تین فلسطینی قیدیوں کی کہانی
فلسطینی عوام محمود عباس سے خوش نہیں۔ نوجوان انھیں فلسطینیوں کو دبانے میں اسرائیل کا سب کنٹریکٹر سمجھتے ہیں
فلسطینیوں نے پچھتر برس سے باون کیمپوں میں مسلسل حالتِ مزاحمت میں رہنے کا عالمی ریکارڈ تو خیر قائم کیا ہی ہے مگر طویل ترین قید بھگتنے کے ریکارڈ بھی توڑ دیے ہیں۔بھلے خود نہیں ٹوٹے۔
نائل صالح البرغوتی چوبیس اکتوبر انیس سو ستاون کو مغربی کنارے کے شہر رملہ کے نواحی گاؤں کبار کے ایک کسان خاندان میں پیدا ہوئے۔تب یہ علاقہ اردن کے زیرِ انتظام تھا۔ ان کے والد ایک عام سے آدمی تھے البتہ والدہ فرح معروف فلسطینی شاعرہ تھیں۔جون انیس سو سڑسٹھ کی پانچ روزہ جنگ میں غربِ اردن پر اسرائیلی فوجی قبضے کے بعد دس سالہ نائل اسرائیل مخالف مظاہروں میں شریک ہونے لگے۔
اپریل انیس سو اٹھہتر میں اکیس سالہ نائل کو ایک اسرائیلی اہلکار کے قتل کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔شدید اذیت ناکی کے ذریعے جبری اقبالِ جرم کروایا گیا اور فوجی عدالت نے ایک سو بارہ برس قیدِ بامشقت کی سزا سنا دی۔
نائل کے بھائی عمر برغوتی اور ایک عم زاد فخری کو بھی حراست میں لیا گیا۔ عمر برغوتی نے چھبیس برس کی جیل کاٹی۔جب کہ نائل کو چونتیس برس بعد دو ہزار گیارہ میں ایک اسرائیلی فوجی کے بدلے ایک ہزار انتیس فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے سمجھوتے کے تحت آزاد کر دیا گیا۔
نائل نے قید سے چھوٹنے کے بعد ایمان نافعی سے شادی کی مگر جون دو ہزار تیرہ میں رہائی کے محض ڈھائی برس بعد نائل کو دوبارہ گھر سے حراست میں لے کے ان کی سابق سزا بحال کر دی گئی۔چھیاسٹھ سالہ نائل مجموعی طور پر تینتالیس سال کی قید بھگت چکے ہیں اور ہنوز جیل میں ہیں۔یوں وہ گنیز بک کے مطابق دنیا کے سب سے طویل المیعاد قیدی کا اعزاز پا چکے ہیں۔نائل بھی ان نو ہزار فلسطینی قیدیوں میں شامل ہیں جنھیں سات اکتوبر کے بعد شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
سعید الطباح بھی ایک فلسطینی ہیں۔انھیں بھی ایک فوجی عدالت نے بدامنی پھیلانے کے جرم میں سزا سنائی اور وہ اکتیس برس چھبیس دن کے بعد دو ہزار آٹھ میں رہا ہوئے۔گنیز بک کے مطابق وہ طویل ترین قید بھگتنے والے دوسرے سیاسی قیدی ہیں۔
مگر شہرت و فراست کے پیمانے پر دیکھا جائے تو مروان برغوتی کا شمار دنیا کے سب سے نمایاں قیدیوں میں ہوتا ہے ( ان کا اور نائل برغوتی کا گاؤں ایک ہی ہے اور دور پرے کی رشتے داری بھی ہے )۔
مروان برغوتی بائیس برس سے اسرائیل کی قید میں ہیں۔ان کا شمار پی ایل او کے کلیدی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔انھوں نے اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینیوں کے پہلے ( انیس سو ستاسی ) اور دوسرے (سن دو ہزار ) انتفادہ میں قائدانہ کردار ادا کیا۔دو ہزار دو میں اسرائیلی فوج نے انھیں حراست میں لیا اور سرسری سماعت میں قتل و دہشت گردی کی فردِ جرم لگا کے پانچ عمر قید کے برابر سزا سنا دی گئی۔
چونسٹھ سالہ مروان برغوتی اس وقت سب سے فلسطین کے نوجوانوں سمیت ہر طبقے کے مقبول پابندِ سلاسل رہنما ہیں۔دسمبر میں ایک فلسطینی تھنک ٹینک سینٹر فار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ نے سب سے مقبول صدارتی امیدوار کا اندازہ لگانے کے لیے ایک تجرباتی سروے کروایا۔ سروے میں تین نام پیش کیے گئے۔مروان برغوتی کو سینتالیس فیصد ، حماس کے رہنما اسماعیل حانیہ کو تینتالیس فیصد اور فلسطینی اتھارٹی کے موجودہ صدر اٹھاسی سالہ محمود عباس کو صرف سات فیصد لوگوں نے پسند کیا۔ ترانوے فیصد مقبوضہ فلسطینی محمود عباس کی سبکدوشی چاہتے ہیں۔
اگرچہ مروان بائیس برس سے جیل میں ہیں مگر ان کا شمار اعتدال پسند طبیعت کے سبب وہ واحد مقبول رہنما ہیں جن کا پی ایل او اور حماس کے حلقوں میں یکساں احترام ہے ۔ حماس نے ہی دسمبر میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ اسرائیلی یرغمالیوں کے عوض مروان سمیت ہزاروں فلسطینیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔
مروان کی عوامی مقبولیت کا اندازہ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ غربِ اردن کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں دیوار پر ان کی ہتھکڑی سے بندھے دونوں ہاتھ فتح مندی کے انداز میں سر سے اوپر نہ دکھائے گئے ہوں۔
مروان کے والد بھی ایک عام سے کسان تھے۔ان کے سات بہن بھائی ہیں۔زمانہِ طالبِ علمی سے ہی مروان یاسرعرفات کی تنظیم الفتح کے نظریات سے متاثر اور متحرک تھے۔اس دوران وہ متعدد بار گرفتار ہوتے رہے۔انیس سو ستاسی اٹھاسی میں فلسطینیوں کی عدم تشدد پر مبنی مزاحمتی تحریکِ انتفادہ کے دوران مروان کو اسرائیلی حکام نے اردن بدر کر دیا۔تب وہ یونیورسٹی کے طالبِ علم تھے۔
جلاوطنی سے ان کی واپسی انیس سو چورانوے میں اوسلو امن سمجھوتے کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی کے قیام کے بعد ہوئی۔جب اوسلو سمجھوتے کی ڈیڈ لائن گذرنے کے باوجود دو ریاستی حل کا وعدہ وفا نہ ہو سکا تو فلسطینیوں نے سن دو ہزار میں دوسرا انتفادہ شروع کر دیا اور اس کے کلیدی منتظمین میں مروان بھی نمایاں تھے۔تب وہ نہ صرف بین الاقوامی میڈیا کی نظروں میں آئے بلکہ ایک عام فلسطینی کے دل میں ان کی شخصیت کا اعتبار بڑھتا گیا کیونکہ وہ ہر متاثرہ گھرانے کی خبر گیری کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔وہ اپنی حلیمی ، پراثر ،تضحیک سے پاک مبنی بر دلیل گفتگو کے لیے بھی جانے جاتے ہیں۔
مگر اسرائیل میں مروان برغوتی کو الفتح کی مسلح ذیلی تنظیم الاقصیٰ بریگیڈ کے سرخیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اس بریگیڈ کو کئی اسرائیلی شہریوں کے قتل اور املاک کے نقصان کا ذمے دار قرار دیا گیا۔مروان کو دو ہزار دو میں گرفتار کر لیا گیا مگر انھوں نے یہ کہہ کے عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کیا کہ انھیں ایسی کاسہ لیس عدالت سے کسی انصاف کی توقع نہیں۔
مروان پر پانچ اسرائیلیوں کے قتل کی فردِ جرم عائد کی گئی۔انھوں نے صحتِ جرم سے انکار کیا اور پھر انھیں دو ہزار چار میں تاحیات قید کی سزا سنا دی گئی۔ اگرچہ انسانی حقوق کی تنظیمیں مروان کو نظریاتی اور ضمیر کا قیدی سمجھتی ہیں مگر اسرائیل انھیں اپنی سلامتی کو لاحق سب سے بڑا انفرادی خطرہ سمجھتا ہے کیونکہ مروان ہی فلسطینیوں کو ایک نکتے پر متحد کرنے کے قابل ہیں اور کون سی نوآبادیاتی و متعصب ریاست چاہے گی کہ اس کا دشمن مسلسل نفاق میں رہنے کے بجائے کسی روز متحد ہو کے اور خطرناک ہو جائے۔
خود فلسطینی اتھارٹی کے موجودہ صدر محمود عباس کو بھی مروان کی رہائی سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔فلسطینی عوام محمود عباس سے خوش نہیں۔ نوجوان انھیں فلسطینیوں کو دبانے میں اسرائیل کا سب کنٹریکٹر سمجھتے ہیں۔
اسرائیل اور امریکا چاہتے ہیں کہ جب تک محمود عباس حیات ہیں وہی فلسطین اتھارٹی کے سربراہ رہیں حالانکہ ان کی مدتِ صدارت عرصہ ہوا ختم ہو چکی۔فلسطینی اتھارٹی کے آخری انتخابات دو ہزار گیارہ میں ہوئے۔جب کہ آئینی اعتبار سے ہر پانچ برس بعد الیکشن ہونے چاہئیں۔باقی آپ خود سیانے ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
نائل صالح البرغوتی چوبیس اکتوبر انیس سو ستاون کو مغربی کنارے کے شہر رملہ کے نواحی گاؤں کبار کے ایک کسان خاندان میں پیدا ہوئے۔تب یہ علاقہ اردن کے زیرِ انتظام تھا۔ ان کے والد ایک عام سے آدمی تھے البتہ والدہ فرح معروف فلسطینی شاعرہ تھیں۔جون انیس سو سڑسٹھ کی پانچ روزہ جنگ میں غربِ اردن پر اسرائیلی فوجی قبضے کے بعد دس سالہ نائل اسرائیل مخالف مظاہروں میں شریک ہونے لگے۔
اپریل انیس سو اٹھہتر میں اکیس سالہ نائل کو ایک اسرائیلی اہلکار کے قتل کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔شدید اذیت ناکی کے ذریعے جبری اقبالِ جرم کروایا گیا اور فوجی عدالت نے ایک سو بارہ برس قیدِ بامشقت کی سزا سنا دی۔
نائل کے بھائی عمر برغوتی اور ایک عم زاد فخری کو بھی حراست میں لیا گیا۔ عمر برغوتی نے چھبیس برس کی جیل کاٹی۔جب کہ نائل کو چونتیس برس بعد دو ہزار گیارہ میں ایک اسرائیلی فوجی کے بدلے ایک ہزار انتیس فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے سمجھوتے کے تحت آزاد کر دیا گیا۔
نائل نے قید سے چھوٹنے کے بعد ایمان نافعی سے شادی کی مگر جون دو ہزار تیرہ میں رہائی کے محض ڈھائی برس بعد نائل کو دوبارہ گھر سے حراست میں لے کے ان کی سابق سزا بحال کر دی گئی۔چھیاسٹھ سالہ نائل مجموعی طور پر تینتالیس سال کی قید بھگت چکے ہیں اور ہنوز جیل میں ہیں۔یوں وہ گنیز بک کے مطابق دنیا کے سب سے طویل المیعاد قیدی کا اعزاز پا چکے ہیں۔نائل بھی ان نو ہزار فلسطینی قیدیوں میں شامل ہیں جنھیں سات اکتوبر کے بعد شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
سعید الطباح بھی ایک فلسطینی ہیں۔انھیں بھی ایک فوجی عدالت نے بدامنی پھیلانے کے جرم میں سزا سنائی اور وہ اکتیس برس چھبیس دن کے بعد دو ہزار آٹھ میں رہا ہوئے۔گنیز بک کے مطابق وہ طویل ترین قید بھگتنے والے دوسرے سیاسی قیدی ہیں۔
مگر شہرت و فراست کے پیمانے پر دیکھا جائے تو مروان برغوتی کا شمار دنیا کے سب سے نمایاں قیدیوں میں ہوتا ہے ( ان کا اور نائل برغوتی کا گاؤں ایک ہی ہے اور دور پرے کی رشتے داری بھی ہے )۔
مروان برغوتی بائیس برس سے اسرائیل کی قید میں ہیں۔ان کا شمار پی ایل او کے کلیدی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔انھوں نے اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینیوں کے پہلے ( انیس سو ستاسی ) اور دوسرے (سن دو ہزار ) انتفادہ میں قائدانہ کردار ادا کیا۔دو ہزار دو میں اسرائیلی فوج نے انھیں حراست میں لیا اور سرسری سماعت میں قتل و دہشت گردی کی فردِ جرم لگا کے پانچ عمر قید کے برابر سزا سنا دی گئی۔
چونسٹھ سالہ مروان برغوتی اس وقت سب سے فلسطین کے نوجوانوں سمیت ہر طبقے کے مقبول پابندِ سلاسل رہنما ہیں۔دسمبر میں ایک فلسطینی تھنک ٹینک سینٹر فار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ نے سب سے مقبول صدارتی امیدوار کا اندازہ لگانے کے لیے ایک تجرباتی سروے کروایا۔ سروے میں تین نام پیش کیے گئے۔مروان برغوتی کو سینتالیس فیصد ، حماس کے رہنما اسماعیل حانیہ کو تینتالیس فیصد اور فلسطینی اتھارٹی کے موجودہ صدر اٹھاسی سالہ محمود عباس کو صرف سات فیصد لوگوں نے پسند کیا۔ ترانوے فیصد مقبوضہ فلسطینی محمود عباس کی سبکدوشی چاہتے ہیں۔
اگرچہ مروان بائیس برس سے جیل میں ہیں مگر ان کا شمار اعتدال پسند طبیعت کے سبب وہ واحد مقبول رہنما ہیں جن کا پی ایل او اور حماس کے حلقوں میں یکساں احترام ہے ۔ حماس نے ہی دسمبر میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ اسرائیلی یرغمالیوں کے عوض مروان سمیت ہزاروں فلسطینیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔
مروان کی عوامی مقبولیت کا اندازہ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ غربِ اردن کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں دیوار پر ان کی ہتھکڑی سے بندھے دونوں ہاتھ فتح مندی کے انداز میں سر سے اوپر نہ دکھائے گئے ہوں۔
مروان کے والد بھی ایک عام سے کسان تھے۔ان کے سات بہن بھائی ہیں۔زمانہِ طالبِ علمی سے ہی مروان یاسرعرفات کی تنظیم الفتح کے نظریات سے متاثر اور متحرک تھے۔اس دوران وہ متعدد بار گرفتار ہوتے رہے۔انیس سو ستاسی اٹھاسی میں فلسطینیوں کی عدم تشدد پر مبنی مزاحمتی تحریکِ انتفادہ کے دوران مروان کو اسرائیلی حکام نے اردن بدر کر دیا۔تب وہ یونیورسٹی کے طالبِ علم تھے۔
جلاوطنی سے ان کی واپسی انیس سو چورانوے میں اوسلو امن سمجھوتے کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی کے قیام کے بعد ہوئی۔جب اوسلو سمجھوتے کی ڈیڈ لائن گذرنے کے باوجود دو ریاستی حل کا وعدہ وفا نہ ہو سکا تو فلسطینیوں نے سن دو ہزار میں دوسرا انتفادہ شروع کر دیا اور اس کے کلیدی منتظمین میں مروان بھی نمایاں تھے۔تب وہ نہ صرف بین الاقوامی میڈیا کی نظروں میں آئے بلکہ ایک عام فلسطینی کے دل میں ان کی شخصیت کا اعتبار بڑھتا گیا کیونکہ وہ ہر متاثرہ گھرانے کی خبر گیری کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔وہ اپنی حلیمی ، پراثر ،تضحیک سے پاک مبنی بر دلیل گفتگو کے لیے بھی جانے جاتے ہیں۔
مگر اسرائیل میں مروان برغوتی کو الفتح کی مسلح ذیلی تنظیم الاقصیٰ بریگیڈ کے سرخیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اس بریگیڈ کو کئی اسرائیلی شہریوں کے قتل اور املاک کے نقصان کا ذمے دار قرار دیا گیا۔مروان کو دو ہزار دو میں گرفتار کر لیا گیا مگر انھوں نے یہ کہہ کے عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کیا کہ انھیں ایسی کاسہ لیس عدالت سے کسی انصاف کی توقع نہیں۔
مروان پر پانچ اسرائیلیوں کے قتل کی فردِ جرم عائد کی گئی۔انھوں نے صحتِ جرم سے انکار کیا اور پھر انھیں دو ہزار چار میں تاحیات قید کی سزا سنا دی گئی۔ اگرچہ انسانی حقوق کی تنظیمیں مروان کو نظریاتی اور ضمیر کا قیدی سمجھتی ہیں مگر اسرائیل انھیں اپنی سلامتی کو لاحق سب سے بڑا انفرادی خطرہ سمجھتا ہے کیونکہ مروان ہی فلسطینیوں کو ایک نکتے پر متحد کرنے کے قابل ہیں اور کون سی نوآبادیاتی و متعصب ریاست چاہے گی کہ اس کا دشمن مسلسل نفاق میں رہنے کے بجائے کسی روز متحد ہو کے اور خطرناک ہو جائے۔
خود فلسطینی اتھارٹی کے موجودہ صدر محمود عباس کو بھی مروان کی رہائی سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔فلسطینی عوام محمود عباس سے خوش نہیں۔ نوجوان انھیں فلسطینیوں کو دبانے میں اسرائیل کا سب کنٹریکٹر سمجھتے ہیں۔
اسرائیل اور امریکا چاہتے ہیں کہ جب تک محمود عباس حیات ہیں وہی فلسطین اتھارٹی کے سربراہ رہیں حالانکہ ان کی مدتِ صدارت عرصہ ہوا ختم ہو چکی۔فلسطینی اتھارٹی کے آخری انتخابات دو ہزار گیارہ میں ہوئے۔جب کہ آئینی اعتبار سے ہر پانچ برس بعد الیکشن ہونے چاہئیں۔باقی آپ خود سیانے ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)