دیوار کے پیچھے خفیہ قوت ہی حکومت کو چلائے گی مولانا فضل الرحمان
ایسی پارلیمنٹ کیسی ہوگی جس کے بارے میں انگلی اٹھے گی کہ اس کو بھی ایجنسیوں نے پاس کیا، سربراہ جے یو آئی
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ن لیگ اور پی پی شامل ہو تو روز ایک دوسرے کو بلیک میل کریں گے جبکہ دیوار کے پیچھے خفیہ قوت ہوگی وہی ان کو چلائیں گے۔
احتجاجی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ 2018 کے الیکشن کے بعد ہمارا یہ خیال تھا کہ 2024 کا الیکشن منصفانہ اور شفاف ہوگا لیکن ایک بار پھر ہماری خواہش اور آئین کی بالادستی کو کچل دیا گیا ہے، مجھے اب فکر اس بات کی ہے اگر دو الیکشن مسلسل متنازعہ ہوں تو پھر پارلیمان کی اہمیت کیا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ براہ راست مداخلت کرکے ایک ایک حلقے سے اپنی مرضی سے نمائندوں کو چنے گی تو وہ عوام کا نمائندہ نہیں ہوگا، ایسی پارلیمنٹ کیسی پارلیمنٹ ہوگی جس کے بارے میں انگلی اٹھے گی کہ اس کو بھی ایجنسیوں نے پاس کیا ہے، جس کو مخالف دیکھا اس کے خلاف کرپشن کے کیس کر دیے۔
فضل الرحمان نے کہا کہ دعوے سے کہتا ہوں اس الیکشن میں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پچھتر سالہ کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں، وردیاں عزت نہیں دیتیں بلکہ وردیوں میں کردار عزت دیتے ہیں۔ ہم جمہورت کے علمبردار ہیں، ہمارے بزرگ اس آئین کے بانی ہیں اور اس آئین کے تحفظ کو ہم اپنی ذمہ داری تصور کرتے ہیں لیکن آئین کی کوئی حیثیت نہیں، آئین چند ٹکڑوں کا نام ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں، اکثریت کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ قرآن کے فیصلوں کو بدل دے۔ یہاں ہمارے پارلیمنٹ کی حاکمیت نہیں ہمارے ملازمین کی حاکمیت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم کس طرح اس نظام کے ساتھ چلیں گے؟ پاکستان مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور ہم نے مل کر تحریک چلائی ہے، ان پارٹیوں کے راہنما کنٹینروں پر ہوتے تھے اور ہمارے کارکن سڑکوں پہ ہوتے تھے، 2018 میں بھی آپ کا یہی مینڈیٹ تھا اور آج بھی یہی ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کل دھاندلی ہوئی تھی اور آج دھاندلی نہیں ہوئی، پی ٹی آئی کا بھی وہی مینڈیٹ ہے جو 2018 میں ملا تھا۔ پی ٹی آئی سے پوچھتا ہوں جب اس وقت آپ حکومت بنا رہے تھے تو دھاندلی نہیں ہوئی اور آج دھاندلی ہوئی ہے، پارلیمنٹ میں میری قوت کسی اور کی مرہون منت ہے لیکن جب سڑکوں پر آؤں گا تو اپنے زور بازو پر آؤں گا۔
سربراہ جمعیت علمائے اسلام کا کہنا تھا کہ کرسی بانٹ حکومت کی کوئی افادیت نہیں، ہم پھونک پھونک کر آگے جا رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں ہماری فوج ملکی دفاع کی صلاحیت رکھے، بیرونی دشمن تو دور کی بات ملک کے اندر 20 سال سے دہشت گردی ہو رہی ہے، دہشت گردی بڑھ رہی ہے اور یہ پتہ نہیں کیا کر رہی ہیں، جب دفاعی قوت سیاسی قوت بن گئی ہے تو تنقید میرا حق ہے۔ کیا پارلیمنٹ اتنی بڑی مجبوری بن جائے کہ ہم اس کی ممبر شپ کیلئے بوٹ چاٹتے رہیں۔
احتجاجی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ 2018 کے الیکشن کے بعد ہمارا یہ خیال تھا کہ 2024 کا الیکشن منصفانہ اور شفاف ہوگا لیکن ایک بار پھر ہماری خواہش اور آئین کی بالادستی کو کچل دیا گیا ہے، مجھے اب فکر اس بات کی ہے اگر دو الیکشن مسلسل متنازعہ ہوں تو پھر پارلیمان کی اہمیت کیا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ براہ راست مداخلت کرکے ایک ایک حلقے سے اپنی مرضی سے نمائندوں کو چنے گی تو وہ عوام کا نمائندہ نہیں ہوگا، ایسی پارلیمنٹ کیسی پارلیمنٹ ہوگی جس کے بارے میں انگلی اٹھے گی کہ اس کو بھی ایجنسیوں نے پاس کیا ہے، جس کو مخالف دیکھا اس کے خلاف کرپشن کے کیس کر دیے۔
فضل الرحمان نے کہا کہ دعوے سے کہتا ہوں اس الیکشن میں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پچھتر سالہ کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں، وردیاں عزت نہیں دیتیں بلکہ وردیوں میں کردار عزت دیتے ہیں۔ ہم جمہورت کے علمبردار ہیں، ہمارے بزرگ اس آئین کے بانی ہیں اور اس آئین کے تحفظ کو ہم اپنی ذمہ داری تصور کرتے ہیں لیکن آئین کی کوئی حیثیت نہیں، آئین چند ٹکڑوں کا نام ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں، اکثریت کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ قرآن کے فیصلوں کو بدل دے۔ یہاں ہمارے پارلیمنٹ کی حاکمیت نہیں ہمارے ملازمین کی حاکمیت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم کس طرح اس نظام کے ساتھ چلیں گے؟ پاکستان مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور ہم نے مل کر تحریک چلائی ہے، ان پارٹیوں کے راہنما کنٹینروں پر ہوتے تھے اور ہمارے کارکن سڑکوں پہ ہوتے تھے، 2018 میں بھی آپ کا یہی مینڈیٹ تھا اور آج بھی یہی ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کل دھاندلی ہوئی تھی اور آج دھاندلی نہیں ہوئی، پی ٹی آئی کا بھی وہی مینڈیٹ ہے جو 2018 میں ملا تھا۔ پی ٹی آئی سے پوچھتا ہوں جب اس وقت آپ حکومت بنا رہے تھے تو دھاندلی نہیں ہوئی اور آج دھاندلی ہوئی ہے، پارلیمنٹ میں میری قوت کسی اور کی مرہون منت ہے لیکن جب سڑکوں پر آؤں گا تو اپنے زور بازو پر آؤں گا۔
سربراہ جمعیت علمائے اسلام کا کہنا تھا کہ کرسی بانٹ حکومت کی کوئی افادیت نہیں، ہم پھونک پھونک کر آگے جا رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں ہماری فوج ملکی دفاع کی صلاحیت رکھے، بیرونی دشمن تو دور کی بات ملک کے اندر 20 سال سے دہشت گردی ہو رہی ہے، دہشت گردی بڑھ رہی ہے اور یہ پتہ نہیں کیا کر رہی ہیں، جب دفاعی قوت سیاسی قوت بن گئی ہے تو تنقید میرا حق ہے۔ کیا پارلیمنٹ اتنی بڑی مجبوری بن جائے کہ ہم اس کی ممبر شپ کیلئے بوٹ چاٹتے رہیں۔