پاکستان ایک نظر میں کرپشن کی پریشانی خود اس کی زبانی
اب تو ہمیں یہ محسوس تو یوں ہوتا ہے کہ پاکستان کو کرپشن انگریزوں ایسے ہی ملی جیسے اولاد کو باپ سے وراثت ملتی ہے.
حضرت جی آپ بھی بادشاہ لوگ ہیں۔ اور کمال ہی کرتے ہیں۔جس چیزکے پیچھے پڑ جاتے ہیں اس کی جان نہیں چھوڑتے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کو سوچنے کی عادت ہی نہیں اور اگر سوچنے کی ضرورت پڑھ جائے تو ہمیشہ چیزوں کے بارے میں غلط سوچتے ہیں اور کبھی کسی کے با رے میں اچھا بھی سوچئے۔ چلیں کرپشن کی بات کرلیتے ہیں جیسے پوری قوم نے بدنام کرکے رکھ دیا ہے ۔ہر جرم اور نقصان کا ذمہ دار کرپشن کو قرار دیتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ کر پشن کے پہیے نہیں ہوتے اور نہ ہی یہ کوئی برقی آلہ ہے جو اپنی طرف کھینچتاہو۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ یہ کرپشن کی ہی عظمت ہے کہ جس نے جھونپڑیوں میں رہنے والوں اور فٹ پاتھ پر سونے والوں کو اتنا نوازا کہ اب وہ اس ملک کے معزز اور امیرترین لوگوں میں سے ہیں ۔ اگر کرپشن نہ ہوتی تو زندگی کے بے شمار خواب ادھورے رہ جاتے ۔شاپنگ مال نہ بنتے، بڑے بڑے پلازے نہ ہوتے، نہ فیکٹریاں اور نہ کارخانے ہوتے ، سڑکوں پر بڑی بڑی گاڑیاں نہ ہوتیں، ملکی اور غیر ملکی بینک خالی ہوتے ، بازاروں کی رونق نہ ہوتی ، نہ میڈیا کو برینکنگ نیوز ملتی ، نہ عدالتوں کو کیس ملتے ، نہ قومی احتساب بیورو کا ادارہ بنتا۔ اور نہ پاکستان کو جنوبی ایشیا کا کرپٹ ترین ملک ہونے کا اعزاز ملتا۔ اور نہ موٹاپا ہوتا اور نہ ہم موٹاپے میں پہلے دس ملکوں میں آ تے،اور نہ اس بیماری سے ڈاکٹروں کی دوکان چمکتی۔
اے اعلیٰ حضرت ذرا غور فرمائیں یہ سب کرپشن ہی کی مہربانی ہے اگر یہ نہ ہوتی تو نہ احتجاج ہوتے اور نہ ہی دھرنے ۔سیاستدان فارغ ہوتے اور کسی ڈراموں یا فلموں میں کا م کر رہے ہوتے کیونکہ ویسے بھی ہمارے لیڈر سیاستدان کم لگتے ہیں اور اداکار زیادہ۔ نہ مدٹرم الیکشن کے مطالبہ ہوتا اور نہ الیکشن کمیشن ہوتا اور نہ یہاں پر کرپشن کے خلاف پپو اور چاچے فتو اتحاد ہوتا۔ نہ خاندانی سیاست ہوتی ، نہ رشتے داریاں بنتی اور نہ سیاستدانوں کے رشتہ داروں کونوکریاں ملتیں۔ ارے پھر تو ہم قرض دار بھی نہ ہوئے اور ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ڈالروں سے محروم ہوجاتے۔
ذرا سوچئے کرپشن نہ ہوتی تو ان سیاستدانوں کو کون جا نتا ، دنیا میں نہ جان ہوتی اور نہ پہچان۔ ذرا بتائیں ڈنمارک، فن لینڈ اور نیوزی لینڈ جو دنیا کے کرپشن فری ملک ہیں ان کو اور ان کے سیاستدانوں کوپوری دنیا میں کتنے لوگ جانتے ہوں گے ؟۔ جبکہ صمالیہ، افغانستان اور شمالی کوریہ جو دنیا کے سب سے زیادہ کرپٹ ملک ہیں ان کو دنیا کا ہر ایک چھوٹا بڑا جانتا ہے ۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک محلے میں مودھے سپاہی اور انو پٹواری کو سب جانتے ہیں اور ندیم مستری اور ماسٹر اسلم کو کوئی نہیں ۔
اب تو ہمیں یہ محسوس تو یوں ہوتا ہے کہ پاکستان کو کرپشن انگریزوں ایسے ہی ملی جیسے اولاد کو باپ سے وراثت ملتی ہے یا ایک عورت کو میکے والوںسے جہیز ملتا ہے ۔اور اس کا رشتہ پاکستان سے اتنا ہی پرانا ہے جتنا قائد کا نوٹ۔اس نے ہمارے ملک کا نام ایسے ہی روشن کیا ہے جیسے ما ں باپ کی نالائق اولاد۔ اس ملک کو اتنا ہی فائدہ پہنچایا ہے جتنا فاضل جڑی بوٹیاں ایک فصل کو فائدہ دیتی ہیں۔اس نے ملک اس ملک کے رہنے والوں کو اپنا اس طرح کا عادی بنایا ہے جیسے کوئی نشہ آور چیز ہو ۔
دراصل یہ بھی ایک حقیقت ہے میرے بھائی قصور ہمارا ہے اس کرپشن کا نہیں ، ایمان ہمارا کمزور ہو، بے غیرت ہم ہوئے ، لالچ ہماری رگوں کے اندر بسا، خواہشوں کے گھوڑے کو ہم بے لگام ہم نے کیا۔ کامیابی کا مطلب ہم نے بدلہ ، صبرو تحمل کا دامن ہم نے چھوڑااور راتوں رات امیر ہونے کے خواب ہم نے دیکھے ،اپنے اخراجات کو اپنی اوقات سے زیادہ ہم نے خود بڑھایا۔ اور ہم سب مل کر الزام بچاری کرپشن کو دیتے ہیں۔
اب تو میری یہی گزارش رہ گئی ہے کہ بس جی کرپشن صاحبہ ہمیں معاف کر د و ،یہ روپیہ پیسہ، سستی شہرت ہم کو نہیں چاہیے یہ ملک جیسا بھی ہے اسکو ویسے ہی رہنے دو، اب یہ سارے انعام و اکرام کسی اور کو دے دو اور ہم کو ہمارے حال پر چھوڑ دو۔بس جس کو تم عزت سمجھتی ہو یہ ذلت ہے ۔جس دولت کو تم نے پھیلایا اس نے ہمارا سکون اور چین چھین لیا ہے ۔ اب تو خدارا ہم سے دور چلی جاؤ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ یہ کرپشن کی ہی عظمت ہے کہ جس نے جھونپڑیوں میں رہنے والوں اور فٹ پاتھ پر سونے والوں کو اتنا نوازا کہ اب وہ اس ملک کے معزز اور امیرترین لوگوں میں سے ہیں ۔ اگر کرپشن نہ ہوتی تو زندگی کے بے شمار خواب ادھورے رہ جاتے ۔شاپنگ مال نہ بنتے، بڑے بڑے پلازے نہ ہوتے، نہ فیکٹریاں اور نہ کارخانے ہوتے ، سڑکوں پر بڑی بڑی گاڑیاں نہ ہوتیں، ملکی اور غیر ملکی بینک خالی ہوتے ، بازاروں کی رونق نہ ہوتی ، نہ میڈیا کو برینکنگ نیوز ملتی ، نہ عدالتوں کو کیس ملتے ، نہ قومی احتساب بیورو کا ادارہ بنتا۔ اور نہ پاکستان کو جنوبی ایشیا کا کرپٹ ترین ملک ہونے کا اعزاز ملتا۔ اور نہ موٹاپا ہوتا اور نہ ہم موٹاپے میں پہلے دس ملکوں میں آ تے،اور نہ اس بیماری سے ڈاکٹروں کی دوکان چمکتی۔
اے اعلیٰ حضرت ذرا غور فرمائیں یہ سب کرپشن ہی کی مہربانی ہے اگر یہ نہ ہوتی تو نہ احتجاج ہوتے اور نہ ہی دھرنے ۔سیاستدان فارغ ہوتے اور کسی ڈراموں یا فلموں میں کا م کر رہے ہوتے کیونکہ ویسے بھی ہمارے لیڈر سیاستدان کم لگتے ہیں اور اداکار زیادہ۔ نہ مدٹرم الیکشن کے مطالبہ ہوتا اور نہ الیکشن کمیشن ہوتا اور نہ یہاں پر کرپشن کے خلاف پپو اور چاچے فتو اتحاد ہوتا۔ نہ خاندانی سیاست ہوتی ، نہ رشتے داریاں بنتی اور نہ سیاستدانوں کے رشتہ داروں کونوکریاں ملتیں۔ ارے پھر تو ہم قرض دار بھی نہ ہوئے اور ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ڈالروں سے محروم ہوجاتے۔
ذرا سوچئے کرپشن نہ ہوتی تو ان سیاستدانوں کو کون جا نتا ، دنیا میں نہ جان ہوتی اور نہ پہچان۔ ذرا بتائیں ڈنمارک، فن لینڈ اور نیوزی لینڈ جو دنیا کے کرپشن فری ملک ہیں ان کو اور ان کے سیاستدانوں کوپوری دنیا میں کتنے لوگ جانتے ہوں گے ؟۔ جبکہ صمالیہ، افغانستان اور شمالی کوریہ جو دنیا کے سب سے زیادہ کرپٹ ملک ہیں ان کو دنیا کا ہر ایک چھوٹا بڑا جانتا ہے ۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک محلے میں مودھے سپاہی اور انو پٹواری کو سب جانتے ہیں اور ندیم مستری اور ماسٹر اسلم کو کوئی نہیں ۔
اب تو ہمیں یہ محسوس تو یوں ہوتا ہے کہ پاکستان کو کرپشن انگریزوں ایسے ہی ملی جیسے اولاد کو باپ سے وراثت ملتی ہے یا ایک عورت کو میکے والوںسے جہیز ملتا ہے ۔اور اس کا رشتہ پاکستان سے اتنا ہی پرانا ہے جتنا قائد کا نوٹ۔اس نے ہمارے ملک کا نام ایسے ہی روشن کیا ہے جیسے ما ں باپ کی نالائق اولاد۔ اس ملک کو اتنا ہی فائدہ پہنچایا ہے جتنا فاضل جڑی بوٹیاں ایک فصل کو فائدہ دیتی ہیں۔اس نے ملک اس ملک کے رہنے والوں کو اپنا اس طرح کا عادی بنایا ہے جیسے کوئی نشہ آور چیز ہو ۔
دراصل یہ بھی ایک حقیقت ہے میرے بھائی قصور ہمارا ہے اس کرپشن کا نہیں ، ایمان ہمارا کمزور ہو، بے غیرت ہم ہوئے ، لالچ ہماری رگوں کے اندر بسا، خواہشوں کے گھوڑے کو ہم بے لگام ہم نے کیا۔ کامیابی کا مطلب ہم نے بدلہ ، صبرو تحمل کا دامن ہم نے چھوڑااور راتوں رات امیر ہونے کے خواب ہم نے دیکھے ،اپنے اخراجات کو اپنی اوقات سے زیادہ ہم نے خود بڑھایا۔ اور ہم سب مل کر الزام بچاری کرپشن کو دیتے ہیں۔
اب تو میری یہی گزارش رہ گئی ہے کہ بس جی کرپشن صاحبہ ہمیں معاف کر د و ،یہ روپیہ پیسہ، سستی شہرت ہم کو نہیں چاہیے یہ ملک جیسا بھی ہے اسکو ویسے ہی رہنے دو، اب یہ سارے انعام و اکرام کسی اور کو دے دو اور ہم کو ہمارے حال پر چھوڑ دو۔بس جس کو تم عزت سمجھتی ہو یہ ذلت ہے ۔جس دولت کو تم نے پھیلایا اس نے ہمارا سکون اور چین چھین لیا ہے ۔ اب تو خدارا ہم سے دور چلی جاؤ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔