پاکستان ایک نظر میں وفاقی وزیرخزانہ کا اعترافِ شکست
ہمیں بس یہی دعا کرنی چاہیے کہ ہمارے دوستوں کی ہم پر رحمت کا سایہ برقرار رہے وگرنہ ڈالر 98 پر کیسے آئےگا
وفاقی وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں صرف 39کھرب 45ارب روپے سے زائد بجٹ پیش نہیں کیا ،انہوں نے حکومتی کارکردگی بھی سب پر عیاں کردی ہے۔خود وزیر خارجہ نے اعتراف کیا کہ ملکی ترقی کی شرح4.14 جبکہ مہنگائی6 8.فیصد اضافہ ہوا۔یعنی آمدنی اٹھنی خرچہ روپیہ۔بہت سے لوگ بجٹ کا جائزہ لیتے ہوئے ہندسوں میں گم ہوگئے ہیں۔پچھلے سال فلاں چیز اتنے کی تھی اور اب اتنے کی ہوگئی ہے۔یہ طریقہ کار بھی درست ہے،کیونکہ بجٹ کو سیاستدان کیا ماہرین معاشیات بھی ہندسوں کا ہیر پھیر کہتے ہیں۔میں اس پر بات نہیں کرونگا کہ حکومت نے کس شعبے پر کتنی رقم رکھی اور کیوں ؟۔ عمومی طور پر منافع کی دو صورتیں ہوتی ہیں،ایک جتنی رقم پر فروخت کیلئے مال خریدا ہے اس سے زائد پر بیچ دیا جائے،دوسرا خریداری کے دوران کمی کراکر بچت کی جائے۔لیکن تیسری صورت یہ ہے کہ جس راستے مسلسل نقصان ہورہا ہے اسے بند کردیا جائے۔اول تو نقصان کے راستوں کا اندازہ لگانا ،پھر اس کے حل کے راستے تلاش کرنا دراصل مینجمنٹ کہلایا جاتا ہے۔اس تناظر میں دیکھیں تو حکومتی کارکردگی گزشتہ برس بہت خراب رہی ہے۔پوری قوم لوڈشیڈنگ کو بھگت رہی ہے،جس کے حل کے لیے حکومت نے نئے ڈیم بنانے کے اعلان کے ساتھ دیگر کئی منصوبے شروع کئے ہیں،جو اچھی بات ہے۔بجلی کے امور کے ساتھ ملک کے توانائی شعبے پر نظر رکھنے والے افراد کے مطابق بجلی کی ملکی ضرورت 115ارب یونٹس ہے، موجودہ نظام کے تحت 105ارب یونٹس بجلی پیدا ہوسکتی ہے، یعنی کل قلت صرف 8فیصد ہے مگر بجلی کے کئی پیداواری یونٹس بند پڑے ہیں،دوسری طرف بجلی سپلائی کے لیے یومیہ 20فرنس
آئل کے کنٹینرز آرہے ہیں جن میں سے 5کے چوری ہونے کی خبریں بھی عام ہیں،اس کے ساتھ ملک بھر میں 280ارب سالانہ کی بجلی چوری ہورہی ہے،واپڈا نے 524ارب روپے کی ریکوری کرنی ہے ۔ریکوری کو اگر چھوڑ بھی دیں تو 500ارب سالانہ سے زائد کے نقصان کو حکومت روک سکتی تھی لیکن اس جانب بالکل توجہ نہیں دی گئی۔پاکستان زرعی ملک ہے یہ لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں،لیکن ہم میں سے کتنے جانتے ہیں کہ ہم زرعی تحقیق نہ ہونے اور جدید طریقوں کے استعمال سے عدم واقفیت کے باعث پھلوں اور سبزیوں پر 60ارب روپے اور فصلوں میں 40ارب روپے سالانہ کی کمی کا شکار ہوگئے ہیں۔حکومت سال بھر اگر اس جانب توجہ دیتی تو 1کھرب روپے کے نقصان کی تھوڑی بہت بھرپائی ہوجاتی ۔ن لیگ کی حکومت نے اپنے منشور میں لکھا ہے کہ وہ ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس لگائے گی ۔وہ تو جب لگائے گئی تب لگائے گی مگر وہ تو موجود ٹیکس اہداف کے حصول میں بھی ناکام ہے۔اعداد و شمار کے مطابق ملک میں سالانہ 2ہزار ارب روپے کے ٹیکس کی چوری ہورہی ہے ،اگر حکومت صرف اس پر توجہ دے تو اسے ڈیڑھ ہزار ارب خسارے کا بجٹ پیش نہ کرنا پڑے۔معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ جس ملک کی بچت کی شرح 25سے 30فیصد تک ہوخطرے سے باہر ہوتی ہیں،لیکن سچ یہ ہے ہماری موجود ہ بچت کی شرح 17سے 18فیصد ہے ۔اس حوالے سے پوری قوم کو سوچنا ہوگا، کہتے ہیں کہ بچت کرنے والا ویسے بھی کسی کا محتاج نہیں ہوتا ۔بات سادہ سی یہ ہے ،ہمیں دوست ممالک سے ڈیڑھ ارب ڈالر تحفے میں مل جائیں تو ڈالر 98روپے تک لے آتے ہیں،آپ سوچیں اگر حکومت اپنے اعلان کے مطابق 200ارب ڈالر سوئس بینکوں سے واپس لانے میں کامیاب ہوجائے توہمارا ملک کہاں ہوگا ؟جب کہ وہ رقم تو ہے بھی پاکستانی عوام کی ۔بس کرپٹ سیاستدانوں کی مہربانی سے غیرملکی بینکوںکا حصہ بن گئی ہے۔ لیکن میں بھی کس قدر بیوقوف ہوں ۔۔۔ آخر یہ رقم پاکستان کیسے آسکتی ہے؟ جب خود کی ہی رقم وہاں موجود ہو ۔۔۔ لحاظہ ہمیں بس یہی دعا کرنی چاہیے کہ ہمارے دوستوں کی ہم پر رحمت کا سایہ برقرار رہے اور ہم کچوے کی چال کے برابر ترقی کی منازل کو طے کرتے رہیں۔
میرا اس ساری بد انتظامی کو پیش کرنے کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ ہم خراب ترین صورتحال میں بھی بہت اچھے ہوسکتے ہیں،بس نقصان کے تناسب کو کم کرنا ہوگا۔وزیر خزانہ کے جو کام بنتے ہیں ان میں سے ایک کام یہ بھی ہے ،بس معیشت کو بہتر کرنے کے لیے تھوڑے سے سنجیدہ ہوجائیں!
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آئل کے کنٹینرز آرہے ہیں جن میں سے 5کے چوری ہونے کی خبریں بھی عام ہیں،اس کے ساتھ ملک بھر میں 280ارب سالانہ کی بجلی چوری ہورہی ہے،واپڈا نے 524ارب روپے کی ریکوری کرنی ہے ۔ریکوری کو اگر چھوڑ بھی دیں تو 500ارب سالانہ سے زائد کے نقصان کو حکومت روک سکتی تھی لیکن اس جانب بالکل توجہ نہیں دی گئی۔پاکستان زرعی ملک ہے یہ لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں،لیکن ہم میں سے کتنے جانتے ہیں کہ ہم زرعی تحقیق نہ ہونے اور جدید طریقوں کے استعمال سے عدم واقفیت کے باعث پھلوں اور سبزیوں پر 60ارب روپے اور فصلوں میں 40ارب روپے سالانہ کی کمی کا شکار ہوگئے ہیں۔حکومت سال بھر اگر اس جانب توجہ دیتی تو 1کھرب روپے کے نقصان کی تھوڑی بہت بھرپائی ہوجاتی ۔ن لیگ کی حکومت نے اپنے منشور میں لکھا ہے کہ وہ ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس لگائے گی ۔وہ تو جب لگائے گئی تب لگائے گی مگر وہ تو موجود ٹیکس اہداف کے حصول میں بھی ناکام ہے۔اعداد و شمار کے مطابق ملک میں سالانہ 2ہزار ارب روپے کے ٹیکس کی چوری ہورہی ہے ،اگر حکومت صرف اس پر توجہ دے تو اسے ڈیڑھ ہزار ارب خسارے کا بجٹ پیش نہ کرنا پڑے۔معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ جس ملک کی بچت کی شرح 25سے 30فیصد تک ہوخطرے سے باہر ہوتی ہیں،لیکن سچ یہ ہے ہماری موجود ہ بچت کی شرح 17سے 18فیصد ہے ۔اس حوالے سے پوری قوم کو سوچنا ہوگا، کہتے ہیں کہ بچت کرنے والا ویسے بھی کسی کا محتاج نہیں ہوتا ۔بات سادہ سی یہ ہے ،ہمیں دوست ممالک سے ڈیڑھ ارب ڈالر تحفے میں مل جائیں تو ڈالر 98روپے تک لے آتے ہیں،آپ سوچیں اگر حکومت اپنے اعلان کے مطابق 200ارب ڈالر سوئس بینکوں سے واپس لانے میں کامیاب ہوجائے توہمارا ملک کہاں ہوگا ؟جب کہ وہ رقم تو ہے بھی پاکستانی عوام کی ۔بس کرپٹ سیاستدانوں کی مہربانی سے غیرملکی بینکوںکا حصہ بن گئی ہے۔ لیکن میں بھی کس قدر بیوقوف ہوں ۔۔۔ آخر یہ رقم پاکستان کیسے آسکتی ہے؟ جب خود کی ہی رقم وہاں موجود ہو ۔۔۔ لحاظہ ہمیں بس یہی دعا کرنی چاہیے کہ ہمارے دوستوں کی ہم پر رحمت کا سایہ برقرار رہے اور ہم کچوے کی چال کے برابر ترقی کی منازل کو طے کرتے رہیں۔
میرا اس ساری بد انتظامی کو پیش کرنے کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ ہم خراب ترین صورتحال میں بھی بہت اچھے ہوسکتے ہیں،بس نقصان کے تناسب کو کم کرنا ہوگا۔وزیر خزانہ کے جو کام بنتے ہیں ان میں سے ایک کام یہ بھی ہے ،بس معیشت کو بہتر کرنے کے لیے تھوڑے سے سنجیدہ ہوجائیں!
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔