بات ’’لکھنی‘‘ تیری محفل میں کبھی ایسی تو نہ تھی
ایک مست فقیر جو بد زبان تھا اور اپنی اسی بد زبانی کی وجہ سے کامیاب سیاستدان بھی بن گیا ...
قلم کی عمر مارشل لاؤں میں گزری۔ کبھی سخت مارشل لاء اور کبھی نرم مارشل لاء لیکن ہر صورت میں مارشل لاء جب دل ہمت کرے وہ سخت ہو جائے اور جب دل کڑا کر لیں تو نرم دکھائی دے لیکن ہر حال میں مارشل لاء ہی مارشل لاء کبھی کڑکڑی وردی اور بغل میں پالش شدہ چمکتا دمکتا ڈنڈا۔ زمین پر بھاری کالے بوٹوں کی دھمک اور گونجدار آواز کے پردے میں نہ جانے کون بولتا ہوا۔ یہ کسی بے رحم زمانے کی ایک ہلکی سی جھلک ہے لیکن وردی والے اپنی جگہ مگر خاکی پوش بھی کسی سے کم نہیں۔ بات موقع ملنے کی ہے۔
جیسے تیسے ایک حکمران لندن کی آرائش گاہوں سے سجا سجایا مارشل لاؤں کی جگہ آ گیا۔ پہلے تو اس نے عوام کے نام پر حکومت کی اور پھر عوام کا نام دہرانا شروع کر دیا لیکن جب کچھ لوگ عوام کے خلاف چلنے لگے تو ظاہر ہے وہ کیسے برداشت کیے جاتے۔ ان ہی عوام کے نام پر تو اقتدار کا ایوان کھڑا تھا۔ عوام دشمنوں کے ساتھ ایسا سلوک ہوا کہ مارشل لاء منہ چھپانے لگا۔
گستاخ لوگوں کے لیے خصوصی دور افتادہ مقامات پر پہاڑوں میں عقوبت خانے بنائے گئے اور وہاں چند گنہ گاروں کو بند کر دیا گیا اور میدانی علاقوں کی خبر بھی لی جاتی رہی لیکن یہ ذرا سخت انداز میں اس سزا کے لیے ایک صاحب کو مقرر کر دیا گیا جس کے نام پر سب کچھ ہوتا رہا۔ مشہور زمانہ کتاب دی پرنس میں میکاولی نے ایک حکمران کی چالبازیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک بادشاہ کو پتہ چلا کہ فلاں صوبے میں کچھ ایسے گستاخ لوگ جمع ہو گئے ہیں جو بغاوت کرنے والے ہیں۔
اس نے ایک گورنر کو غیر معمولی اختیارات دے کر ان کی سرکوبی کے لیے بھیج دیا جس نے شرپسندوں کو تہس نہس کر دیا اور بادشاہ کو خبر کر دی کہ جہاں پناہ اب سب ٹھیک ہو گیا ہے تشریف لایئے لیکن گورنر کے اندازے درست نہ نکلے۔ بادشاہ اس مظلوم صوبے کے دورے پر آیا تو اس نے لوگوں سے گورنر کے مظالم کی داستانیں سنیں اور ان پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ پھر اس نے گورنر کو بلایا اور اسے عوام کے سامنے کھڑا کر دیا اور پھر کہا کہ کیا یہی آپ کا مجرم ہے۔ سب نے بیک آواز کہا ملک معظم یہی وہ ظالم ہے جس نے ہمیں تباہ کر دیا۔ بادشاہ نے اعلان کیا کہ اس ظالم کو اس کے مظالم کی سزا دی جا رہی ہے اور یہ سب آپ کے سامنے ہو گا چنانچہ یہ سزا دے دی گئی اور گورنر کو معزول کر دیا گیا۔
رعایا خوشی سے جھوم اٹھے اور اس سے پہلے کہ معزول گورنر کو گھر بھیج دیا جاتا اسے آرام کے لیے چھٹی دی گئی اور پھر ایک دوسری مہم پر روانہ کر دیا گیا اور بادشاہ کچھ اور شرپسندوں کی سرکوبی کی خبریں بھی سننے لگا لیکن کسی دوسری مہم پر روانہ کرنے سے پہلے بادشاہ نے اس سنگدل گورنر کو ایک اور مہم بھی سر کرنے کا حکم دیا۔
ایک مست فقیر جو بد زبان تھا اور اپنی اسی بد زبانی کی وجہ سے کامیاب سیاستدان بھی بن گیا اسے موت کے گھاٹ اتار کر اس کا ماتم کیا گیا۔ اس دور میں بھی بہت کچھ ہوتا رہا جو تاریخ کا حصہ ہے اور ایک ایسا قصہ جس پر تعجب ہے کہ اختلاف بھی پایا جاتا ہے کہ اس نے اپنے پیچھے ایک ایسا بڑا گروہ پیدا کر دیا جس نے تاریخ کو بھی معاف نہیں کیا اور یہ طاقت ور لوگوں کا گروہ تھا جس کی پالیسی وہی تھی کہ مد مقابل کو ختم کر دو اور ایسے لوگ ختم بھی کر دیے گئے۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ قلم لرزتا رہا لیکن ایسے واقعے شاذ ہی سامنے آئے کہ قلم جھوم اٹھتا۔ اسی دور میں ایسے ایڈیٹروں سے بھی پالا پڑا جو آپ کی تحریر کی تعریف کرتے مگر اس کی اشاعت نہ کرتے یہ کہہ کر کہ حالات ذرا بہتر ہوتے ہیں تو سب چھپ جائیگا۔ قلم میں ایک لرزش سی اٹھی لیکن آئندہ چھپ جانے کے کسی وعدے پر چپ ہو گئی۔ ایسے ہی کئی خوشگوار وعدوں پر قوم کے ساتھ قوم کے قلمکار بھی خوش ہوتے رہے لیکن کب تک جب حکمران کو اندازہ ہوا کہ بات بڑھ رہی ہے تو کئی موضوعات پر قلم کو خاموش کر دیا گیا کہ بقول شاعر اب اس قلم سے شلوار میں ازار بند ہی ڈالا کرو یہی بہت ہے۔
ان حکمرانی پابندیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکمرانوں سے بچ کر نکلنے کا ہنر کسی نہ کسی حد تک سیکھ لیا لیکن بعض حالات ایسے بھی پیش آ گئے کہ حکمران خود ہی چپ ہو گئے اور ان کی رعایا ان پر بازی لے گئی، تاریخ میں ایسے تماشے ہوتے ہی رہتے ہیں کہ زمانے کے فتنہ و فساد سے بچ کر صوفی لوگ شہروں کو چھوڑ کر جنگلوں اور ویرانوں میں نکل گئے جہاں انھوں نے اپنے آپ کو غور و فکر میں گم کر دیا۔ حضرت امام غزالی تو طویل عرصے تک غائب ہو گئے۔ ان کی تصانیف میں امام کی گوشہ نشینی کے ثمرات کا ذکر ملتا ہے۔ اگر آپ نے کبھی امام کی تحریروں کا مطالعہ کیا ہے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اگر وہ شہروں کے فتنہ و فساد سے لڑتے بھڑتے رہتے تو ہم کیسی نعمتوں سے محروم رہ جاتے۔
ان ہی صوفیوں نے ہمیں بتایا ہے کہ ہر کام میں کوئی حکمت ہوتی ہے اور صوفیاء کی دور دراز کے علاقوں میں گوشہ نشینی کی حکمت سے تصوف کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور ان ہی کتابوں سے ہمیں یہ حوصلہ بھی ملتا ہے کہ اگر قلم کبھی خاموش رہے اور زمانے کے فتنہ و فساد میں دب جائے تو کسی اچھے وقت کے انتظار میں چپ ہو جاؤ۔ آپ نے وہ مشہور بات تو ضرور سنی ہو گی کہ ایک بادشاہ نے وزیر سے فرمائش کی کہ کوئی ایسی بات بتاؤ کہ میں سنوں تو خوش ہو جاؤں مطمئن ہو جاؤں۔
وزیر نے دوسرے دن کا وعدہ کیا اور پھر بتایا کہ ''آج کا وقت بھی گزر جائے گا'' بادشاہ نے انگوٹھی پر یہ فقرہ درج کرا لیا تو جناب میں بھی اپنے قلم سے یہ عرض کرتا رہتا ہوں کہ میرے رفیق کار فکر نہ کرو اگر کل کا وقت گزر گیا ہے تو یہ آج کا وقت بھی گزر جائے گا۔ تم بھی کوشش کرو کہ کسی صوفی کی پیروی میں شہر سے باہر نکل جاؤ اور سر چھپا لو کیونکہ کچھ وقت ایسے ہوتے ہیں جو بہرحال گزر ہی جاتے ہیں۔ یہ وقت بھی بادشاہ کے اس دانشمند وزیر کی نصیحت کے مطابق گزر ہی جائیگا۔
بات مارشل لاؤں سے شروع ہوئی تھی جو فوجی لگایا کرتے ہیں اور کبھی نرم ہوتے ہیں اور کبھی سخت۔ ہم نے چونکہ اپنی تحریر کا زیادہ حصہ مارشل لاء کے سامنے گزار دیا ہے اب خاصی تربیت حاصل کر لی ہے اور قلم کی اس لرزش کو قابو کر لیتے ہیں۔ آج کی کسی بھی محفل میں بات کرنے کا سلیقہ تھوڑا ہمیں آ گیا ہے اگرچہ پھر بھی یہی کہیں گے کہ ''بات لکھنی تری محفل میں کبھی ایسی تو نہ تھی'' لیکن کوئی بات نہیں خدا سب کو اس عطا سے سب کے دلوں کو تسلی دے، سکون دے اور حالات کو برداشت کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آج ہر پاکستانی کی یہی دعا ہے اگرچہ پھر وہی عرض ہے کہ ''بات لکھنی تری محفل میں...''