوہرانا پڑے گا؟
رانا ثناء اللّٰہ: نہیں اس بار انشاء اللہ انہیں اپنا بیان دہرانا نہیں پڑے گا کیوں اس معاملہ میں اب بہت موثر پیش رفت ہوگی اور رواں سال کے آخر تک یہ چیز آپ کو نظر آنی شروع ہو جائے گی۔ پنجاب میںکوئی 709 کے قریب پولیس سٹیشن ہیں، جہاں ہم پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سب انسپکٹرز بھرتی کر رہے ہیں، ان کو ہم تقریباً ایک سے ڈیڑھ سال تک بہت عمدہ ٹریننگ دیں گے۔ اسی طرح این ٹی ایس کے ذریعے کانسٹیبل بھرتی کئے جائیں گے، اس کے علاوہ انسداد دہشتگردی فورس کھڑی کر رہے ہیں، جو جدید تربیت اور آلات سے لیس ہو گی، یہ سال کے آخر تک آ جائے گی، اس فورس کے آنے کے بعد باقی پولیس پھر معمول کے جرائم کی طرف بھرپور توجہ دے گی۔
دوسرا ہم تحصیل سطح پر آئی ٹی کا سسٹم لا رہے ہیں، جہاں پر لوگوں کو 17اقسام کے مسائل کے حل کے لئے تھانے یا کچہری نہیں جانا پڑے گا۔ دیکھیں! تھانوں میں قتل یا ڈکیتیاں کرنے والے بھی جاتے ہیں لیکن ان لوگوں سے پہلے ہم عام شہریوں کی فکر کریں گے، جو مجرم ہے نہ ملزم، انہیں بھی لائسنس یا کریکٹر سرٹیفکیٹ بنوانے کے لئے جانا پڑتا ہے تو اس طرح کے مزید 15اقسام کے مسائل اب اس آئی ٹی سنٹر میں ہی حل ہو جائیں گے۔ ہم ان چیزوں کو تھانے سے نکال کر پہلے تحصیل سطح پر لا رہے ہیں اور پھر اسے مزید پھیلایا جائے گا، جہاں کوئی پولیس اہلکار نہیں ہوگا بلکہ پڑھے لکھے بچے بیٹھ کر لوگوں کے مسائل سن کر حل کریں گے۔
اس طرح سے ہم عام شہری کو تھانہ کلچر سے ویسے ہی الگ کر رہے ہیں، باقی مجرموں اور ملزموں کے لئے ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ تفتیش کا نظام درست کیا جائے کیوں کہ ساری گڑ بڑ ہی یہاں ہوتی ہے۔ تو اس مسئلہ کے حل کے لئے ہم نے گزشتہ دور حکومت میں ہی بنیاد رکھ دی تھی، اس وقت 4 ارب روپے کی لاگت سے ایشیاء کی سب سے بڑی فرانزک لیبارٹریز بنائی گئی ہے، اب ہم تفتیش کا پورا نظام ہی اس پر لا رہے ہیں تاکہ تھانیدار کی یہ صوابدید ہی نہ رہے کہ یہ آدمی مجرم ہے یا نہیں ہے۔ فرانزک لیبارٹریز میں ڈی این اے ٹیسٹ کے ساتھ کرائم سین سے 14اقسام کے شواہد مل سکتے اور ان کا یہ دعوی ہے کہ شواہد سے وہ جس ملزم کو جوڑیں گے وہ دنیا بھر میں واحد ہوگا۔
ایکسپریس: یہ عام تاثر ہے کہ حکومت بلدیاتی انتخابات سے بھاگ رہی ہے، گزشتہ دور گزر گیا، اب بھی آثار نہیں، کیوں؟
رانا ثناء اللّٰہ: اس میں دراصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں انویسٹی گیٹو صحافت کا رواج نہیں، ایک بار جو بات منہ سے نکل گئی پھر اسے ہی بغیر تحقیق کے دوہرانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ اگست 2013ء میں سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے لئے قانون سازی کا حکم دیا تو سب سے پہلے پنجاب نے قانون بنایا، پھر از سر نو حلقہ بندیوںکا حکم ملا تو وہ بھی ہم نے سب سے پہلے کر لیں، لیکن پھر عدالت میں رٹ کر دی گئی کہ انتظامیہ نے حلقہ بندیاں درست نہیں کیں اور غیر جماعتی کے بجائے جماعتی الیکشن کروائے جائیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی سربراہی میں بننے والے بنچ نے کہا کہ ازسرنوحلقہ بندیاں درست ہیں کیوں کہ یہ انتظامیہ نے ہی کرنی تھیں لیکن آپ غیرجماعتی الیکشن والی بات ختم کریں۔
اس کے بعد شیڈول الائونس ہوگیا، کاغذات مل گئے، سکروٹنی ہوگئی۔ بعدازاں 8ہزار میں سے صرف 366 حلقوں کے بندوں نے حلقہ بندیوں پر اعتراض کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں دوبارہ رٹ کر دی اور یہ بندے تحریک انصاف کے تھے۔ ہم نے پھر کہا کہ ان کی شکایت کا ازالہ کریں گے اور اسے مان بھی لیں گے لیکن الیکشن کو چلنے دیں کیوں کہ لوگوں نے پمفلٹ چھپوا لئے ہیں، کمپین کر لی ہے اور دیگر اخراجات بھی کر دیئے ہیں، لیکن ہائی کورٹ نے انکار کر دیا۔ اب اس بات کے بعد یہ تاثر دینا ہے کہ حکومت یا ن لیگ الیکشن نہیں چاہتی تو سراسر غلط ہے۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو ازسرنوحلقہ بندیوں کرنے کا حکم دیا ہے، وہ کرے، ہم الیکشن کروا دیں گے۔
ایکسپریس: آپ کے حلقہ انتخاب فیصل آباد کی بات کریں تو یہ پنجاب کا تیسرا بڑا شہر ہے لیکن یہاں طبی سہولیات کا یہ حال ہے کہ عرصہ دراز سے صرف ایک بڑا الائیڈ ہسپتال ہے جہاں ایک طرف حافظ آباد، سرگودھا اور دوسری طرف چیچہ وطنی تک سے مریض لائے جاتے ہیں۔ فیصل آباد میں میٹرو چلانے کی باتیں ہو رہی ہیں، یہ بھی چلنی چاہیے لیکن کیا اس سے پہلے شہر کو ایک اور بڑے ہسپتال کی ضرورت نہیں؟
رانا ثناء اللّٰہ: الائیڈ ہسپتال جیسے تین اور ہسپتال بھی فیصل آباد میں موجود ہیں، ایک سول ہسپتال دوسرا غلام محمد آباد ہسپتال اور تیسرا میرے حلقے سمن آباد میں بنایا گیا ہے، جو پہلے 50بیڈ کا تھا، اب اسے 250بیڈز تک لے جایا جا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں فیصل آباد میں مزید ہسپتال کی ضرورت نہیں بلکہ ان ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کی ہے۔ اب معاملہ تو یہ ہے کہ کوئی ڈاکٹر لاہور سے نکلنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ باقی جو میٹرو کی بات ہے تو ہم نے جو منصوبہ بنایا ہے، وزیراعلٰی نے اس کی منظوری دیدی ہے۔ ایکسپرس وے کی طرز پر بننے والا یہ منصوبہ مسافر کو موٹروے سے اٹھائے گا اور فیصل آباد شہر میں لے آئے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ فیصل آباد کے لئے میٹرو بس سے بڑا کوئی اور تحفہ ہو ہی نہیں سکتا۔
ایکسپریس: شیر علی گروپ سے آپ کے پرانے اختلافات چلے آ رہے ہیں، ان کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ ان کے میاں نواز شریف سے خاندانی مراسم ہیں اور میاں صاحب رشتہ داروں کو بڑی اہمیت دیتے ہیں تو ایسے میں آپ نے کیسے اپنی امتیازی حیثیت کو برقرار رکھا ہوا ہے؟
رانا ثناء اللّٰہ: دیکھیں! جہاں تک رشتہ داری کی بات ہے تو پارٹیاں رشتہ داری کی بنیاد پر نہیں چلتیں، پارٹی میں میرا اور ان کا اپنا اپنا مقام ہے۔ میاں نواز شریف نے میرے اور ان میں کبھی کوئی تفریق نہیں کی۔ دوسرا میرا ان سے جو اختلاف ہے، وہ پارٹی کے لئے ہے، جو میں سمجھتا ہوں درست ہے۔ ورنہ اگر ہم دونوں وہاں مل جائیں تو ہماری اجارہ داری قائم ہو جائے گی تو باقی لوگوں کا کباڑہ ہو جائے گا۔ اب گزشتہ الیکشن میں میاں صاحب نے ہم دونوں کو اپنے ساتھ بٹھایا، ایک سیٹ پر انہوں نے کہا کہ یہ بندہ ٹھیک ہے، میں نے کہا دوسرا ٹھیک ہے، لیکن اس سے پارٹی کو فائدہ ہوا کہ قیادت کو فیصلہ میں آسانی ہو گئی اور وہ فیصلے کی آسانی تھی کہ ہم نے فیصل آباد میں قومی اسمبلی کی تمام (11) اور صوبائی اسمبلی کی 22 میں سے 21نشستیں جیت لیں۔
اچھا پھر جب الیکشن قریب آئے تو کچھ لوگوں نے کہا کہ ہماری صلح کروائی جائے تو میں نے کہا ٹھیک ہے کر لیتے ہیں۔ پھر جب ٹکٹوں کی تقسیم شروع ہوئی تو انہوں نے کہا کہ فلاں حلقے میں چوہدری شیر علی کے دوسرے بیٹے کو ٹکٹ دیا جائے تو میں نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ غلط ہے، کیوں کہ ایک حلقے میں آپ کو ٹکٹ مل چکا ہے، اگر ہماری اولادوں نے ہی الیکشن لڑنے ہیں تو باقی لوگ پھر ایسے ہی دھکے کھاتے رہیں گے، تو انہوں نے کہا اس سے صلح ختم ہو جائے گی تو میں نے کہا کوئی مسئلہ نہیں۔ اچھا اب ایک دلچسپ بات آپ کو بتائوں کہ جس صوبائی حلقہ سے میں نے الیکشن لڑا، اسی حلقہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن عابدشیر علی نے لڑا اور جب رزلٹ آئے تو میرے ووٹ 56 ہزار کچھ تھے اور عابد شیر علی کے بھی 56ہزار کچھ تھے۔ اب لڑائی کا سب سے زیادہ اثر تو اس حلقے میں ہونا چاہیے تھا لیکن اس کی وجہ کیا تھی کہ میں نے یا انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا اس کو ووٹ نہ دیں۔
ایکسپریس: پیپلزپارٹی سے وہ کون سے اختلافات تھے، جن کی وجہ سے آپ نے انہیں خدا حافظ کہہ کر ن لیگ میں شمولیت اختیار کر لی؟ جبکہ یہ وہ پارٹی ہے جس کی وجہ سے آپ پہلے بار ایوان میں پہنچے اور ضیاء الحق کا مشکل دور بھی آپ گزار چکے تھے۔
رانا ثناء اللّٰہ: پہلے تو میں آپ کو بتائوں کہ جنرل مشرف کی حکومت میں جو جبروتشدد کیا گیا، ٹارچرسیلز میں لے جایا گیا، اس کی مثال نہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ مشرف کے دور میں جو جبروتشدد مجھ پر ہوا ایسا جنگی قیدیوں کے ساتھ بھی نہیں ہوتا۔ لیکن ضیاء کے دور میں بھی قید اور نظر بند کر دیا جاتا، کوئی عدالت سنتی نہیں تھی، بس پڑے ہیں وہاں، تو اس سارے دور میں پیپلزپارٹی کے ساتھ چلے، لیکن جب پی پی پر اچھا وقت آیا، یعنی 1993ء میں تو لوگ اس پارٹی کی طرف دوڑے، اس دوڑ میں ہمارے شہر سے میاں زاہد سرفراز اور چوہدری نذیرکوہستان والے بھی شامل ہوگئے، جو ضیاء کے ساتھی اور ہم پر تشدد میں براہ راست ملوث تھے۔ جب یہ لوگ پیپلزپارٹی میں آئے تو میرے اعتراض پر پارٹی نے مجھے نکال دیا، جس کے بعد میں نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔
ایکسپریس: تقریباً 5بار آپ رکن صوبائی اسمبلی بن چکے ہیں، کبھی قومی اسمبلی میں جانے کی خواہش نہیں پیدا ہوئی؟ حالاں کہ متعدد سیاستدان بشمول آپ کی پارٹی کے، صوبائی سے قومی اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں؟
رانا ثناء اللّٰہ: اس بار قومی اسمبلی میں جانے کی خواہش ضرور ابھری تھی، لیکن اگر یہ فیصلہ ہو جاتا ہے کہ میاں شہباز شریف قومی اسمبلی میں جائیں گے تو پھر لازماً میں بھی چلا جاتا لیکن بعد میں ایسا نہیں ہوسکا تو میں بھی یہیں رہ گیا۔ اور جب تک زندگی ہے میاں شہباز شریف پنجاب کے مستقل وزیراعلیٰ ہیں کیوں کہ اس عہدے پر ان کے علاوہ کوئی اور جچتا ہی نہیں۔
ایکسپریس: عرصہ دراز سے آپ کا شہباز شریف سے تعلق ہے، کیا کبھی کسی معاملہ پر ناراضگی بھی ہوئی؟
رانا ثناء اللّٰہ: نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا، کیوں کہ ناراضگی تب ہوتی ہے جب کہیں کوئی بدنیتی شامل ہو۔ میاں شہباز شریف نیک نیت آدمی ہیں، تو ایسے میں جب کوئی آدمی ایسی بات کرتا ہے، جو آپ کو پسند نہیں تو اس کی نیت پر شک نہ ہونے کی وجہ سے ناراضگی نہیں بنتی۔ دوسرا یہ ہے کہ جب کبھی کسی معاملہ پر وہ چڑھائی کریں تو ہم نیچے اور کبھی ہم بھی چڑھائی کریں تو وہ بھی خاموش ہو جاتے ہیں۔
آئیڈیل حضرت عمرفاروقؓ 10ماہ کے نواسے کے ساتھ وقت گزارنااچھا لگتا ہے
پیارے نبی کریمؐ کے بعد آئیڈیل شخصیت حضرت عمر فاروقؓ ہیں۔ ان دنوں فارغ اوقات اپنے 10ماہ کے نواسے حسن کے ساتھ گزارنا بہت اچھا لگتا ہے، باقی وقت میں کتب پڑھتا ہوں، جن میں اسلامی تاریخ اور کرنٹ افیئر سے متعلق مواد ہو۔ میوزک میں میرا جھکائو نصرت فتح علی خان کی طرف ہے، جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ میرے شہر سے تھے، دوسرا عارفانہ کلام بھی بہت پسند ہے۔ آج کل تو فلمیں دیکھنے کا موقع نہیں ملتا لیکن جب دیکھا کرتے تھے تو سب سے زیادہ جو فلم اچھی لگی وہ پاکستانی فلم تہذیب تھی۔ ہاکی پسندیدہ کھیل ہے، جو میں نے خود بھی کھیلی۔ کھلاڑیوں میں ہاکی میں سمیع اللہ اور کرکٹ میں آر یا پار کی طرز پر کھیلنے والے شاہد خان آفریدی بہت پسند ہیں۔ ملنے جلنے کے حوالے سے اداکارہ ریما اچھی خاتون لگیں۔ پسندیدہ ٹی وی اینکر حامد میر ہے۔
افتخار محمد چوہدری ایک سال مزید رہ جاتے تو سب سے زیادہ ٹف ٹائم ہمیں ملتا
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے قریبی لوگ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ وہ کسی کا اثر قبول نہیں کرتے تھے، وہ اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ اور اگر انہیں مزید ایک سال مل جاتا تو جتنا ٹف ٹائم انہوں نے ہمیں دینا تھا، ماضی میں ایسا کسی سے نہ ہوا ہوتا۔ آپ نے دیکھا بھی ہوگا کہ ہماری حکومت کے پہلے چھ یا سات ماہ وہ چیف جسٹس رہے تو جب بلدیاتی الیکشن کا معاملہ آیا تو پنجاب کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی، اس کے علاوہ دیگر معاملات میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔ دیکھیں! افتخار محمد چوہدری نے آئی ایس آئی، پیپلزپارٹی اور ن لیگ کا کبھی دبائو قبول نہیں کیا۔ میں یہ سمجھتا ہوںکہ وہ انسان تھے، کوئی فرشتہ نہیں، ان کا کوئی فیصلہ غلط ہو سکتا ہے لیکن یہ کہنا کہ انہوں نے کسی کے دبائو یا کہنے پر ایسا کیا تو یہ سوفیصد غلط اور جھوٹ ہے۔
وہ ایک آزاد آدمی تھے اور ہیں، انہوں نے اپنے 24 سالہ مدت ملازمت کے دوران عدالتی معاملات میں کسی قسم کا دبائو قبول نہیں کیا۔ اچھا میں اب آپ کو ایک دلچسپ واقعہ سنائوں کہ افتخار چوہدری بلوچستان ہائی کورٹ میں تھے تو وہاں ان کے ایک قریبی دوست، جو وزیر تھے، کا کیس آ گیا۔ افتخار چوہدری نے کہا کہ آپ اپنا کیس کسی اور کے پاس منتقل کروا لیں لیکن انہوں نے کہا کہ مجھے آپ (افتخارچوہدری) پر پورا اعتماد ہے۔ جس روز کیس کا فیصلہ سنایا گیا، اس سے ایک روز قبل وہ افتخار چوہدری کے گھر آئے، افتخار چوہدری نے انہیں چائے پلائی اور گپ شپ بھی کی۔ اگلے روز جب فیصلہ آیا تو وہ وزیر صاحب کے خلاف آیا، وزیر صاحب کو جیل ہوگئی۔ جیل میں افتخار چوہدری نے انہیں کھانا بھی بھجوایا اور سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے خبر گیری بھی کرتے رہے، لیکن قانون و انصاف پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ افتخار چوہدری نے انہیںکہا کہ دوستی اپنی جگہ پر لیکن انصاف کرنا میری فرض ہے۔