جمہوریت کو خطرہ
جمہوریت کو خطرہ احتجاجی ریلیوں جلسے اور جلوسوں سے نہیں ہوسکتا، کسی بھی جمہوری نظام کے تحت ۔۔۔
اس وقت پاکستان کے اندر دو طرح کی تقسیم ہوچکی ہے۔ ایک طرف وہ حضرات اور جماعتیں ہیں جو جمہوریت کو لاحق خطرات کا شور مچا رہی ہیں کیونکہ ان کے نزدیک گذشتہ انتخابات کے دوران مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات کا مطالبہ اور اس احتجاجی ریلیاں ، جلسے اور جلوسوں کا انعقاد ملک میں انتشار پیدا کرنے کے مترادف ہے جس کے بے قابو ہونے کے نتیجے میں غیر جمہوری قوتوں کو ساری بساط لپیٹنے کا جواز مہیا ہوسکتا ہے جس سے جمہوریت ایک مرتبہ پھر پٹری سے اتر جائے گی۔
ظاہر ہے یہ خدشات گذشتہ انتخابات میں کامیاب ہونے والی سیاسی جماعتوں جن میں مسلم لیگ (ن) پیش پیش ہے وفاق اور صوبہ پنجاب میں حکومت بنائے بیٹھی ہے اُسے اور اس کی حلیف جماعتوںکو ہی لاحق ہوسکتے ہیں۔ دوسری طرف وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو گذشتہ انتخابات ہی کے نیتجے میں قائم ہونے والی قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے اندر خاصی تعداد میں موجود ہیں اس بات پر شور مچا رہی ہیں کہ ان کے نزدیک 11 مئی 2013 کے انتخابات مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر دھاندلیوں کا شکار ہوئے ۔ اس لیے ان مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات ضروری ہیں تاکہ آئندہ ایسا نہ ہو اور انتخابات کے نتیجے میں بننے والی آئندہ حکومتیں چاہے مرکز میں ہوں یا صوبوں میں صاف وشفاف طریقے سے معرض وجود میں آئیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ احتجاجی سیاسی جماعتوں کو ٹھیک ایک سال بعد یہ خیال کیوں آیا کہ احتجاج شروع کیا جائے اور اس احتجاج کا دائرہ بڑھا کر حکومت وقت کے لیے مشکلات پیدا کی جائیں جو اپنے تئیں ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں میگا پراجیکٹس پر کام شروع کر چکی ہے جن کے مکمل ہونے پر ملک ایک طرف تو اپنے موجودہ معاشی اور اقتصادی مسائل سے چھٹکارا حاصل کرلے گا اور دوسری طرف معجزانہ طور پر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں بھی کھڑا ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان احتجاج کرنیوالوں کے ایجنڈے کو سمجھ سے بالاتر سمجھتے ہیں اور انھیں خدا کا واسطہ دے رہے ہیں کہ وہ پاکستان کو چلنے دیں اور اس کی ترقی کی راہ میں روڑے نہ اٹکائیں۔
اس کا جواب دوسری طرف سے اس طرح آرہا ہے کہ ان کا احتجاج جلسے ، جلوس اور ریلیاں نہ صرف آئین پاکستان کے تحت قانونی اور جائز ہیں بلکہ یہ سب کچھ تو جمہوریت کا حُسن ہے اس لحاظ سے وہ اقدامات جو احتجاجی پارٹیوں کی طرف سے اٹھائے جا رہے ہیں ان سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا۔ وہ لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر ان کے بڑھتے ہوئے احتجاجی ریلیوں جلسے جلوسوں کے باعث اگر وسط مدتی انتخابات بھی کرانے پڑیں تو یہ ایک آئینی قدم ہوگا جس سے جمہوریت مضبوط ہوگی اگر کسی کو خطرہ ہے تو وہ حکومت وقت کو ہوسکتا ہے جو 11 مئی 2013 کے انتخابات کے دوران مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات کرانے سے گریزاں ہے۔ ان حلقوں کے مطابق حکومت کا یہ گریز شکوک وشبہات پیدا کررہا ہے اور قوم ایک مرتبہ پھر مخمصے کا شکار نظر آتی ہے۔
جمہوریت کو خطرہ احتجاجی ریلیوں جلسے اور جلوسوں سے نہیں ہوسکتا، کسی بھی جمہوری نظام کے تحت چلنے والی ریاست کے اندر یہ معمول کی باتیں ہوتی ہیں۔ جمہوریت کو اگر خطرہ ہے تو وہ پاکستان کی ریاست کے خلاف منظم اور ظالمانہ دہشت گردی کو قابو میں لانے اور پھر اُسے ختم کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں قومی اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ جمہوریت کو خطرہ اس افراتفری سے ہے جو اس وقت ملک کے اندر سرائیت کرچکی ہے۔ ریاست پاکستان مسلسل بٹتی چلی جا رہی ہے وہ جو کہتے ہیں کہ صرف انصاف ہونا کافی نہیں ہے بلکہ انصاف کا ہونا اور پھر اس کا نظر آنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ آدمی اس وقت مطمئن ہوتا ہے جب اُسے انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آئے ۔ ظاہر ہے جب انصاف ہوگا تو ہوتا ہوا نظر بھی آئے گا۔
اس وقت جو کچھ نظر آرہا ہے وہ اردگرد پھیلی ہوئی دہشت و بربریت ، بد نظمی، ظلم و جہالت وحشت اور بے بسی، بے راہ روی ، مذہبی منافرت اور فرقہ واریت، لسانی اور صوبائی چپقلش، بد معاشی اور ذاتی رعونت اور ہر سطح اور مقام پر ایک نا ختم ہونے والا انتشار اور دن بدن بڑھتی ہوئی لاقانونیت ہے۔ جمہوریت کو اصل خطرہ ان چیزوں سے ہے جن کا سامنا صرف حکومت نے نہیں بلکہ سب نے مل جل کرکرنا ہے۔ جس چیز کے کرنے کی اس وقت ضرورت ہے اس کے لیے بدقسمتی سے ابھی تک نیت نہیں باندھی گئی ۔ جن لوگوں نے اور جن حلقوں نے اس سلسلے میں باہمی اعتماد اتفاق اور اتحاد کے ساتھ قوم کو ایک راستے پر لگانا ہے ۔
جس کے آگے منزل واضح ہو وہ ابھی تک فیصلہ نہیں کر پائے کہ کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے ۔ حالیہ دہشت گردی کی وارداتوں میں شدت آنے کے باوجود بھی اگر ہم فیصلہ نہیں کرپا رہے کہ ہم نے کرنا کیا ہے تو پھر معاملات کیسے بہتر ہو سکتے ہیں۔ہم کیوں اس بات کو بھول رہے ہیں کہ دہشت گردی کی وارداتوں کا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ دشمن سرحدیں پار کر چکا ہے اس سے نبٹنا اب سب سے بڑھ کر ترجیح ہونی چاہیے۔ یہ دشمن سرحد پار والا دشمن نہیں ہے جو اپنی شکل و صورت ، وردی کے رنگ، توپو ں کی گھن گرج اور نعروں کی گونج سے پہچانا جاتا ہے، یہ اندر کا دشمن ہمارے جیسا ہی ہے اس کی شکل وصورت ہماری شکل و صورت سے ملتی ہے اس کا رنگ اس کی زبان اس کا رکھ رکھاؤ اس کی روایات ہماری روایات جیسی ہی ہیں یہ دشمن ہماری زبان ہی بولتا ہے۔ ہماری مسجدوں میں ہی نماز پڑھتا ہے۔
ظاہر ہے یہ خدشات گذشتہ انتخابات میں کامیاب ہونے والی سیاسی جماعتوں جن میں مسلم لیگ (ن) پیش پیش ہے وفاق اور صوبہ پنجاب میں حکومت بنائے بیٹھی ہے اُسے اور اس کی حلیف جماعتوںکو ہی لاحق ہوسکتے ہیں۔ دوسری طرف وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو گذشتہ انتخابات ہی کے نیتجے میں قائم ہونے والی قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے اندر خاصی تعداد میں موجود ہیں اس بات پر شور مچا رہی ہیں کہ ان کے نزدیک 11 مئی 2013 کے انتخابات مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر دھاندلیوں کا شکار ہوئے ۔ اس لیے ان مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات ضروری ہیں تاکہ آئندہ ایسا نہ ہو اور انتخابات کے نتیجے میں بننے والی آئندہ حکومتیں چاہے مرکز میں ہوں یا صوبوں میں صاف وشفاف طریقے سے معرض وجود میں آئیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ احتجاجی سیاسی جماعتوں کو ٹھیک ایک سال بعد یہ خیال کیوں آیا کہ احتجاج شروع کیا جائے اور اس احتجاج کا دائرہ بڑھا کر حکومت وقت کے لیے مشکلات پیدا کی جائیں جو اپنے تئیں ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں میگا پراجیکٹس پر کام شروع کر چکی ہے جن کے مکمل ہونے پر ملک ایک طرف تو اپنے موجودہ معاشی اور اقتصادی مسائل سے چھٹکارا حاصل کرلے گا اور دوسری طرف معجزانہ طور پر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں بھی کھڑا ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان احتجاج کرنیوالوں کے ایجنڈے کو سمجھ سے بالاتر سمجھتے ہیں اور انھیں خدا کا واسطہ دے رہے ہیں کہ وہ پاکستان کو چلنے دیں اور اس کی ترقی کی راہ میں روڑے نہ اٹکائیں۔
اس کا جواب دوسری طرف سے اس طرح آرہا ہے کہ ان کا احتجاج جلسے ، جلوس اور ریلیاں نہ صرف آئین پاکستان کے تحت قانونی اور جائز ہیں بلکہ یہ سب کچھ تو جمہوریت کا حُسن ہے اس لحاظ سے وہ اقدامات جو احتجاجی پارٹیوں کی طرف سے اٹھائے جا رہے ہیں ان سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا۔ وہ لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر ان کے بڑھتے ہوئے احتجاجی ریلیوں جلسے جلوسوں کے باعث اگر وسط مدتی انتخابات بھی کرانے پڑیں تو یہ ایک آئینی قدم ہوگا جس سے جمہوریت مضبوط ہوگی اگر کسی کو خطرہ ہے تو وہ حکومت وقت کو ہوسکتا ہے جو 11 مئی 2013 کے انتخابات کے دوران مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات کرانے سے گریزاں ہے۔ ان حلقوں کے مطابق حکومت کا یہ گریز شکوک وشبہات پیدا کررہا ہے اور قوم ایک مرتبہ پھر مخمصے کا شکار نظر آتی ہے۔
جمہوریت کو خطرہ احتجاجی ریلیوں جلسے اور جلوسوں سے نہیں ہوسکتا، کسی بھی جمہوری نظام کے تحت چلنے والی ریاست کے اندر یہ معمول کی باتیں ہوتی ہیں۔ جمہوریت کو اگر خطرہ ہے تو وہ پاکستان کی ریاست کے خلاف منظم اور ظالمانہ دہشت گردی کو قابو میں لانے اور پھر اُسے ختم کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں قومی اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ جمہوریت کو خطرہ اس افراتفری سے ہے جو اس وقت ملک کے اندر سرائیت کرچکی ہے۔ ریاست پاکستان مسلسل بٹتی چلی جا رہی ہے وہ جو کہتے ہیں کہ صرف انصاف ہونا کافی نہیں ہے بلکہ انصاف کا ہونا اور پھر اس کا نظر آنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ آدمی اس وقت مطمئن ہوتا ہے جب اُسے انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آئے ۔ ظاہر ہے جب انصاف ہوگا تو ہوتا ہوا نظر بھی آئے گا۔
اس وقت جو کچھ نظر آرہا ہے وہ اردگرد پھیلی ہوئی دہشت و بربریت ، بد نظمی، ظلم و جہالت وحشت اور بے بسی، بے راہ روی ، مذہبی منافرت اور فرقہ واریت، لسانی اور صوبائی چپقلش، بد معاشی اور ذاتی رعونت اور ہر سطح اور مقام پر ایک نا ختم ہونے والا انتشار اور دن بدن بڑھتی ہوئی لاقانونیت ہے۔ جمہوریت کو اصل خطرہ ان چیزوں سے ہے جن کا سامنا صرف حکومت نے نہیں بلکہ سب نے مل جل کرکرنا ہے۔ جس چیز کے کرنے کی اس وقت ضرورت ہے اس کے لیے بدقسمتی سے ابھی تک نیت نہیں باندھی گئی ۔ جن لوگوں نے اور جن حلقوں نے اس سلسلے میں باہمی اعتماد اتفاق اور اتحاد کے ساتھ قوم کو ایک راستے پر لگانا ہے ۔
جس کے آگے منزل واضح ہو وہ ابھی تک فیصلہ نہیں کر پائے کہ کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے ۔ حالیہ دہشت گردی کی وارداتوں میں شدت آنے کے باوجود بھی اگر ہم فیصلہ نہیں کرپا رہے کہ ہم نے کرنا کیا ہے تو پھر معاملات کیسے بہتر ہو سکتے ہیں۔ہم کیوں اس بات کو بھول رہے ہیں کہ دہشت گردی کی وارداتوں کا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ دشمن سرحدیں پار کر چکا ہے اس سے نبٹنا اب سب سے بڑھ کر ترجیح ہونی چاہیے۔ یہ دشمن سرحد پار والا دشمن نہیں ہے جو اپنی شکل و صورت ، وردی کے رنگ، توپو ں کی گھن گرج اور نعروں کی گونج سے پہچانا جاتا ہے، یہ اندر کا دشمن ہمارے جیسا ہی ہے اس کی شکل وصورت ہماری شکل و صورت سے ملتی ہے اس کا رنگ اس کی زبان اس کا رکھ رکھاؤ اس کی روایات ہماری روایات جیسی ہی ہیں یہ دشمن ہماری زبان ہی بولتا ہے۔ ہماری مسجدوں میں ہی نماز پڑھتا ہے۔