ہم تو ساجھے داریاں نبھاتے ہیں مگر۔۔۔

تعریف کے دو بول نہیں بول سکتے، تو سوالات کی بوچھاڑ بھی نہ کیجیے!

تعریف کے دو بول نہیں بول سکتے، تو سوالات کی بوچھاڑ بھی نہ کیجیے! ۔ فوٹو : فائل

''یہ تمھاری بہو نظر نہیں آرہی؟''

فہمیدہ خالہ کو جب رضیہ خالہ کے گھر آئے ایک گھنٹے سے اوپر ہوگیا اور انھیں نادیہ نظر نہیں آئی، تو انھوں نے سوال کرنا ضروری سمجھا۔


''نادیہ نے تو نوکری شروع کر دی ہے اب شام کو ہی گھر واپس آتی ہے۔''

''مطلب کیا نوکری شروع کر دی؟ ایک تو یہ آج کل کی لڑکیوں کو کوئی خیال ہی نہیں ساسوں کا، اب گھر کا سارا نظام تم ہی سنبھالتی ہوگی۔''

''ارے میں کیوں سنبھالوں گی، نادیہ ہی سنبھالتی ہے میں نے کب کہا ہے؟ نوکری کرنے کا اپنا شوق ہے گھر میں بیٹھا نہیں جاتا'' ''ہاں بھئی سچ ہے تم کیوں سنبھالو، جس کی ذمہ داری ہے وہی سنبھالیں!

کتنی عجیب بات ہے ناں کہ اکیسویں صدی میں ہونے کے باوجود ہمارے معاشرے میں عورت کے معاشی طور پر مستحکم ہونے کو عجیب نظروں سے دیکھا جاتاہے پھر اپنی معاشرتی ذمہ داری سمجھتے ہوئے چار باتیں بھی خود ہی جوڑ لی جاتی ہیں، جن میں اس بات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی عورت نوکری کررہی ہیں تو اسے آزاد رہنا پسند ہے۔

اسے بچوں اور گھرداری سے کوئی دل چسپی نہیں، حتیٰ کے حقیقت میں وہ عورت جو نوکری کرتی ہے، وہ ایک گھر میں رہنے والی عورت سے ذیادہ کام کرتی ہے۔ اسے نوکری کے بکھیرے بھی سنبھالنے ہوتے ہیں اور گھر کے بھی، کیوں کہ سسرال میں یہی کہا جاتا ہے نوکری کرنا اپنا شوق ہے، ہم نے یا پھر شوہر نے نہیں کہا نوکری کرنے کا اور رہی سہی کسر آس پڑوس اور ملنے جلنے والے لوگ ان سوالات سے پوری کردیتے ہیں

ا ) ۱ شوہر کی تنخواہ کم ہے؟

۲) خواہشات نہیں پوری ہورہی؟


۳) بچے کون سنبھالے گا؟

۴) بچوں کی تربیت کے بارے میں سوچا ہے؟

۵ ) گھرداری میں دل چسپی نہیں ہے؟

جن کا جواب دینا وہ ضروری نہیں سمجھتی، مگر جس ضبط کا مظاہرہ وہ کرتی ہیں، اس کا اندازہ صرف جب ہی کیا جا سکتا ہے، جب کوئی ان کا خیرخواہ ہو یا ان سے ہمدردی کے دو بول بولے تو وہ بتائیں گی کہ آخر کو کیوں انھوں نے نوکری کا فیصلہ کیا ہے ان کے پاس سوالات کے جوابات بھی ہوں گے اور وجوہات کی ایک لمبی فہرست ہوگی، جس میں ان کا اپنا ذکر نہیںہوگا۔

شوہر کی تنخواہ کم ہوتے ہوئے وہ کسی سے یہ بات نہیں کہہ سکتیں کہ شوہر کی تنخواہ کم ہے، کیوں کہ وہ حساس دل کی مالک ہوتی ہیں، انھیں نظر آتا ہے کہ ان کا شوہر ان کے لیے اور بچوں کے لیے دن رات ایک کرتا ہے، مگر اس مہنگائی کے دور میں کوئی لاکھوں بھی کمائے تو وہ بھی کم محسوس ہوتے ہیںاور چوں کہ ان کی نظر میں شادی کا مطلب ساتھ ہوتا ہے، ایک دوسرے کا ہر انداز اور ہر طریقہ سے ساتھ پھرچاہے وہ خوشی و غم بانٹنا ہو یا پھر معاشی طور پر ساتھ دینا کیوں کہ گھر اور بچے کسی ایک کی ذمہ داری نہیں ہوتے اس لیے وہ شوہر کا ساتھ دینے کے لیے نوکری کررہی ہیں۔

وہ اپنی خواہشات تو اپنے ماں، باپ کے گھر میں ہی چھوڑ کر آگئی تھی، مگر جب بچے دوسرے بچوں کو نئی سائیکل خریدتے اور انھیںچلاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کی بھی چاہ ہوتی ہے کہ ان کے پاس بھی ایسی سائیکل ہو ایسے میں وہ اپنی تنخواہ میں سے ان کی فرمائش پوری کرتی ہے اور سائیکل خریدتی ہیں۔

ان کے دل میں اس بات کی ضرور تمنا ہوتی ہے کہ وہ ان سوال کرنے والوں سے یہ ضرور پوچھے کہ وہ کن بچوں کے سنبھل جانے اور تربیت کی بات کر رہے ہیں۔ کہیں انھیںماں سے کوئی ضروری بات تو نہیں کرنی تھی، جو وہ اس گھر میں نہ ہونے کے باعث اس سے نہیں کرسکے۔ اسے ان سب باتوں کی فکران سے زیادہ ہوتی ہے مگر جب وہ ان بچوں کے اسکول میں داخلے کے لیے اسکولوں کے چکر لگاتی ہے تو معلوم ہوتاہے اگرآپ معاشی طور پر مضبوط نہیں تو سرکاری اسکول میں بچوں کو پڑھائیں، جن کی حالت کے بارے میں آپ میںسب ہی واقف ہیں، ایسے میں وہ اپنی تنخواہ آگے کرتی ہے کہ اس کے بچوں کی صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں اور وہ کسی اچھے نجی اسکول میں پڑھیں۔

آپ لوگ میرے بچوںکی ذہانت کی تعریف کرتے ہیں، کبھی سوچا ہے کہ ان کی فیسوں کی ادائیگی میری تنخواہ سے ہوتی ہے کیوں کہ گھر کے اخراجات کے ساتھ نجی اسکول ناممکن ہیں، میں ماں ہوں، اس لیے اپنے بچو ںکے لیے نکل کھڑی ہوئی ہوں اور پھر بھی نہیں چھوڑی میں نے ساری گھر داری۔ میرے شوہر اور بچے میرے ہی ہاتھ کا بنا ہوا کھانا ہی کھاتے ہیں اور گھر کی ذمہ داریاں بھی میں ہی سنبھالتی ہوِں۔ تعریف کے دو بول نہیں بول سکتے، تو سوالات کی بوچھاڑ بھی نہ کیا کیجیے۔ کیا کریں انسان ہوں دل ٹوٹ جاتا ہے!
Load Next Story