ہائبرڈ 3
اگر آصف زرداری نئی حکومت کی پالیسی پر تنقید کریں گے تو پھر ایک کشیدگی کی فضاء پیدا ہوگی اور وہی صورتحال پیدا ہوگی
ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ آصف زرداری، دوسری دفعہ صدرکے عہدے پر فائز ہونگے۔ میاں شہباز شریف دوسری دفعہ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالیں گے۔
اگرچہ سینیٹ کے چیئرمین اور پنجاب کے گورنر پیپلز پارٹی کے ہونگے، مسلم لیگ ن سندھ اور بلوچستان کے گورنر نامزد کرے گی اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بلوچستان میں مشترکہ حکومت سازی کریں گے۔
ابھی تک دستیاب اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختون خوا میں سنی اتحاد کونسل کی حکومت ہوگی۔ بلاول بھٹو کے بیانیہ کے مطابق پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ میں شامل نہیں ہونگی۔
بلاول بھٹو زرداری اور میاں شہباز شریف نے ان فیصلوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ کچھ لینے دینے کا نہیں بلکہ ملک کو مشکلات سے نکالنا ہے۔ یہ اتحاد کیا پانچ سال تک برقرار رہے گا ؟ اس اتحاد کو کیا واقعی عوام کی پذیرائی حاصل ہوگی؟ کیا یہ اتحاد ہائبرڈ 3 ہوگا؟ یہ سوالات انتہائی اہم ہیں۔ جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن 80ء کی دہائی میں ایک دوسرے کی مخالف جماعتیں تھیں۔
میاں نواز شریف جنرل ضیاء الحق کے پروردا تھے۔ بینظیر بھٹو جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف جدوجہد کی علامت تھیں، یوں 1988ء سے 1999ء تک یہ جماعتیں جنگ و جدل میں مصروف رہیں، مگر 2005ء میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف میں میثاق جمہوریت پر اتفاق رائے ہوا، یہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا پہلا اشتراک تھا۔
یہ اشتراک 2008ء سے 2018ء تک مد و جذر کا شکار رہا اور اختلافات ، جھگڑوں اور مخالفانہ بیانات کی فضاء میں کسی حد تک برقرار رہا، مگر اس عرصے کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اس وقت میاں نواز شریف کا پیپلز پارٹی کے بارے میں رویہ اعتدال پر رہا مگر کچھ لیگی رہنما آگ کے گولے برساتے رہے۔
پیپلز پارٹی سے بھی کچھ رہنما جوابی حملے کرتے رہے۔ اس دفعہ پیپلز پارٹی کی طرف سے مسلم لیگ ن کے خلافت تنقید کا فریضہ بلاول بھٹو زرداری نے انجام دیا۔ آصف زرداری نے انتہائی مہذب انداز میں صرف چند بیانات دیے جن میں میاں شہباز شریف کی وزیر اعظم کی حیثیت سے کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا گیا مگر مسلم لیگ ن کی قیادت نے اپنی ماضی کی روایت پر عمل نہیں کیا۔
احسن اقبال اور مریم اورنگزیب وغیرہ نے دھیمے لہجے میں جوابی حملے کیے اور احسن اقبال نے ایک دفعہ بلاول بھٹو کو مشورہ دیا کہ '' جب انتخابات کے بعد ایک میز پر بیٹھیں تو شرمندگی نہ ہو۔'' شہباز شریف، نوازشریف اور مریم نواز نے اس بارے میں مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی۔ آصف زرداری نے تو ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ تک کہہ دیا کہ بیٹا جوان ہے اس کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
منگل کو رات گئے بلاول بھٹو جس طرح میاں شہباز شریف کے ساتھ بغلگیر ہوئے اور آصف زرداری نے میاں شہباز شریف کو ''میرا بھائی'' کہہ کر مخاطب کیا اور اپنے صاحبزادے کو پرنس چارمنگ قرار دیا یہ رہنما اس حقیقت کو محسوس نہ کرسکے کہ سوشل میڈیا پر چلنے والے فوٹیج کے نئی نسل پر کتنے منفی نتائج برآمد ہوں گے۔
ایک صحافی نے لکھا کہ بلاول بھٹو زرداری کے لیے کوئی نیا عہدہ تلاش کرلیا گیا ہے۔ آصف زرداری اور بلاول نے پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں یہ فیصلہ کروایا کہ پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ میں شامل نہیں ہوگی اور اس فیصلہ کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مذاکرات کے دوران مسلم لیگ ن کے وفاقی کابینہ میں شامل ہونے کے دباؤکا مقابلہ توکیا مگر پیپلز پارٹی کی سیاست پر نظر رکھنے والے محققین اس بات پر متفق ہیں کہ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں وہی فیصلے ہوتے ہیں جو ان دونوں باپ بیٹے نے طے کیے ہوتے ہیں اور جب بھی کسی رکن نے ان دونوں کی پالیسی پر تنقید کی اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
بلاول بھٹو نے وفاقی کابینہ میں شمولیت اختیار نا کرنے کی جو حکمت عملی اختیار کی اس کی وجوہات بالکل واضح ہیں۔ میاں شہباز شریف کی نئی حکومت کو فوری طور پر آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنا ہوگا، یوں یہ عالمی ادارہ خطیر رقم قرضہ کے طور پر دے گا اور آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے نگراں حکومت نے بجلی اور گیس کے نرخ بڑھا دینے ہیں، اب دوبارہ بجلی کی قیمتیں مزید بڑھ رہی ہیں۔ اس ماہ کے آغاز سے پٹرول کی قیمت پھر بڑھنے لگی ہے۔
نگران حکومت نے ادویات کی قیمتوں پرکنٹرول ختم کردیا ہے، یوں ادویات کی قیمتیں بڑھیں گی، اس صورتحال میں مہنگائی بڑھے گی۔ اگرچہ میاں شہباز شریف چین کے پسندیدہ رہنما ہیں، وہ سی پیک کے منصوبوں کو مکمل کرنے اور پنجاب میں نئے صنعتی منصوبے شروع کرنے کے خواہاں ہونگے مگر ان کے پاس بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کا اختیار نہیں ہوگا اور اب تو مسلم لیگ ن بلوچستان میں اپنے پرانے اتحادیوں نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کو خداحافظ کہہ کر پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے جا رہی ہے۔
بلوچستان میں پیپلز پارٹی میں شامل رہنماؤں کو لاپتہ افراد کے معاملے کو حل کرنے پر توجہ دینی ہوگی ورنہ اس مجموعی صورتحال میں عوام کے پاس حکومت سے مایوسی کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ ہوگا۔ بلاول بھٹو اس طرح لیگی حکومت کو ناکام قرار دینے کا موقع ملے گا مگر یہ ایک مفروضہ ہی ہے۔
جب پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کی مدد سے اپنا صدر منتخب کر لے گی اور سینیٹ کے چیئرمین اور دو صوبوں کے گورنر پیپلز پارٹی کو ملیں گے تو عملی طور پر پیپلز پارٹی اس حکومت میں شامل ہوجائے گی تو رائے عامہ یہی بنے گی۔ پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کی ہر پالیسی میں شریک سمجھی جائے گی، اگر آصف زرداری نئی حکومت کی پالیسی پر تنقید کریں گے تو پھر ایک کشیدگی کی فضاء پیدا ہوگی اور وہی صورتحال پیدا ہوگی جو میاں شہباز شریف حکومت اور موجودہ صدر ڈاکٹر عارف علوی کے درمیان پیدا ہوئی تھی۔
اس صورتحال کا فائدہ تو مقتدر قوتوں کو ہوگا اور اگر واقعی بلاول بھٹو زرداری میاں شہباز شریف کی حکومت کا حصہ بننا نہیں چاہتے تھے تو پھر پیپلز پارٹی کو صرف قومی اسمبلی میں میاں شہباز شریف حکومت کو اعتمادکا ووٹ دینا چاہیے تھا اور مسلم لیگ ن کی مدد سے عہدے قبول نہیںکرنے چاہیے تھے۔
اسی طرح شہباز شریف کو آزادی سے اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کرنے کا موقع ملتا، وہ کسی قسم کے دباؤ کا شکار نہیں ہوتے اور پیپلز پارٹی حکومت کی کارکردگی پر تنقیدی رویہ اختیار کرنے کے لیے آزاد ہوتی۔ چاروں صوبوں میں صرف تحریک انصاف ہی نہیں دیگر جماعتیں بھی انتخابی دھاندلیوں پر احتجاج کررہی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختون خوا میں سنی اتحاد کونسل کی حکومت بنے گی۔ قانونی طریقہ سے اسے روکا نہیں جاسکتا۔ اس حکومت کے قیام سے پاکستانی طالبان کے حوصلے بھی بلند ہوں گے۔
ان کی دہشت گردی کی سرگرمیاں بڑھ جائیں گی۔اس مجموعی صورتحال میں میاں برادران، آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے وژن کا امتحان ہوگا کہ وفاق میں حکومت ماضی کی حکومتوں کی پالیسیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ایسی پالیسیاں اختیار کرے کہ عوام واقعی محسوس کریں کہ اسلام آباد میں حکومت کرنے والے ان کے حقیقی نمایندے ہیں، مگر کیا ایسا ممکن ہے اور یہ خواب عملی شکل اختیار کرے گا یا یہ تصور خواب ہی رہے گا اور عوام جمہوری نظام سے مایوس ہوجائیں گے۔
اگرچہ سینیٹ کے چیئرمین اور پنجاب کے گورنر پیپلز پارٹی کے ہونگے، مسلم لیگ ن سندھ اور بلوچستان کے گورنر نامزد کرے گی اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بلوچستان میں مشترکہ حکومت سازی کریں گے۔
ابھی تک دستیاب اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختون خوا میں سنی اتحاد کونسل کی حکومت ہوگی۔ بلاول بھٹو کے بیانیہ کے مطابق پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ میں شامل نہیں ہونگی۔
بلاول بھٹو زرداری اور میاں شہباز شریف نے ان فیصلوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ کچھ لینے دینے کا نہیں بلکہ ملک کو مشکلات سے نکالنا ہے۔ یہ اتحاد کیا پانچ سال تک برقرار رہے گا ؟ اس اتحاد کو کیا واقعی عوام کی پذیرائی حاصل ہوگی؟ کیا یہ اتحاد ہائبرڈ 3 ہوگا؟ یہ سوالات انتہائی اہم ہیں۔ جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن 80ء کی دہائی میں ایک دوسرے کی مخالف جماعتیں تھیں۔
میاں نواز شریف جنرل ضیاء الحق کے پروردا تھے۔ بینظیر بھٹو جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف جدوجہد کی علامت تھیں، یوں 1988ء سے 1999ء تک یہ جماعتیں جنگ و جدل میں مصروف رہیں، مگر 2005ء میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف میں میثاق جمہوریت پر اتفاق رائے ہوا، یہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا پہلا اشتراک تھا۔
یہ اشتراک 2008ء سے 2018ء تک مد و جذر کا شکار رہا اور اختلافات ، جھگڑوں اور مخالفانہ بیانات کی فضاء میں کسی حد تک برقرار رہا، مگر اس عرصے کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اس وقت میاں نواز شریف کا پیپلز پارٹی کے بارے میں رویہ اعتدال پر رہا مگر کچھ لیگی رہنما آگ کے گولے برساتے رہے۔
پیپلز پارٹی سے بھی کچھ رہنما جوابی حملے کرتے رہے۔ اس دفعہ پیپلز پارٹی کی طرف سے مسلم لیگ ن کے خلافت تنقید کا فریضہ بلاول بھٹو زرداری نے انجام دیا۔ آصف زرداری نے انتہائی مہذب انداز میں صرف چند بیانات دیے جن میں میاں شہباز شریف کی وزیر اعظم کی حیثیت سے کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا گیا مگر مسلم لیگ ن کی قیادت نے اپنی ماضی کی روایت پر عمل نہیں کیا۔
احسن اقبال اور مریم اورنگزیب وغیرہ نے دھیمے لہجے میں جوابی حملے کیے اور احسن اقبال نے ایک دفعہ بلاول بھٹو کو مشورہ دیا کہ '' جب انتخابات کے بعد ایک میز پر بیٹھیں تو شرمندگی نہ ہو۔'' شہباز شریف، نوازشریف اور مریم نواز نے اس بارے میں مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی۔ آصف زرداری نے تو ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ تک کہہ دیا کہ بیٹا جوان ہے اس کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
منگل کو رات گئے بلاول بھٹو جس طرح میاں شہباز شریف کے ساتھ بغلگیر ہوئے اور آصف زرداری نے میاں شہباز شریف کو ''میرا بھائی'' کہہ کر مخاطب کیا اور اپنے صاحبزادے کو پرنس چارمنگ قرار دیا یہ رہنما اس حقیقت کو محسوس نہ کرسکے کہ سوشل میڈیا پر چلنے والے فوٹیج کے نئی نسل پر کتنے منفی نتائج برآمد ہوں گے۔
ایک صحافی نے لکھا کہ بلاول بھٹو زرداری کے لیے کوئی نیا عہدہ تلاش کرلیا گیا ہے۔ آصف زرداری اور بلاول نے پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں یہ فیصلہ کروایا کہ پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ میں شامل نہیں ہوگی اور اس فیصلہ کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مذاکرات کے دوران مسلم لیگ ن کے وفاقی کابینہ میں شامل ہونے کے دباؤکا مقابلہ توکیا مگر پیپلز پارٹی کی سیاست پر نظر رکھنے والے محققین اس بات پر متفق ہیں کہ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں وہی فیصلے ہوتے ہیں جو ان دونوں باپ بیٹے نے طے کیے ہوتے ہیں اور جب بھی کسی رکن نے ان دونوں کی پالیسی پر تنقید کی اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
بلاول بھٹو نے وفاقی کابینہ میں شمولیت اختیار نا کرنے کی جو حکمت عملی اختیار کی اس کی وجوہات بالکل واضح ہیں۔ میاں شہباز شریف کی نئی حکومت کو فوری طور پر آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنا ہوگا، یوں یہ عالمی ادارہ خطیر رقم قرضہ کے طور پر دے گا اور آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے نگراں حکومت نے بجلی اور گیس کے نرخ بڑھا دینے ہیں، اب دوبارہ بجلی کی قیمتیں مزید بڑھ رہی ہیں۔ اس ماہ کے آغاز سے پٹرول کی قیمت پھر بڑھنے لگی ہے۔
نگران حکومت نے ادویات کی قیمتوں پرکنٹرول ختم کردیا ہے، یوں ادویات کی قیمتیں بڑھیں گی، اس صورتحال میں مہنگائی بڑھے گی۔ اگرچہ میاں شہباز شریف چین کے پسندیدہ رہنما ہیں، وہ سی پیک کے منصوبوں کو مکمل کرنے اور پنجاب میں نئے صنعتی منصوبے شروع کرنے کے خواہاں ہونگے مگر ان کے پاس بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کا اختیار نہیں ہوگا اور اب تو مسلم لیگ ن بلوچستان میں اپنے پرانے اتحادیوں نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کو خداحافظ کہہ کر پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے جا رہی ہے۔
بلوچستان میں پیپلز پارٹی میں شامل رہنماؤں کو لاپتہ افراد کے معاملے کو حل کرنے پر توجہ دینی ہوگی ورنہ اس مجموعی صورتحال میں عوام کے پاس حکومت سے مایوسی کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ ہوگا۔ بلاول بھٹو اس طرح لیگی حکومت کو ناکام قرار دینے کا موقع ملے گا مگر یہ ایک مفروضہ ہی ہے۔
جب پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کی مدد سے اپنا صدر منتخب کر لے گی اور سینیٹ کے چیئرمین اور دو صوبوں کے گورنر پیپلز پارٹی کو ملیں گے تو عملی طور پر پیپلز پارٹی اس حکومت میں شامل ہوجائے گی تو رائے عامہ یہی بنے گی۔ پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کی ہر پالیسی میں شریک سمجھی جائے گی، اگر آصف زرداری نئی حکومت کی پالیسی پر تنقید کریں گے تو پھر ایک کشیدگی کی فضاء پیدا ہوگی اور وہی صورتحال پیدا ہوگی جو میاں شہباز شریف حکومت اور موجودہ صدر ڈاکٹر عارف علوی کے درمیان پیدا ہوئی تھی۔
اس صورتحال کا فائدہ تو مقتدر قوتوں کو ہوگا اور اگر واقعی بلاول بھٹو زرداری میاں شہباز شریف کی حکومت کا حصہ بننا نہیں چاہتے تھے تو پھر پیپلز پارٹی کو صرف قومی اسمبلی میں میاں شہباز شریف حکومت کو اعتمادکا ووٹ دینا چاہیے تھا اور مسلم لیگ ن کی مدد سے عہدے قبول نہیںکرنے چاہیے تھے۔
اسی طرح شہباز شریف کو آزادی سے اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کرنے کا موقع ملتا، وہ کسی قسم کے دباؤ کا شکار نہیں ہوتے اور پیپلز پارٹی حکومت کی کارکردگی پر تنقیدی رویہ اختیار کرنے کے لیے آزاد ہوتی۔ چاروں صوبوں میں صرف تحریک انصاف ہی نہیں دیگر جماعتیں بھی انتخابی دھاندلیوں پر احتجاج کررہی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختون خوا میں سنی اتحاد کونسل کی حکومت بنے گی۔ قانونی طریقہ سے اسے روکا نہیں جاسکتا۔ اس حکومت کے قیام سے پاکستانی طالبان کے حوصلے بھی بلند ہوں گے۔
ان کی دہشت گردی کی سرگرمیاں بڑھ جائیں گی۔اس مجموعی صورتحال میں میاں برادران، آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے وژن کا امتحان ہوگا کہ وفاق میں حکومت ماضی کی حکومتوں کی پالیسیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ایسی پالیسیاں اختیار کرے کہ عوام واقعی محسوس کریں کہ اسلام آباد میں حکومت کرنے والے ان کے حقیقی نمایندے ہیں، مگر کیا ایسا ممکن ہے اور یہ خواب عملی شکل اختیار کرے گا یا یہ تصور خواب ہی رہے گا اور عوام جمہوری نظام سے مایوس ہوجائیں گے۔