ذرایع ابلاغ سے جڑے چند معاملات

گزشتہ چند برسوں کے دوران کہیں زیادہ اور کہیں کم، ذرایع ابلاغ برصغیر کے تین ممالک پاکستان،


Muqtida Mansoor June 09, 2014
[email protected]

گزشتہ چند برسوں کے دوران کہیں زیادہ اور کہیں کم، ذرایع ابلاغ برصغیر کے تین ممالک پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں مختلف حلقوں کی تنقید کے نشانہ پر ہیں۔ گزشتہ ایک برس کے دوران ان تینوں ممالک یعنی پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت میں عام انتخابات ہوئے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان تینوں ممالک میں انتخابی عمل پر مختلف حلقوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات میں کسی نہ کسی طور ذرایع ابلاغ کا ذکر ضرور موجود ہے۔ بھارت میں کاروباری حلقوں اور ان کے زیر اثر میڈیا ہائوسز اور بعض صحافیوں کے انتخابی عمل میں کردار کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔

پاکستان میں انتخابات کی شفافیت پر ویسے تو سبھی جماعتوں نے اعتراضات کیے ہیں لیکن تحریک انصاف نے براہ راست سابق چیف جسٹس، الیکشن کمیشن اور ایک میڈیا ہائوس کو انتخابی دھاندلی کا ذمے دار ٹھہرایا ہے، جب کہ بنگلہ دیش میں حکومتی مشنری کے ساتھ میڈیا کو دھاندلی کا ذمے دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ چند روز قبل کلدیپ نیئر نے اپنے مضمون میں انکشاف کیا کہ بھارت کے ایک بہت بڑے کاروباری گروپ Reliance Group کے مالک مکیش امبانی نے بھارت کا ایک بڑا ٹیلی ویژن نیٹ ورک خرید لیا ہے۔ اس خبر کے حوالے سے انھوں نے اپنے مضمون میں ذرایع ابلاغ پر اثرانداز ہونے والے مختلف عوامل کا بھی تفصیلی جائزہ لیا۔

اس سے ایک روز قبل معروف سیاسی دانشور بی ایم کٹی نے پنکج مشرا کا ایک مضمون email کیا، جس سے کلدیپ جی کے انکشافات کی تصدیق ہوتی ہے۔ اپنے مضمون میں پنکج مشرا نے بی جے پی اور نریندر مودی کی حالیہ انتخابات میں کامیابی کے پس پشت عوامل، خاص طور پر کاروباری حلقوں اور میڈیا کے کردار پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ پنکج مشرا کے مطابق بھارت کے کاروباری حلقوں بالخصوص مکیش امبانی نے نریندر مودی کی انتخابی مہم پر خطیر اخراجات کر کے حالیہ بھارتی انتخابات کو مہنگا ترین بنا دیا۔ اس کے علاوہ ذرایع ابلاغ نے مودی کی شخصیت کو ابھارنے میں کلیدی کردار ادا کیا، جب کہ راہول گاندھی اور اروند کجریوال کو پاسنگ بھر کوریج بھی نہیں دی۔

بھارتی ذرایع ابلاغ پر سرمایہ کاروں کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کے بارے میں انھوں نے لکھا ہے کہ مکیش امبانی نے حالیہ دنوں میں شایع ہونے والی اس کتاب کے اجرا کو رکوانے کی کوشش کی، جو کئی صحافیوں کی تصنیف ہے اور جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ ان کے گروپ نے سابقہ حکومت پر دبائو ڈال کر قدرتی گیس کی قیمت میں دگنا اضافہ کرایا تھا۔ اس کے علاوہ پنکج مشرا نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ جن چینلوں میں امبانی گروپ نے سرمایہ کاری کی ہے، وہاں سے ناپسندیدہ صحافیوں اور اینکروں کو فارغ کیا جا رہا ہے، خاص طور پر جو کسی نہ کسی طور پر بی جے پی کی پالیسیوں کے ناقد ہیں۔

اس سلسلے میں مقبول اینکرز سردیپ سردیسائی اور ساگریکا گھوش کو چند روز قبل ان کی ذمے داریوں سے سبکدوش کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے مزید لکھا ہے کہ امبانی گروپ نے دیگر چینلز اور میڈیا ہائوسز پر دبائو ڈال کر انھیں بے جی پی اور نریندر مودی کے حق میں پروپیگنڈا کرنے پر مجبور کیا۔ عام آدمی پارٹی کے اروند کجریوال نے بھی بھارتی میڈیا پر الزام عائد کیا ہے کہ جب بھی انھوں نے ریاست گجرات میں ہونے والی کرپشن کے حوالے سے نریندر مودی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تو میڈیا نے ان کے بیانات کا مکمل بلیک آئوٹ کیا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میڈیا کے بعض Baron پہلے ہی سے نریندر مودی کو جتوانے کا فیصلہ کیے بیٹھے تھے۔

اس میں شک نہیں کہ بھارت میں میڈیا آزادی کے فوراً بعد ہی آزاد ہو گیا تھا۔ سوائے 1975ء میں لگنے والی ایمرجنسی، انھیں گزشتہ 66 برسوں کے دوران کسی بڑی جدوجہد سے نہیں گزرنا پڑا۔ یہی سبب ہے کہ اس کا رویہ اکثر غیر فطری بھی ہو جاتا ہے، خاص طور پر پاکستان اور چین کے بارے میں بھارتی میڈیا کی متعصبانہ روش ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ بھارتی میڈیا ان دونوں ممالک کے بارے میں آزادانہ رپورٹنگ کے بجائے اپنی وزارت خارجہ اور خفیہ ایجنسیوں کے موقف کو پیش کر کے پیشہ ورانہ بددیانتی کا شکار ہوتا ہے۔ یہی کچھ معاملہ بنگلہ دیشی ذرایع ابلاغ کا ہے۔ وہ پاکستان کے حوالے سے خاصی تنگ نظری اور بغض کا اظہار کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ اگر یہ کہا جائے تو کسی بھی طور غلط نہ ہو گا کہ بنگلہ دیشی میڈیا عوامی لیگ کے فکری حصار میں مقید ہے اور اس سے باہر نکلنے پر کسی طور آمادہ نہیں ہے۔

اس کے برعکس پاکستان خطے کا وہ واحد ملک ہے، جہاں آزادیِ اظہار کے حصول کی خاطر صحافیوں کو بے پناہ قربانیاں دینا پڑی ہیں۔ طویل جدوجہد اور قربانیوں کا یہ سلسلہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ 21 ویں صدی کے آغاز میں نجی شعبہ کو نیوز چینل چلانے کی اجازت دیے جانے کا اصل سبب صحافیوں کی نصف صدی پر محیط طویل جدوجہد اور تبدیل ہوتے عالمی حالات کا دبائو رہا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ آج جب کہ میڈیا آزاد کہلاتا ہے، پاکستانی میڈیا ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کے علاوہ سیاسی جماعتوں اور کالعدم تنظیموں کے نشانہ پر ہے اور اسے بہت سے معاملات میں از خود سنسر کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔

یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پرنٹ میڈیا نے اپنے طویل اور تلخ تجربات سے بہت کچھ سیکھا ہے اور ملنے والی آزادی اظہار کو آج بھی انتہائی متوازن انداز میں استعمال کر رہا ہے، جب کہ الیکٹرونک میڈیا کبھی کبھار ایڈونچر ازم کا شکار ہو کر غیر ذمے داری کا ثبوت بھی دے دیتا ہے۔ لیکن یہ طے ہے مختلف نوعیت کے دبائو کے باوجود پاکستانی میڈیا نے بحیثیت مجموعی جرأت مندانہ اور غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کی مثال قائم کی ہے۔ گزشتہ 14 برسوں کے دوران بالخصوص پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے پڑوسی ممالک کے بارے میں کبھی کوئی غیر ذمے دارانہ رپورٹنگ نہیں کی، جب کہ بھارت اور بنگلہ دیش کا میڈیا صحافتی اصولوں پر قائم رہنے میں ناکام رہا ہے، انھیں جب بھی موقع ملا، انھوں نے پاکستان کے بارے میں غیر ذمے دارانہ رپورٹنگ کرتے ہوئے غیر صحافتی لب و لہجہ اختیار کیا۔

اب دوسری طرف آئیے۔ جدید دنیا میں ذرایع ابلاغ کو اپنے مالی امور چلانے کے لیے تشہیری کمپنیوں سے ملنے والے اشتہارات کے علاوہ کارپوریٹ سیکٹر کے تعاون کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں بعض بڑے کاروباری گروپوں نے یا تو اپنے میڈیا ہائوسز شروع کیے ہیں یا پھر پہلے سے موجود میڈیا ہائوسز میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے، جس کی وجہ سے میڈیا ہائوسز کے اقتصادی معاملات خاصی حد تک حل ہو سکے ہیں۔

لیکن اس حوالے سے بعض مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں، خاص طور پر ایڈیٹوریل پالیسی پر سے پیشہ ور صحافیوں کی گرفت کمزور ہوئی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ مسلسل کمزور ہو رہی ہے۔ آج میڈیا پالیسی کی تشکیل میں ایڈیٹر (عامل صحافی) سے زیادہ کلیدی کردار فنانس یا ایڈورٹائزمنٹ منیجر کا ہوتا ہے۔ لیکن ایڈیٹوریل پالیسی کی تشکیل میں پیشہ ور صحافی کی عدم شرکت یا غیر فعال کردار نے میڈیا کی معتبریت کو ایک بہت بڑے چیلنج سے دوچار کر دیا ہے، جس کی وجہ سے پرنٹ کے مقابلے میں الیکٹرونک میڈیا کی حیثیت زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ذرایع ابلاغ کی معتبریت اور خبر کی قدر (News Value) کی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لیے ایڈیٹوریل پالیسی میں توازن لانے کی کوشش کی جائے۔ ہم سب کو یہ بات ذہن میں رکھنا ہو گی کہ صحافتی اقدار کی پاسداری کو ہر قیمت پر یقینی بنانے کی کوشش کے نتیجے ہی میں عوام تک صحیح اور بروقت اطلاعات و معلومات کی رسائی اور ذرایع ابلاغ کی اپنی پیشہ ورانہ آزادی کو ضمانت فراہم ہو سکے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں