زوال کے ذمہ دار کرسی کی کھینچا تانی میں مصروف
قومی کھیل کو زوال کی گہرائی میں دھکیلنے کے ذمہ دار شرمسار ہونے کی بجائے ایک دوسرے پر الزامات دھر رہے ہیں
ہاکی کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کے بغیر ورلڈ کپ کا میلہ ہالینڈ میں سجایا جا چکا ہے۔انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ 4 بار کے عالمی چیمپئن گرین شرٹس 13 ویں ایڈیشن کے لیے کوالیفائی ہی نہ کرسکے، ابتدائی 5 میں سے 3ٹائٹل اپنے نام کرنے والے ملک کے عوام ایک صدماتی کیفیت سے دوچار ہیں لیکن قومی کھیل کو زوال کی گہرائی میں دھکیلنے کے ذمہ دار شرمسار ہونے کی بجائے ایک دوسرے پر الزامات دھر رہے ہیں،
گذشتہ 20 سال سے میدانوں میں جاری تنزلی کی وجوہات اور مسائل کے حل پر کسی کی توجہ نہیں، کرسی والے اسے بچانے اور باہر بیٹھے ہتھیانے کی کوشش میں ہیں، ہر ہار پر بہتر مستقبل کے لیے اہداف کا اعلان کرنے والے اپنی روایتی ڈگر پر قائم اور عوام دلاسوں پر یقین چھوڑتے جارہے ہیں۔
ماضی کے اوراق سے پردہ اٹھایا جائے تو 70 اور 80 کی دہائی میں پاکستان کو ہاکی کا ایشین جائنٹ جانا جاتا تھا، 1971 میں ابتدائی ٹائٹل پرقبضہ جمانے کے بعد گرین شرٹس کی فتوحات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ دو عشروں تک میدانوں میں مسلسل سبزہلالی پرچم لہراتا رہا، 73 میں دوسرے ایڈیشن کے سیمی فائنل اور 1975 کے فائنل میں شکست سے گرین شرٹس نے ایسا سبق حاصل کیا کہ 1978 اور82 میں مسلسل دو ٹائٹل اپنے نام کرتے ہوئے ایک بار دنیائے ہاکی پر بادشاہت قائم کرلی۔
اس دور میں پاکستان کا طوطی بولتا تھا، آج کھیل پر راج کرنے والی یورپی ٹیمیں جیتنا تو درکنار شکست کا مارجن کم کرنے میں کامیابی کو بڑی غنیمت سمجھتی تھیں، اس کے بعد 1986 میں پاکستان کو وکٹری سٹینڈ تک رسائی نہ پانے کا صدمہ ملا لیکن ماضی کے عظیم کارناموں کی چمک نے اس کو دھندلا دیا، 1990 میں ایک بار پھر ٹیم فائنل میں ہلکی سی چوک ہوجانے پر چوتھی بار چیمپئن بننے سے محروم رہی۔
لیکن 4 برس انتظار کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر ٹائٹل اپنے نام کر لیا، فتوحات کو بریک لگنے کے بعد قومی ٹیم کی کارکردگی مسلسل زوال پذیر ہوتی گئی، 1998 اور 2002 میں پانچویں، 2006 میں چھٹی پوزیشن مقدر بنی لیکن یہ سلسلہ یہی پر نہ تھما بلکہ 2010 کے ایڈیشن میں 12 ٹیموں میں اسے آخری نمبر کی رسوائی اٹھانا پڑی، اس بڑی شرمندگی پر بھی ہاکی کے ذمہ داروں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، سیاسی وابستگیوں کے بل بوتے پی ایچ ایف کے عہدوں پر براجمان ہونے والے سب اچھا ہے کہ راگ الاپتے رہے اور قومی کھیل ناکامیوں کی دلدل میں دھنستا گیا۔
مبصرین اور اولمپئنز قومی کھیل کے زوال کی وجوہات پیش کرتے رہتے ہیں، کسی کا خیال ہے کہ گھاس کی میدان سے آسٹروٹرف پر منتقلی اور قوانین میں تبدیلی تباہی کی بڑی وجہ ہے، کچھ سابق عہدیداروں کی ناقص اور فرسودہ پلاننگ پر تنقید کے نشتر چلاتے ہیں، غلطیوں کی نشاندہی سب کرتے ہیں، بہتری کا راستہ کوئی نہیں بتاتا۔
قومی کھیل میں پستی کے ذمہ داری کرسی کے پیچھے بھاگنے والے عہدیداروں کے ساتھ ساتھ سابق اولمپئنز پر بھی عائد ہوتی ہے،کوئی بھی ملک کی طرف سے ملنے والی عزت کی لاج نہ رکھ پایا، کرسی والوں نے کئی سال زبانی جمع خرچ میں ضائع کردیئے تو باقی بچنے والے اس کی طلب میں مارے مارے پھرتے رہے، کسی کو سمجھ ہی نہ آئی کہ ماضی میں حاصل عروج کے خمار سے باہر نکل کر مستقبل کے بارے میں بھی منصوبہ بندی کرنی ہے۔
ہمیں نیوزی لینڈ، بیلجیم اور ارجنٹائن سے ہی کچھ سبق سیکھ لینا چاہیے تھا جنہوں نے حکمت عملی اور محنت کی بدولت مسلسل ناکامیوں سے جان چھڑائی کہ ہالینڈ میں جاری ورلڈ کپ میں آسٹریلیا، ہالینڈ اور جرمنی جیسی طاقتور ٹیموں کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ ہاکی پنڈت اس بار بھی عالمی چیمپئن آسٹریلیا کو ٹائٹل کے دفاع کے لیے مضبوط امیدوار قرار دے رہے ہیں، کوکا بوراز بھی فیورٹ قرار دیئے جانے کے دباؤ کا شکار دکھائی نہیں دے رہے، ٹیم نے اپنے ابتدائی تینوں میچز جیت کر ٹائٹل پر دعویداری کا کیس مضبوط کرلیا ہے۔
گروپ اے میں انگلش سائیڈ 2 فتوحات کے ساتھ دوسرے اور بیلیجم اتنی ہی کامیابیوں کے بعد تیسرے نمبر پرہے، اس گروپ میں شریک دو ایشیائی ٹیمیں ملائیشیا اور بھارت 3،3 میچز کھیلنے کے بعد ایک بھی فتح حاصل نہیں کرپائیں۔ گروپ بی میں اولمپک چیمپئن ڈچ سائیڈ نے سب پر دھاک بٹھا رکھی ہے اس نے ابھی تک اپنے تمام میچز جیتے ہیں، نیوزی لینڈ ٹیم دوسرے اور ارجنٹائن تیسرے نمبر پر ہے، اس گروپ میں مضبوط ترین تصور ہونے والی جرمن سائیڈ حیران کن طور پر چوتھے نمبر پرہے،گروپ بی میں شریک ایشیائی سائیڈ جنوبی کوریا بھی خطے میں ہاکی کے زوال کی داستان سنا رہی ہے۔
گذشتہ 20 سال سے میدانوں میں جاری تنزلی کی وجوہات اور مسائل کے حل پر کسی کی توجہ نہیں، کرسی والے اسے بچانے اور باہر بیٹھے ہتھیانے کی کوشش میں ہیں، ہر ہار پر بہتر مستقبل کے لیے اہداف کا اعلان کرنے والے اپنی روایتی ڈگر پر قائم اور عوام دلاسوں پر یقین چھوڑتے جارہے ہیں۔
ماضی کے اوراق سے پردہ اٹھایا جائے تو 70 اور 80 کی دہائی میں پاکستان کو ہاکی کا ایشین جائنٹ جانا جاتا تھا، 1971 میں ابتدائی ٹائٹل پرقبضہ جمانے کے بعد گرین شرٹس کی فتوحات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ دو عشروں تک میدانوں میں مسلسل سبزہلالی پرچم لہراتا رہا، 73 میں دوسرے ایڈیشن کے سیمی فائنل اور 1975 کے فائنل میں شکست سے گرین شرٹس نے ایسا سبق حاصل کیا کہ 1978 اور82 میں مسلسل دو ٹائٹل اپنے نام کرتے ہوئے ایک بار دنیائے ہاکی پر بادشاہت قائم کرلی۔
اس دور میں پاکستان کا طوطی بولتا تھا، آج کھیل پر راج کرنے والی یورپی ٹیمیں جیتنا تو درکنار شکست کا مارجن کم کرنے میں کامیابی کو بڑی غنیمت سمجھتی تھیں، اس کے بعد 1986 میں پاکستان کو وکٹری سٹینڈ تک رسائی نہ پانے کا صدمہ ملا لیکن ماضی کے عظیم کارناموں کی چمک نے اس کو دھندلا دیا، 1990 میں ایک بار پھر ٹیم فائنل میں ہلکی سی چوک ہوجانے پر چوتھی بار چیمپئن بننے سے محروم رہی۔
لیکن 4 برس انتظار کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر ٹائٹل اپنے نام کر لیا، فتوحات کو بریک لگنے کے بعد قومی ٹیم کی کارکردگی مسلسل زوال پذیر ہوتی گئی، 1998 اور 2002 میں پانچویں، 2006 میں چھٹی پوزیشن مقدر بنی لیکن یہ سلسلہ یہی پر نہ تھما بلکہ 2010 کے ایڈیشن میں 12 ٹیموں میں اسے آخری نمبر کی رسوائی اٹھانا پڑی، اس بڑی شرمندگی پر بھی ہاکی کے ذمہ داروں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، سیاسی وابستگیوں کے بل بوتے پی ایچ ایف کے عہدوں پر براجمان ہونے والے سب اچھا ہے کہ راگ الاپتے رہے اور قومی کھیل ناکامیوں کی دلدل میں دھنستا گیا۔
مبصرین اور اولمپئنز قومی کھیل کے زوال کی وجوہات پیش کرتے رہتے ہیں، کسی کا خیال ہے کہ گھاس کی میدان سے آسٹروٹرف پر منتقلی اور قوانین میں تبدیلی تباہی کی بڑی وجہ ہے، کچھ سابق عہدیداروں کی ناقص اور فرسودہ پلاننگ پر تنقید کے نشتر چلاتے ہیں، غلطیوں کی نشاندہی سب کرتے ہیں، بہتری کا راستہ کوئی نہیں بتاتا۔
قومی کھیل میں پستی کے ذمہ داری کرسی کے پیچھے بھاگنے والے عہدیداروں کے ساتھ ساتھ سابق اولمپئنز پر بھی عائد ہوتی ہے،کوئی بھی ملک کی طرف سے ملنے والی عزت کی لاج نہ رکھ پایا، کرسی والوں نے کئی سال زبانی جمع خرچ میں ضائع کردیئے تو باقی بچنے والے اس کی طلب میں مارے مارے پھرتے رہے، کسی کو سمجھ ہی نہ آئی کہ ماضی میں حاصل عروج کے خمار سے باہر نکل کر مستقبل کے بارے میں بھی منصوبہ بندی کرنی ہے۔
ہمیں نیوزی لینڈ، بیلجیم اور ارجنٹائن سے ہی کچھ سبق سیکھ لینا چاہیے تھا جنہوں نے حکمت عملی اور محنت کی بدولت مسلسل ناکامیوں سے جان چھڑائی کہ ہالینڈ میں جاری ورلڈ کپ میں آسٹریلیا، ہالینڈ اور جرمنی جیسی طاقتور ٹیموں کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ ہاکی پنڈت اس بار بھی عالمی چیمپئن آسٹریلیا کو ٹائٹل کے دفاع کے لیے مضبوط امیدوار قرار دے رہے ہیں، کوکا بوراز بھی فیورٹ قرار دیئے جانے کے دباؤ کا شکار دکھائی نہیں دے رہے، ٹیم نے اپنے ابتدائی تینوں میچز جیت کر ٹائٹل پر دعویداری کا کیس مضبوط کرلیا ہے۔
گروپ اے میں انگلش سائیڈ 2 فتوحات کے ساتھ دوسرے اور بیلیجم اتنی ہی کامیابیوں کے بعد تیسرے نمبر پرہے، اس گروپ میں شریک دو ایشیائی ٹیمیں ملائیشیا اور بھارت 3،3 میچز کھیلنے کے بعد ایک بھی فتح حاصل نہیں کرپائیں۔ گروپ بی میں اولمپک چیمپئن ڈچ سائیڈ نے سب پر دھاک بٹھا رکھی ہے اس نے ابھی تک اپنے تمام میچز جیتے ہیں، نیوزی لینڈ ٹیم دوسرے اور ارجنٹائن تیسرے نمبر پر ہے، اس گروپ میں مضبوط ترین تصور ہونے والی جرمن سائیڈ حیران کن طور پر چوتھے نمبر پرہے،گروپ بی میں شریک ایشیائی سائیڈ جنوبی کوریا بھی خطے میں ہاکی کے زوال کی داستان سنا رہی ہے۔