الفاظ کا سفر نامہ…اڑ دوسرا حصہ
سنسکرت میں اردھ،پشتومیں ارت اورارتہ کا مطلب وسیع فراخ،پھیلا ہواہے چونکہ انسان نے زمین کوماں اورآسمان کو’’باپ‘‘ کہاہے
چنانچہ زراعت کرنے والے یا جاننے والے ''اڑی'' کہلاتے تھے اور نہ جاننے والے کو اناڑی یا ان آڑی کہتے تھے۔پھر ''اڑی'' کا لفظ متروک ہوگیا ، اس کے لیے کئی دوسرے نام مروج ہوئے جب کہ اڑی کا لفظ اناڑی کے لیے مروج ہوگیا، زراعت کاروں کے لیے ''ارائیں'' کا لفظ بولاجانے لگا۔
پشتو میں ''اڑول'' زمین جوتنے کو کہتے ہیں۔کھیت جو تو(پٹے واڑوہ) کھیت جوتتا ہوں(پٹے اڑوم) کھیت جوتا ہوا ہے(پٹے اوڑیدلے دے) سوات جہاں کی زبان میں زیادہ ملاوٹ نہیں ہوئی ہے وہاں گرنے اور گرانے کے لیے ''اڑتاؤ''کا لفظ استعمال ہوا۔جیسے تیز مت چلو ''اڑتاؤ'' ہوجاؤگے فلاں''اڑتاؤ'' ہوگیا یعنی گرگیا۔
کسی چیز کو پھینکنے کے لیے بھی''اڑتاؤ'' کرو یعنی گرادو۔ظاہر ہے ،گرنے اور گرانے کا آخری مقام زمین ہی ہے۔یہی ''اڑ'' کا لفظ ترقی کرگیا تو 'ار''ہوگیا اور پھر جب زبانوں کے مادے دوحرفی سے سہ حرفی ہوئے تو ''ار'' سے پشتو میں ارت،انگریزی ارتھ،فارسی میں ''ارد'' اور عربی میں ارض ہوگیا۔ سنسکرت میں اردھ، پشتو میں ارت اور ارتہ کا مطلب وسیع فراخ،پھیلا ہوا ہے چونکہ انسان نے زمین کو ماں اور آسمان کو''باپ'' کہا ہے۔اس لیے پشتو میں عورت یا بیوی کے لیے ''ارتینہ'' کہاجاتا ہے۔
سنسکرت میں بھی عورت کو مرد کی''اردھانجلی'' کہاجاتا ہے چنانچہ دیوتاؤں کی بیویوں کو بھی اردھانجلی کہا جاتا ہے سرسوتی برہما کی،لکشمی وشنو کی اور پارتی شیو کی اردھانجلیاں کہلاتی ہیں۔
ایرانی اساطیر میں مادرارض کا نام بھی ''اردوی''۔سورااناہتیا ہے، اردوی بہشت، ارد شہر۔ اور یہی وہ''ار''ہے جس سے ''اریہ'' کا لفظ نکلا ہے جو خالص زراعت کاروں کا نام ہے لیکن برہمنوں نے ہند میں وارد ہونے والے گلہ بان خانہ بدوش جنگلیوں اور کشتریوں کو''آریا'' بناکر تاریخ میں ایک بہت بڑا غلط العام ڈالا ہے۔یہ اتنا بڑا غلط العام ہے کہ اب اس کی تصیح ممکن نہیں رہی۔
پروفیسر محمد حبیب نے اپنی کتاب''تاریخ تمدن ہند''میں لکھا ہے کہ ہمیں اب اس لفظ آریا کو ترک کردینا چاہیے کیونکہ تاریخی شواہد سے ثابت ہوجاتا ہے کہ نقل مکانی اور خانہ بدوشی کی ضرورت جانور پالوں کو ہوتی ہے کہ انھیں اپنی اور جانوروں کی خوراک کے لیے ہمیشہ کوچ یا سفرکی حالت میں رہنا پڑتا ہے جب کہ زراعت کار اپنے کھیتوں کے ساتھ مستقل آبادیوں میں رہتے ہیں۔خیر اس بحث کو ختم کرتے ہیں کہ ہمارا موضوع الفاظ کا سفرنامہ ہے۔
سفید کاکیشین نسل کی دو بڑی شاخیں ہیں، ایک آریائی دوسری سامی، اگرچہ بنی اسرائیل نے اس میں بہت ساری غلط فہمیاں، مغالطے اور مبالغے ڈالے ہیں ۔سامی لوگ جن میں قابل ذکر عرب ہیں، وہ چرواہے تھے، اس لیے یہ لوگ اپنے جانوروں کے ساتھ کرہ ارض کے مختلف خطوں تک پھیل گئے۔
حالانکہ یہ بھی دوسر ے نسلی گروہکی طرح قفقاز سلسلہ کوہ کی اولاد تھے اور چونکہ بہت ہی قدیم اور نامعلوم زمانوں میں یہاں پہنچے ہیں اس لیے بہت ہی قدیم زمانے کے کچھ الفاظ بھی ساتھ لائے تھے جو اب بھی عربی میں تلاش کیے جاسکتے ہیں۔اب یہاں ضروری ہوگیا ہے کہ زبانوں کے بارے میں پھر تھوڑی سی بات کی جائے کیونکہ یہاں بھی ایک بہت بڑا غلط العام موجود ہے اور وہ یہ کہ عربی دنیا کی قدیم ترین زبان بلکہ ام لاسنہ (زبانوں کی ماں) ہے جو بہت بڑا مغالطہ ہے۔
زبانوں کی ابتدا''یک حرفی'' الفاظ سے ہوئی، پھر دو حرفی مادے بننے لگے جیسے میں آریائی زبانوں کے بارے میں بتاچکا ہوں۔ سر،بر، لر،چر، اپ، لپ، اڑ، جڑ، پڑ،جن،ان،من وغیرہ۔اور پھر زبانوں کے مادے سہ حرفی ہوئے۔
عربی مادے، سہ حرفی یا ثلاثی مجرد ہوتے ہیں۔جیسے راس، یاس، خاص، ارض، اسم، فعل، علم، عقل، اجر، فجر، قال، مال بلکہ اب تو کئی چار حرفی مادے بھی بننے لگے ہیں، ساتھ ہی کچھ ایسے حروف یا آوازیں بھی ہیں جو اور کسی بھی زبان والے ادا نہیں کرسکتے ہیں۔ جیسے ث، ح، ذ، ط، ظ، ص، ض اور ع وغیرہ۔ذخیرہ الفاظ کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو عربی ایک بہت ہی مالا مال زبان ہے۔
عام طور پر جب عربی زبان کی بات کی جاتی ہے تو اسے''آرامی زبان'' کی بیٹی کہا جاتا ہے جو آرام بن سام بن نوح سے منسوب ہے لیکن یونانی حکماء''آرامی'' کو''سریانی'' بھی کہتے ہیں۔جو انسان کی قدیم زبان بھی سمجھی جاتی تھی۔لیکن ان تمام زبانوں میں لفظ ''عرب'' کے اصلی بنیادی معنی موجود نہیں ہے اور اسے مجازی معنی دیے جاتے ہیں۔ جو بنجر، بے آب وگیا کے ہیں۔
اکثر قدیم آرامی لغات میں لفظ عرب (ع) کے بجائے (الف) سے یعنی ارب یا آرب بھی لکھا جاتا ہے، اس لفظ کے بنیادی معنیبھی نا معلوم ہیں۔وجہ اس کی یہ ہے کہ اس کی تلاش کسی نے ہند یورپی زبانوں یا قبل از ہند یورپی زبانوں میں نہیںکی ہے جو کاکیشیائی پہاڑی مخزن و معدن میں بولی جاتی ہیں۔
ہم جب ان زبانوں میں تحقیق کرتے ہیں تو ہمیں دو لفظ ملتے ہیں، ایک''آر'' جو ''اڑ'' کی شکل ہے اور معنی''زمین'' جب کہ دوسرا لفظ''آب''ہے جو پانی کے لیے بولا جاتا ہے۔ اپ،اپہ،آب،اوبہ۔اور ان دونوں لفظوں کو ملانے سے اراب یا ''ارب'' کا لفظ بنتا ہے یعنی زمین کا پانی۔آب زمین یا ماء الارض۔ہمارے ہاں کی اردو اور چند دوسری زبانوں میں ان نالوں کو ''ارآب'' کہا جاتا ہے جو''سیم'' کا پانی نکالنے کے لیے کھودی جاتی ہیں۔
یہ عام طور پر ان علاقوں میں کھودے جاتے ہیں جہاں واٹر لیول اوپر تک آجاتا ہے تو سیم و تھور بنکر زمینوں کو بنجر کردیتا ہے۔ لوگ عام طور پر ان اراب کو بھی اعراب کہتے اور لکھتے ہیں۔ اب سرزمین عرب کو دیکھا جائے تو یہاں آسمان کا پانی فوراً زمین میں جذب ہوجاتا ہے چنانچہ یہاں ندی نالے، جھیل اور تالاب وغیرہ نہیں پائے جاتے بلکہ زمین کا پانی چشموں کے ذریعے یا کنووں کے ذریعے کھینچ کر استعمال کیا جاتا ہے۔
مطلب یہ کہ یہ سرزمین صرف زمین کا پانی رکھتی ہے، آسمان کا پانی نہیں۔ پشتو میں''سیم'' کو زیم(zyam) کہا جاتا ہے۔سیم زدہ زمین کو''زیمی زمین'' کہاجاتا ہے اور جہاں زمین بہت زیادہ''زیمی'' ہوتی ہے اسے''جبہ'' کہتے ہیں جو'' جائے آب'' کا مخفف ہے۔جیسے مالم جبہ، تاروجبہ، جبہ خٹک، جبہ جھیل، جبن یا جبین اور ماتھے کو بھی''جبین'' اس لیے کہتے ہیں کہ ہر وقت پسینے سے تر رہتا ہے۔بلکہ زبان، جوبان، جیب بھی ہر وقت تر رہتی ہے۔
پشتو میں بولنے والی زبان کو جبہ کہتے ہیں، آخر میں'' ار''یا'' آر'' سے بنے ہوئے چند انگریزی الفاظ ایریا،ایری گیشن،ارائیول،ایرینا وغیرہ اسی سے مشتق ہیں۔
پشتو میں ''اڑول'' زمین جوتنے کو کہتے ہیں۔کھیت جو تو(پٹے واڑوہ) کھیت جوتتا ہوں(پٹے اڑوم) کھیت جوتا ہوا ہے(پٹے اوڑیدلے دے) سوات جہاں کی زبان میں زیادہ ملاوٹ نہیں ہوئی ہے وہاں گرنے اور گرانے کے لیے ''اڑتاؤ''کا لفظ استعمال ہوا۔جیسے تیز مت چلو ''اڑتاؤ'' ہوجاؤگے فلاں''اڑتاؤ'' ہوگیا یعنی گرگیا۔
کسی چیز کو پھینکنے کے لیے بھی''اڑتاؤ'' کرو یعنی گرادو۔ظاہر ہے ،گرنے اور گرانے کا آخری مقام زمین ہی ہے۔یہی ''اڑ'' کا لفظ ترقی کرگیا تو 'ار''ہوگیا اور پھر جب زبانوں کے مادے دوحرفی سے سہ حرفی ہوئے تو ''ار'' سے پشتو میں ارت،انگریزی ارتھ،فارسی میں ''ارد'' اور عربی میں ارض ہوگیا۔ سنسکرت میں اردھ، پشتو میں ارت اور ارتہ کا مطلب وسیع فراخ،پھیلا ہوا ہے چونکہ انسان نے زمین کو ماں اور آسمان کو''باپ'' کہا ہے۔اس لیے پشتو میں عورت یا بیوی کے لیے ''ارتینہ'' کہاجاتا ہے۔
سنسکرت میں بھی عورت کو مرد کی''اردھانجلی'' کہاجاتا ہے چنانچہ دیوتاؤں کی بیویوں کو بھی اردھانجلی کہا جاتا ہے سرسوتی برہما کی،لکشمی وشنو کی اور پارتی شیو کی اردھانجلیاں کہلاتی ہیں۔
ایرانی اساطیر میں مادرارض کا نام بھی ''اردوی''۔سورااناہتیا ہے، اردوی بہشت، ارد شہر۔ اور یہی وہ''ار''ہے جس سے ''اریہ'' کا لفظ نکلا ہے جو خالص زراعت کاروں کا نام ہے لیکن برہمنوں نے ہند میں وارد ہونے والے گلہ بان خانہ بدوش جنگلیوں اور کشتریوں کو''آریا'' بناکر تاریخ میں ایک بہت بڑا غلط العام ڈالا ہے۔یہ اتنا بڑا غلط العام ہے کہ اب اس کی تصیح ممکن نہیں رہی۔
پروفیسر محمد حبیب نے اپنی کتاب''تاریخ تمدن ہند''میں لکھا ہے کہ ہمیں اب اس لفظ آریا کو ترک کردینا چاہیے کیونکہ تاریخی شواہد سے ثابت ہوجاتا ہے کہ نقل مکانی اور خانہ بدوشی کی ضرورت جانور پالوں کو ہوتی ہے کہ انھیں اپنی اور جانوروں کی خوراک کے لیے ہمیشہ کوچ یا سفرکی حالت میں رہنا پڑتا ہے جب کہ زراعت کار اپنے کھیتوں کے ساتھ مستقل آبادیوں میں رہتے ہیں۔خیر اس بحث کو ختم کرتے ہیں کہ ہمارا موضوع الفاظ کا سفرنامہ ہے۔
سفید کاکیشین نسل کی دو بڑی شاخیں ہیں، ایک آریائی دوسری سامی، اگرچہ بنی اسرائیل نے اس میں بہت ساری غلط فہمیاں، مغالطے اور مبالغے ڈالے ہیں ۔سامی لوگ جن میں قابل ذکر عرب ہیں، وہ چرواہے تھے، اس لیے یہ لوگ اپنے جانوروں کے ساتھ کرہ ارض کے مختلف خطوں تک پھیل گئے۔
حالانکہ یہ بھی دوسر ے نسلی گروہکی طرح قفقاز سلسلہ کوہ کی اولاد تھے اور چونکہ بہت ہی قدیم اور نامعلوم زمانوں میں یہاں پہنچے ہیں اس لیے بہت ہی قدیم زمانے کے کچھ الفاظ بھی ساتھ لائے تھے جو اب بھی عربی میں تلاش کیے جاسکتے ہیں۔اب یہاں ضروری ہوگیا ہے کہ زبانوں کے بارے میں پھر تھوڑی سی بات کی جائے کیونکہ یہاں بھی ایک بہت بڑا غلط العام موجود ہے اور وہ یہ کہ عربی دنیا کی قدیم ترین زبان بلکہ ام لاسنہ (زبانوں کی ماں) ہے جو بہت بڑا مغالطہ ہے۔
زبانوں کی ابتدا''یک حرفی'' الفاظ سے ہوئی، پھر دو حرفی مادے بننے لگے جیسے میں آریائی زبانوں کے بارے میں بتاچکا ہوں۔ سر،بر، لر،چر، اپ، لپ، اڑ، جڑ، پڑ،جن،ان،من وغیرہ۔اور پھر زبانوں کے مادے سہ حرفی ہوئے۔
عربی مادے، سہ حرفی یا ثلاثی مجرد ہوتے ہیں۔جیسے راس، یاس، خاص، ارض، اسم، فعل، علم، عقل، اجر، فجر، قال، مال بلکہ اب تو کئی چار حرفی مادے بھی بننے لگے ہیں، ساتھ ہی کچھ ایسے حروف یا آوازیں بھی ہیں جو اور کسی بھی زبان والے ادا نہیں کرسکتے ہیں۔ جیسے ث، ح، ذ، ط، ظ، ص، ض اور ع وغیرہ۔ذخیرہ الفاظ کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو عربی ایک بہت ہی مالا مال زبان ہے۔
عام طور پر جب عربی زبان کی بات کی جاتی ہے تو اسے''آرامی زبان'' کی بیٹی کہا جاتا ہے جو آرام بن سام بن نوح سے منسوب ہے لیکن یونانی حکماء''آرامی'' کو''سریانی'' بھی کہتے ہیں۔جو انسان کی قدیم زبان بھی سمجھی جاتی تھی۔لیکن ان تمام زبانوں میں لفظ ''عرب'' کے اصلی بنیادی معنی موجود نہیں ہے اور اسے مجازی معنی دیے جاتے ہیں۔ جو بنجر، بے آب وگیا کے ہیں۔
اکثر قدیم آرامی لغات میں لفظ عرب (ع) کے بجائے (الف) سے یعنی ارب یا آرب بھی لکھا جاتا ہے، اس لفظ کے بنیادی معنیبھی نا معلوم ہیں۔وجہ اس کی یہ ہے کہ اس کی تلاش کسی نے ہند یورپی زبانوں یا قبل از ہند یورپی زبانوں میں نہیںکی ہے جو کاکیشیائی پہاڑی مخزن و معدن میں بولی جاتی ہیں۔
ہم جب ان زبانوں میں تحقیق کرتے ہیں تو ہمیں دو لفظ ملتے ہیں، ایک''آر'' جو ''اڑ'' کی شکل ہے اور معنی''زمین'' جب کہ دوسرا لفظ''آب''ہے جو پانی کے لیے بولا جاتا ہے۔ اپ،اپہ،آب،اوبہ۔اور ان دونوں لفظوں کو ملانے سے اراب یا ''ارب'' کا لفظ بنتا ہے یعنی زمین کا پانی۔آب زمین یا ماء الارض۔ہمارے ہاں کی اردو اور چند دوسری زبانوں میں ان نالوں کو ''ارآب'' کہا جاتا ہے جو''سیم'' کا پانی نکالنے کے لیے کھودی جاتی ہیں۔
یہ عام طور پر ان علاقوں میں کھودے جاتے ہیں جہاں واٹر لیول اوپر تک آجاتا ہے تو سیم و تھور بنکر زمینوں کو بنجر کردیتا ہے۔ لوگ عام طور پر ان اراب کو بھی اعراب کہتے اور لکھتے ہیں۔ اب سرزمین عرب کو دیکھا جائے تو یہاں آسمان کا پانی فوراً زمین میں جذب ہوجاتا ہے چنانچہ یہاں ندی نالے، جھیل اور تالاب وغیرہ نہیں پائے جاتے بلکہ زمین کا پانی چشموں کے ذریعے یا کنووں کے ذریعے کھینچ کر استعمال کیا جاتا ہے۔
مطلب یہ کہ یہ سرزمین صرف زمین کا پانی رکھتی ہے، آسمان کا پانی نہیں۔ پشتو میں''سیم'' کو زیم(zyam) کہا جاتا ہے۔سیم زدہ زمین کو''زیمی زمین'' کہاجاتا ہے اور جہاں زمین بہت زیادہ''زیمی'' ہوتی ہے اسے''جبہ'' کہتے ہیں جو'' جائے آب'' کا مخفف ہے۔جیسے مالم جبہ، تاروجبہ، جبہ خٹک، جبہ جھیل، جبن یا جبین اور ماتھے کو بھی''جبین'' اس لیے کہتے ہیں کہ ہر وقت پسینے سے تر رہتا ہے۔بلکہ زبان، جوبان، جیب بھی ہر وقت تر رہتی ہے۔
پشتو میں بولنے والی زبان کو جبہ کہتے ہیں، آخر میں'' ار''یا'' آر'' سے بنے ہوئے چند انگریزی الفاظ ایریا،ایری گیشن،ارائیول،ایرینا وغیرہ اسی سے مشتق ہیں۔