ہائی پروفائل کیسز کی تفتیش
صدر مقتولہ کے خاوند تھے، پھر بھی اس کاٹ لینڈ یارڈ کا یہ شکوہ، پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے لیے ایک ایسا بدنما داغ ہے
اسکاٹ لینڈ یارڈسراغرسانی کے حوالے سے برطانیہ کا افسانوی شہرت یافتہ تفتیشی ادارہ ہے۔ بین الاقوامی طور پر اس کی شہرت جرائم کی بیخ کنی اور الجھے ہوئے کیسز کی گتھیاں سلجھانا ہے۔اس ادارے کے ماہرین نے جرائم کے کئی ملکی اور بین الاقوامی ایسے پراسرار کیسز کو حل کیا ہے، جونہایت پیچیدہ اورقریب قریب لاینحل تھے۔تقریباً پونے دو سو سالہ قدیم اس ادارے کا قیام انتیس ستمبر 1829ء کوعمل میں آیا۔ابتدا میں مختصر اسٹاف اور چھوٹی سی عمارت میں کام کا آغاز کرنے والا ادارہ وقت کے ساتھ کامیابی کی منازل طے کرتا چلا گیااور 1967ء میںویسٹ منسٹر میںٹین براڈوے پر بیس منزلہ عمارت میں منتقل ہوا۔
اس ادارے کو عالمی شہرت، مشہور برطانوی ادیب سر آرتھرکانن ڈائل کی جرم و سزا پر مبنی کہانیوں سے بھی ملی۔ سر آرتھر کے شہرۂ آفاق کردار شرلاک ہومز نے اسکاٹ لینڈکے ایک سراغ رساں کی حیثیت سے ہی دنیا بھر کے لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے جس کا آفیشلی نام نیو اسکاٹ لینڈ یارڈ ہے، کئی بین الاقوامی الجھے ہوئے کیسز سلجھائے لیکن شاید پاکستانی مجرموں کی مجرمانہ ذہانت اور مہارت اتنی زیادہ ہے کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ اب تک ایک بھی پاکستانی کیس حل نہیں کر سکی ہے۔ 2008ء میں پاکستان کی سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات میں مدد کے لیے پاکستان آنیوالی اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم کئی مہینے پاکستان میں رہنے کے بعد کسی نتیجے پر پہنچے بغیر واپس چلی گئی۔
اس سے قبل 2007ء میں پاکستانی کوچ باب وولمر کی پراسرار موت بلکہ سب سے پہلے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان اور پھر بینظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لیے بھی اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ماہرین کی خدمات لی گئیں لیکن کروڑوں خرچ کر کے بھی کسی کیس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے پاکستان میں ناکامی کی وجوہ ہمیشہ یہ بتائیں کہ انھیں پاکستان میں اس طرح آزادانہ طور پرنہ کام کرنے دیا جاتا ہے اور نہ ہی ضروری تعاون کیا جاتا ہے جس طرح برطانیہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں انھیں تفتیش کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں جہاں مجرم دندناتے پھرتے ہوں اور کوئی روکنے والا نہ ہو، جہاں جرم کے بعد جرم کے آثار محفوظ کرنے کے عالمی اصول کی بجائے تمام نشانات مٹانے کی کوشش کی جاتی ہو، وہاں جرائم کی تہہ تک پہنچنا اسکاٹ لینڈ یارڈ جیسے عالمی ادارے کے بس کی بات بھی نہیں۔خود محترمہ بے نظیرکے قتل کا کیس دیکھ لیجیے۔
قتل کے فوراً بعد نامعلوم قوتوں کے ایما پر تمام نشانات مٹا دیے گئے۔ جائے وقوع کو آدھے گھنٹے کے اندر دھو دیا گیا، یوں انتہائی قیمتی معلومات جن کے ذریعے مجرموں کا سراغ مل سکتا تھا، مٹ گئیں۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ماہرین کیمطابق جائے وقوع کی بنیادی شہادتوں کی عدم موجودگی اور پوسٹ مارٹم کی اجازت نہ ملنے کے باوجود وہ تفتیش کے تمام روایتی و غیر روایتی طریقوں کے ذریعے مجرموں کا کھرا ڈھونڈ نکالتے لیکن انھیں پاکستان میں آزادی کے ساتھ کام نہیں کرنے دیا گیا۔اس تناظر میں سوچا جائے تو یہ بات کتنی عبرت انگیز ہے کہ جس حکومت نے بے نظیر بھٹو کے قتل کی تفتیش کے لیے اسکاٹ لینڈ یارڈ کی خدمات حاصل کیں، وہ خود پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔
صدر مقتولہ کے خاوند تھے، پھر بھی اس کاٹ لینڈ یارڈ کا یہ شکوہ، پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے لیے ایک ایسا بدنما داغ ہے، جو مٹائے نہیں مٹ سکے گا۔اس سے ایک یہ بات تو بہرحال صاف ہوئی کہ پاکستان میں مجرموں کے بچ نکلنے میں ان کی مجرمانہ ذہانت سے زیادہ اِس زوال پذیر معاشرے کا کمال ہے جہاں اپنے مذموم مقاصد کے لیے مجرموں کی پشت پناہی کی جاتی ہے اور جہاں جاگیرداروں کااسٹیٹس نامی گرامی غنڈے بدمعاشوں کو بڑی بڑی تنخواہوں پر پالنے سے ظاہر ہوتا ہے۔کہتے ہیں کہ مجرم کتنا بھی ذہین ہو،اس سے کوئی نہ کوئی غلطی ضرور ہوتی ہے، وہ کہیں نہ کہیں اپنا سراغ چھوڑ جاتا ہے۔ اب یہ تفتیش کرنے والوں کی ذہانت و مہارت ہوتی ہے کہ وہ کس طرح اس سراغ کو کھوجتے ہیں اوراس کے ذریعے مجرم تک پہنچتے ہیں ۔
اس وقت بھی ایک ہائی پروفائل کیس پر سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس تفتیش میں مصروف ہے۔متحدہ کے قائد الطاف حسین ضمانت پر رہا ہوگئے ہیں،سدرک پولیس اسٹیشن میں قائد تحریک کا کئی گھنٹے انٹرویو لیا گیا۔ہمارے لیے مگر بڑی عبرت کی بات یہ ہے کہ یوں تو ہم مغرب والوں کو گالیاں دیتے نہیں تھکتے لیکن ایک غیر ملکی شخص جس نے ان کے ہاں سیاسی پناہ لے رکھی تھی، کے قتل کو انھوں نے اتنی سنجیدگی سے لے رکھا ہے کہ چار سال ہوگئے، انھوں نے اپنی تفتیش جاری رکھی ہوئی ہے اور مجرموں کے گریبان تک پہنچنے کے لیے وہ لوگ ابھی بھی پرعزم ہیں، جب کہ پاکستان میں پاکستانیوں کی جان و مال کی حرمت اتنی پائمال ہے کہ یہاں دہشتگردی کے ایک ایک واقعے میں دس بیس عام شہری جاں بحق ہو جاتے ہیں، لیکن تین دن نہیں گزرتے، لوگوں کو واقعہ ہی بھول جاتا ہے۔
یہاں 12مئی کا خونریز دن آتا ہے، چینلوں پر لائیو مجرموں کو دکھایا جاتا ہے اورکوئی پکڑا نہیں جاتا۔ یہاں علمائے کرام کو تواتر کے ساتھ شہیدکیا جاتا ہے اور سی سی ٹی وی فوٹیج اور دوسرے واضح ثبوتوں کے سامنے آنے کے باوجود کچھ نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں پچھلے سال شاہ زیب قتل کیس کا بڑا چرچا ہوا اور اسے پاکستان میں تبدیلی کا واضح نشان سمجھا گیا لیکن یہ ایک استثنائی معاملہ تھا۔اور پھر قاتل شاہ رخ اگر انتہائی بارسوخ تھا تو مقتول بھی بہرحال ایک متمول فیملی سے تعلق رکھتا تھا۔ مقتول کی فیملی نے انفرادی طور پر ہر دباؤ کو جھیلا اور خوش قسمتی سے انھیں میڈیا اور سول سوسائٹی کی حمایت بھی حاصل ہو گئی لیکن ہر پاکستانی نہ تو اتنے وسائل رکھتا ہے اور نہ اتنا خوش قسمت ہے کہ میڈیا اور سول سوسائٹی کی حمایت سے ظالم کیسامنے ڈٹ سکے۔ انصاف پر مبنی معاشرہ تو کہتے ہی اسے ہیں جہاں ہر خاص و عام کو مساوی انصاف ملے اور پاکستانی معاشرہ ہنوز اس منزل سے کوسوں دور ہے۔
اس ادارے کو عالمی شہرت، مشہور برطانوی ادیب سر آرتھرکانن ڈائل کی جرم و سزا پر مبنی کہانیوں سے بھی ملی۔ سر آرتھر کے شہرۂ آفاق کردار شرلاک ہومز نے اسکاٹ لینڈکے ایک سراغ رساں کی حیثیت سے ہی دنیا بھر کے لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے جس کا آفیشلی نام نیو اسکاٹ لینڈ یارڈ ہے، کئی بین الاقوامی الجھے ہوئے کیسز سلجھائے لیکن شاید پاکستانی مجرموں کی مجرمانہ ذہانت اور مہارت اتنی زیادہ ہے کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ اب تک ایک بھی پاکستانی کیس حل نہیں کر سکی ہے۔ 2008ء میں پاکستان کی سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات میں مدد کے لیے پاکستان آنیوالی اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم کئی مہینے پاکستان میں رہنے کے بعد کسی نتیجے پر پہنچے بغیر واپس چلی گئی۔
اس سے قبل 2007ء میں پاکستانی کوچ باب وولمر کی پراسرار موت بلکہ سب سے پہلے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان اور پھر بینظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لیے بھی اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ماہرین کی خدمات لی گئیں لیکن کروڑوں خرچ کر کے بھی کسی کیس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے پاکستان میں ناکامی کی وجوہ ہمیشہ یہ بتائیں کہ انھیں پاکستان میں اس طرح آزادانہ طور پرنہ کام کرنے دیا جاتا ہے اور نہ ہی ضروری تعاون کیا جاتا ہے جس طرح برطانیہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں انھیں تفتیش کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں جہاں مجرم دندناتے پھرتے ہوں اور کوئی روکنے والا نہ ہو، جہاں جرم کے بعد جرم کے آثار محفوظ کرنے کے عالمی اصول کی بجائے تمام نشانات مٹانے کی کوشش کی جاتی ہو، وہاں جرائم کی تہہ تک پہنچنا اسکاٹ لینڈ یارڈ جیسے عالمی ادارے کے بس کی بات بھی نہیں۔خود محترمہ بے نظیرکے قتل کا کیس دیکھ لیجیے۔
قتل کے فوراً بعد نامعلوم قوتوں کے ایما پر تمام نشانات مٹا دیے گئے۔ جائے وقوع کو آدھے گھنٹے کے اندر دھو دیا گیا، یوں انتہائی قیمتی معلومات جن کے ذریعے مجرموں کا سراغ مل سکتا تھا، مٹ گئیں۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ماہرین کیمطابق جائے وقوع کی بنیادی شہادتوں کی عدم موجودگی اور پوسٹ مارٹم کی اجازت نہ ملنے کے باوجود وہ تفتیش کے تمام روایتی و غیر روایتی طریقوں کے ذریعے مجرموں کا کھرا ڈھونڈ نکالتے لیکن انھیں پاکستان میں آزادی کے ساتھ کام نہیں کرنے دیا گیا۔اس تناظر میں سوچا جائے تو یہ بات کتنی عبرت انگیز ہے کہ جس حکومت نے بے نظیر بھٹو کے قتل کی تفتیش کے لیے اسکاٹ لینڈ یارڈ کی خدمات حاصل کیں، وہ خود پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔
صدر مقتولہ کے خاوند تھے، پھر بھی اس کاٹ لینڈ یارڈ کا یہ شکوہ، پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے لیے ایک ایسا بدنما داغ ہے، جو مٹائے نہیں مٹ سکے گا۔اس سے ایک یہ بات تو بہرحال صاف ہوئی کہ پاکستان میں مجرموں کے بچ نکلنے میں ان کی مجرمانہ ذہانت سے زیادہ اِس زوال پذیر معاشرے کا کمال ہے جہاں اپنے مذموم مقاصد کے لیے مجرموں کی پشت پناہی کی جاتی ہے اور جہاں جاگیرداروں کااسٹیٹس نامی گرامی غنڈے بدمعاشوں کو بڑی بڑی تنخواہوں پر پالنے سے ظاہر ہوتا ہے۔کہتے ہیں کہ مجرم کتنا بھی ذہین ہو،اس سے کوئی نہ کوئی غلطی ضرور ہوتی ہے، وہ کہیں نہ کہیں اپنا سراغ چھوڑ جاتا ہے۔ اب یہ تفتیش کرنے والوں کی ذہانت و مہارت ہوتی ہے کہ وہ کس طرح اس سراغ کو کھوجتے ہیں اوراس کے ذریعے مجرم تک پہنچتے ہیں ۔
اس وقت بھی ایک ہائی پروفائل کیس پر سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس تفتیش میں مصروف ہے۔متحدہ کے قائد الطاف حسین ضمانت پر رہا ہوگئے ہیں،سدرک پولیس اسٹیشن میں قائد تحریک کا کئی گھنٹے انٹرویو لیا گیا۔ہمارے لیے مگر بڑی عبرت کی بات یہ ہے کہ یوں تو ہم مغرب والوں کو گالیاں دیتے نہیں تھکتے لیکن ایک غیر ملکی شخص جس نے ان کے ہاں سیاسی پناہ لے رکھی تھی، کے قتل کو انھوں نے اتنی سنجیدگی سے لے رکھا ہے کہ چار سال ہوگئے، انھوں نے اپنی تفتیش جاری رکھی ہوئی ہے اور مجرموں کے گریبان تک پہنچنے کے لیے وہ لوگ ابھی بھی پرعزم ہیں، جب کہ پاکستان میں پاکستانیوں کی جان و مال کی حرمت اتنی پائمال ہے کہ یہاں دہشتگردی کے ایک ایک واقعے میں دس بیس عام شہری جاں بحق ہو جاتے ہیں، لیکن تین دن نہیں گزرتے، لوگوں کو واقعہ ہی بھول جاتا ہے۔
یہاں 12مئی کا خونریز دن آتا ہے، چینلوں پر لائیو مجرموں کو دکھایا جاتا ہے اورکوئی پکڑا نہیں جاتا۔ یہاں علمائے کرام کو تواتر کے ساتھ شہیدکیا جاتا ہے اور سی سی ٹی وی فوٹیج اور دوسرے واضح ثبوتوں کے سامنے آنے کے باوجود کچھ نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں پچھلے سال شاہ زیب قتل کیس کا بڑا چرچا ہوا اور اسے پاکستان میں تبدیلی کا واضح نشان سمجھا گیا لیکن یہ ایک استثنائی معاملہ تھا۔اور پھر قاتل شاہ رخ اگر انتہائی بارسوخ تھا تو مقتول بھی بہرحال ایک متمول فیملی سے تعلق رکھتا تھا۔ مقتول کی فیملی نے انفرادی طور پر ہر دباؤ کو جھیلا اور خوش قسمتی سے انھیں میڈیا اور سول سوسائٹی کی حمایت بھی حاصل ہو گئی لیکن ہر پاکستانی نہ تو اتنے وسائل رکھتا ہے اور نہ اتنا خوش قسمت ہے کہ میڈیا اور سول سوسائٹی کی حمایت سے ظالم کیسامنے ڈٹ سکے۔ انصاف پر مبنی معاشرہ تو کہتے ہی اسے ہیں جہاں ہر خاص و عام کو مساوی انصاف ملے اور پاکستانی معاشرہ ہنوز اس منزل سے کوسوں دور ہے۔