لیاری انتخابی نتائج کے تناظر میں
لیاری میں بے روزگاری انتہا پر ہے، منشیات فروشی عروج پر ہے، نوجوان نشے کی لت میں تباہ برباد ہیں
کراچی کے قدیمی علاقے لیاری کا ایک منفرد مزاج ہے، حالیہ منعقدہ عام انتخابات میں ووٹرزکا رحجان کیسا رہا؟ کون کتنے ووٹوں سے جیتا؟ کون کتنے ووٹوں سے ہارا؟ اور یہ کہ اس وقت لیاری کوکن مسائل کا سامنا ہے؟ میں نے اس کالم ان تمام باتوں کا جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
لیاری میں قومی اسمبلی کی ڈیڑھ نشست ہے، وہ اس لحاظ سے کہ حلقہ این اے239 کی حدود میں زیادہ تر لیاری کے علاقے شامل ہیں جب کہ حلقہ این اے 240 کی حدود میں لیاری کے کچھ علاقے شامل ہیں، جب کہ لیاری میں تین صوبائی نشستیں ہیں۔ جن میں حلقہ پی ایس 106، پی ایس 107، پی ایس 108شامل ہیں۔
این اے 239 میں ووٹوں کی کل تعداد 422081 ہے۔ اس حلقے میں پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار سردار نبیل احمد گبول نے40,077 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی جب کہ دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار محمد یاسر نے 37,237 ووٹ حاصل کیے ۔ اس طرح سردار نبیل احمد گبول صرف 2,843 ووٹوں سے برتری حاصل کرسکے۔ اس حلقے میں 6 سیاسی جماعتوں اور 13آزاد امیدواروں نے حصہ لیا، ڈالے گئے ووٹوں کی شرح صرف 31.22 فیصد رہی جب کہ 68.78 فیصد ووٹرز نے اپنا ووٹ ہی کاسٹ نہیں کیا۔
2018ء کے عام انتخابات میں اس حلقے سے پی ٹی آئی کے امیدوار عبدالشکور شاد کامیاب ہوئے تھے۔ این اے 240 میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے امیدوار ارشد ویرا 30573 ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہوئے دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار رمضان رہے، جنھوں نے 27318 ووٹ حاصل کیے، جب کہ پی پی پی پی کے امیدوار سلیم مانڈوی والا 17025ووٹ حاصل کرسکے۔ اس حلقے میں 30 فیصد ووٹ کاسٹ ہوئے جب کہ 70فیصد ووٹرزگھروں سے باہر نہیں نکلے۔
پی ایس 106میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سجاد علی نے 20,658 لے کرکامیاب قرار پائے جب کہ دوسرے نمبر پر پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹریزکے امیدوار عثمان غنی نے 16854ووٹ حاصل کیے اور جماعت اسلامی پاکستان کے امیدوار سید عبدالرشید 15873ووٹ حاصل کر کے تیسرے نمبر پر رہے، اسی طرح پیپلزپارٹی کے امیدوار 3,804ووٹوں سے پیچھے رہے۔ یہاں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 32.73 فی صد رہی، یعنی 67.27 فیصد ووٹروں نے ووٹ نہیں ڈالا۔
2018 کے عام انتخابات میں اس حلقے سے تحریک لبیک پاکستان کے یونس سومرو جیتے تھے، جب کہ 2013 کے انتخابات میں یہاں سے پیپلز پارٹی کے جاوید ناگوری کامیاب ہوئے تھے ۔اس حلقے سے ہمیشہ پی پی پی نشست جیتتی رہی تھی لیکن اب مسلسل دوسری بار پی پی پی یہ نشست ہاری ہے۔
پی ایس 107سے پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹریزکے امیدوار محمد یوسف نے 26902 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی جب کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امید وار خالد 19673ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے اور جماعت اسلامی پاکستان کے امیدوار محمود عیسیٰ 13820ووٹ حاصل کر کے تیسرے نمبر پر رہے ۔اس طرح پی پی پی امیدوار محمد یوسف اپنے مدمقابل امیدوار سے 7229ووٹوں سے جیتے ہیں۔ اس حلقے میں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح فیصد 29.07 رہی، یعنی 70.93فیصد ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کیا۔ یہ وہ حلقہ انتخاب رہا ہے جہاں سے پی پی پی کے امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتے رہے ہیں۔
2018کے عام انتخابات میں اس حلقے سے جماعت اسلامی پاکستان کے سید عبدالرشید کامیاب ہوئے تھے۔ پی ایس 108سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے امیدوار محمد دلاور نے 20014 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی جب کہ دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار مراد شیخ نے 16850ووٹ حاصل کیے جب کہ تیسرے نمبر پر جماعت اسلامی پاکستان کے امیدوار عبرت نے 14438ووٹ حاصل کیے، جب کہ پی پی پی پی کے امیدوار محمد فیاض 9438 حاصل کرسکے۔
اس حلقے میں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 30.31 فیصد رہی، یعنی 69.69 ووٹرز نے اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا ۔اس طرح پی پی پی حسب روایت اس حلقے سے کوئی نشست حاصل نہ کرسکی، اس حلقے سے ہمیشہ ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوارکامیاب ہوتے رہے ہیں۔
الغرض لیاری کی ان قومی اسمبلی کی دو میں سے ایک نشست این اے 239 سے پی پی پی امید وار سردار نبیل احمد گبول اور این اے 240سے ایم کیو ایم پاکستان کے ارشد عبداللہ ویرا کامیاب قرار پائے ہیں جب کہ تین صوبائی اسمبلیوں میں سے ایک نشست پی ایس 106سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سجاد علی، ایک نشست پی ایس 107سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار محمد یوسف، ایک نشست پی ایس 108سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے امیدوار محمد دلاور نے کامیابی حاصل کی ہے، وہ بھی انتہائی کم ووٹوں سے۔
جو لیاری کی تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت فکر دیتی ہے کہ آخرکار وہ کیا عوامل ہیں جن کی وجہ سے ووٹرز نے بھاری تعداد میں اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا؟ ان انتخابات میں پی پی پی لیاری سے اپنی دو روایتی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب تو ہوگئی ہے جو 2018 کے انتخابات میں پارٹی نے کھودی تھیں، لیکن لیاری میں پی پی پی کی یہ واپسی کسی کڑے امتحان سے کم نہیں ہوگی، لیاری ہمیشہ پی پی پی کا سیاسی گڑھ کہلاتا رہا ہے لیکن اس مر تبہ لیاری کے ووٹرزکی اکثریت خاموش دکھائی دی جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
لیاری شہر کراچی کا ایک مظلوم ترین گنجان آبادی والا علاقہ ہے جہاں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں جن کے مسائل مشترکہ ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ ان کے مسائل ان کے گھروں کی دہلیز پر حل ہوں لیکن زیادہ تر سیاسی جماعتوں نے اہل لیاری کی اس خواہش کا احترام نہیں کیا اور لیاری سے باہر رہائش پذیر شخصیات کو پارٹی ٹکٹ جاری کیے، لیاری سے تمام جیتنے والوں کی رہائش لیاری سے باہر ہے۔
دوسری بات یہ کہ اہل لیاری زخم خوردہ ہیں وہ ہمیشہ مختلف نعروں اور وعدئوں پر آنکھیں بند کر کے اعتبارکرتے چلے آرہے تھے مگر ان کے اعتبار پر پورا اترا نہیں گیا جس وجہ سے اہل لیاری کی اکثریت نے ووٹ کاسٹ نہ کر کے خاموشی سے اپنی رائے کا اظہار کر دیا ہے ۔ اہل لیاری کیا چاہتے ہیں؟ ان کے مسائل کیا ہیں؟ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
لیاری میں بے روزگاری انتہا پر ہے، منشیات فروشی عروج پر ہے، نوجوان نشے کی لت میں تباہ برباد ہیں، جوئے کے اڈے عام ہیں، غربت غریبوں کو ہڑپ کر رہی ہے۔ پانی، بجلی،گیس کی بندش وکمیابی ہے۔ ا سی طرح دیگر عوامی مسائل ہیں جن سے لیاری کے نو منتخب نمائندے اچھی طرح سے آگاہ ہوں گے۔ امید کامل ہے کہ وہ لیاری کے لوگوں اور لیاری کے دیگر مسائل کو حد درجہ حل کرنے کی بھر پورکوششیں کریں گے۔
لیاری میں قومی اسمبلی کی ڈیڑھ نشست ہے، وہ اس لحاظ سے کہ حلقہ این اے239 کی حدود میں زیادہ تر لیاری کے علاقے شامل ہیں جب کہ حلقہ این اے 240 کی حدود میں لیاری کے کچھ علاقے شامل ہیں، جب کہ لیاری میں تین صوبائی نشستیں ہیں۔ جن میں حلقہ پی ایس 106، پی ایس 107، پی ایس 108شامل ہیں۔
این اے 239 میں ووٹوں کی کل تعداد 422081 ہے۔ اس حلقے میں پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار سردار نبیل احمد گبول نے40,077 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی جب کہ دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار محمد یاسر نے 37,237 ووٹ حاصل کیے ۔ اس طرح سردار نبیل احمد گبول صرف 2,843 ووٹوں سے برتری حاصل کرسکے۔ اس حلقے میں 6 سیاسی جماعتوں اور 13آزاد امیدواروں نے حصہ لیا، ڈالے گئے ووٹوں کی شرح صرف 31.22 فیصد رہی جب کہ 68.78 فیصد ووٹرز نے اپنا ووٹ ہی کاسٹ نہیں کیا۔
2018ء کے عام انتخابات میں اس حلقے سے پی ٹی آئی کے امیدوار عبدالشکور شاد کامیاب ہوئے تھے۔ این اے 240 میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے امیدوار ارشد ویرا 30573 ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہوئے دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار رمضان رہے، جنھوں نے 27318 ووٹ حاصل کیے، جب کہ پی پی پی پی کے امیدوار سلیم مانڈوی والا 17025ووٹ حاصل کرسکے۔ اس حلقے میں 30 فیصد ووٹ کاسٹ ہوئے جب کہ 70فیصد ووٹرزگھروں سے باہر نہیں نکلے۔
پی ایس 106میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سجاد علی نے 20,658 لے کرکامیاب قرار پائے جب کہ دوسرے نمبر پر پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹریزکے امیدوار عثمان غنی نے 16854ووٹ حاصل کیے اور جماعت اسلامی پاکستان کے امیدوار سید عبدالرشید 15873ووٹ حاصل کر کے تیسرے نمبر پر رہے، اسی طرح پیپلزپارٹی کے امیدوار 3,804ووٹوں سے پیچھے رہے۔ یہاں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 32.73 فی صد رہی، یعنی 67.27 فیصد ووٹروں نے ووٹ نہیں ڈالا۔
2018 کے عام انتخابات میں اس حلقے سے تحریک لبیک پاکستان کے یونس سومرو جیتے تھے، جب کہ 2013 کے انتخابات میں یہاں سے پیپلز پارٹی کے جاوید ناگوری کامیاب ہوئے تھے ۔اس حلقے سے ہمیشہ پی پی پی نشست جیتتی رہی تھی لیکن اب مسلسل دوسری بار پی پی پی یہ نشست ہاری ہے۔
پی ایس 107سے پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹریزکے امیدوار محمد یوسف نے 26902 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی جب کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امید وار خالد 19673ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے اور جماعت اسلامی پاکستان کے امیدوار محمود عیسیٰ 13820ووٹ حاصل کر کے تیسرے نمبر پر رہے ۔اس طرح پی پی پی امیدوار محمد یوسف اپنے مدمقابل امیدوار سے 7229ووٹوں سے جیتے ہیں۔ اس حلقے میں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح فیصد 29.07 رہی، یعنی 70.93فیصد ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کیا۔ یہ وہ حلقہ انتخاب رہا ہے جہاں سے پی پی پی کے امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتے رہے ہیں۔
2018کے عام انتخابات میں اس حلقے سے جماعت اسلامی پاکستان کے سید عبدالرشید کامیاب ہوئے تھے۔ پی ایس 108سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے امیدوار محمد دلاور نے 20014 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی جب کہ دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار مراد شیخ نے 16850ووٹ حاصل کیے جب کہ تیسرے نمبر پر جماعت اسلامی پاکستان کے امیدوار عبرت نے 14438ووٹ حاصل کیے، جب کہ پی پی پی پی کے امیدوار محمد فیاض 9438 حاصل کرسکے۔
اس حلقے میں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 30.31 فیصد رہی، یعنی 69.69 ووٹرز نے اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا ۔اس طرح پی پی پی حسب روایت اس حلقے سے کوئی نشست حاصل نہ کرسکی، اس حلقے سے ہمیشہ ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوارکامیاب ہوتے رہے ہیں۔
الغرض لیاری کی ان قومی اسمبلی کی دو میں سے ایک نشست این اے 239 سے پی پی پی امید وار سردار نبیل احمد گبول اور این اے 240سے ایم کیو ایم پاکستان کے ارشد عبداللہ ویرا کامیاب قرار پائے ہیں جب کہ تین صوبائی اسمبلیوں میں سے ایک نشست پی ایس 106سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سجاد علی، ایک نشست پی ایس 107سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار محمد یوسف، ایک نشست پی ایس 108سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے امیدوار محمد دلاور نے کامیابی حاصل کی ہے، وہ بھی انتہائی کم ووٹوں سے۔
جو لیاری کی تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت فکر دیتی ہے کہ آخرکار وہ کیا عوامل ہیں جن کی وجہ سے ووٹرز نے بھاری تعداد میں اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا؟ ان انتخابات میں پی پی پی لیاری سے اپنی دو روایتی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب تو ہوگئی ہے جو 2018 کے انتخابات میں پارٹی نے کھودی تھیں، لیکن لیاری میں پی پی پی کی یہ واپسی کسی کڑے امتحان سے کم نہیں ہوگی، لیاری ہمیشہ پی پی پی کا سیاسی گڑھ کہلاتا رہا ہے لیکن اس مر تبہ لیاری کے ووٹرزکی اکثریت خاموش دکھائی دی جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
لیاری شہر کراچی کا ایک مظلوم ترین گنجان آبادی والا علاقہ ہے جہاں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں جن کے مسائل مشترکہ ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ ان کے مسائل ان کے گھروں کی دہلیز پر حل ہوں لیکن زیادہ تر سیاسی جماعتوں نے اہل لیاری کی اس خواہش کا احترام نہیں کیا اور لیاری سے باہر رہائش پذیر شخصیات کو پارٹی ٹکٹ جاری کیے، لیاری سے تمام جیتنے والوں کی رہائش لیاری سے باہر ہے۔
دوسری بات یہ کہ اہل لیاری زخم خوردہ ہیں وہ ہمیشہ مختلف نعروں اور وعدئوں پر آنکھیں بند کر کے اعتبارکرتے چلے آرہے تھے مگر ان کے اعتبار پر پورا اترا نہیں گیا جس وجہ سے اہل لیاری کی اکثریت نے ووٹ کاسٹ نہ کر کے خاموشی سے اپنی رائے کا اظہار کر دیا ہے ۔ اہل لیاری کیا چاہتے ہیں؟ ان کے مسائل کیا ہیں؟ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
لیاری میں بے روزگاری انتہا پر ہے، منشیات فروشی عروج پر ہے، نوجوان نشے کی لت میں تباہ برباد ہیں، جوئے کے اڈے عام ہیں، غربت غریبوں کو ہڑپ کر رہی ہے۔ پانی، بجلی،گیس کی بندش وکمیابی ہے۔ ا سی طرح دیگر عوامی مسائل ہیں جن سے لیاری کے نو منتخب نمائندے اچھی طرح سے آگاہ ہوں گے۔ امید کامل ہے کہ وہ لیاری کے لوگوں اور لیاری کے دیگر مسائل کو حد درجہ حل کرنے کی بھر پورکوششیں کریں گے۔