انٹربورڈ نے سرکاری کالجوں کے طلبا پر غیرقانونی انرولمنٹ فیس عائد کردی
2017 کے ایک سرکاری نوٹیفکیشن کے تحت سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبا کیلیے امتحانی اور انرولمنٹ فیس ختم کی جاچکی ہے
اعلی ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کے سربراہ اور کمشنر کراچی کے ماتحت کام کرنے والی بورڈ کی ایڈہاک انتظامیہ نے سرکاری کالجوں کے ہزاروں طلبا پر غیر قانونی انرولمنٹ فیس عائد کردی۔
نگراں صوبائی حکومت کی جانب سے اعلی ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کا انتظام کمشنر کراچی کو سپرد کیے جانے کے بدترین اور خوفناک نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں، کمشنر کراچی کے بورڈ آفس نہ آنے اور انتظامی امور میں عدم دلچسپی کے سبب پبلک ڈیلنگ کا نظام عملی طور پر ایک مخصوص مافیا کے ہاتھ میں جاچکا ہے جس نے اب سرکاری کالجوں کے ہزاروں طلبا پر غیر قانونی انرولمنٹ فیس بھی عائد کردی ہے۔
واضح رہے کہ سندھ میں "مفت اور لازمی تعلیم" free and compulsory education کے قانون کے ضمن میں سن 2017 کے ایک سرکاری نوٹیفکیشن کے تحت سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبا پر امتحانی اور انرولمنٹ فیس ختم کی جاچکی ہے اور تمام بورڈ سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبا سے فیس نہ لینے کے پابند ہیں۔
اسی طرح سرکاری کالجوں میں بھی انرولڈ طلبا سے ٹیوشن فیس ، اسپورٹس، کالج منیجمنٹ کمیٹی فنڈ ، لیب ایکیوپمنٹ فنڈ، لائبریری فنڈ سمیت ہر طرح کے چارجز پر پابندی ہے۔
سرکاری تعلیمی اداروں اور ایجوکیشن بورڈز کو سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبا سے فیسوں کی وصولی آرٹیکل 25 اے کے تحت روکی گئی تھی تاہم اب اس قانون شکنی کی ابتدا کمشنر کراچی سہیل راجپوت کی چیئرمین شپ میں کام کرنے والے انٹر بورڈ کراچی سے ہوگئی ہے۔
"ایکسپریس" نے اس سلسلے میں قائم مقام سیکریٹری انٹر بورڈ کراچی ہارون رشید سے رابطہ کرکے اس سلسلے میں ان کا موقف جاننے کی کوشش کی جس پر ان کا کہنا تھا کہ تین بار date announce کرچکے ہیں طلبا فارم جمع نہیں کراتے جس کے بعد یہ پینلٹی لگائی ہے تاہم جب "ایکسپریس" نے ان سے استفسار کیا کہ fresh candidates سے تو فیس یا پلینٹی لینے کی گنجائش نہیں ہے جس پر انھوں نے موقف اختیار کیا کہ یہ تو گزشتہ برس بھی ہوا تھا ہمارے پاس نوٹیفکیشن موجود ہے۔
واضح رہے کہ اعلی ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کی جانب سے 25 جنوری کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق اب انٹر سال اول کے سالانہ 2024 کے امتحانات کے انرولمنٹ فارم 1 ہزار روپے "پینلٹی" کے ساتھ وصول کیے جائیں گے۔
واضح رہے کہ یہ پینلٹی یا لیٹ چارجز ایسی صورت میں لیے جارہے ہیں جب سرکاری کالجوں /ہائر سیکنڈری اسکولوں میں انرولمنٹ فیس کی مد میں کسی قسم کے چارجز موجود ہی نہیں ہیں اور سندھ کے دیگر تمام تعلیمی بورڈز فیس چارج نہ کرنے کے نوٹیفکیشن پر عمل پیرا ہیں تاہم کراچی بورڈ نے شہر کے تمام سرکاری کالجوں اور سرکاری ہائر سیکنڈری اسکولوں کے پرنسپلز کو پابند کیا ہے کہ وہ یکم فروری سے سال 2024 کے امتحانات کے لیے انرولمنٹ فارم 1 ہزار روپے پینلٹی کے ساتھ وصول کریں۔
ایک کالج پرنسپل نے "ایکسپریس" سے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ 8 برسوں میں پہلا موقع ہے جب بورڈ کی جانب سے سرکاری کالجوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ اپنے طلبا سے 1 ہزار روپے چارجز لیں۔ پرنسپل کا کہنا تھا کہ ہر سال بورڈ کی جانب سے کم از کم تین بار انرولمنٹ فارم جمع کرانے کی تاریخ دی جاتی تھی تاہم کبھی بھی کالجوں کو یہ ہدایت نہیں دی گئی۔
مزید ایک پرنسپل کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس جب کچھ بچے امتحانی فارم جمع کرنے سے محروم رہ گئے تھے تو انھوں نے بورڈ سے رابطہ کیا جس پر بورڈ نے ان سرکاری طلبا سے براہ راست لیٹ چارجز وصول کیے تھے تاہم اس بار اسے انرولمنٹ پر لاگو کرتے ہوئے کالجوں کو بھی اس میں شریک کردیا گیا ہے۔
دوسری جانب بورڈ میں انتظامی صورتحال بھی دگرگوں ہے، 22 نومبر 2023 کو چیئرمین انٹر بورڈ کو ہٹائے جانے کے بعد دسمبر کے اوائل میں کمشنر کراچی کو اس کا چارج دیا گیا تھا اور 2 ماہ میں کمشنر کراچی چند بار ہی بورڈ آئے ہیں وہ کمشنر آفس سے بیٹھ کر انٹر بورڈ کے انتظامات چلانے کی کوشش کرتے ہیں اور متعلقہ افسران کو عموما کمشنر آفس طلب کرلیتے ہیں۔
ایک پریس کانفرنس میں جب "ایکسپریس" نے ان سے یہ سوال کیا کہ بورڈ کو ریموٹ کنٹرول کرنے سے یہاں کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے جس پر کمشنر کراچی سہیل راجپوت نے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ واٹس ایپ اور زوم ایپلیکیشن کا دور ہے اب ادارے زوم میٹنگ کے ذریعے چلائے جاتے ہیں اداروں میں جانا ضروری نہیں ہوتا۔
ادھر بورڈ کی صورتحال یہ ہے کہ نارتھ ناظم آباد میں کٹی پہاڑی کے نزدیک واقع انٹر بورڈ کراچی میں پبلک ڈیلنگ مخصوص مافیا کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوئی ہے، مافیا سے منسلک افراد بورڈ میں آنے والی گاڑیوں کو اشارے سے روکتے ہیں ان سے پوچھتے ہیں کیا کام ہے ہمیں بتائیں ہم کرادیں گے۔
یہی افراد مختلف مدوں کی فیس جمع کرانے کے لیے قطار میں لگے طلبا یا ان کے والدین کو آفر کرتے کہ اضافی رقم دیں ان کا کام کچھ دیر میں ہی ہوجائے گا، اضافی رقم پر کام کرانے والے افراد کو بظاہر بینک کے عملے کی معاونت بھی حاصل رہتی ہے، بعض اوقات ان کے لیے علیحدہ قطار بھی لگا دی جاتی ہے جبکہ اس سارے عمل پر اعتراض کرنے والے افراد بعض اوقات مافیا کے عتاب میں بھی آجاتے ہیں۔
"ایکسپریس" سے بات چیت کرتے ہوئے رمیز نامی ایک طالب علم کا کہنا تھا کہ وہ اور اس کا دوست مائیگریشن سرٹیفیکیٹ کے اجرا کے لیے یہاں آئے ہیں اور تقریباً 45 منٹ سے قطار میں کھڑے یہ نوٹس کررہے ہیں کہ اگر ہم 500 روپے بھی اوپر دے دیں تو شاید ہمارا کام 45 سیکنڈ میں ہی ہوجائے، رمیز کا کہنا تھا کہ انٹر بورڈ کراچی کی صورتحال پاسپورٹ آفس کی جیسی لگ رہی ہے۔
واضح رہے کہ مارک شیٹ، پرمیشن، مائیگریشن، ویریفیکیشن اور دیگر دستاویزات کے اجراء کے سلسلے میں ہزاروں افراد انٹر بورڈ کراچی کا رخ کرتے ہیں جس میں سے سیکڑوں اس مافیا سے اضافی رقم کے عوض اپنا کام کرواتے ہیں۔