نوبل پرائز بند کرو

ہمیں تاریخی لوریاں سنا سنا کر ہمیشہ کے لیے میٹھی نیند سلانے کی کوشش جاری ہے۔


راؤ منظر حیات June 09, 2014
[email protected]

ہمیں تاریخی لوریاں سنا سنا کر ہمیشہ کے لیے میٹھی نیند سلانے کی کوشش جاری ہے۔ تاریخی ناولوں نے افسانے کو حقیقت میں بدل کر ہمیں ایک خود ساختہ برتری میں مبتلا کر دیا ہے۔ دلیل کب سے کسی اور جگہ ہجرت کر چکی! ہم اپنے مسلسل منفی رویے کی بدولت تہذیب یافتہ ممالک کی فہرست سے کب کے نکل چکے ہیں۔

آپ سائنس اور ٹیکنالوجی پر نظر دوڑائیے۔ یہ ہمارے لیے اجنبی راہوں کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ کم از کم پانچ صدیوں سے مسلمان کوئی نئی سائنسی ایجاد نہیں کر پائے۔ مگر علم کے خزانے ہمارے قدیم سائنس دانوں کے صحن کے پھول ہیں۔ مارٹن کریمر نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اگر نوبل پرائز سات آٹھ صدیاں پہلے شروع کیا جاتا تو، تمام پرائز صرف مسلمانوں کو ملتے۔ مگر اب صورت حال انتہائی تکلیف دہ ہے۔

مسلمانوں کی مجموعی آبادی ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ ہے مگر ہمارے پاس نوبل پرائز حاصل کرنے والے افراد ایک درجن سے بھی کم ہیں۔ کل ملا کر دس یا شائد گیارہ! کیا یہ قیامت نہیں کہ ہم علمی معاملات میں اتنا پیچھے چلے گئے ہیں کہ جہالت اب ہماری حاکم بن چکی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر رچرڈ ڈاکنز نے لکھا ہے کہ"مسلمانوں کے پاس نوبل پرائز حاصل کرنے والوں کی تعداد کیمبرج یونیورسٹی کے ٹرینٹی کالج سے بھی کم ہے"۔

الفرڈ نوبل غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل شخص تھا۔ وہ بیک وقت ایک انجینئر، کیمسٹ اور متعدد نئی ایجادات کا موجد تھا۔ اپنی تریسٹھ سالہ زندگی میں355 ایجادات کیں۔ ان تمام میں ڈائنامائٹ سب سے زیادہ مشہور ہوا۔1833ء میں سویڈن کے شہر اسٹاک ہولم میں پیدا ہوا۔ اس کا سارا خاندان انجینئر تھا۔ 1894ء میں اس نے بوفرز نام کی اسٹیل مل خرید لی۔ یہاں وہ مختلف اقسام کی توپیں بنایا کرتا تھا۔ اس نے دھواں کے بغیر بارودی سامان بھی بنانا شروع کر دیا۔ اس میں "کورڈائٹ" بھی شامل تھا۔ "کورڈائٹ" پر تو باقاعدہ وہ برطانوی کمپنیوں سے مقدمہ بازی میں مصروف رہا کیونکہ کچھ برطانوی کمپنیاں اسکو اپنی ایجاد بتا رہی تھیں۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو الفرڈ نوبل نے تمام پیسہ ان ہتھیاروں کے بنانے سے کمایا جو جنگوں میں عام لوگوں کے قتل عام کے لیے استعمال کیے گئے۔ وہ دراصل موت کا سامان فروخت کرنے والا سوداگر تھا۔ مرنے تک دنیا میں وہ اسی نام سے مشہور تھا یعنی "موت کا سوداگر"۔ 1888ء میں اس نے ایک فرانسیسی اخبار میں اپنے مرنے کی خبر پڑھی۔ اس خبر میں اس کی سوانح عمری بیان کی گئی تھی۔ خبر کا عنوان تھا "موت کا سوداگر با لآخر خود مرگیا" الفرڈ نوبل اس کو پڑھ کر حیران ہو گیا کیونکہ وہ زندہ تھا۔ معلوم ہوا کہ دراصل اس کا بھائی"لڈوگ" فوت ہوا تھا مگر فرانسیسی اخبار نے غلط فہمی میں"الفرڈ" کے مرنے کی خبر چھاپ دی۔

اس واقعہ نے"الفرڈ نوبل" کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ جب وہ حقیقت میں اس دنیا سے چلا جائے گا تو اسے مرنے کے بعد کس طرح یاد رکھا جائے گا۔ وہ اپنے ٹائیٹل"موت کے سوداگر" سے از حد رنجیدہ تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں وصیت تک لکھ ڈالی تھی کہ اس کے مرنے کے بعد تمام جائیداد ایک خاص ترتیب میں اس کے لواحقین میں تقسیم کر دی جائے۔ مگر اب اس کا ذہن مکمل تبدیل ہو چکا تھا۔ اس پر صرف ایک دھن سوار تھی کہ مرنے سے پہلے وہ انسانیت کے لیے کوئی فلاحی کام کر جائے۔ فوت ہونے سے ٹھیک ایک سال قبل اس نے اپنے وکیل کو بلایا۔

وکیل کو اپنی تبدیل شدہ وصیت حوالے کر دی۔ وکیل اس وصیت کو پڑھ کر حیران ہو گیا۔ الفرڈ نوبل نے اپنی تمام دولت کا 94 فیصد حصہ اپنے نام سے ایک انعام شروع کرنے کے لیے وقف کر دیا تھا۔ یہ انعام ان لوگوں کو دیا جانا ٹھہرا جنہوں نے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے غیر معمولی کام کیے ہوں۔ دراصل اس انعام کے پانچ حصے تھے۔ ان میں فزکس، کیمسٹری، میڈیسن، ادب اور امن کے اہم شعبے شامل تھے۔ وہ 1897ء میں فوت ہوا۔ اس کی وصیت پر عملدرامد کرنے میں دو سال کا عرصہ لگا۔ چنانچہ اس کی خواہش کے مطابق "نوبل فائونڈیشن" بنائی گئی۔ اس فائونڈیشن کا کام جائیداد کی دیکھ بھال اور اس کی جائیداد کو نوبل پرائز دینے کے لیے استعمال کرنا تھا۔

وصیت کے مطابق ناروے میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو امن کے نوبل پرائز کے لیے لوگوں کا انتخاب کرتی تھی۔ سویڈن میں تین اداروں کو اختیار دیا گیا کہ وہ امن کے علاوہ، بقیہ تمام شعبوں میں غیر معمولی کام کرنے والوں کا انتخاب کریں۔ فائونڈیشن کے پاس تمام شعبوں میں لوگوں کو منتخب کرنے کے لیے کوئی اصول یا ضابطہ نہیں تھا۔ چنانچہ منتظمین نے کمال ایمان داری اور کسی تعصب کے بغیر 1900ء میں تمام ضابطے اور اصول ترتیب دیے جنکی بنیاد پر یہ انعامات دیے جانے تھے۔ ان تمام ضابطوں کو اس وقت کے بادشاہ آسکر دوم نے منظور کیا۔

1905ء میں ناروے اور سویڈن علیحدہ ہو گئے مگر الفرڈ کی وصیت کے مطابق آج تک امن کے نوبل پرائز کا انتخاب ناروے کی کمیٹی ہی کرتی ہے۔نوبل فائونڈیشن کی حیثیت بہت منفرد ہے۔ بنیادی طور پر یہ کسی قسم کے نوبل پرائز کے انتخاب میں شامل نہیں ہے۔ یہ کسی بھی ایسے عمل سے بہت دور رہتی ہے جس میں انعام لینے والوں کے نام ترتیب کیے جاتے ہیں یا انکو حتمی شکل دی جاتی ہے۔ نوبل فائونڈیشن اب ایک ایسی کمپنی کی شکل اختیار کر چکی ہے جو الفرڈ نوبل کے چھوڑے ہوئے پیسوں اور جائیداد کی منافع بخش سرمایہ کاری کرتی ہے۔ سویڈن اور امریکا میں اس کمپنی کو اپنے منافع پر کوئی ٹیکس نہیں دینا پڑتا۔

دسمبر2001ء میں فائونڈیشن نے اپنے اثاثہ جات560 ملین یو ایس ڈالر کے قریب اعلان کیے تھے۔ نوبل پرائز حاصل کرنے والوں کا تمام انتخاب چار کمیٹیاں کرتیں ہیں۔ ان میں تین سویڈن میں ہیں۔ رائل اکیڈمی آف سائنسز، کارولنکا انسیٹیوٹ کی نوبل اسمبلی اور سویڈش اکیڈمی۔ ناروے میں نارویجین نوبل کمیٹی قائم ہے جو صرف امن کے نوبل پرائز کے لیے کام کرتی ہے۔ جرمنی نے1940ء میں ناروے پر قبضہ کر لیا۔ لہذٰا دو سال یعنی 1940-42ء تک امن کا نوبل پرائز کسی کو بھی نہ دیا جا سکا۔1968ء میں اقتصادیات کو اس فہرست میں شامل کیا گیا۔ اس کے بعد آج تک انعام کے لیے کسی اور شعبہ کو شامل نہیں کیا گیا۔

نوبل پرائز دینے کا کام ووٹ کے ذریعے ہوتا ہے۔ تمام ادارے یا کمیٹیاں اپنے ممبران کے ساتھ کئی مہینے عرق ریزی سے ایک ایک شخص کے کام کو پرکھتی ہیں اور پھر فائنل ہونے والے امیدوار پر ووٹنگ ہوتی ہے۔ فیصلہ ہمیشہ زیادہ ووٹ لینے والے شخص کے حق میں ہوتا ہے۔ نوبل پرائز کی تقریب10 دسمبر کو منعقد کی جاتی ہے۔ یہ دن دراصل الفرڈ نوبل کا یوم وفات ہے۔ سویڈن میں یہ انعام ملک کا بادشاہ بذات خود دیتا ہے۔ ناروے میں بادشاہ کو یہ انعام دینے کی اجازت نہیں ہے۔ چنانچہ ناروے میں یہ انعام امن کمیٹی کا چیئرمین اپنے ہاتھ سے دیتا ہے۔ مگر اس تقریب میں ناروے کا بادشاہ موجود ہوتا ہے۔

امن کا پہلا انعام ہنری ڈیونینٹ کو دیا گیا۔ اس شخص نے بین الاقوامی سطح پر ریڈ کراس نام کی تنظیم بنائی تھی جو آج بھی قائم ہے۔ اب تک دو اشخاص نے نوبل پرائز لینے سے انکار کیا ہے۔1914ء میں" ژاں پال ساغتے" نے ادب کا نوبل پرائز لینے سے اس بنیاد پر انکار کیا کہ" کسی بھی ادیب کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی ذات کو ایک ادارہ کی حیثیت دینے کی کوشش کرے"۔ دوسرا شخص1973ء میں "لی ڈوک تھو" تھا۔ اس نے امن کا پرائز لینے سے صرف اس بنیاد پر انکار کیا کہ اس کی ویت نام میں امن کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں اور دیت نام میں امن قائم نہ ہو سکا۔

اب تک ایک خاندان کی حیثیت سے سب سے زیادہ نوبل پرائز "کیورے فیملی" کو ملے ہیں۔ یہ بے حد دلچسپ اَمر ہے۔ مادام کیورے کو 1903 میں فزکس اور1911ء میں کیمسٹری میں نوبل پرائز ملا۔ 1903ء میں فزکس کے انعام میں اس کا خاوند بھی شریک تھا۔ 1935ء میں ان کی بیٹی کو کیمسٹری میں نوبل پرائز دیا گیا۔ ان کی دوسری بیٹی کا خاوند ہنری یونیسف میں ڈائریکٹر تھا جب 1965ء میں یونیسف کو بطور ادارہ نوبل پرائز سے نوازا گیا۔

مسلمانوں کے پاس نوبل پرائز حاصل کرنے والوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ اور اگر سائنس کے میدان پر نظر ڈالیں تو یہ تعداد شرمناک حد تک کم ہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ سائنس کے میدان میں ہم بانجھ ہو چکے ہیں۔ دور دور تک ایک المناک سناٹا ہے۔ کوئی صدا بلند کرنے والا موجود نہیں۔ تحقیق، نئی بات سوچنا اور کہنا اب ہمارے ہاں جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ اسلامی دنیا کا ذکر چھوڑ دیں۔ اپنے ملک کی بات کریں۔ تعلیم کا مقصد صرف نوکری تلاش کرنا ہے۔ کسی بھی سطح پر سائنسی تحقیق کو فروغ حاصل نہیں ہے۔ آپ حکمرانوں کی تقریروں کو بالکل اہمیت نہ دیں۔ ان کی اولاد کی تعلیمی کار کردگی کا جائزہ لیجیے۔

آپکو عملی صورت حال جاننے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ یہ انتہائی پست تعلیمی ریکارڈ کے حامل نظر آئینگے۔ لیکن فکر کی کوئی بات نہیں! ہمارے حکمران جسطرح اپنے خاندان کی تربیت اور جس طرز سے حکومت کر رہے ہیں۔ اس کے لیے نوبل پرائز دیے جانے والے شعبوں میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ یہ اضافہ اشد ضروری ہے! ہمارے مقتدر لوگوں کے لیے کرپشن، جھوٹ اور ریاکاری کا ایک نیا نوبل پرائز بنانا چاہیے! مجھے یقین ہے کہ وہ اسکو حاصل کرنے کے مسلسل حقدار ہونگے! بلکہ انھیں یہ انعام صریحاً میرٹ پر ملے گا! اگر ہمارے قومی رہنمائوں کو نوبل پرائز کمیٹی یہ اعزاز نہیں عطا کرتی تو ہمارا مطالبہ ہونا چاہیے کہ نوبل پرائز کو فوراً بند کرو!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں