پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کرنے کا فیصلہ
پہلے مرحلے میں ایرانی سرحد سے گوادر تک 80 کلومیٹر طویل لائن بچھائی جائے گی
پاکستان نے 18 ارب ڈالر کے جرمانے سے بچنے کیلیے تعطل کا شکار پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کرنے کا فیصلہ کرلیا، پہلے مرحلے میں ایرانی سرحد سے گوادر تک 80 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھائی جائے گی۔
رپورٹس کے مطابق ایران نے گیس پائپ لائن کو مکمل کرنے کیلیے 180 دن کی مہلت دے رکھی ہے، جو ستمبر 2024 میں ختم ہوجائے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران منصوبے پر عدم عملدرآمد کو لے کر عالمی عدالت انصاف میں جا سکتا ہے، جس سے پاکستان پر جرمانہ لگ سکتا ہے لیکن اس صورت میں پاکستان اور ایران کے سفارتی تعلقات منقطع ہوجائیں گے، یہی وجہ ہے کہ ایران لچک کا مظاہرہ کر رہا ہے جبکہ پاکستان نے بھی امریکی دباؤ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے منصوبے کو مکمل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پیٹرولیم ڈویژن پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر کام شروع کرنے کیلیے کابینہ سے منظوری کا منتظر ہے، جبکہ گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ بورڈ کو بھی منصوبے کیلیے فنانسنگ کا پراسس تیز کرنے کیلیے کہہ دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ گیس انفرااسٹرکچر کی مد میں جمع کیے گئے 350 ارب روپے حکومت نے گیس پائپ لائن کے بجائے اورنج لائن ٹرین جیسے منصوبوں پر خرچ کر دیے جبکہ فرٹیلائزر صنعت سے تعلق رکھنے والے صنعتکاروں نے 450 ارب روپے کسانوں سے وصول کیے لیکن حکومت کو دینے سے انکاری ہیں۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں حکومت نے 50 فیصد معاف کر دیے اور باقی کی قسطیں کی گئیں لیکن اس کے باجود صنعتکاروں نے کوئی ادائیگی نہیں کی۔
گیس پائپ لائن منصوبے پر آصف زرداری نے اپنے دور حکومت میں دستخط کیے تھے، تاہم نواز شریف حکومت نے سعودی عرب اور امریکا کے دباؤ پر مؤخر کر دیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق ایران نے گیس پائپ لائن کو مکمل کرنے کیلیے 180 دن کی مہلت دے رکھی ہے، جو ستمبر 2024 میں ختم ہوجائے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران منصوبے پر عدم عملدرآمد کو لے کر عالمی عدالت انصاف میں جا سکتا ہے، جس سے پاکستان پر جرمانہ لگ سکتا ہے لیکن اس صورت میں پاکستان اور ایران کے سفارتی تعلقات منقطع ہوجائیں گے، یہی وجہ ہے کہ ایران لچک کا مظاہرہ کر رہا ہے جبکہ پاکستان نے بھی امریکی دباؤ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے منصوبے کو مکمل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پیٹرولیم ڈویژن پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر کام شروع کرنے کیلیے کابینہ سے منظوری کا منتظر ہے، جبکہ گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ بورڈ کو بھی منصوبے کیلیے فنانسنگ کا پراسس تیز کرنے کیلیے کہہ دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ گیس انفرااسٹرکچر کی مد میں جمع کیے گئے 350 ارب روپے حکومت نے گیس پائپ لائن کے بجائے اورنج لائن ٹرین جیسے منصوبوں پر خرچ کر دیے جبکہ فرٹیلائزر صنعت سے تعلق رکھنے والے صنعتکاروں نے 450 ارب روپے کسانوں سے وصول کیے لیکن حکومت کو دینے سے انکاری ہیں۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں حکومت نے 50 فیصد معاف کر دیے اور باقی کی قسطیں کی گئیں لیکن اس کے باجود صنعتکاروں نے کوئی ادائیگی نہیں کی۔
گیس پائپ لائن منصوبے پر آصف زرداری نے اپنے دور حکومت میں دستخط کیے تھے، تاہم نواز شریف حکومت نے سعودی عرب اور امریکا کے دباؤ پر مؤخر کر دیا تھا۔