ابھی کچھ عرصہ پہلے کی ہی بات ہے، لوگ چائے کے ڈھابوں پر اور بچے پارکوں میں کھیلتے ہوئے نظر آتے تھے۔ لیکن اب وہ چہل پہل ختم ہوگئی ہے۔ کھیل کود اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا اب ختم ہوچکا ہے۔ کیونکہ ان کی جگہ موبائل فون اور آن لائن گیمز نے لے لی ہے۔
ماں باپ کا احترام ختم ہوچکا ہے۔ آن لائن گیمز پر لڑکے لڑکیوں کی بات چیت اور گھروں سے بھاگنا عام ہوگیا ہے۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں جسمانی سرگرمیوں کے بجائے آن لائن گیمز کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ نہ صرف نوجوان بلکہ چھوٹے بچے بھی اسمارٹ فونز میں آن لائن گیمز کھیلتے دکھائی دیتے ہیں۔
آن لائن گیمز نوعمر بچوں کو اپنا شکار بناکر ان کی ترجیحات کو بدل چکے ہیں۔ آن لائن گیمز کی بری عادت بچوں میں نفسیاتی، جمسانی و سماجی مسائل کو جنم دے رہی ہے۔ گیم کو گیم سمجھنا فائدہ مند، مگرحقیقت سمجھ لینا نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ زندگی کا ہر وہ عمل جسے کرنے میں انسان تمام حدود و قیود پار کرجائے وہ اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
آج کے دور میں جہاں ہر سو افراتفری ہے، کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ اپنے یا اپنے سے جڑے افراد کی روزمرہ کی زندگی کو سنوار کر فائدہ مند بنائے، مگر آج کی بڑھتی ٹیکنالوجی، نت نئی ایجادات، ابھرتی ہوئی انٹرٹینمنٹ اندسٹری اور آن لائن رسائی بلاشبہ ہر گھرانے میں ایک بڑا چیلنج بن چکی ہیں۔ پوری دنیا کے ایک ہاتھ میں سما جانے کے بعد انسان کے سامنے دو راستے کھل گئے ہیں یا تو وہ ان سہولیات کو کارآمد بناتے ہوئے مثبت استعمال کرے یا ان کا بے جا اور منفی استعمال کرتے ہوئے اپنی زندگی ناکام اور نقصان دہ بنا لے۔
آن لائن ویڈیو گیمز یا الیکٹرانک گیمز کا حد درجہ استعمال اور ان کے منفی اثرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اور یہ مسئلہ مشرق و مغرب ہی نہیں پوری دنیا میں یکساں موجود ہے۔ بچوں میں حد سے بڑھتا ہوا ویڈیو اور آن لائن گیمز کا شوق ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں نقصان دہ ثابت ہورہا ہے۔ آج کل بچوں میں آن لائن گیمز کا شوق اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اچھے اور برے کی تمیز کیے بغیر وہ اس ٹرینڈ کے پیچھے چل پڑے ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں آن لائن گیمز کھیلنے والوں میں اضافہ ہوا ہے۔ خاٖص طور پر لاک ڈاؤن کے دوران جب آن لائن کلاسز شروع ہوئی تو گیمز کا رجحان بھی بڑھ گیا۔ حالیہ برسوں میں دو ایسے آن لائن گیمز کا نام ہم سب نے لازمی سنا ہوگا جو دنیا میں غلبہ رکھنے کے ساتھ نہایت متنازعہ رہے ہیں، ان میں ایک ہے ''پب جی'' اور دوسرا ''بلیو وہیل''۔
ان دونوں گیمز کو پاکستان سمیت دیگر کئی ممالک میں پابندی کا بھی سامنا کرنا پڑا، مگر وجہ کیا تھی؟ وجہ یہی تھی کہ یہ گیمز انٹرٹینمنٹ سے زیادہ لوگوں بالخصوص بچوں میں نفسیاتی مسائل پیدا کررہے ہیں۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں ان گیمز کی خاطر کئی بچوں اور نوجوانوں نے اپنی زندگی تک کا خاتمہ کیا۔ پاکستان میں 2022 میں مئی، جولائی اور اگست میں لاہور میں پب جی گیم کھیلنے سے منع کرنے پر 16، 18 اور پھر 20 سالہ لڑکے نے خودکشی کرلی تھی۔
آن لائن گیمز کی عادت ذہن کو اس حد تک بھی خراب کرسکتی ہے، اسی طرح ان پُرتشدد آن لائن گیمز کی صورت میں دوسروں کو قتل کرکے ان کی املاک تباہ کیے جانے کا لطف اٹھایا جاتا ہے۔ لیکن اکثر یہ سلسلہ صرف گیم تک محدود نہیں رہتا بلکہ ایسی گیمز کی عادت سے نوجوان اور بچے نشے اور برائیوں کی لت میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور جرائم کے نت نئے طریقے سیکھ لیتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ یہ گیمز لوگوں کو تشدد کرنے اور مار دھاڑ کے طریقے بھی سکھا رہے ہیں، جو ملک میں جرائم کے اضافے کی وجہ بن سکتا ہے۔
پب جی کی وجہ سے بھی کئی واقعات رونما ہوئے، کہیں نوجوان لڑکوں نے پب جی کھیلنے سے منع کرنے پر خودکشی کرلی تو کہیں کسی نے حقیقی زندگی کو ہی پب جی سمجھ کر اپنے ہی گھر والوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پاکستان میں پب جی پر کچھ دنوں کےلیے پابندی لگائی گئی مگر اسے جلد ہی بحال کردیا گیا تھا۔ تشدد پر اکسانے، ڈپریشن، خودکشی کا رحجان پیدا کرنے اور قتل کی وجہ بننے والے گیمز پب جی اور دیگر آن لائن گیمز کے منفی اثرات کی لمبی داستان ہے۔ دعا زہرا کیس میں آن لائن گیمنگ کا ایک اور منفی پہلو سامنے آیا کہ کم عمر بچے کس طرح ان گیمز کو ڈیٹنگ ایپس کے طور پر استعمال کررہے ہیں اور ان کے زیرِ اثر اپنی زندگی کے فیصلے کررہے ہیں۔
پاکستان میں آن لائن گیمز بطور ڈیٹنگ ایپس بھی نوجوانوں اور کم عمر بچوں کےلیے باہر کے لوگوں سے رابطے کا آسان ذریعہ بن گئے ہیں۔ ورچوئل دنیا میں دن کا بیشتر وقت گزارنے والے بچے حقیقی زندگی سے کٹ جاتے ہیں یا حقیقی زندگی کو بھی گیم کی طرح چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گھر کے کونے میں یا خاندان کے درمیان آن لائن گیمز میں مصروف نوجوان اپنے لیے ایک الگ دنیا بسا کر بیٹھے ہوتے ہیں، جہاں وہ ڈرائیونگ سیٹ پر ہیں اور اپنے فیصلے خود کر رہے ہیں، وہ اپنی مرضی کے کھلاڑی کے ساتھ ٹیم بنا سکتے ہیں اور فاصلے جیسی رکاوٹ ان آن لائن گیمز میں حائل نہیں ہوتی۔
صرف پب جی ہی نہیں درجنوں ایسے آن لائن گیمز ہیں جن کے منفی اثرات سے زندگیاں خطرات سے دو چار ہیں۔ اسی طرح کا ایک اور آن لائن گیم لڈو بھی ہے۔ جس پر بات کرتے ہوئے ایک پاکستانی خاتون اپنے بچوں سیمت بھارت پہنچ گئی اور وہاں جاکر ایک بھارتی شہری سے شادی رچالی۔ گھنٹوں تک پُرتشدد گیمز کھیلنے والے نوجوانوں کو حقیقی زندگی میں تشدد اور ایڈونچر معمول کا عمل لگتا ہے۔ ان گیمز کے نشے میں مبتلا نوجوانوں کے دنیا بھر سے جارحیت، مایوسی اور تشدد کے واقعات سامنے آنے کے بعد یہ خطرہ بڑھ گیا ہے کہ ورچوئل دنیا میں ٹیم بنا کر اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کرتے یہ بچے گیم کی طرح ہی اپنی زندگی کو بھی تباہ کرسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔