بجٹ بجٹ ہوتا ہے
موبائل ہے، لیپ ٹاپ ہے،، انٹرنیٹ ہے، پھر بھی تاجر حضرات اسٹاک ایکسچینج بلڈنگ میں جمع ہیں۔۔۔
لیجیے! بجٹ 2014-15 آن پہنچا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بجٹ آنے سے پہلے ڈنکا بجایا جاتا ہے کہ اس سال کا بجٹ ''عوامی بجٹ'' ہوگا۔ ''عوام دوست'' بجٹ ہوگا۔ کیوں عوام کو بے وقوف بناتے ہو۔ کیا عوام بجٹ کا سامنا پہلی مرتبہ کر رہے ہیں۔ وہ تو 66 سال سے بجٹ کا سامنا ہی نہیں کر رہے ہیں بلکہ بجٹ کے ہتھوڑے اپنی کمروں پر سہہ رہے ہیں۔ جتنے بھی وزرائے خزانہ آتے رہے سب ہی اپنے پیش ہونیوالے یا پیش کردہ بجٹ کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملادیتے ہیں۔
شاید وزیر خزانہ کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ نہیں کہ تاجر حضرات نے عام آدمی کی اشیائے ضروریات، مثلاً آٹا، دالیں، چاول، چینی، چائے اورمصالحے، تمام کے دام پہلے ہی بڑھا دیے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر حکومت نے عوام دوست بجٹ پیش کردیا تو ہم نے جو اشیائے خورونوش تھوک فروشوں سے مہنگے دام میں خریدا ہے تو اس پر نقصان کیوں اٹھائیں۔ عموماً تاجروں کا یہی موقف سامنے آیا ہے۔ آج سے نہیں برسوں سے کہ دم جائے، دمڑی نہ جائے۔ کیونکر ہم اشیا مہنگی لاکر سستی فروخت کریں۔ ٹھیک ہے ان کا موقف بھی درست ہے لیکن تاجر حضرات حکومت کی خبر لینے کے بجائے عوام کے گلے پر کیوں چھری پھیرتے ہیں؟ عوام ویسے ہی پریشان ہیں۔ نہ روزگار، نہ پانی، نہ بجلی، نہ گیس دستیاب ہے۔
جائیں تو جائیں کہاں؟ جدھر گئے ادھر پولیس لاٹھیاں اور آنسو گیس شیل، واٹرکینن کے ساتھ تیار کھڑی رہتی ہے۔ پولیس کے ظلم و تشدد کا مقابلہ کرنا تو اشیا کی قیمت سے مہنگا پڑ جاتا ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنے کی بجائے مہنگائی کو برداشت کرلینا بہت ہے۔ لیکن عوام آن واحد ہی میں تو سڑکوں پر نہیں آتے بلکہ صبر و تحمل سے کام لیتے ہیں لیکن جب پانی سروں سے گزر جائے تو کیا عوام شور نہ مچائے۔ احتجاج نہ کرے اور ہڑتالیں نہ کریں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ زبردست مارے رونے نہ دے۔ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ آج کل عدالتیں آزاد ہیں، اس لیے عوام کو انصاف ملنے کی امید برآتی ہے اور وہ باآسانی عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اسی طرح تو عوام کے مسائل حل ہونے کی بجائے عوام کو مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
لہٰذا ایسی صورت میں مہنگائی کا رونا تو روتے ہی ہیں لیکن مہنگائی کے باوجود جی بھی رہے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ مر مر کے بھی جی رہے ہیں' اس لیے کہ مرنا جینے سے آسان ہے۔ جب ہی تو انسان اپنے ہاتھوں زندگی ختم کرلینے سے بھی گریز نہیں کرتا یعنی ''خودکشی، خودسوزی'' کرلیتا ہے۔ یہ نہیں سوچتا کہ اس عمل کا خمیازہ اس کے خاندان کو بھگتنا ہوگا اور پھر اس کا آخرت میں کیا انجام ہوگا۔ میں نے تو لوگوں کو یہ کہتے بھی سنا ہے کہ میاں! آخرت میں جو ہوگا سو ہوگا۔ وہ تو ٹلنے والا نہیں۔ لیکن یہاں جو عوام کے ساتھ سلوک ہو رہا ہے اسے بھی تو بھتنا ہے۔ یہ کام آسان نہیں۔ کہیں وزیر خزانہ ناراض ہوگئے تو پھر ''ضمنی بجٹ'' آئے گا۔ ضمنی بجٹ کا نتیجہ بھی وہی برآمد ہوتا ہے جیسے اصلی انتخاب کے بعد ضمنی انتخاب ہوتے ہیں تو اصل انتخاب سے مختلف نہیں ہوتے۔ وہاں الیکشن ٹریبونلز ہوتے ہیں۔ یہاں معاملہ کچھ اور ہے۔ جناب وزیر خزانہ صاحب ''آل ان آل'' ہوتے ہیں۔
ان کی انگلی اٹھ گئی تو عوام فائنلی آؤٹ ہوجاتے ہیں یہاں نیوٹرل امپائر نہیں ہوتے۔ جناب! اگر یہاں نیوٹرل امپائر ہو تو خزانہ ہی لٹ جائے گا۔ پھر تو نہ خزانہ رہے گا نہ وزیر خزانہ۔ پھر کون بنائے گا بجٹ؟ پھر کس خزانے میں جمع ہوں گے ''ٹیکسز''۔ کیوں بدامنی کی باتیں کرتے ہو بھائی۔ وزیر خزانہ کو بنانے دو بجٹ۔ پیش کرنے دو بجٹ۔ بعد میں جتنا شور مچانا چاہو مچالینا۔ بقول وفاقی وزیر مملکت پانی و بجلی کے ''چور مچائے شور'' کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ بجٹ تو پیش ہونا ہے ضرور پیش ہوگا عوام کو نتائج بھگتنا ہوں گے۔ بجٹ، بجٹ ہوتا ہے چاہے سخت ہو یا نرم۔ لیکن یار! عام آدمی کو بجٹ تقریر کیا سمجھ آئے گی۔ اصل منظر تو ہوگا اسٹاک ایکسچینج بلڈنگ میں تاجر حضرات نہ صرف نگاہیں گڑھائے ٹی وی ہی نہیں دیکھ رہے ہوں گے بلکہ کانوں کے اطراف ہاتھ بھی لگائے ہوئے ہوں گے تاکہ دیکھنے اور سننے میں فرق نہ آجائے۔ لیکن یہ تو پرانے دور کی باتیں لگ رہی ہیں۔ آج کل تو الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے۔
موبائل ہے، لیپ ٹاپ ہے،، انٹرنیٹ ہے، پھر بھی تاجر حضرات اسٹاک ایکسچینج بلڈنگ میں جمع ہیں کہ شاید وزیر خزانہ پانی پینے کے لیے کچھ دیر رک جائیں بس اس دوران جو کوئی بھی کمنٹس کرنا چاہے تو کرسکتا ہے مگر اختصار کے ساتھ ، کہیں ایسا نہ ہو ہم کمنٹس دینے میں مصروف رہیں اور حکمران کچھ نئی بات بتانے لگیں۔ خاموشی سے بجٹ تقریر سنو۔ باتیں اور کمنٹس بعد میں بھی ہوسکتے ہیں۔ بجٹ تقریر جاری ہے کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے میں تو ٹی وی بند کرکے سونے جا رہا ہوں۔ صبح اخبار میں پڑھ لوں گا بجٹ تقریر۔ میں نہیں کہتا تھا کہ میاں الیکٹرانک میڈیا آنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پرنٹ میڈیا سے تو عام آدمی کو بھی تفصیل جاننے کا موقع مل جاتا ہے۔ پھر وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ تنقید کرے یا تعریف کرے۔ اس میں ناراض ہونے کی کیا بات ہے بجٹ آنے کے بعد ہمارا کیا حشر ہوگا۔
ہاں ابھی تو بارش کا موسم بھی آگیا ہے دیکھنا ہے کہ وزیر خزانہ اس مد میں یعنی بارش کے نقصانات و فوائد کے متعلق بجٹ میں کتنے فنڈز مہیا کرتے ہیں۔ دوسری طرف رمضان کی بھی آمد آمد ہے۔ اشیا خوردونوش کے علاوہ افطار و سحر کے لیے بھی تو پھل و مشروبات کی مانگ بھی تو بڑھ جاتی ہے۔ بھائی روزے تو ہر حال میں فرض ہیں وہ تو رکھنے ہوں گے چاہے اشیا خوردونوش مہنگی ہوں یا پھل و مشروبات مہنگے ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ بغیر سحر و افطار کے روزے رکھ لیں۔ نہیں نہیں ایسا ہو نہیں سکتا ورنہ وہ تو فاقہ کشی ہوجائے گی جو ''کفر'' ہے۔ کھاؤ پیؤ ضرور مگر اپنی استطاعت کیمطابق' یعنی یوں کہوں تو بہتر ہوگا کہ جتنی چادر ہے اتنے پیر پھیلاؤ۔
مگر یہاں کا دستور ہی نرالا ہے کہ افطار و سحر کی عملدرآمد میں بھی مقابلہ ہوتا ہے' نمائش ہوتی ہے' معیار اور روزے کو مذاق بنادیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو حسد اور لالچ سے بچائے۔ روزے کو روزے کی روح کیمطابق رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اب رہ گیا بارش کا مسئلہ تو بھائی وہ ہمارا درد سری نہیں وہ تو حکومت کا امتحان ہے کہ عوام کو بارشوں کی زحمتوں یا نقصانات سے بچانے کے لیے پیشگی حفاظتی انتظامات کرے بصورت دیگر حکومت خود نقصانات کی ذمے دار ٹھہرے گی۔ بجٹ سخت آیا ہے تو بھی عوام کو سہنا پڑے گا' بارشیں زیادہ ہوں گی بھی تو عوام کو مصائب و آلام سے گزرنا ہوگا اور رمضان میں مہنگائی ہوگی، لوٹ مار ہوگی، منافع خوری ہوگی یا ذخیرہ اندوزی ہوگی یا ناقص اشیائے خوردونوش، پھل، جعلی مشروبات فروخت ہوں گی تب بھی عوام کو برداشت کرنا ہوگا۔