نفس اور مسائل

ہمارا ایسے تمام نازک اندام نوجوانوں کو مشورہ ہے کہ چونکہ آپ کا مسئلہ جسمانی سے زیادہ ذہنی ہے

KARACHI:
کالم کا یہ سلسلہ ہم نے نفسیات و مابعدالنفسیات کی مختلف جہتوں پر بحث کے لیے شروع کیا تھا۔ مطمع نظر تو یہی تھا کہ نفسیات سے آگے بڑھ کر مابعد النفسیات کے مختلف موضوعات سے قارئین کو آگاہ کیا جائے لیکن کیا کیا جائے کہ نفسیات جیسے اہم موضوع کو چھوڑ کر آگے نہیں بڑھا جاسکتا اور یہی وجہ ہے کہ قارئین کی جانب سے موصول ہونے والی ای میلز اور خطوط میں بے پناہ ان مسائل کا تذکرہ ہوتا ہے جو سراسر نفسیات سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہم اس کالم کا عنوان سیدھا سادا نفسیاتی مسائل بھی رکھ سکتے تھے لیکن خدشہ ہے کہ مابعد النفسیات پر بحث کرتے ہوئے جس طرح لوگ ہمیں عامل کامل سمجھنے لگے تھے اب کہیں نفسیاتی ڈاکٹر کا خطاب نہ دے دیں، اس لیے محض نفس اور اس کے مسائل پر ہلکی پھلکی گفتگو کرتے ہوئے قارئین کو بالواسطہ جواب دینے کی کوشش کریں گے۔ جیسا کہ اکثر ای میل میں پوچھا گیا کہ اعتماد کی کمی ہے، گھبراہٹ طاری ہوجاتی ہے، شرم و خوف نے جکڑ رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یقیناً ان سب عوارض کے لیے ہم مشق تنفس نور، الستخیر، التصویر اور دیگر مشقوں کا مشورہ دیتے ہیں لیکن جب اصرار یہ ہو کہ کوئی ایسی ترکیب بتادیجیے کہ میں ''حقیقت پسند بن جاؤں'' تو کیا جواب دیا جائے۔

حقیقت پسندی کوئی متاع بازار نہیں ہے کہ چند روپے جیب میں ڈال کر بازار گئے اور ''حقیقت پسندی'' کا سودا خرید لائے۔ بچپن میں بہت سے توہمات، بہت سے مغالطے، بہت سے فضول تصورات ہمارے ذہن کو زنگ آلود کردیتے ہیں، مثلاً والد یا والدہ مجھے پیار نہیں کرتے، بہن بھائی مجھے چھوت سمجھتے ہیں، میں دوسروں کے مقابلے میں کمتر ہوں، میں اعلیٰ مقاصد کے لیے پیدا کیا گیا ہوں لیکن مجھے اس پستی تک گرادیا گیا ہے وغیرہ وغیرہ، یہ اور اسی قسم کے صدہا آزار جانِ ناتواں کو لاحق ہوجاتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کی قوت عمل مفلوج ہوجاتی ہے، وہ مستقبل کا مقابلہ کرنے سے بچتا ہے اور ہر شخص کو اپنا مخالف سمجھنے لگتا ہے۔ کچھ لوگ لکھتے ہیں کہ خدارا کوئی ایسی ترکیب بتلا دیجیے کہ تنہائی میں بھی خوش رہ سکوں، حالات سے سمجھوتہ کرسکوں، مستقبل کو تابناک بناسکوں۔ یقیناً ذہن کی صحیح تربیت کرکے ان مسائل سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔


بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسانی جسم تو بلوغ کی منزلیں طے کرتا رہتا ہے لیکن ذہن اپنے مقام سے ایک انچ نہیں سرکتا۔ نفسیاتی مریضوں کا یہ مسئلہ ہے کہ جسمانی اعتبار سے تو وہ بیس، تیس، چالیس اور پچاس ساٹھ سال کے ہوجاتے ہیں البتہ ذہنی اعتبار سے ان کی عمر سات آٹھ سال سے زائد نہیںِ ہوتی۔ جسمانی بلوغت کے باوجود ان کا ذہن نابالغ رہتا ہے۔ نفسیاتی معالج کا کام یہ ہے کہ اس ذہنی نابالغ کو بالغ بنائے۔ اس کے دماغ کو بچپن کی سطح سے بلند کرے۔ کیا یہ مقصد سکون بخش دواؤں کے استعمال سے حاصل ہوسکتا ہے؟ نہیں! کردار کی گتھیاں گولیوں، انجکشنوں، انسولین تھراپی اور برقی علاج سے نہیں سلجھا کرتیں، البتہ عارضی فوائد ممکن ہیں، مثلاً اگر کسی شخص کے ضعف اعصاب کا سبب انداز فکر کی کجی ہے، یعنی آدمی غلط طور پر سوچتا ہے تو سکون بخش گولیاں کھلانے سے قبل اس کے سوچنے کے ڈھنگ کو بدلنا چاہیے۔

تاکہ وہ چیزوں کو اسی طرح دیکھ سکے جس طرح ہیں، زندگی کا مطالعہ رنگین شیشوں کی عینک سے نہ کرے۔ آج کل ہم بے پناہ مصروفیت کی بنا پر ای میلز یا کال کا جواب دینے سے قاصر ہیں اس لیے قارئین سے یہی کہیں گے کہ آپ اپنے مسائل کا حل ان ہی کالموں میں تلاش کرسکتے ہیں، نیز کردار سازی و تنظیم شخصیت کے حوالے سے ہم مختلف مشقوں کا حوالہ دیتے رہتے ہیں جو آپ کے مسائل کے حل میں مہمیز کا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ مثلاً سانس کی مشقیں جو اعصابی بحالی کے سلسلے میں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں، ارتکاز توجہ کے طریقے، جن سے خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے، خود نویسی جو ذاتی تحلیل نفسی کا آسان طریقہ ہے، خود تنویمی اور خود ترغیبی کے ذریعے انسان خود اپنے رویے، کردار اور انداز فکر میں تبدیلی پیدا کرسکتا ہے۔ آپ ان تمام مشقوں کی ابتدا کیجیے رفتہ رفتہ تمام الجھنوں پر غالب آجائیں گے۔

نفسیات سے متعلق مسائل اور ان کی جہت اس قدر ہیں کہ ایک کالم تو کیا ان کا احاطہ مکمل کتاب میں بھی ممکن نہیں، پھر ایسا کس طرح ممکن ہے کہ ہم محض ایک ای میل کا خط کا جواب دے کر آپ کی تشخیص کرپائیں۔ دہری شخصیت اور نفس کے خاص موضوع ''جنس'' پر کھل کر تذکرہ کرنا بھی ممکن نہیں کہ اخبار کی پالیسی آڑے آتی ہے۔ لیکن جنس پر گفتگو کیے بغیر ان مسائل کو صحیح طور سمجھا نہیں جاسکتا جو خالصتاً اسی ''خرابے'' کی پیداوار ہیں۔ کئی نوجوانوں کے وہ خطوط زیر مطالعہ ہیں جو مجسم مرد ہونے کے باوجود کسی ''الہڑ دوشیزہ'' کے خیالات رکھتے ہیں اور اپنا آئیڈیل دوسرے نوجوانوں میں تلاش کرتے ہیں۔ آپ کا یہ ''خاص'' مسئلہ مکمل سائیکو تھراپی کا متقاضی ہے۔

ہمارا ایسے تمام نازک اندام نوجوانوں کو مشورہ ہے کہ چونکہ آپ کا مسئلہ جسمانی سے زیادہ ذہنی ہے اس لیے اپنے شہر کے کسی اچھے ماہر نفسیات سے رابطہ کیجیے۔ ای میل یا خطوط کے ذریعے آپ کی تحلیل نفسی مشکل اور وقت طلب امر ہے، اور چونکہ بالمشافہ ملاقات ممکن نہیں لہٰذا کسی سائیکوتھراپسٹ سے رابطہ ہی راست اقدام ہوگا۔ نفس اور اس سے متعلق تمام مسائل ہر شخص کے لحاظ سے الگ ہوتے ہیں، یہاں دو اور دو چار کا فارمولا کارگر نہیں ہوتا، نہ ہی کوئی جنرل دوا ایسی ہے کہ آپ سر درد یا بخار کی کیفیت میں میڈیکل اسٹور سے جاکر بنا ڈاکٹر کی ہدایت کے استعمال کرلیتے ہیں بلکہ چونکہ ہر شخص کی نفسیاتی کیفیت کے مطابق اس کا مرض جدا ہوتا ہے لہٰذا بنا مرض کی مکمل تشخیص کے اس کا علاج بھی ممکن نہیں۔ ہم کوشش کرتے رہیں گے کہ ان ہی صفحات پر نفسیات اور اس سے متعلق دیگر مسائل پر گفتگو جاری رکھیں تاکہ آپ کو اپنے مسائل کا حل ملتا رہے۔
Load Next Story