عبداللہ عبداللہ قاتلانہ حملے میں بچ گئے

خوش قسمتی سے عبداللہ عبداللہ محفوظ رہے تاہم ان کے چھ ساتھی جاں بحق اور دو درجن کے لگ بھگ زخمی ہو گئے...


Editorial June 08, 2014
خوش قسمتی سے عبداللہ عبداللہ محفوظ رہے تاہم ان کے چھ ساتھی جاں بحق اور دو درجن کے لگ بھگ زخمی ہو گئے فوٹو؛ فائل

افغانستان کے دوسرے مرحلے کے صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ گزشتہ روز کابل میں خودکش حملے میں بال بال بچ گئے۔ واقعات کے مطابق ان کے قافلے پر خودکش حملہ اس وقت ہوا جب وہ کابل کے ایک ہوٹل میں ہونے والا انتخابی جلسہ ختم کرنے کے بعد واپس روانہ ہو رہے تھے۔ عبداللہ عبداللہ کے قافلے پر دو حملے کیے گئے ہیں۔

پہلا حملہ خودکش کار بم دھماکا تھا جب کہ دوسرا حملہ دستی بم کا تھا۔ یہ سنگین حملہ تھا، جس میں خوش قسمتی سے عبداللہ عبداللہ محفوظ رہے تاہم ان کے چھ ساتھی جاں بحق اور دو درجن کے لگ بھگ زخمی ہو گئے ہیں۔ عبداللہ عبداللہ نے حملے کے فوراً بعد ٹی وی پر آ کر اپنے حامیوں کو یقین دہانی کرائی کہ وہ صحیح سلامت ہیں۔ ابھی تک کسی گروپ نے اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی تاہم طالبان کئی مرتبہ اس انتخابی مہم کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔

افغانستان کے صدر حامد کرزئی اور دوسرے صدارتی امیدوار اشرف غنی نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے عبداللہ عبداللہ پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی پر زور مذمت کی ہے۔ افغانستان میں دوسرے مرحلے کا صدارتی الیکشن 14جون کو ہونا ہے۔ افغانستان کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ عبداللہ عبداللہ دوسرے مرحلے میں مطلوبہ 50 فیصد ووٹ حاصل کر کے صدارتی الیکشن میں کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ پہلے مرحلے میں انھوں نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔

پہلے مرحلے میں تین اہم ترین امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا تھا۔ ان میں عبداللہ عبداللہ، زلمے خلیل زاد اور اشرف غنی شامل تھے۔ دوسرے مرحلے میں صرف دو امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے جب کہ زلمے خلیل زاد میدان سے باہر ہو چکے ہیں۔ افغانستان میں نسلی و لسانی تقسیم خاصی گہری ہے۔ عبداللہ عبداللہ شمالی اتحاد کے حمایت یافتہ امیدوار ہیں اور وہ نسلاً تاجک ہیں۔ وہ امریکا کے لیے بھی بہت زیادہ قابل قبول نہیں ہیں کیونکہ شمالی اتحاد اور امریکا کے درمیان کبھی مثالی تعلقات نہیں رہے البتہ عبداللہ عبداللہ کو بھارت کے بہت زیادہ قریب سمجھا جاتا ہے۔

افغانستان کے انتخابات میں امریکی پالیسی کی ترجیح زلمے خلیل زاد تھے اور وہ توقعات کے مطابق ووٹ حاصل نہیں کر سکے اور صدارتی دوڑ سے باہر ہو چکے ہیں۔ ان کے بعد اشرف غنی ہیں۔ وہ کرزئی انتظامیہ میں وزیر خزانہ ہیں لیکن ان کی کامیابی کے امکانات بھی کم ہی نظر آتے ہیں۔ افغانستان کے ان انتخابات میں پختون تاجک کشمکش خاصی گہری ہے۔ افغانستان کی ازبک اور دیگر قومیتیں عبداللہ عبداللہ کی حمایت کر رہی ہیں۔ ان تہہ در تہہ معاملات کو دیکھا جائے تو عبداللہ عبداللہ پر خودکش حملے کے ڈانڈے کہیں اور بھی ملائے جا سکتے ہیں بہرحال پاکستان کو افغانستان کی صورت حال پر گہری نظر رکھنی چاہیے کیونکہ عبداللہ عبداللہ کے برسراقتدار آنے کے بعد افغانستان کی پالیسی میں خاصی تبدیلیاں آنے کا امکان موجود ہے۔

گزشتہ روز سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے زیراہتمام افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان اور خطے میں قیام امن کے لیے پاکستان کے لیے پالیسی آپشنز کے عنوان سے عوامی سماعت انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز کے لائبریری ہال میں جو اجلاس ہوا اور جس کی صدارت چیئرمین قائمہ کمیٹی امور خارجہ حاجی عدیل نے کی، اس میں ڈاکٹر ملیحہ لودھی، جنرل (ر) اسد درانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد کسی بھی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہے۔ افغانستان میں خانہ جنگی کے امکانات بھی ہیں، اگرچہ طالبان اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ دوبارہ افغانستان پر قبضہ کر سکیں لیکن وہ طویل عرصہ تک مزاحمت جاری رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ بروقت انتباہ ہے۔

حکومت کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ اگر عبداللہ عبداللہ خودکش حملے میں مارے جاتے تو افغانستان میں بدترین خانہ جنگی پھوٹ پڑنے کے امکانات موجود تھے۔ ایسی صورت حال میں افغانستان کی تقسیم کا خطرہ بھی موجود تھا۔ بہرحال عبداللہ عبداللہ پر ہونے والے حملے کو آخری نہیں سمجھا جاتا، ایسے حملے مزید ہو سکتے ہیں۔ افغانستان میں انتشار کے اثرات پاکستان پر مرتب ہوتے ہیں، پاکستان کی حکومت کو اس حوالے سے پیش بندی کرنی چاہیے۔ عبداللہ عبداللہ کے صدر بننے کے بعد افغانستان کی جو پالیسی ہو گی، پاکستان کو ان معاملات پر بھی غور کرنا چاہیے۔ عبداللہ عبداللہ کے صدر بننے کے بعد افغانستان میں بھارت کے اثرات پہلے سے بھی زیادہ بڑھیں گے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ روسی فیڈریشن اور افغانستان کے تعلقات میں بھی بہتری آئے کیونکہ جب افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مزاحمت ہو رہی تھی تو اس وقت بھی شمالی اتحاد کے سابق سوویت یونین کے ساتھ روابط موجود تھے۔ بعد میں جب طالبان نے کابل پر اپنا اقتدار قائم کیا تو اس وقت شمالی اتحاد کی قیادت احمد شاہ مسعود کر رہے تھے۔ انھوں نے طالبان کی زبردست مزاحمت کی تھی۔ ان کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا تھا کہ ان کے روس کے ساتھ اچھے تعلقات موجود ہیں۔ احمد شاہ مسعود بھی خودکش حملے میں مارے گئے تھے لیکن شمالی اتحاد کی پالیسی میں کوئی بہت زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ شمالی اتحاد اب بھی افغانستان میں طالبان کے خلاف ایک بڑی فورس کی صورت میں موجود ہے۔

پاکستان کے پالیسی سازوں کو ان تمام امور پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ افغانستان پاکستان کے لیے ہمیشہ مسائل کا باعث رہا ہے۔ اب پاکستان کو زمینی حقائق کے مطابق اپنی پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔ افغانستان میں خواہ کوئی بھی گروپ برسراقتدار آئے پاکستان کو اپنے مفادات سامنے رکھ کر اس سے معاملات طے کرنے چاہئیں۔ افغان مہاجرین کا مسئلہ اب تک لٹکا ہوا ہے، اسی طرح ڈیورنڈ لائن کا معاملہ بھی لٹکتا چلا آ رہا ہے۔ جب تک ان معاملات کو حل نہیں کیا جاتا، پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بہتری آنے کے امکانات نہیں ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں