حکومت سازی جامع معاشی اصلاحات ناگزیر

ایک مضبوط اتحادی حکومت بناکر معاشی استحکام کے ایجنڈے پر کام کرنے کی ضرورت ہے

ایک مضبوط اتحادی حکومت بناکر معاشی استحکام کے ایجنڈے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ فوٹو، فائل

مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان شراکت اقتدار کا معاہدہ طے پانے کے بعد ن لیگ کے دیگر جماعتوں ایم کیوایم، جے یو آئی، بی اے پی اور آئی پی پی کے ساتھ مشاورت کے دور ہوئے، کیونکہ ایک مضبوط اتحادی حکومت بناکر معاشی استحکام کے ایجنڈے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کو اگلے چھ ماہ میں دو بہت اہم کام کرنے ہیں۔ پہلا اس نئی حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ درمیانی مدت کے ایک نئے معاہدے میں جانا ہے اور دوسرا ایسا بجٹ بنانا ہے جو نہ صرف عوامی امنگوں پر پورا اترے بلکہ پاکستان کا مالیاتی خسارہ بھی ٹھیک کرے۔ملک میں مہنگائی کا مسئلہ اپنی جگہ برقرار ہے، جس سے معاشرے کے کم آمدنی والے طبقات زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

مالیاتی اداروں کو اِس صورتحال میں افراط زر کی سطح کم کرنے کے لیے فعال نقطہ نظر اپنانا ہوگا۔ پاکستان کو بیرونی قرضوں کی واپسی، مزید قرضوں سے بچنے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے اور قومی ترقی کی شرح نمو بڑھانے کے لیے مارکیٹ کے طے شدہ شرح تبادلہ کو اختیار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

کرنٹ اکاؤنٹ نے حال ہی میں سر پلس ظاہر کیا ہے جب کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر نے بھی اپنا توازن برقرار رکھا ہوا ہے، تاہم یہ رجحان کسی بھی وقت تبدیل ہوسکتا ہے جب درآمدات میں اضافہ ہو اور ڈالر کی مانگ زیادہ ہونے لگے۔ آنے والی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ناکافی سرمائے والے مالیاتی اداروں سے نمٹنا اور مالیاتی استحکام برقرار رکھنے کے لیے مالیاتی شعبے پر نظر رکھنا بھی ہوگا۔

پاکستان کو درپیش بڑے چیلنجوں اور اِن کے ممکنہ حل کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمی بینک کے حالیہ پالیسی نوٹوں کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے چالیس فیصد بچوں کو سست نشوونما جیسے مسئلے کا سامنا ہے۔ پاکستان کے دس سال کے 75فیصد سے زائد بچے ایسے ہیں جو ایک عام سادہ سی تحریر بھی پڑھنے یا سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان کا ٹیکس ریونیو دیگر ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔

امراء کی بڑی تعداد ٹیکس ادا نہیں کرتی۔ بڑے پیمانے پر نقل مکانی بھی چیلنجنگ ہے اور اعلیٰ ہنر مند پیشہ ور ذہین افراد کی بڑی تعداد بہتر ملازمتی مواقع کی تلاش میں ملک چھوڑ رہی ہے۔ یہ تمام مسائل پاکستان کی خوشحالی کے امکانات اور غربت کے خاتمے کی کوششوں میں رکاوٹ ہیں۔ ورلڈ بینک کے سال دوہزار تیئس کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح ''اہم مسئلہ'' ہے اور یہ صرف ایک سال میں 34.2 فیصد سے بڑھ کر 39.4 فیصد ہو چکی ہے۔

غربت سادہ نہیں بلکہ پیچیدہ صورت اختیار کرچکی ہے جس کی وجوہات میں معاشی عوامل سرفہرست ہیں جب کہ یہ سماجی، سیاسی اور ثقافتی جہتوں کا احاطہ کرتی ہے، لہٰذا غربت سے نمٹنے کے لیے معاشی حکمت عملیوں سے بالاتر ہو کر جامع نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے مربوط اقدامات کرنا ہوں گے۔

اِس کے علاوہ غربت کے خاتمے کے لیے محض معاشی توسیع کافی نہیں ہوگی۔ غربت میں کمی کی حکمت عملی میں ایسی پالیسیاں شامل ہونی چاہئیں جس سے آمدنی اور اثاثوں کی منصفانہ تقسیم میں اضافہ ہو۔ یہ ہدف مالی فریم ورک بہتر بنانے کے لیے جامع معاشی اصلاحات، کم آمدنی والے لوگوں کو فائدہ پہنچانے والے پروگراموں پر عوامی اخراجات میں اضافہ اور مالیاتی منڈیوں تک رسائی کو بہتر بنانے کے اقدامات کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

اس میں نان فائلرز اور کم ٹیکس والے شعبوں سے زیادہ آمدنی حاصل کرنا اور پبلک فنانشل مینجمنٹ کو بہتر بنانا بھی شامل ہے۔ ان اقدامات سے حکومت کو سماجی اور ترقیاتی اقدامات کے لیے مزید فنڈز مختص کرنے کا موقع ملے گا۔

پاکستان میں روزگار کے مواقعوں میں اضافہ اور جامع اقتصادی ترقی کے فروغ کے لیے 'بی آئی ایس پی' جیسے پروگرام کے ذریعے پسماندہ افراد کو سہارا دینا ہوگا۔ کاروباری ماحول بہتر بنانے اور سرمایہ کاروں کے لیے منصفانہ مسابقت یقینی بنانے کے لیے بھی ضروری اور فوری تبدیلیوں کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔

پاکستان کو جغرافیائی لحاظ سے ایسی پوزیشن حاصل ہے، جو شائد ہی دنیا میںکسی اور ملک کو حاصل ہو، پاکستان واحد ملک ہے جس کے پاس بری اور بحری راستے موجود ہیں جن سے وہ دنیا بھر سے تجارت کرسکتا ہے، دنیا کے کئی ممالک کے لیے پاکستان کی بڑی اہمیت ہے، پاکستان قدرتی اور انسانی وسائل سے مالامال ہے، آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، دنیا کا بہترین نہری نظام یہاں موجود ہے، دنیا کے بہترین پھل یہاں پیدا ہوتے ہیں۔


دنیا کے قیمتی ترین پتھر یہاں پائے جاتے ہیں۔ کوئلہ اور نمک کی کانیں یہاں موجود ہیں، سونے اور تیل کے ذخائر یہاں موجود ہیں، دنیا کا بہترین کپڑا یہاں تیارکیا جاتا ہے، کھیلوں کا سامان چمڑے کا سامان۔ گندم اور چاول دالیں اور کیا کیا نعمتیں اللہ نے پاکستان کو عنایت کررکھی ہیں۔ ان سے استفادہ کرکے پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط کیا جاسکتا ہے اور اگر حقیقی طور پر معاشی منصوبہ بندی کی جائے تو پاکستان معاشی طاقت بن سکتا ہے۔

پاکستان کے پاس دو بڑی مارکیٹیں ہیں ایک عالمی مارکیٹ ہے اور دوسری اسلامی ممالک کی مارکیٹ۔ اسلامی ممالک باہم تجارت کو فروغ دے کر اپنے اپنے ممالک کو معاشی طور پر مضبوط بنا سکتے ہیں۔ برآمدات کی شرح کو بڑھایا جاسکتا ہے، صنعتوں اور سیاحت کو فروغ دینے کی بے پناہ گنجائش موجود ہے۔ پاکستان میں سمندر اور دریاؤں کا پانی سونے اور تیل سے بھی زیادہ قیمتی بن سکتا ہے اگر ہم ان سے استفادہ کریں۔ آزاد کشمیر کے اندر بہنے والے پانی پر صرف ٹربائن لگاکر بجلی پیدا کریں تو پورے جنوبی ایشیا کو بجلی فراہم سکتے ہیں۔

بجلی اور گیس مفت فراہم کرنے کا اعلان کریں تو دنیا کے سارے سرمایہ کار یہاں آکر سرمایہ لگائیں گے۔ صنعت کاروں اور کسانوں کو سہولیات فراہم کریں تو وہ نہ صرف ملکی ضرورت کی اشیا پیدا کریں گے بلکہ برآمدات میں کئی گنا اضافہ کردیںگے۔ آزاد کشمیر کی نیلم ویلی کے قیمتی پتھر روبی اور سوات کے قیمتی پتھروں کو بروئے کار لایا جائے اور کرپشن نہ کی جائے تو پاکستان کے سارے قرضے ان قیمتی پتھروں کو فروخت کر کے ختم کیے جاسکتے ہیں۔

درپیش قومی مسائل و مشکلات پر قابو پانے کے لیے انتخابی مہم کے دوران کیے گئے پرکشش دعوے اور وعدے کافی نہیں، انھیں عملی جامہ پہنانے کے لیے نہایت سنجیدہ اقدامات اور سخت محنت کی ضرورت ہوگی۔ معاشی مشکلات کے ساتھ دہشت گردی اور عدم سیاسی استحکام نے بھی ریاست کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ اس لیے نئی قیادت کو ایک کڑے امتحان کا سامنا ہوگا۔ نئی قیادت کے لیے خارجہ پالیسی پر خصوصی توجہ دینا لازمی ہو گا۔

امریکا اپنی اہمیت و وقعت قائم رکھنے اور بچانے کے لیے زیر نگرانی چھوٹے ممالک کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ پہلے ان پر قرضوں کا بوجھ ڈالتا ہے پھر بھی اگر قابو میں نہ آئیں تو اسلحے کے زور پر انھیں مجبور و بے بس کردیتا ہے۔

پاکستان جو خطے کا اہم ترین ملک ہے اسکی سرحدیں بھارت، چین، روس، افغانستان، ایران سے ملتی ہیں، اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے امریکا نے اس کو اپنے کیمپ میں شامل کیا تھا۔ اب تک اس نے خوب فائدہ بھی حاصل کیا مگر اس کے باوجود امریکی حکام کی تسلی نہیں ہو پا رہی کہ پاکستان کو کیسے قابو میں رکھ کر اپنے مفادات پورے کیے جائیں۔

ہم آئی ایم ایف کی گرفت میں جکڑے ہوئے ہیں جس پر بہت سے لوگ سوال اُٹھا رہے ہیں مگر ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف جانا ضروری تھا اور اگر بہتری آئے تب بھی آئی ایم ایف سے ربط رکھنا چاہیے کہ ریاست اور پوری قوم کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔

تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما اور اُمیدوار اپنے انتخابی جلسوں میں مہنگائی سے پریشان عوام کی بے بسی کا رونا روتے رہے اور معیشت کی بہتری کو ہی اپنی پہلی ترجیح قرار دیتے رہے لیکن انھیں معیشت کی بحالی اور استحکام کے ایسے منصوبہ پر عمل کرنا ہو گا جس کے فوائد عام آدمی تک کم سے کم وقت میں پہنچنے چاہیے۔

ماضی میں یہی دیکھا گیا ہے کہ ان کی منصوبہ بندی سے اس سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی ترقی کے فوائد مُلک میں صرف دو چار فیصد افراد تک محدود رہتے ہیں جب کہ ملک کی بیشتر آبادی کے شب و روز میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آتی۔

یہ شراکت جدت کے فروغ' علاقائی ویلیو چینز کے لیے پیداواری صلاحیت کی تعمیر اور صوبوں کے درمیان مشترکہ سرگرمیوں کو ممکن و آسان بنانے کے لیے ضروری ہیں، آخر میں انسانی سرمائے کو بہتر بنانے سے پاکستان کی معاشی بنیادوں کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے اور اِس سے غربت میں کمی بھی آسکتی ہے۔

اِن اہداف کے حصول کے لیے قومی اقتصادی ترقی کے منصوبوں کی تشکیل اور اِن پر عمل درآمد پر توجہ مرکوز کرنا انتہائی ضروری ہے، اگر آنے والی حکومت ماضی کی حکومتوں کی طرح غلطیاں نہ کرے تو معیشت کی بحالی ممکن ہے اور یہی قومی ترجیح ہونی چاہیے۔

ہمیں ایک ایسی اقتصادی حکمت عملی تشکیل دینی چاہیے جو مخصوص طبقات کی بجائے پوری قوم کی خوشحالی کا ذریعہ بنے۔ سرمایہ کاری سہولت کونسل نے غیر مُلکی سرمایہ کاری کے لیے ٹھوس اقدامات شروع کیے ہیں، متحدہ عرب امارات اور کویت کے ساتھ اربوں ڈالر کی مفاہمتی منظوری بھی ہوچکی ہے جو نئی حکومت کے لیے یقینا خوش آئند ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے اور ساتھ ہی امن و امان کی صورتحال بھی دور اندیشی مگر فیصلہ کن انداز میں اقدامات کی متقاضی ہے۔
Load Next Story