عدالتوں سے درخواستیں واپس لینے کا رحجان
مدعی کے نہ ملنے پر سماعت ملتوی کر دی گئی ہے اور وزارت دفاع سے مدعی کی طلبی میں مدد مانگی گئی ہے
سپریم کورٹ میں عام انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی درخواست دائر کی گئی لیکن سماعت کے موقع پر درخواست واپس لینے کی درخواست کر دی گئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست کی واپسی پر مدعی کو بلانا چاہا تو مدعی حاضر نہیں ہوا۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس اہم درخوست کا مدعی گم ہو گیا۔
مدعی کے نہ ملنے پر سماعت ملتوی کر دی گئی ہے اور وزارت دفاع سے مدعی کی طلبی میں مدد مانگی گئی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ کیا اگلی تاریخ پر مدعی حاضر ہوتے ہیں؟ اگر عدالت میں آجاتے ہیں تو کیا موقف اختیار کیا جاتا ہے؟ وہ درخواست دائر کرنے پر کیا موقف دیتے ہیں اور اب واپس لینے پر کیا موقف دیتے ہیں؟
پاکستان میں اس قسم کی درخواستیں دائر کرنا ایک فیشن بن گیا ہے۔ روزانہ عدالتوں میںایسی متعدد درخواستیں دائر کی جاتی ہیں۔ جن کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہوتی۔ پہلے ان درخواستوں کو میڈیا میں جاری کرکے میڈیا کوریج حا صل کی جاتی ہے، سیاسی مقاصد حاصل کیے جاتے ، یہ سب کچھ کرنے کے بعد خاموشی سے درخواست واپس لے لی جاتی ہے۔ ایسی درخواستیں پراپیگنڈا کرنے یا کسی کوتنگ کرنے کا ایک ذریعہ بن گئی ہیں۔ اس لیے یہ روش غلط ہے اور اس کو روکنے کی ضرورت ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ عدالت کیا کر سکتی ہے؟ قانون نے ایک آزاد شہری کو عدالت میں درخواست دائر کرنے اور درخواست واپس لینے کی آزادی دے رکھی ہے۔ کیا یہ قانون بنایا جائے کہ اگر آپ نے درخواست دائر کر دی ہے تو آپ اسے واپس نہیں لے سکتے، کیا یہ قانون بنا دیا جائے کہ درخواست واپس لینے کی سزا ہوگی۔
کیا یہ قانون بنا دیا جائے کہ درخواست واپس لینے پر بھار ی جرمانہ کیا جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جرمانہ کرنے کی روایت سپریم کورٹ میں موجود ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ ابھی عدالتیں معمولی جرمانے کرتی ہیں ۔ جس کی وجہ سے یہ جرمانے بھی ایسی درخواستوں کو روکنے کا سبب نہیں بن رہے۔
پاکستان میں عدلیہ جرمانے کرنے میں کافی کنجوس واقع ہو رہی ہے۔ ہتک عزت کے مقدمات کے اول تو فیصلے کیے ہی نہیں جاتے۔ اگر کیے بھی جاتے ہیں تو معمولی جرمانے کیے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں لوگ ہتک عزت کے مقدمات سے بھی کوئی خاص خوفزدہ نہیں، اسی لیے لوگوں کی پگڑیاں اور عزتیں اچھالنے کا ایک سلسلہ جاری ہے۔
کسی کو قانون کا کوئی خوف ہی نہیں ہے۔ اگر ایک ہتک عزت کے مقدمہ میں مثالی جرمانہ ہو جائے تو بہتان تراش لوگ ڈر جائیں گے۔ آپ دیکھیں حال ہی میں امریکا میں ہتک عزت کے مقدمات میں کتنے بڑے بڑے جرمانے کیے گئے ہیں۔ کیا پاکستان میں بھاری جرمانوں کی کوئی مثال موجود ہے۔ پاکستان میں ہتک عزت پرجرمانہ کرنے میں کنجوسی برتی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے ہتک عزت عام ہو گئی ہے۔
لوگوں کے خلاف جھوٹے مقدمات کا رحجان بھی اسی لیے بڑھ گیا ہے کہ عدالتیں جھوٹے مقدمات میں کوئی سزا نہیں دیتی ہیں۔ یہ بات عام ہے کہ مقدمہ کر دو دیکھا جائے گا۔ آپ کہیں گے یہ جھوٹا مقدمہ ہے تو کہا جاتا ہے کہ جھوٹا ثابت ہونے میں کئی سال لگ جائیں گے تب تک ہمارا مقصد حل ہو گیا ہوگا۔ ایک جھوٹا مقدمہ جب آپ کو سپریم کورٹ تک لڑنا پڑ جائے اور پھر اگر جھوٹا ثابت بھی ہو جائے تو کس کام کا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں جھوٹے مقدمات میں بھی جرمانوں کی مالیت بڑھانی چاہیے۔
جیسے درخواست جھوٹی ثابت ہو جائے تو مثالی جرمانہ ہونا چاہیے۔ایک سوال ہے کہ جن صاحب نے یہ انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست دی ہے، ان کو کیا جرمانہ ہونا چاہیے؟ اگر میں عدالتی روایت کو سامنے رکھوں تو دس لاکھ روپے جرمانہ بڑی بات ہوگی۔ لیکن معاملے کی نزاکت ، حساسیت ، ٹائمنگ اور سنگینی کو دیکھا جائے تو دس لاکھ کچھ بھی نہیں ہیں بلکہ ایک مذاق ہے، اس معاملے میں مثالی جرمانہ ہونا چاہیے۔ اگر درخواست گزار کے پاس ثبوت نہیں ہیں تو اس کی ساری جائیداد ضبط ہونی چاہیے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب عدالتیں جرمانہ کرتی ہیں تو یہ کہہ دیتی ہیں کہ جرمانے کی رقم فلاں فلاحی ادارے کو دے دی جائے ۔حالانکہ جو بھی جرمانے کیے جائیں وہ پاکستان کے خزانے میں جانے چاہیے۔ فلاحی اداروں کا ان پر کیسے حق ہے؟ عدلیہ کو تمام جرمانے پاکستان کے قومی خزانے میں جمع کرانے کا حکم دینا چاہیے۔ جب ان مقدمات کی سماعت پر قوم کا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ پاکستان کے ٹیکس پیئرزکی رقم خرچ ہوتی ہے تو پھر جرمانہ بھی قومی خزانہ میں جانا چاہیے۔
پاکستان کی عدالتوں میں بہت فضول درخواستیں دائر کی جاتی ہیں۔ جن کا قانون اور آئین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ میں نے ایسی درخواستیں سننے کا رحجان بھی دیکھا ہے۔ ایک مثال ہے کہ کالا باغ ڈیم بنانے کا حکم دیا جائے۔ آپ بتائیں پاکستان کے کس قانون کے تحت کسی جج کے پاس کوئی بھی ڈیم بنانے کا حکم دینے کا اختیار ہے۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ یہ درخواست دائر بھی ہوئی اور محترم عدالت نے کالا باغ ڈیم بنانے کا حکم بھی دے دیا۔ اب سوال ہے کہ پھر عدالت نے کالا باغ ڈیم بنوایا کیوں نہیں؟ آپ ایسے حکم ہی کیوں دیتے ہیں جن پر عملدارآمد ممکن نہیں ہے۔
نظام انصاف کو اپنی جیوریسڈکشن میں رہنا چاہیے۔ ہم حکومتوں پر بہت تنقید کرتے ہیں۔ لیکن عام آدمی کو انصاف حکومت نے نہیں۔ نظام انصاف نے دینا ہے۔ نظام انصاف کے لیے بھی جزا اور سزا کے لیے قانون بنایا جائے تو ملک کا نظام ٹھیک ہو جائے گا۔
اب دیکھیں تحریک انصاف نے مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے پہلے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔ بعد میں سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ اب درخواست واپس لینے کی درخواست کر دی ہے۔ کیا یہ عدالتوں سے کھیلنے کے مترادف نہیں۔ چلو درخواست دائر کر دو بعد میں دیکھا جائے گا۔ اس رحجان کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ ڈر ہو کہ بعد میں واپس لینا مشکل ہوگا۔ تو لوگ سوچ سمجھ کر دائر کریں گے۔
مدعی کے نہ ملنے پر سماعت ملتوی کر دی گئی ہے اور وزارت دفاع سے مدعی کی طلبی میں مدد مانگی گئی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ کیا اگلی تاریخ پر مدعی حاضر ہوتے ہیں؟ اگر عدالت میں آجاتے ہیں تو کیا موقف اختیار کیا جاتا ہے؟ وہ درخواست دائر کرنے پر کیا موقف دیتے ہیں اور اب واپس لینے پر کیا موقف دیتے ہیں؟
پاکستان میں اس قسم کی درخواستیں دائر کرنا ایک فیشن بن گیا ہے۔ روزانہ عدالتوں میںایسی متعدد درخواستیں دائر کی جاتی ہیں۔ جن کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہوتی۔ پہلے ان درخواستوں کو میڈیا میں جاری کرکے میڈیا کوریج حا صل کی جاتی ہے، سیاسی مقاصد حاصل کیے جاتے ، یہ سب کچھ کرنے کے بعد خاموشی سے درخواست واپس لے لی جاتی ہے۔ ایسی درخواستیں پراپیگنڈا کرنے یا کسی کوتنگ کرنے کا ایک ذریعہ بن گئی ہیں۔ اس لیے یہ روش غلط ہے اور اس کو روکنے کی ضرورت ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ عدالت کیا کر سکتی ہے؟ قانون نے ایک آزاد شہری کو عدالت میں درخواست دائر کرنے اور درخواست واپس لینے کی آزادی دے رکھی ہے۔ کیا یہ قانون بنایا جائے کہ اگر آپ نے درخواست دائر کر دی ہے تو آپ اسے واپس نہیں لے سکتے، کیا یہ قانون بنا دیا جائے کہ درخواست واپس لینے کی سزا ہوگی۔
کیا یہ قانون بنا دیا جائے کہ درخواست واپس لینے پر بھار ی جرمانہ کیا جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جرمانہ کرنے کی روایت سپریم کورٹ میں موجود ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ ابھی عدالتیں معمولی جرمانے کرتی ہیں ۔ جس کی وجہ سے یہ جرمانے بھی ایسی درخواستوں کو روکنے کا سبب نہیں بن رہے۔
پاکستان میں عدلیہ جرمانے کرنے میں کافی کنجوس واقع ہو رہی ہے۔ ہتک عزت کے مقدمات کے اول تو فیصلے کیے ہی نہیں جاتے۔ اگر کیے بھی جاتے ہیں تو معمولی جرمانے کیے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں لوگ ہتک عزت کے مقدمات سے بھی کوئی خاص خوفزدہ نہیں، اسی لیے لوگوں کی پگڑیاں اور عزتیں اچھالنے کا ایک سلسلہ جاری ہے۔
کسی کو قانون کا کوئی خوف ہی نہیں ہے۔ اگر ایک ہتک عزت کے مقدمہ میں مثالی جرمانہ ہو جائے تو بہتان تراش لوگ ڈر جائیں گے۔ آپ دیکھیں حال ہی میں امریکا میں ہتک عزت کے مقدمات میں کتنے بڑے بڑے جرمانے کیے گئے ہیں۔ کیا پاکستان میں بھاری جرمانوں کی کوئی مثال موجود ہے۔ پاکستان میں ہتک عزت پرجرمانہ کرنے میں کنجوسی برتی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے ہتک عزت عام ہو گئی ہے۔
لوگوں کے خلاف جھوٹے مقدمات کا رحجان بھی اسی لیے بڑھ گیا ہے کہ عدالتیں جھوٹے مقدمات میں کوئی سزا نہیں دیتی ہیں۔ یہ بات عام ہے کہ مقدمہ کر دو دیکھا جائے گا۔ آپ کہیں گے یہ جھوٹا مقدمہ ہے تو کہا جاتا ہے کہ جھوٹا ثابت ہونے میں کئی سال لگ جائیں گے تب تک ہمارا مقصد حل ہو گیا ہوگا۔ ایک جھوٹا مقدمہ جب آپ کو سپریم کورٹ تک لڑنا پڑ جائے اور پھر اگر جھوٹا ثابت بھی ہو جائے تو کس کام کا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں جھوٹے مقدمات میں بھی جرمانوں کی مالیت بڑھانی چاہیے۔
جیسے درخواست جھوٹی ثابت ہو جائے تو مثالی جرمانہ ہونا چاہیے۔ایک سوال ہے کہ جن صاحب نے یہ انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست دی ہے، ان کو کیا جرمانہ ہونا چاہیے؟ اگر میں عدالتی روایت کو سامنے رکھوں تو دس لاکھ روپے جرمانہ بڑی بات ہوگی۔ لیکن معاملے کی نزاکت ، حساسیت ، ٹائمنگ اور سنگینی کو دیکھا جائے تو دس لاکھ کچھ بھی نہیں ہیں بلکہ ایک مذاق ہے، اس معاملے میں مثالی جرمانہ ہونا چاہیے۔ اگر درخواست گزار کے پاس ثبوت نہیں ہیں تو اس کی ساری جائیداد ضبط ہونی چاہیے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب عدالتیں جرمانہ کرتی ہیں تو یہ کہہ دیتی ہیں کہ جرمانے کی رقم فلاں فلاحی ادارے کو دے دی جائے ۔حالانکہ جو بھی جرمانے کیے جائیں وہ پاکستان کے خزانے میں جانے چاہیے۔ فلاحی اداروں کا ان پر کیسے حق ہے؟ عدلیہ کو تمام جرمانے پاکستان کے قومی خزانے میں جمع کرانے کا حکم دینا چاہیے۔ جب ان مقدمات کی سماعت پر قوم کا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ پاکستان کے ٹیکس پیئرزکی رقم خرچ ہوتی ہے تو پھر جرمانہ بھی قومی خزانہ میں جانا چاہیے۔
پاکستان کی عدالتوں میں بہت فضول درخواستیں دائر کی جاتی ہیں۔ جن کا قانون اور آئین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ میں نے ایسی درخواستیں سننے کا رحجان بھی دیکھا ہے۔ ایک مثال ہے کہ کالا باغ ڈیم بنانے کا حکم دیا جائے۔ آپ بتائیں پاکستان کے کس قانون کے تحت کسی جج کے پاس کوئی بھی ڈیم بنانے کا حکم دینے کا اختیار ہے۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ یہ درخواست دائر بھی ہوئی اور محترم عدالت نے کالا باغ ڈیم بنانے کا حکم بھی دے دیا۔ اب سوال ہے کہ پھر عدالت نے کالا باغ ڈیم بنوایا کیوں نہیں؟ آپ ایسے حکم ہی کیوں دیتے ہیں جن پر عملدارآمد ممکن نہیں ہے۔
نظام انصاف کو اپنی جیوریسڈکشن میں رہنا چاہیے۔ ہم حکومتوں پر بہت تنقید کرتے ہیں۔ لیکن عام آدمی کو انصاف حکومت نے نہیں۔ نظام انصاف نے دینا ہے۔ نظام انصاف کے لیے بھی جزا اور سزا کے لیے قانون بنایا جائے تو ملک کا نظام ٹھیک ہو جائے گا۔
اب دیکھیں تحریک انصاف نے مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے پہلے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔ بعد میں سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ اب درخواست واپس لینے کی درخواست کر دی ہے۔ کیا یہ عدالتوں سے کھیلنے کے مترادف نہیں۔ چلو درخواست دائر کر دو بعد میں دیکھا جائے گا۔ اس رحجان کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ ڈر ہو کہ بعد میں واپس لینا مشکل ہوگا۔ تو لوگ سوچ سمجھ کر دائر کریں گے۔