الیکشن کے بعد…
مجھے یہ تو علم نہیں کہ تحریک انصاف کے رہنماء کن بنیادوں پر وفاقی حکومت کا دعویٰ کر رہے ہیں
الیکشن کے بعد وفاق میںحکومت سازی کا مرحلہ بلکہ معرکہ سر کرنے کے لیے ملک کی تینوں بڑی پارٹیوں کی جانب سے دعوے کیے جارہے ہیں۔
تحریک انصاف جس کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی تعداد زیادہ ہے، اس کے رہنماؤں کی جانب سے دعوے کیے جارہے ہیں کہ وفاق کی حکومت وہ بنائیں گے جب کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جن کے منتخب ممبران کی تعداد بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہے، وہ ایک اتحادی حکومت بنانے کی داغ بیل ڈالنے جارہے ہیں۔
مجھے یہ تو علم نہیں کہ تحریک انصاف کے رہنماء کن بنیادوں پر وفاقی حکومت کا دعویٰ کر رہے ہیں، بلاشبہ وہ اکثریتی پارٹی ہے لیکن اس کے منتخب اراکین کی تعداد حکومت سازی کے لیے مطلوبہ تعداد سے کہیں کم ہے اور وہ کسی دوسری بڑی پارٹی کے ساتھ اتحاد پر بھی تیار نہیں ہیں۔
اس لیے قیاس یہی کیا جارہا ہے کہ جس طرح ماضی میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے چند اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے عبوری حکومت بنائی تھی، اب بھی ایک ایسی ہی حکومت کی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں ان دونوں پارٹیوں کے علاوہ ایم کیو ایم بھی حصہ دار ہوگی۔
ملک کے صف اول کے سیاستدانوں کی رائے ہے کہ اتحادی حکومت ایک کمزور حکومت ہو گی جس کا دورانیہ کچھ زیادہ نہیں ہوگا۔ ن لیگ الیکشن مہم کے دوران یہی کہتی رہی کہ نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم کے امیدوار ہیں لیکن الیکشن نتائج کے بعد صورتحال میں تبدیلی آگئی ہے اور اب وزیر اعظم شہباز شریف ہوں گے۔
شنید یہ ہے کہ میاں نواز شریف کسی ایسی حکومت کو لیڈ نہیں کرنا چاہتے جومستعار لی گئی بیساکھیوں کی مدد سے کھڑی کی گئی ہو، وہ کلی اقتدار کے قائل ہیں، البتہ پنجاب میں مسلم لیگ ن سادہ اکثریت حاصل کر چکی ہے، محترمہ مریم نواز کو وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیاہے جو پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ کا اعزاز حاصل کرنے جارہی ہیں۔ یہ لگتا ہے کہ میاں نواز شریف کی سیاست کا تمام تر دارومدار اور محور اب پنجاب کی سیاست ہوگی ۔
پی ڈی ایم کی حکومت کا تجربہ ایک محدود مدت کے لیے تھا لیکن اب تو پانچ سال کے لیے شراکت اقتدار کا فارمولا طے پانے جارہا ہے اور ایک ایسی حکومت کی تشکیل ہونے جارہی ہے جس کوتحریک انصاف کی ایک مضبوط ترین اپوزیشن کا سامنا ہو گا ۔ ادھر راولپنڈی کے کمشنر نے الیکشن پر کئی طرح کے سوال اٹھادیے ہیں۔
تاہم وہ اس ضمن ابھی تک کوئی ثبوت تو پیش نہیں کر سکے لیکن ملک بھر میں جاری احتجاج کو انھوں نے مہمیز ضرور بخش دی ہے۔ یہ سوال بھی ہنوز جواب طلب اور مسلسل گردش میں ہے کہ کمشنر بہادر نے اتنی جرات کا مظاہرہ کیسے کیا یا کس نے انھیں اس بیان پر مجبور کیا، اس سوال کے جواب میں کسی بھی باخبر ذرایع کے پاس مستند معلومات کا فقدان ہے۔
الیکشن کے بعد بھی سیاسی میدان میں صورتحال دگر گوں ہے۔چندروز قبل تک میاں نواز شریف اور ان کے قریبی رفقائے کار بھی اس بات پر متفق تھے کہ مرکز میں حکومت سے جان چھڑا لی جائے لیکن پنجاب کی حکومت سے منسلک وفاقی حکومت بنانے میں ضرور کچھ مجبوریاں بھی ہوں گی ۔' نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن 'والا معاملہ نظر آتا ہے ۔
بہر حال ن لیگ اور پیپلزپارٹی ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر حکومت چلانے کی کوشش کریں گی جس کے لیے پہلے تو پیپلز پارٹی نے غیر مشروط طور پر ن لیگ کو بغیر کسی وزارت کے صرف ووٹ کا اعلان کیا تھالیکن بعد ازاں پیپلز پارٹی حکومت کا باقاعدہ حصہ بننے پر رضامند ہو چکی ہے اور اس کے متعلق حتمی فیصلہ جلد ہی متوقع ہے ۔
دوسری جانب ن لیگ کے سینئر ترین رہنماء خواجہ سعد رفیق جو کھری بات کہنے سے کبھی ہچکچاتے نہیں ہیں، انھوں نے اپنی پارٹی کی غلطیوں کی نشاندہی کر کے اصلاح کرنے کی بات کی ہے جب کہ بانی پی ٹی آئی کو بھی اپنی غلطیاں ڈھونڈنے کا کہا ہے ۔ وہ حکومت کو کانٹوں کا تاج کہہ رہے ہیں جو بلاشبہ ایک ایسا سچ ہے جس کی تعبیر جلد سامنے آجائے گی۔ خواجہ سعد رفیق ایک خاص مدت کے لیے قومی اسمبلی کی تمام نمایندہ جماعتوں کی قومی حکومت کا مشورہ بھی دے رہے ۔
کسی بھی سیاسی پسند ناپسند کو بالائے طاق رکھ کراگر ریاست پاکستان کے مفاد کودیکھا جائے تو قومی حکومت کی تشکیل وقت کا تقاضہ بن چکی ہے۔
ایک ایسا ملک جو دہشت گردی کا شکار ہو ، معیشت سسکیاں لے رہی ہو ، باہمی نفرتیں عروج پر ہوں، ان حالات میں یہ ایک صائب رائے ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ نقار خانے میں سعد رفیق کی توانا آواز اور برمحل رائے کہیں دب گئی ہے اور الیکشن کے بعد ملک میں استحکام کی جو باتیں کی جارہی تھیں، وہ استحکام کہیں دور دور تک نظر نہیں آرہا۔
راقم نے انھی کالموں میں کئی بار یہ لکھا تھا کہ الیکشن کے بعد ملک میں استحکام کے بجائے بگاڑ زیادہ ہو گا اور یہ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ریاست کے کسی ستون کی جانب سے اس بگاڑ سے بچاؤ کی کوئی تدبیر نہیں کی جارہی ہے۔
تحریک انصاف جس کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی تعداد زیادہ ہے، اس کے رہنماؤں کی جانب سے دعوے کیے جارہے ہیں کہ وفاق کی حکومت وہ بنائیں گے جب کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جن کے منتخب ممبران کی تعداد بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہے، وہ ایک اتحادی حکومت بنانے کی داغ بیل ڈالنے جارہے ہیں۔
مجھے یہ تو علم نہیں کہ تحریک انصاف کے رہنماء کن بنیادوں پر وفاقی حکومت کا دعویٰ کر رہے ہیں، بلاشبہ وہ اکثریتی پارٹی ہے لیکن اس کے منتخب اراکین کی تعداد حکومت سازی کے لیے مطلوبہ تعداد سے کہیں کم ہے اور وہ کسی دوسری بڑی پارٹی کے ساتھ اتحاد پر بھی تیار نہیں ہیں۔
اس لیے قیاس یہی کیا جارہا ہے کہ جس طرح ماضی میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے چند اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے عبوری حکومت بنائی تھی، اب بھی ایک ایسی ہی حکومت کی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں ان دونوں پارٹیوں کے علاوہ ایم کیو ایم بھی حصہ دار ہوگی۔
ملک کے صف اول کے سیاستدانوں کی رائے ہے کہ اتحادی حکومت ایک کمزور حکومت ہو گی جس کا دورانیہ کچھ زیادہ نہیں ہوگا۔ ن لیگ الیکشن مہم کے دوران یہی کہتی رہی کہ نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم کے امیدوار ہیں لیکن الیکشن نتائج کے بعد صورتحال میں تبدیلی آگئی ہے اور اب وزیر اعظم شہباز شریف ہوں گے۔
شنید یہ ہے کہ میاں نواز شریف کسی ایسی حکومت کو لیڈ نہیں کرنا چاہتے جومستعار لی گئی بیساکھیوں کی مدد سے کھڑی کی گئی ہو، وہ کلی اقتدار کے قائل ہیں، البتہ پنجاب میں مسلم لیگ ن سادہ اکثریت حاصل کر چکی ہے، محترمہ مریم نواز کو وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیاہے جو پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ کا اعزاز حاصل کرنے جارہی ہیں۔ یہ لگتا ہے کہ میاں نواز شریف کی سیاست کا تمام تر دارومدار اور محور اب پنجاب کی سیاست ہوگی ۔
پی ڈی ایم کی حکومت کا تجربہ ایک محدود مدت کے لیے تھا لیکن اب تو پانچ سال کے لیے شراکت اقتدار کا فارمولا طے پانے جارہا ہے اور ایک ایسی حکومت کی تشکیل ہونے جارہی ہے جس کوتحریک انصاف کی ایک مضبوط ترین اپوزیشن کا سامنا ہو گا ۔ ادھر راولپنڈی کے کمشنر نے الیکشن پر کئی طرح کے سوال اٹھادیے ہیں۔
تاہم وہ اس ضمن ابھی تک کوئی ثبوت تو پیش نہیں کر سکے لیکن ملک بھر میں جاری احتجاج کو انھوں نے مہمیز ضرور بخش دی ہے۔ یہ سوال بھی ہنوز جواب طلب اور مسلسل گردش میں ہے کہ کمشنر بہادر نے اتنی جرات کا مظاہرہ کیسے کیا یا کس نے انھیں اس بیان پر مجبور کیا، اس سوال کے جواب میں کسی بھی باخبر ذرایع کے پاس مستند معلومات کا فقدان ہے۔
الیکشن کے بعد بھی سیاسی میدان میں صورتحال دگر گوں ہے۔چندروز قبل تک میاں نواز شریف اور ان کے قریبی رفقائے کار بھی اس بات پر متفق تھے کہ مرکز میں حکومت سے جان چھڑا لی جائے لیکن پنجاب کی حکومت سے منسلک وفاقی حکومت بنانے میں ضرور کچھ مجبوریاں بھی ہوں گی ۔' نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن 'والا معاملہ نظر آتا ہے ۔
بہر حال ن لیگ اور پیپلزپارٹی ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر حکومت چلانے کی کوشش کریں گی جس کے لیے پہلے تو پیپلز پارٹی نے غیر مشروط طور پر ن لیگ کو بغیر کسی وزارت کے صرف ووٹ کا اعلان کیا تھالیکن بعد ازاں پیپلز پارٹی حکومت کا باقاعدہ حصہ بننے پر رضامند ہو چکی ہے اور اس کے متعلق حتمی فیصلہ جلد ہی متوقع ہے ۔
دوسری جانب ن لیگ کے سینئر ترین رہنماء خواجہ سعد رفیق جو کھری بات کہنے سے کبھی ہچکچاتے نہیں ہیں، انھوں نے اپنی پارٹی کی غلطیوں کی نشاندہی کر کے اصلاح کرنے کی بات کی ہے جب کہ بانی پی ٹی آئی کو بھی اپنی غلطیاں ڈھونڈنے کا کہا ہے ۔ وہ حکومت کو کانٹوں کا تاج کہہ رہے ہیں جو بلاشبہ ایک ایسا سچ ہے جس کی تعبیر جلد سامنے آجائے گی۔ خواجہ سعد رفیق ایک خاص مدت کے لیے قومی اسمبلی کی تمام نمایندہ جماعتوں کی قومی حکومت کا مشورہ بھی دے رہے ۔
کسی بھی سیاسی پسند ناپسند کو بالائے طاق رکھ کراگر ریاست پاکستان کے مفاد کودیکھا جائے تو قومی حکومت کی تشکیل وقت کا تقاضہ بن چکی ہے۔
ایک ایسا ملک جو دہشت گردی کا شکار ہو ، معیشت سسکیاں لے رہی ہو ، باہمی نفرتیں عروج پر ہوں، ان حالات میں یہ ایک صائب رائے ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ نقار خانے میں سعد رفیق کی توانا آواز اور برمحل رائے کہیں دب گئی ہے اور الیکشن کے بعد ملک میں استحکام کی جو باتیں کی جارہی تھیں، وہ استحکام کہیں دور دور تک نظر نہیں آرہا۔
راقم نے انھی کالموں میں کئی بار یہ لکھا تھا کہ الیکشن کے بعد ملک میں استحکام کے بجائے بگاڑ زیادہ ہو گا اور یہ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ریاست کے کسی ستون کی جانب سے اس بگاڑ سے بچاؤ کی کوئی تدبیر نہیں کی جارہی ہے۔