آبی آلودگی سے سبزیاں اور پھل بھی بیماری پھیلانے لگے
پاکستان ان پانچ ممالک میں شامل ہے جہاں بڑے پیمانے پر شہروں اورصنعتوں کا کیمیکل شدہ پانی زراعت میں استعمال ہو رہا ہے
ویسے تو مملکت پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے لیکن ناقص پالیسیوں کے باعث آج ہم گندم اور چینی جیسی بنیادی جنس درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔
اس صورت حال کے پیش نظر ہم غذائی تحفظ و غذائی خود کفالت کی منزل پاسکتے ہیں؟ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ اکثر ترقی پذیر ممالک نے بھی غذائی تحفظ و خود کفالت کے حوالے سے تیاریاں کر رکھی ہیں۔ ان ممالک میں اس مقصد کے لیے زیادہ سے زیادہ پیداواری صلاحیت حاصل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے لیکن ہمارے ہاں اس قسم کی کوششیں نظر نہیں آ رہیں۔
اداروں کی سطح پر منصوبہ بندیاں توبہت سی ہوتی ہیں لیکن ان پرعمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ایک شخص سرکاری ملازمت کے حصول کے لیے ہرجائز و ناجائز حربہ استعمال کرتا ہے لیکن ملازمت ملنے کے بعد اپنے فرائض سے پہلو تہی برتنااپنا فریضہ بھی سمجھتا ہے۔
ایسے میں کیوں کر بنیادی مسائل کاخاتمہ اورعوام کوزندگی کی بنیادی سہولیات اور آسانیاں مل سکتی ہیں۔ آج کل ہم ایسے ہی ایک خطرناک مسئلے سے دوچار ہیں، یعنی حفظان صحت کے اصولوں کے برعکس زہرآلود پانی سے سبزیوں اورپھلوں کی کاشت۔ باالفاظ دیگر ہمیں ناقص اورغیرمعیاری غذاکا سامناہے ،کیوں کہ اب لوگ زیادہ ترسبزی خوری کے باوجود بیماریوں کاشکارہونے لگے ہیں۔
اس ضمن میں حالیہ ایک رپورٹ میں انکشاف ہواہے کہ پاکستان ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو بڑے پیمانے پرشہروں اورصنعتوں کاکیمیکل شدہ پانی زراعت میں استعمال کر رہا ہے۔ ان میں پیاز، بینگن، پالک، پودینہ، بھنڈی، آلو، شلجم، گوبھی، کدو، کریلا، توری، کچالو، گاجر، مولی، ٹماٹر جب کہ فصلوں میںگندم، کماد اور مکئی بطورخاص شامل ہیں۔
اسی طرح پینے کا پانی بڑے شہروں میں بھی صاف نہیں ملتا، اس میں بھی سنکھیا اورآرسینک زہرکی آمیزش اورسیوریج کی ملاوٹ کے ثبوت ملے ہیں۔ شاید انہی وجوہات کی بنا پرپاکستان میں گردوں کے مریضوں کی تعداد تقریباً دوکروڑ، کینسر کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑسترلاکھ، ہیپاٹائٹس میں مبتلا ڈھائی کروڑ اوردل کی بیماریوں میں مبتلاافرادکی تعداد چار کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔
معدے، سینے، ہڈیوںکے امراض، تپ دق، شوگر، بلڈ پریشر اوردماغی امراض میں مبتلا افرادکی تعدادکا یہاں ذکراس لیے نہیں کیاگیاکہ ہرتیسرا، چوتھا، پانچواں شخص شوگر، بلڈپریشر اور جوڑوں کے درد، بینائی اور سماعت میں کمی کا مریض بن چکا ہے۔ گویا فوڈ اتھارٹی اورمتعلقہ انتظامی اداروں کی لاپرواہی سے معاملات اس قدر بے قابوہوتے جا رہے ہیں کہ ہرگھرکے دروازے پرکوئی نہ کوئی موذی بیماری دستک دے رہی ہے۔
کیا بازارمیں جگہ جگہ بکنے والے برائلرگوشت کی کوالٹی اورخوراک کو چیک کرنا فوڈ اتھارٹی کی ذمہ داری نہیں؟ کولڈ ڈرنکس جسے ہرچھوٹا بڑا شوق سے پیتا ہے بلکہ مہمانوں کی خاطر مدارت کے نام پر انہیں پلایاجاتا ہے، اگر اس میں پیسٹی سائیڈ یعنی کھاد اورکوئی زہریلاکیمیکل ڈالاجا رہا ہے تو ایسی کولڈ ڈرنکس بنانے والی فیکٹریوںکوبندکیوں نہیں کردیا جاتا؟ زہریلے کیمیکل ملے ڈبہ بند اورکھلے دودھ کی فروخت کی روک تھام کیوں نہیں کی جاتی؟
سیوریج ملے اورفیکٹریوں کے آلودہ پانی سے سبزیاں اگانے پر پابندی لگانی چاہیے۔ نہروں اوردریاؤں میں زہریلا پانی صاف کیے بغیر نہ ڈالا جائے، کیوں کہ یہ وہ عوامل ہیں جن کے سبب آج ایک عام پاکستانی جوفخریہ خودکوسبزی خورکہلاتاہے وہ مختلف قسم کی بیماریوں کے شکنجے میں جکڑتا جا رہا ہے۔
اسی صورت حال کی بازگشت خیبرپختون خوا کے سابقہ ایوان میں بھی سنائی دی جب صوبائی حکومت کی جانب سے سبزیوں اور پھلوں کی کاشت کے لیے آلودہ اور مضر صحت پانی کے استعمال کا اسمبلی میں اعتراف کیاگیا۔ اس ضمن میں گزشتہ صوبائی اسمبلی میں ایم ایم اے سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن ریحانہ اسماعیل نے توجہ دلاؤنوٹس پیش کرتے ہوئے کہا کہ پشاوراورگرد و نواح میں موسمی سبزیوں اور پھلوں کے باغات کو سیراب کرنے کے لیے آلودہ اورمضرصحت نہری اورندی نالیوں کاپانی استعمال کیا جاتا ہے، جس کے باعث سنگین نوعیت کی جلدی اوردیگر بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔
مختلف لیبارٹریوں کی رپورٹس میں واضح کیاگیا ہے کہ صوبہ کے بیشتر شہروں اورخصوصاً پشاور میں سبزیاں 90 فی صدآلودہ اور مضرصحت ہیں، جس پر خاتون رکن کوجواب دیتے ہوئے سابق صوبائی وزیر برائے سماجی بہبود ہشام انعام اللہ نے کہا کہ یہ ہم سب کے لیے خطرناک صورت حال ہے۔
ان کے مطابق حکام بالا نے اس پرتوجہ دی ہے، مختلف اضلاع میں ٹیسٹ کیے گئے جہاں مضرصحت پانی کا استعمال ہو رہا ہے جس کی روک تھام کے لیے محکمہ زراعت نے پالیسی مرتب کرلی ہے۔ اس وقت ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے سب محکمے مل کر مشترکہ حکمت عملی بنارہے ہیں، جس پرعمل درآمدکرنے سے اس خطرناک صورت حال پر جلد قابو پایا جائے گا۔
جامعہ پشاوراورامریکہ کی ایک یونی ورسٹی نے وادی سوات اور وادی پشاورمیں دریاؤں اور پینے کے پانی کا تحقیقی اورتجزیاتی کام مکمل کرکے نتائج مرتب کر لیے جو عملی اقدامات کے لیے حکومت کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ علوم ماحولیات کی مایہ نازمحقق اورایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹربشریٰ خان کی زیرنگرانی آبی آلودگی کے اس تحقیقی اورتجزیاتی منصوبے میں پروفیسر ڈاکٹرحزب اللہ خان اور زرعی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹرمحمد اسحاق میاں بھی بطورمعاونین شامل رہے۔
ڈاکٹربشریٰ خان کا تعلق ضلع صوابی کے ایک تاریخی علم دوست خاندان سے ہے، انہوں نے پرڈویونی ورسٹی امریکہ سے علوم ماحولیات میں فل برائٹ سکالرشپ پر ڈاکٹریٹ کے ساتھ ساتھ مشی گن اسٹیٹ یونی ورسٹی اورپرڈویونی ورسٹی سے دومرتبہ پوسٹ ڈاکٹریٹ کااعزازحاصل کیا ہے۔
اسی طرح انہیں سال 2016ء میں اعلیٰ تعلیمی کمیش پاکستان کی طرف سے بیسٹ ٹیچرایوارڈ بھی دیاگیا۔ ڈاکٹر بشریٰ خان کی زیرنگرانی شعبہ انوائرمینٹل سائنسزکے دس ریسرچ سکالرز نے پی ایچ ڈی کی تحقیق جب کہ چھ ایم فل کی تحقیق مکمل کرکے فارغ ہوچکے ہیں۔ انکے ایک سوپچاس ریسرچ پیپرز قومی اوربین الاقوامی سائنس جرنلز میں شائع ہوچکے ہیں۔ وہ واٹرسپلائی اینڈ سینی ٹیشن سروسز پشاورکے بورڈ آف ڈائریکٹرزکی ممبر اورخواتین ریسرچرزمیں صف اول کی ریسرچر ہیں۔
وادی سوات اور پشاور میں آبی آلودگی کے منصوبے کی تکمیل کے حوالے سے پراجیکٹ، اس پرعمل درآمد، تجزیاتی عمل اورنتائج کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے ڈاکٹربشریٰ خان نے بتایا: ''آبی آلودگی کی تحقیق کاکام اعلیٰ تعلیمی کمیشن پاکستان اورامریکہ کے یوایس ایڈ پروگرام کامشترکہ منصوبہ تھاجس پرپشاوریونی ورسٹی اور امریکہ کی پرڈو یونیورسٹی نے مشترکہ طورپرکام کیا۔ میں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ تین سالہ پراجیکٹ پرعمل درآمدکے دوران دریائے سوات کے پانی کا بحرین سے لے کرچارسدہ تک اوردریائے کابل کا ورسک سے لے کرخیرآباد اٹک تک سروے، ٹسٹنگ اورتجزیہ کیا۔
اگست 2020ء میں مکمل ہونے والی اس تحقیق اورتجزیاتی منصوبے کے آبی آلودگی کے حوالے سے نہایت حیران کن نتائج برآمد ہوئے۔ اس پراجیکٹ کے تعاون میں تین پی ایچ ڈی اورچارایم فل سکالرزنے اپنی تحقیق بھی مکمل کرلی، اس طرح معاون امریکی یونیورسٹی آف پرڈومیں دوسکالرز نے اس پراجیکٹ میں ڈاکٹریٹ کرلی۔''
ڈاکٹر بشریٰ نے مزید بتایاکہ پراجیکٹ کے تحت شعبہ انوائرمنٹل سائنسزکی دو پی ایچ ڈی سکالرصباشوکت اورنیلم اسد تحقیق کی غرض سے چھ ماہ کے لیے پرڈویونیورسٹی امریکہ جائیں گی۔
اس تحقیقاتی منصوبے کے تحت پرڈویونی ورسٹی کی ایک اورسکالر ربیکالکسن کی ڈاکٹریٹ کی تحقیق کی نگرانی میں انہوں نے معاون سپروائزرکی ذمہ داری انجام دی جوکسی پاکستانی پروفیسرکے لیے یہ اولین اعزازہے۔ انہوں نے بتایاکہ پراجیکٹ کے تحت شعبہ علوم ماحولیات پشاوریونی ورسٹی میں جدید ترین مشینری اورآلات سے لیس واٹرکوالٹی لیبز قائم کی گئیں جوخیبر پختون خواکی کسی یونی ورسٹی یا ادارے میں قائم ہونے والی پہلی لیبارٹری ہے۔ منصوبے میں شامل پرڈویونی ورسٹی کے تعاون سے آبی علوم کے امریکی ماہرین کی ٹیم نے جامعہ پشاور کادورہ کرکے یہاں پرمنصوبے میں شامل ریسرچ سکالرزطلبا و طالبات کوتربیت فراہم کی۔
ڈاکٹر بشریٰ خان نے کہاکہ دریائے سوات اوردریائے کابل میں آبی آلودگی کا سروے، تحقیق اورسائنٹیفک تجزیے سے حیران کن نتائج سامنے آئے۔ ان دریاؤں کے پانی، مچھلیوں اورکیچڑ کا موسم سرما اورگرما میں دومرتبہ تجزیہ کیاگیا اوریہ معلوم کرنے کی بھی کامیاب کوشش کی گئی کہ آیا موسمی تغیرکے اثرات آبی حیات پرکس حد تک اثر اندازہوئے۔
دریائے سوات کے بارہ اور دریائے کابل کے پندرہ مقامات پرپانی، مچھلیوں اور کیچڑ کے حاصل کردہ نمونوں کو سائنٹیفک تجزیے کے لیے امریکہ کی پرڈویونی ورسٹی کی لیبارٹری میں بھجوایاگیا جس کایہ حیران کن نتیجہ سامنے آیاکہ ان دونوں دریاؤں کاپانی نہ صرف انسانی بلکہ آبی حیات کے لیے بھی مضرصحت ہے۔ دونوں دریاؤں کے پانی میں شامل زہریلے مادے، پانی کی ترسیل یا آب پاشی کے سسٹم کے ذریعے سبزیوں، پھلوں اوردوسری غذائی اجناس میں منتقل ہوکر مختلف بیماریوں کاسبب بنتے ہیں۔ ان زہریلے مادوں میں کیڑے مارادویات اورتحلیل ہونے والے پلاسٹک کے مضراثرات سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔
انہوں نے بتایاکہ دریائے سوات میں مینگورہ، بریکوٹ، لنڈاکی اورچکدرہ کے مقام پر دریا کا پانی سب سے زیادہ آلودہ ہے جب کہ دریائے کابل میں مذکورہ زہریلے مواد اس سے بھی زیادہ پائے جائے ہیں۔ یہاں پر اکبرپورہ، پشتون گڑھی، ڈھیری زرداد، نوشہرہ اورجہانگیرہ کے مقامات سے لیے گئے نمونوں کے سائنٹیفک تجزیے سے معلوم ہواکہ یہاں پر زہریلے مادوں کی مقداردریائے سوات سے کہیں زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ زہریلے مادے پانی کی تہہ تک سرایت کرچکے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ تین سالہ عرصہ کے دوران اس پراجیکٹ پرشعبہ انوائرمنٹل سائنسز جامعہ پشاور اور پرڈو یونی ورسٹی میں بیک وقت اوریکساں عملدرآمد کیاگیا، منصوبے کے مالی اخراجات میں سے پندرہ فی صد پشاوریونی ورسٹی کے آفس آف دی ریسرچ اینوونیشن اینڈ کمرشلائزیشن کوبھی دیاگیا۔
ڈاکٹربشریٰ خان نے بتایاکہ سوات کے کاشت کاروں کے مطابق ان کے باغات اور فصلوں پر سال میں کم ازکم آٹھ مرتبہ کیڑے مار ادویات کاسپرے کیا جاتا ہے اورپھریہ زہریلے مواد بارشوں اورآب پاشی کے ذریعے دریامیں منتقل ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ دریائے سوات اوردریائے کابل کی مچھلیوں کاتجزیہ پرڈویونی ورسٹی کی لیبارٹریوں میںکیاگیاجس سے یہ نتیجہ بھی سامنے آیاکہ زہریلے مواد آبی حیات کی صحت اورجسامت کے ساتھ ساتھ ان کی جنس کو بھی بری طرح متاثرکررہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ یہ امر ایک المیہ سے کم نہیں کہ ہمارے خیبرپختون خوا میں پانی کا معیار جانچنے کاکوئی انتظام نہیں۔ پشاورمیں پینے کا پانی آلودہ ترین ہوچکاہے، اس میں تحلیل شدہ زہریلے پلاسٹک بھی شامل ہیں جوخیرآباد کے مقام پردریائے سندھ اوردریائے سوات میں شامل ہوجاتے ہیں اور یہی تحلیل ہونے والے زہریلے پلاسٹکی مواد کینسرکی مختلف اقسام کابھی سبب بن جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایاکہ آبی آلودگی کے منصوبے کے نتائج پر مشتمل رپورٹ متعلقہ حکومتی اداروں کو فراہم کی گئی ہے۔ ساتھ ہی پشاورکے ہسپتالوں اوردوسرے مقامات کے فضلات کوتوانائی میں تبدیل کرنے کے منصوبے پربھی تجزیاتی کام کا آغاز ہو چکا ہے، جس میں وہ خود بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہاکہ پشاورواٹر سپلائی اینڈ سینی ٹیشن سروسز کے بورڈ آف ڈائریکٹرزکے سامنے یہ بات رکھ دی گئی ہے کہ جس پانی سے آبی حیات کی بقاخطرے میں ہو وہ انسان کے لیے کس حدتک مضرصحت ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ روز افزوں بڑھتی ہوئی آبادی، ماحولیاتی، آبی آلودگی اور موسمی تغیرات موجودہ دورکاایک بڑاچیلنج ہے مگر اس کے باوجود تحقیقاتی اورتجزیاتی کام اوراس کے نتائج کے مطابق عملدرآمد کا فقدان ہے۔
جامعات کوتحقیق کے لیے جوگرانٹ دی جارہی تھی وہ اب ایک عرصہ سے برائے نام رہ گئی ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک کی جامعات اورتحقیقی اداروں سے مل کام کرنے کوبھی اہمیت نہیں دی جارہی لہٰذا ایسے میں مختلف امراض اورآفات سے ہماری اجتماعی معاشرتی زندگی کا ہر پہلو متاثر ہوگا جو موجودہ دورکا سب سے بڑا المیہ ہے۔
اس صورت حال پربات کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کاکہنا ہے کہ ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عام لوگوں کوآگاہی دینے سے متعلق اپناکردار اداکرنا چاہیے۔
ماحول سے متعلق قرآن اوراحادیث میں بیشترمقامات پر تذکرہ موجود ہے جس میں لوگوں کوماحول کی حفاظت اور قدر کرنے کا سبق دیا گیا ہے۔ اسی تناظر میں بات کرتے ہوئے جامعہ پشاورکے انوائرمینٹل سائنسزڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر آصف خان نے بتایاکہ پریشان کن طور پر پاکستان اس وقت عالمی رینکنگ میں آب وہواکی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جودوسال قبل تک ساتویں نمبر پر تھا۔
حکومت نے اس صورتحال کے تدارک کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں لیکن اس کے باوجود اگرمزید اقدامات اورعام لوگوں میں آگاہی پیدا نہ کی گئی تو سال 2040 تک پاکستان کے 80 فی صد گلئیشیرختم ہونے کاخدشہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ دنیا بھرکا درجہ حرارت 1850کے بعد سے اب تک ایک فی صد بڑھ چکا ہے جوباعث تشویش ہے جسے مزید بڑھنے سے قبل اقدامات کرنے ہوںگے۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ملک بھر اور خصوصاً خیبرپختون خوامیں آب پاشی نہروں کے کناروں بنے گھروں کے واش رومزاورگٹروں کازہریلا،کیمیکل ملا اورگدلاپانی انہی نہروں میں گرا دیا جا رہا ہے جو فصلوں اور خصوصاً سبزیوںمیں منتقل ہوکر اسے زہرآلود بنارہاہے۔
اگر خیبرپختون خوا کی بات کی جائے تو آج سے دس پندرہ سال قبل انہی نہروں کا پانی لوگ باقاعدہ پینے کے لیے استعمال کیاکرتے تھے، جانوروں کو پلاتے جب کہ یہ پانی اتنا شفاف اور صاف ہوتاکہ دیکھنے پرنہرکی تہہ تک نظر آتی تھی لیکن آج کل یہ معاملہ بالکل الٹ ہے۔ یہ پانی مختلف کثافتوں اور زہریلے مواد پر مشتمل ہوتا ہے کیوں کہ لوگ گٹروں کی صفائی کیلئے تیزاب ملا کیمیاوی مواد دھڑا دھڑ استعمال کررہے ہیں جس سے جلدی امراض تیزی کے ساتھ پھیل رہے ہیں۔
اس حوالے سے کسانوں کاکہناہے کہ جب ہم کھیتوں کوسیراب کرنے کے لیے آب پاشی کرتے ہیں توپانی میں اترتے ہی خطرناک قسم کی خارش لاحق ہوجاتی ہے جوکئی دنوں تک جاری رہتی ہے اورہمیں دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ یہ کوئی خطرناک صورت حال اختیار نہ کرجائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم نے اس حوالے سے متعلقہ محکمہ کوشکایات بھی درج کرائیں لیکن تاحال کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ زہریلا پانی ہماری زندگیوں کوہی ختم نہ کردے۔
ماہر امراض جلد ڈاکٹرمحمد سنان نے اس حوالے سے بتایاکہ انسانی جسم کواس کی ساخت دینے میں ہماری جلد اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انسانی جلد تین تہوں پر مشتمل ہوتی ہے اورسب سے بیرونی تہہ غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ ہماری جلدبہت سی چیزوں سے مل کربنتی ہے جن میں پانی،پروٹین اورمعدنیات وغیرہ شامل ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ناقص غذا اورآلودہ پانی بہت سے جلدی امراض کاباعث بن رہا ہے۔ جس میں سورائسس، ایگزیما، خارش،گرمی دانے وغیرہ شامل ہیں۔ حالیہ دور میں ناقص غذا اورآلودہ پانی اس کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں، یہ امراض جسم کے ایک حصے سے شروع ہو کر پورے جسم کواپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایاکہ خصوصاً گرمی کے موسم میں فضا میں رطوبت کی زیادتی کی وجہ سے مضر اور خطرناک جراثیم، بیکٹیریاکی نشوونمامیں بڑی تیزی آجاتی ہے جس کی وجہ سے بیماریاں نمایاں طورپرسراٹھالیتی ہیں۔ جگراوردوسرے اعضاء میں موجود زہریلے مادے آسانی سے خون میں گردش کرنا شروع کردیتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں بڑوں میں یہ گندے مادے پھوڑے پھنسیوں کی صورت میں نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں گندگی اورآلودہ ماحول کی وجہ سے جلد کے مساموں میں انفیکشن ہوجاتا ہے، جلد پر ہمیشہ کے لیے نشانات پڑجاتے ہیں، ایسے میں آب پاشی کی نہروں میںگٹروں کا گندا اور زہریلا پانی انسانی صحت کے لیے انتہائی مضرہوسکتاہے۔
آلودہ پانی میں موجود تیزابی اورکیمیاوی اجزاء انسانی جلد پرسرعت کے ساتھ حملہ آور ہوتے ہیں جس سے ایگزیما، سورائسس سمیت خطرناک قسم کی جلدی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔ ان کاکہنا تھاکہ چوں کہ اس ضمن میں ابھی باقاعدہ تحقیق توسامنے نہیں لیکن یہ حکومت کافرض بنتاہے کہ اس کے تدارک کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے تاکہ اس زہریلے اور مضر صحت پانی سے پھیلنے والی جلدی اوراندرونی بیماریوں کاسدباب کیاجاسکے۔
اس صورت حال کے پیش نظر ہم غذائی تحفظ و غذائی خود کفالت کی منزل پاسکتے ہیں؟ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ اکثر ترقی پذیر ممالک نے بھی غذائی تحفظ و خود کفالت کے حوالے سے تیاریاں کر رکھی ہیں۔ ان ممالک میں اس مقصد کے لیے زیادہ سے زیادہ پیداواری صلاحیت حاصل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے لیکن ہمارے ہاں اس قسم کی کوششیں نظر نہیں آ رہیں۔
اداروں کی سطح پر منصوبہ بندیاں توبہت سی ہوتی ہیں لیکن ان پرعمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ایک شخص سرکاری ملازمت کے حصول کے لیے ہرجائز و ناجائز حربہ استعمال کرتا ہے لیکن ملازمت ملنے کے بعد اپنے فرائض سے پہلو تہی برتنااپنا فریضہ بھی سمجھتا ہے۔
ایسے میں کیوں کر بنیادی مسائل کاخاتمہ اورعوام کوزندگی کی بنیادی سہولیات اور آسانیاں مل سکتی ہیں۔ آج کل ہم ایسے ہی ایک خطرناک مسئلے سے دوچار ہیں، یعنی حفظان صحت کے اصولوں کے برعکس زہرآلود پانی سے سبزیوں اورپھلوں کی کاشت۔ باالفاظ دیگر ہمیں ناقص اورغیرمعیاری غذاکا سامناہے ،کیوں کہ اب لوگ زیادہ ترسبزی خوری کے باوجود بیماریوں کاشکارہونے لگے ہیں۔
اس ضمن میں حالیہ ایک رپورٹ میں انکشاف ہواہے کہ پاکستان ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو بڑے پیمانے پرشہروں اورصنعتوں کاکیمیکل شدہ پانی زراعت میں استعمال کر رہا ہے۔ ان میں پیاز، بینگن، پالک، پودینہ، بھنڈی، آلو، شلجم، گوبھی، کدو، کریلا، توری، کچالو، گاجر، مولی، ٹماٹر جب کہ فصلوں میںگندم، کماد اور مکئی بطورخاص شامل ہیں۔
اسی طرح پینے کا پانی بڑے شہروں میں بھی صاف نہیں ملتا، اس میں بھی سنکھیا اورآرسینک زہرکی آمیزش اورسیوریج کی ملاوٹ کے ثبوت ملے ہیں۔ شاید انہی وجوہات کی بنا پرپاکستان میں گردوں کے مریضوں کی تعداد تقریباً دوکروڑ، کینسر کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑسترلاکھ، ہیپاٹائٹس میں مبتلا ڈھائی کروڑ اوردل کی بیماریوں میں مبتلاافرادکی تعداد چار کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔
معدے، سینے، ہڈیوںکے امراض، تپ دق، شوگر، بلڈ پریشر اوردماغی امراض میں مبتلا افرادکی تعدادکا یہاں ذکراس لیے نہیں کیاگیاکہ ہرتیسرا، چوتھا، پانچواں شخص شوگر، بلڈپریشر اور جوڑوں کے درد، بینائی اور سماعت میں کمی کا مریض بن چکا ہے۔ گویا فوڈ اتھارٹی اورمتعلقہ انتظامی اداروں کی لاپرواہی سے معاملات اس قدر بے قابوہوتے جا رہے ہیں کہ ہرگھرکے دروازے پرکوئی نہ کوئی موذی بیماری دستک دے رہی ہے۔
کیا بازارمیں جگہ جگہ بکنے والے برائلرگوشت کی کوالٹی اورخوراک کو چیک کرنا فوڈ اتھارٹی کی ذمہ داری نہیں؟ کولڈ ڈرنکس جسے ہرچھوٹا بڑا شوق سے پیتا ہے بلکہ مہمانوں کی خاطر مدارت کے نام پر انہیں پلایاجاتا ہے، اگر اس میں پیسٹی سائیڈ یعنی کھاد اورکوئی زہریلاکیمیکل ڈالاجا رہا ہے تو ایسی کولڈ ڈرنکس بنانے والی فیکٹریوںکوبندکیوں نہیں کردیا جاتا؟ زہریلے کیمیکل ملے ڈبہ بند اورکھلے دودھ کی فروخت کی روک تھام کیوں نہیں کی جاتی؟
سیوریج ملے اورفیکٹریوں کے آلودہ پانی سے سبزیاں اگانے پر پابندی لگانی چاہیے۔ نہروں اوردریاؤں میں زہریلا پانی صاف کیے بغیر نہ ڈالا جائے، کیوں کہ یہ وہ عوامل ہیں جن کے سبب آج ایک عام پاکستانی جوفخریہ خودکوسبزی خورکہلاتاہے وہ مختلف قسم کی بیماریوں کے شکنجے میں جکڑتا جا رہا ہے۔
اسی صورت حال کی بازگشت خیبرپختون خوا کے سابقہ ایوان میں بھی سنائی دی جب صوبائی حکومت کی جانب سے سبزیوں اور پھلوں کی کاشت کے لیے آلودہ اور مضر صحت پانی کے استعمال کا اسمبلی میں اعتراف کیاگیا۔ اس ضمن میں گزشتہ صوبائی اسمبلی میں ایم ایم اے سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن ریحانہ اسماعیل نے توجہ دلاؤنوٹس پیش کرتے ہوئے کہا کہ پشاوراورگرد و نواح میں موسمی سبزیوں اور پھلوں کے باغات کو سیراب کرنے کے لیے آلودہ اورمضرصحت نہری اورندی نالیوں کاپانی استعمال کیا جاتا ہے، جس کے باعث سنگین نوعیت کی جلدی اوردیگر بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔
مختلف لیبارٹریوں کی رپورٹس میں واضح کیاگیا ہے کہ صوبہ کے بیشتر شہروں اورخصوصاً پشاور میں سبزیاں 90 فی صدآلودہ اور مضرصحت ہیں، جس پر خاتون رکن کوجواب دیتے ہوئے سابق صوبائی وزیر برائے سماجی بہبود ہشام انعام اللہ نے کہا کہ یہ ہم سب کے لیے خطرناک صورت حال ہے۔
ان کے مطابق حکام بالا نے اس پرتوجہ دی ہے، مختلف اضلاع میں ٹیسٹ کیے گئے جہاں مضرصحت پانی کا استعمال ہو رہا ہے جس کی روک تھام کے لیے محکمہ زراعت نے پالیسی مرتب کرلی ہے۔ اس وقت ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے سب محکمے مل کر مشترکہ حکمت عملی بنارہے ہیں، جس پرعمل درآمدکرنے سے اس خطرناک صورت حال پر جلد قابو پایا جائے گا۔
جامعہ پشاوراورامریکہ کی ایک یونی ورسٹی نے وادی سوات اور وادی پشاورمیں دریاؤں اور پینے کے پانی کا تحقیقی اورتجزیاتی کام مکمل کرکے نتائج مرتب کر لیے جو عملی اقدامات کے لیے حکومت کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ علوم ماحولیات کی مایہ نازمحقق اورایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹربشریٰ خان کی زیرنگرانی آبی آلودگی کے اس تحقیقی اورتجزیاتی منصوبے میں پروفیسر ڈاکٹرحزب اللہ خان اور زرعی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹرمحمد اسحاق میاں بھی بطورمعاونین شامل رہے۔
ڈاکٹربشریٰ خان کا تعلق ضلع صوابی کے ایک تاریخی علم دوست خاندان سے ہے، انہوں نے پرڈویونی ورسٹی امریکہ سے علوم ماحولیات میں فل برائٹ سکالرشپ پر ڈاکٹریٹ کے ساتھ ساتھ مشی گن اسٹیٹ یونی ورسٹی اورپرڈویونی ورسٹی سے دومرتبہ پوسٹ ڈاکٹریٹ کااعزازحاصل کیا ہے۔
اسی طرح انہیں سال 2016ء میں اعلیٰ تعلیمی کمیش پاکستان کی طرف سے بیسٹ ٹیچرایوارڈ بھی دیاگیا۔ ڈاکٹر بشریٰ خان کی زیرنگرانی شعبہ انوائرمینٹل سائنسزکے دس ریسرچ سکالرز نے پی ایچ ڈی کی تحقیق جب کہ چھ ایم فل کی تحقیق مکمل کرکے فارغ ہوچکے ہیں۔ انکے ایک سوپچاس ریسرچ پیپرز قومی اوربین الاقوامی سائنس جرنلز میں شائع ہوچکے ہیں۔ وہ واٹرسپلائی اینڈ سینی ٹیشن سروسز پشاورکے بورڈ آف ڈائریکٹرزکی ممبر اورخواتین ریسرچرزمیں صف اول کی ریسرچر ہیں۔
وادی سوات اور پشاور میں آبی آلودگی کے منصوبے کی تکمیل کے حوالے سے پراجیکٹ، اس پرعمل درآمد، تجزیاتی عمل اورنتائج کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے ڈاکٹربشریٰ خان نے بتایا: ''آبی آلودگی کی تحقیق کاکام اعلیٰ تعلیمی کمیشن پاکستان اورامریکہ کے یوایس ایڈ پروگرام کامشترکہ منصوبہ تھاجس پرپشاوریونی ورسٹی اور امریکہ کی پرڈو یونیورسٹی نے مشترکہ طورپرکام کیا۔ میں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ تین سالہ پراجیکٹ پرعمل درآمدکے دوران دریائے سوات کے پانی کا بحرین سے لے کرچارسدہ تک اوردریائے کابل کا ورسک سے لے کرخیرآباد اٹک تک سروے، ٹسٹنگ اورتجزیہ کیا۔
اگست 2020ء میں مکمل ہونے والی اس تحقیق اورتجزیاتی منصوبے کے آبی آلودگی کے حوالے سے نہایت حیران کن نتائج برآمد ہوئے۔ اس پراجیکٹ کے تعاون میں تین پی ایچ ڈی اورچارایم فل سکالرزنے اپنی تحقیق بھی مکمل کرلی، اس طرح معاون امریکی یونیورسٹی آف پرڈومیں دوسکالرز نے اس پراجیکٹ میں ڈاکٹریٹ کرلی۔''
ڈاکٹر بشریٰ نے مزید بتایاکہ پراجیکٹ کے تحت شعبہ انوائرمنٹل سائنسزکی دو پی ایچ ڈی سکالرصباشوکت اورنیلم اسد تحقیق کی غرض سے چھ ماہ کے لیے پرڈویونیورسٹی امریکہ جائیں گی۔
اس تحقیقاتی منصوبے کے تحت پرڈویونی ورسٹی کی ایک اورسکالر ربیکالکسن کی ڈاکٹریٹ کی تحقیق کی نگرانی میں انہوں نے معاون سپروائزرکی ذمہ داری انجام دی جوکسی پاکستانی پروفیسرکے لیے یہ اولین اعزازہے۔ انہوں نے بتایاکہ پراجیکٹ کے تحت شعبہ علوم ماحولیات پشاوریونی ورسٹی میں جدید ترین مشینری اورآلات سے لیس واٹرکوالٹی لیبز قائم کی گئیں جوخیبر پختون خواکی کسی یونی ورسٹی یا ادارے میں قائم ہونے والی پہلی لیبارٹری ہے۔ منصوبے میں شامل پرڈویونی ورسٹی کے تعاون سے آبی علوم کے امریکی ماہرین کی ٹیم نے جامعہ پشاور کادورہ کرکے یہاں پرمنصوبے میں شامل ریسرچ سکالرزطلبا و طالبات کوتربیت فراہم کی۔
ڈاکٹر بشریٰ خان نے کہاکہ دریائے سوات اوردریائے کابل میں آبی آلودگی کا سروے، تحقیق اورسائنٹیفک تجزیے سے حیران کن نتائج سامنے آئے۔ ان دریاؤں کے پانی، مچھلیوں اورکیچڑ کا موسم سرما اورگرما میں دومرتبہ تجزیہ کیاگیا اوریہ معلوم کرنے کی بھی کامیاب کوشش کی گئی کہ آیا موسمی تغیرکے اثرات آبی حیات پرکس حد تک اثر اندازہوئے۔
دریائے سوات کے بارہ اور دریائے کابل کے پندرہ مقامات پرپانی، مچھلیوں اور کیچڑ کے حاصل کردہ نمونوں کو سائنٹیفک تجزیے کے لیے امریکہ کی پرڈویونی ورسٹی کی لیبارٹری میں بھجوایاگیا جس کایہ حیران کن نتیجہ سامنے آیاکہ ان دونوں دریاؤں کاپانی نہ صرف انسانی بلکہ آبی حیات کے لیے بھی مضرصحت ہے۔ دونوں دریاؤں کے پانی میں شامل زہریلے مادے، پانی کی ترسیل یا آب پاشی کے سسٹم کے ذریعے سبزیوں، پھلوں اوردوسری غذائی اجناس میں منتقل ہوکر مختلف بیماریوں کاسبب بنتے ہیں۔ ان زہریلے مادوں میں کیڑے مارادویات اورتحلیل ہونے والے پلاسٹک کے مضراثرات سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔
انہوں نے بتایاکہ دریائے سوات میں مینگورہ، بریکوٹ، لنڈاکی اورچکدرہ کے مقام پر دریا کا پانی سب سے زیادہ آلودہ ہے جب کہ دریائے کابل میں مذکورہ زہریلے مواد اس سے بھی زیادہ پائے جائے ہیں۔ یہاں پر اکبرپورہ، پشتون گڑھی، ڈھیری زرداد، نوشہرہ اورجہانگیرہ کے مقامات سے لیے گئے نمونوں کے سائنٹیفک تجزیے سے معلوم ہواکہ یہاں پر زہریلے مادوں کی مقداردریائے سوات سے کہیں زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ زہریلے مادے پانی کی تہہ تک سرایت کرچکے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ تین سالہ عرصہ کے دوران اس پراجیکٹ پرشعبہ انوائرمنٹل سائنسز جامعہ پشاور اور پرڈو یونی ورسٹی میں بیک وقت اوریکساں عملدرآمد کیاگیا، منصوبے کے مالی اخراجات میں سے پندرہ فی صد پشاوریونی ورسٹی کے آفس آف دی ریسرچ اینوونیشن اینڈ کمرشلائزیشن کوبھی دیاگیا۔
ڈاکٹربشریٰ خان نے بتایاکہ سوات کے کاشت کاروں کے مطابق ان کے باغات اور فصلوں پر سال میں کم ازکم آٹھ مرتبہ کیڑے مار ادویات کاسپرے کیا جاتا ہے اورپھریہ زہریلے مواد بارشوں اورآب پاشی کے ذریعے دریامیں منتقل ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ دریائے سوات اوردریائے کابل کی مچھلیوں کاتجزیہ پرڈویونی ورسٹی کی لیبارٹریوں میںکیاگیاجس سے یہ نتیجہ بھی سامنے آیاکہ زہریلے مواد آبی حیات کی صحت اورجسامت کے ساتھ ساتھ ان کی جنس کو بھی بری طرح متاثرکررہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ یہ امر ایک المیہ سے کم نہیں کہ ہمارے خیبرپختون خوا میں پانی کا معیار جانچنے کاکوئی انتظام نہیں۔ پشاورمیں پینے کا پانی آلودہ ترین ہوچکاہے، اس میں تحلیل شدہ زہریلے پلاسٹک بھی شامل ہیں جوخیرآباد کے مقام پردریائے سندھ اوردریائے سوات میں شامل ہوجاتے ہیں اور یہی تحلیل ہونے والے زہریلے پلاسٹکی مواد کینسرکی مختلف اقسام کابھی سبب بن جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایاکہ آبی آلودگی کے منصوبے کے نتائج پر مشتمل رپورٹ متعلقہ حکومتی اداروں کو فراہم کی گئی ہے۔ ساتھ ہی پشاورکے ہسپتالوں اوردوسرے مقامات کے فضلات کوتوانائی میں تبدیل کرنے کے منصوبے پربھی تجزیاتی کام کا آغاز ہو چکا ہے، جس میں وہ خود بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہاکہ پشاورواٹر سپلائی اینڈ سینی ٹیشن سروسز کے بورڈ آف ڈائریکٹرزکے سامنے یہ بات رکھ دی گئی ہے کہ جس پانی سے آبی حیات کی بقاخطرے میں ہو وہ انسان کے لیے کس حدتک مضرصحت ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ روز افزوں بڑھتی ہوئی آبادی، ماحولیاتی، آبی آلودگی اور موسمی تغیرات موجودہ دورکاایک بڑاچیلنج ہے مگر اس کے باوجود تحقیقاتی اورتجزیاتی کام اوراس کے نتائج کے مطابق عملدرآمد کا فقدان ہے۔
جامعات کوتحقیق کے لیے جوگرانٹ دی جارہی تھی وہ اب ایک عرصہ سے برائے نام رہ گئی ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک کی جامعات اورتحقیقی اداروں سے مل کام کرنے کوبھی اہمیت نہیں دی جارہی لہٰذا ایسے میں مختلف امراض اورآفات سے ہماری اجتماعی معاشرتی زندگی کا ہر پہلو متاثر ہوگا جو موجودہ دورکا سب سے بڑا المیہ ہے۔
اس صورت حال پربات کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کاکہنا ہے کہ ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عام لوگوں کوآگاہی دینے سے متعلق اپناکردار اداکرنا چاہیے۔
ماحول سے متعلق قرآن اوراحادیث میں بیشترمقامات پر تذکرہ موجود ہے جس میں لوگوں کوماحول کی حفاظت اور قدر کرنے کا سبق دیا گیا ہے۔ اسی تناظر میں بات کرتے ہوئے جامعہ پشاورکے انوائرمینٹل سائنسزڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر آصف خان نے بتایاکہ پریشان کن طور پر پاکستان اس وقت عالمی رینکنگ میں آب وہواکی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جودوسال قبل تک ساتویں نمبر پر تھا۔
حکومت نے اس صورتحال کے تدارک کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں لیکن اس کے باوجود اگرمزید اقدامات اورعام لوگوں میں آگاہی پیدا نہ کی گئی تو سال 2040 تک پاکستان کے 80 فی صد گلئیشیرختم ہونے کاخدشہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ دنیا بھرکا درجہ حرارت 1850کے بعد سے اب تک ایک فی صد بڑھ چکا ہے جوباعث تشویش ہے جسے مزید بڑھنے سے قبل اقدامات کرنے ہوںگے۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ملک بھر اور خصوصاً خیبرپختون خوامیں آب پاشی نہروں کے کناروں بنے گھروں کے واش رومزاورگٹروں کازہریلا،کیمیکل ملا اورگدلاپانی انہی نہروں میں گرا دیا جا رہا ہے جو فصلوں اور خصوصاً سبزیوںمیں منتقل ہوکر اسے زہرآلود بنارہاہے۔
اگر خیبرپختون خوا کی بات کی جائے تو آج سے دس پندرہ سال قبل انہی نہروں کا پانی لوگ باقاعدہ پینے کے لیے استعمال کیاکرتے تھے، جانوروں کو پلاتے جب کہ یہ پانی اتنا شفاف اور صاف ہوتاکہ دیکھنے پرنہرکی تہہ تک نظر آتی تھی لیکن آج کل یہ معاملہ بالکل الٹ ہے۔ یہ پانی مختلف کثافتوں اور زہریلے مواد پر مشتمل ہوتا ہے کیوں کہ لوگ گٹروں کی صفائی کیلئے تیزاب ملا کیمیاوی مواد دھڑا دھڑ استعمال کررہے ہیں جس سے جلدی امراض تیزی کے ساتھ پھیل رہے ہیں۔
اس حوالے سے کسانوں کاکہناہے کہ جب ہم کھیتوں کوسیراب کرنے کے لیے آب پاشی کرتے ہیں توپانی میں اترتے ہی خطرناک قسم کی خارش لاحق ہوجاتی ہے جوکئی دنوں تک جاری رہتی ہے اورہمیں دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ یہ کوئی خطرناک صورت حال اختیار نہ کرجائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم نے اس حوالے سے متعلقہ محکمہ کوشکایات بھی درج کرائیں لیکن تاحال کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ زہریلا پانی ہماری زندگیوں کوہی ختم نہ کردے۔
ماہر امراض جلد ڈاکٹرمحمد سنان نے اس حوالے سے بتایاکہ انسانی جسم کواس کی ساخت دینے میں ہماری جلد اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انسانی جلد تین تہوں پر مشتمل ہوتی ہے اورسب سے بیرونی تہہ غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ ہماری جلدبہت سی چیزوں سے مل کربنتی ہے جن میں پانی،پروٹین اورمعدنیات وغیرہ شامل ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ناقص غذا اورآلودہ پانی بہت سے جلدی امراض کاباعث بن رہا ہے۔ جس میں سورائسس، ایگزیما، خارش،گرمی دانے وغیرہ شامل ہیں۔ حالیہ دور میں ناقص غذا اورآلودہ پانی اس کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں، یہ امراض جسم کے ایک حصے سے شروع ہو کر پورے جسم کواپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایاکہ خصوصاً گرمی کے موسم میں فضا میں رطوبت کی زیادتی کی وجہ سے مضر اور خطرناک جراثیم، بیکٹیریاکی نشوونمامیں بڑی تیزی آجاتی ہے جس کی وجہ سے بیماریاں نمایاں طورپرسراٹھالیتی ہیں۔ جگراوردوسرے اعضاء میں موجود زہریلے مادے آسانی سے خون میں گردش کرنا شروع کردیتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں بڑوں میں یہ گندے مادے پھوڑے پھنسیوں کی صورت میں نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں گندگی اورآلودہ ماحول کی وجہ سے جلد کے مساموں میں انفیکشن ہوجاتا ہے، جلد پر ہمیشہ کے لیے نشانات پڑجاتے ہیں، ایسے میں آب پاشی کی نہروں میںگٹروں کا گندا اور زہریلا پانی انسانی صحت کے لیے انتہائی مضرہوسکتاہے۔
آلودہ پانی میں موجود تیزابی اورکیمیاوی اجزاء انسانی جلد پرسرعت کے ساتھ حملہ آور ہوتے ہیں جس سے ایگزیما، سورائسس سمیت خطرناک قسم کی جلدی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔ ان کاکہنا تھاکہ چوں کہ اس ضمن میں ابھی باقاعدہ تحقیق توسامنے نہیں لیکن یہ حکومت کافرض بنتاہے کہ اس کے تدارک کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے تاکہ اس زہریلے اور مضر صحت پانی سے پھیلنے والی جلدی اوراندرونی بیماریوں کاسدباب کیاجاسکے۔