گیان ناموں سے معرکۂ گیان چند جین تک
ابھی پچھلے ہفتے کی بات ہے کہ فاطمہ حسن نے جمیل الدین عالیؔ کی ریٹائرمنٹ کے بعد
ابھی پچھلے ہفتے کی بات ہے کہ فاطمہ حسن نے جمیل الدین عالیؔ کی ریٹائرمنٹ کے بعد انجمن ترقی اردو کراچی کا اختیار سنبھالنے پر پہلا کام یہ کیا کہ انجمن نے ابھی ابھی جو ڈاکٹر گیان چند جین کی تحقیقی کتاب 'اردو کی نثری داستانیں' کا اضافہ شدہ ایڈیشن شایع کیا تھا اس کی کاپیاں بہت پھرتی سے علمی ادب حلقوں میں مختلف شخصیات کے خدمت میں ارسال کیں۔ اس پر ان کی واہ واہ ہو گئی اور انجمن بھی اس الزام سے بری ہو گئی کہ وہ اپنی مطبوعات چھاپنے کے بعد گودام میں سنگھا کر رکھ دیتی ہے۔ پھر تحقیق کرنے والے اپنے زور تحقیق سے انجمن کی چھاپی ہوئی کتاب انجمن کے دفینہ سے کھود کر برآمد کرتے ہیں۔
خیر یہ الگ مضمون ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ابھی ہم اس کتاب کی ورق گردانی کر رہے تھے اور ورق گردانی کرتے ہوئے سوچتے جاتے تھے کہ چلو اچھا ہے۔ انجمن نے ایک کام نیکی کا کیا۔ ڈاکٹر جین نے دنیا سے کوچ کرتے کرتے جو ایک کتاب 'ایک بھاشا دو لکھاوٹ' دو ادب' لکھ کر اپنے آپ کو خراب کرنے کا سامان کیا تھا اس کتاب کی اشاعت سے ان کے دامن تحقیق پر جو داغ دھبے لگے ہیں وہ دھل جائیں گے۔ ابھی ہم یہ سوچ ہی رہے تھے کہ موصوف کے بارے میں ایک اور کتاب ہمیں موصول ہوئی اور کس اہتمام سے موصول ہوئی۔ نام کتاب ''گیان نامے بہ نام رفیع الدین ہاشمی'' یعنی مواد جمع ہوا لاہور میں، ترتیب دیا گیا' اسلام آباد میں، کتاب شایع ہوئی اٹک سے۔ ہمیں موصول ہوئی بہ طور خاص امریکا سے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ پروفیسر رفیع الدین ہاشمی رہتے ہیں لاہور میں۔ سو گیان چند جین کے سب خطوط انھیں موصول ہوئے لاہور میں' ان خطوط کو مرتب کیا اور ان پر حاشیے چڑھائے ڈاکٹر ارشد محمود نے اسلام آباد میں بیٹھ کر' وہاں سے یہ مجموعۂ مکاتیب لاہور کی طرف آنے کے بجائے سِٹک گیا اٹک کی طرف' وہاں سے اسے شایع کیا اٹک کی سرحد اکادمی نے۔ ادھر امریکا میں ایک مرد سخی بیٹھا ہوا ہے کہ جو کتاب اسے بھلی لگتی ہے اسے وہ تھوک کے حساب خرید کر ہندوستان اور پاکستان اور جہاں جہاں اردو کے قارئین بیٹھے ہیں وہاں وہاں تک ان کی پسندیدہ کتاب بطور تحفہ پہنچتی ہے اور ان کے دوستوں اور مداحوں کے دامن کو زینت بخشتی ہے۔ سو یہ کتاب ان کی طرف سے ایک تحفہ کے طور پر ہمیں موصول ہوئی ہے۔
اب ہم سوچ رہے ہیں کہ کیا پاکستان میں کوئی ایسی تحریک شروع ہوئی ہے کہ گیان چند جین جی پر بہت لے دے ہو چکی۔ ان کا نام جھنڈے پہ بہت چڑھ چکا۔ اب جب کہ وہ اس دنیا سے گزر چکے ہیں اردو دنیا میں ان کی بحالی ہو جانی چاہیے۔ جین جی بھی کمال آدمی نکلے' کس خاموشی سے عمر اردو زبان و ادب کی تحقیق میں گزاری' مگر شاید اندر کوئی غصہ پل رہا تھا۔ بوند بوند کر کے تالاب بھرتا رہا۔ اُبلا اس وقت جب وہ اس دنیا سے کوچ کرنے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ جاتے جاتے انھوں نے کیا گل کھلایا کہ ان کے قارئین' ان کے مداح' ان کے ہمعصر سب حیران و پریشان کہ جین جی کب سے بھرے بیٹھے تھے کہ اب ا بلے ہیں۔
مگر پاکستان کے ادبی تحقیقی حلقوں نے اس موقع پر کمال ضبط سے کام لیا کہ متنازعہ کتاب پر تنازعہ ہندوستان میں ہوتا رہا۔ ادھر پاکستان میں یاران ادب اور شناوران تحقیق منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہے۔ اب جب وہ ساری گرد بیٹھ چکی تو یہاں یاروں نے انگڑائی لی ہے۔ ادھر انجمن نے ان کے ایک تحقیقی کام کو بصد اہتمام شایع کیا۔ ادھر لاہور میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے جھرجھری لی۔ اب تک انھوں نے گونگے کا گڑ کھا لیا تھا۔ بولے ہی نہیں۔
اب اپنی حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں کہ ارے جین جی نے تو اپنی آپ بیتی میں اعلان کیا تھا کہ میرا مذہب سب کی خیر سگالی۔ اب اچانک اپنے مذہب سے کیسے پِھر گئے۔ ان کے سارے محبت بھرے خطوط بستے سے نکالے اور ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ کے سپرد کیے۔ اب یہ سب خطوط مرتب ہو کر گیان نامہ کے عنوان سے ہمارے سامنے ہیں۔ پڑھتا جا شرماتا جا۔ خلوص' محبت اور وضعداری کے احساسات سے لبریز۔ ایک خط میں ہاشمی صاحب کو لکھتے ہیں۔
''آپ کا تعاون دیکھ کر تعجب ہوا۔ آپ نے 1944 ء میں ایم اے پاس کیا جب کہ میں ایک سال پہلے پروفیسر ہو گیا تھا۔ اس لحاظ سے آپ تو بالکل بچے ہیں۔ میں سمجھتا تھا کہ آپ کوئی بزرگ آدمی ہوں گے۔''
اگر ہمیں کبھی ہاشمی صاحب کو خط لکھنے کی توفیق ہوتی تو ہم بھی انھیں یہی کچھ لکھتے۔ اصل میں تو وہ اب بھی اپنی داڑھی کے زور پر ہمارے بزرگ بنے ہوئے ہیں۔
ایک اور خط ملاحظہ فرمایئے۔
''آپ کہاں سے میرے عقائد کے پھیر میں پڑ گئے۔ میں جین مذہب کا فرد ہوں... آپ اسلام کو بہترین مذہب سمجھتے ہیں۔ میں جین دھرم کو۔ لیکن تعقل پرستی کی وجہ سے محض پچاس فیصد... میرا مسلک یہ ہے کہ مذہب سے قطع نظر کسی انسان کی خوشی میں اضافہ کر سکو تو یہ بہترین ہے۔ اگر یہ نہ کر سکو تو تم کم از کم کسی انسان کے مصائب اور آلام میں اضافہ نہ کرو۔ یہی اصل مذہب ہے۔''
بیچ میں مذہب کا حوالہ آیا تو اپنا مؤقف سیدھے سچے الفاظ میں بیان کر دیا۔ باقی تحقیق کے مسائل زیر بحث ہیں۔ کونسا مقالہ لکھا۔ کہاں چھپا۔ کہاں چھپنے کے وہ متمنی ہیں۔
ان خطوط میں بعض اذکار ایسے ہیںکہ حاشیے میں ان کی تھوڑی تفصیل آ جاتی تو اچھا ہوتا۔ مثلا بار بار ان کے خطوں میں 'ترانۂ ہندی' کے بارے میں ان کے مضمون کا حوالہ آیا ہے۔ ذرا روشنی ڈالی جاتی کہ اس مضمون میں کیا تحقیق کی گئی۔
خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر جین اور ڈاکٹر ہاشمی کے درمیان بہت محبت اور خلوص کا رشتہ تھا اب ہاشمی صاحب ہاتھ مل رہے ہیں کہ اقبالؔؔ کے مطالعہ میں ان کے یہاں جو خامیاں ہیں انھیں از راہ مروّت کیوں درگزر کیا۔ مگر صاحب اب کیا ہو سکتا ہے۔ خامیان گنانے کاموقع ہاتھ سے گنوا دیا۔ اب بیٹھے ہاتھ مل رہے ہیں۔ پروفیسر یعقوب عمر کے ایک فقرے پر داد دیتے ہیں۔ فقرہ یوں ہے ''ان کی شہرت ان کی صلاحیتوں سے زیادہ تیز گام ہے'' اس پر ٹکڑا لگاتے ہیں کہ ''شاید میں بھی گیان چند کی شہرت کی تیز گامی کا شکار ہو گیا تھا۔''
مگر اب کیا ہو سکتا ہے سوائے اس کے کہ آپ سجدۂ سہو کر لیں۔ بہر حال ان خطوط کے مرتب کرنے پر وہ مرتب کے شکر گزار ہیں اور اس پر مطمئن ہیں کہ ''ان خطوں سے ڈاکٹر گیان چند جین کی شخصیت اور ان کے ذہن و فکر کے بعض (مثبت یا منفی) پہلو سامنے آتے ہیں۔''
باقی رہا ڈاکٹر گیان چند کے آخری معرکہ کا احوال تو عربی میں کیے مضیٰ ما مضیٰ' فارسی میں گزشتہ را صلوۃ اور زیادہ بے تکلف ہوں تو پنجابی میں کہیں گے مٹی پاؤ۔
یا پھر معرکہ ٔ چکبست و شرر' کی طرح اس معرکہ کو بھی محفوظ کر کے اردو زبان کی تاریخ کی کھتونی میں ڈال دیجیے۔