کوچۂ سخن
غزل
کر دیا ظالم و مظلوم کو مدغم تو نے
خوب رکھا ہے مرے زخم پہ مرہم تو نے
لشکری تیری محبت میں مرے جاتے ہیں
اور دشمن کا اٹھا رکھا ہے پرچم تو نے
حسنِ نیت کے بنا لرزاں رہی اس کی اساس
اقتدار اپنا کیا جتنا بھی محکم تو نے
زرد پتوں سے گلہ کرتے ہوئے سوچ ذرا
رس نچوڑا ہے کسی شاخ کا ہر دم تو نے
کام آئیں گے جدائی کے کڑے کوسوں میں
سلسلے مجھ سے جو رکھے ہیں مقدم تو نے
کیسے سچائی سے، تہذیب سے، سلجھاؤ سے
بُن لیا الجھے خیالات کا ریشم تو نے
آنکھ کیا بدلی اڑا ڈالا ہر اک عکس کا رنگ
یاد رکھا ہی نہیں یاد کا البم تو نے
زندگی پاتی ہے جذبوں سے حرارت جاذبؔ
آنچ ہونے نہیں دینی ہے یہ مدھم تو نے
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء الدین)
غزل
طلب کے ساتھ رسد کو بڑھانا پڑتا ہے
ہر ایک شے کو توازن میں لانا پڑتا ہے
ہماری مادہ پرستی پہ حرف مت لانا
کہ آنکھ کھلتے ہی ہم کو کمانا پڑتا ہے
یہ زندگی ہے کئی بار دشمنوں کو بھی دوست
بفیضِ وقت گلے سے لگانا پڑتا ہے
ہمیں تو خلد بھی اِس واسطے قبول ہوئی
کہ راستے میں ترا آستانہ پڑتا ہے
رہِ حیات میں آنکھوں کی ہم رکابی کو
یہ دل چراغ بنا کر جلانا پڑتا ہے
اٹھو یہ کان میں درویش نے کہا اک روز
نصیب بنتا نہیں ہے بنانا پڑتا ہے
میاں یہ عشق ہے دِل ہارنا ہی کافی نہیں
یہاں تو سر بھی خوشی سے کٹانا پڑتا ہے
کسی کے حصّے کا پھل اور کسی کے دامن میں
کسی کا بوجھ کسی کو اٹھانا پڑتا ہے
فشارِ ذات سے بچنے کے واسطے طاہرؔ
بدن کو اُلٹے بہاؤ بہانا پڑتا ہے
(طاہر ہاشمی۔ لاہور)
غزل
کہاں تھی نغمگی و شعریت الہام سے پہلے
بظاہر شعر کہہ لیتے تھے ہم آرام سے پہلے
یہ ان لوگوں کا کہنا ہے جو اس سیڑھی سے گزرے ہیں
مسرت پاس آتی ہے غم و آلام سے پہلے
اب آجاتے ہیں کھڑکی میں بلا خوف و خطر وہ بھی
ہمیں جو چھپ چھپا کر دیکھتے تھے بام سے پہلے
ہمارے شہر میں پہلے سے اب حالات تھوڑی ہیں
پہنچ جاتے ہیں اپنے گھر ہم اکثر شام سے پہلے
گلے ملنے سے پہلے مسکراتے ہیں وہ زیرِ لب
ہمیں انعام مل جاتا ہے اک انعام سے پہلے
بڑے ہی منفرد انداز سے افکار سمٹے ہیں
رباعی کب رباعی تھی عمر خیام سے پہلے
یہ بزمِ شمس میں کس چاند کی آمد کا مژدہ ہے
چراغِ آرزو جلنے لگے ہیں شام سے پہلے
(التمش شمس۔ آکولہ، مہاراشٹر، انڈیا)
غزل
کوئی کسی کے ساتھ ہے کوئی کسی کے ساتھ
لیکن میں بدنصیب کہ ہوں بے دلی کے ساتھ
تنگ آ گئی ہو مجھ سے بہت، جان کر مجھے
تھوڑی بہت خوشی بھی ہوئی ہے غمی کے ساتھ
وہ اس لیے کہ مجھ سے نہیں خودکشی ہوئی
میں جی رہا ہوں آج اگر شاعری کے ساتھ
کچھ وقت اس کے ساتھ رہا ہوں سو علم ہے
سفّاک دل بھی رکھتی ہے وہ دلکشی کے ساتھ
وہ تو ہمیں نہ مل سکا لیکن خدا کا شکر
دو چار لفظ پڑھ لیے آوارگی کے ساتھ
انجم ؔپڑھو کتاب ظفر کی گل آفتاب
ملتے نہیں ہیں پھول اگر تازگی کے ساتھ
(امتیاز انجم۔ اوکاڑا)
غزل
ضروری کام تھا، کرنا بہت ضروری تھا
کسی کے دل میں اترنا بہت ضروری تھا
لبِ لباب کہانی کا تھا مرا کردار
پر اُس کہانی میں مرنا بہت ضروری تھا
وگَرنہ سیلِ رواں کاٹ کھاتا اندر سے
بدن میں آنکھ کا جھرنا بہت ضروری تھا
جمود ہوتا مقدّر وگرنہ پانی کا
ترا ندی سے گزرنا بہت ضروری تھا
بچھڑ کے میں نے بہت دیر بعد سوچا تو
مجھے لگا کہ بچھڑنا بہت ضروری تھا
حصارِ ذات سے باہر نکلنے والے کا
حصارِ ذات میں مرنا بہت ضروری تھا
منافقت کا یہ چہرہ نظر نہ آتا سو
کسی کا حق سے مکرنا بہت ضروری تھا
(سفیر نوتکی۔نوتک ، بھکر)
غزل
چپ بیٹھنا نہیں حل ریلی نکالتے ہیں
بیساکھیاں پکڑ، چل ریلی نکالتے ہیں
ساون کے بادلوں سے کچھ ساز باز کر کے
پت جھڑ کے سازشی پل ریلی نکالتے ہیں
یہ دفتروں سے آنے والی صدا کی، جانے
کب ختم ہو گی کل کل ریلی نکالتے ہیں
فریادیوں کے رش سے دربار نہیں لگتا
بس، حکمِ شاہ بِر بَل ریلی نکالتے ہیں
جس میں بھرا وطن نکلے تو سماج بدلے
ایسی کوئی مکمل ریلی نکالتے ہیں
ساگر کو ڈیم کی مزدوری پہ بھیجتے ہی
اِس گھر کے سوکھتے نل ریلی نکالتے ہیں
(ساگرحضورپوری۔ سرگودھا)
غزل
وہ تو ایسے گماں میں رہتا ہے
تیر جیسے کماں میں رہتا ہے
میرا پوچھے اگر اُسے کہنا
دربدر سا جہاں میں رہتا ہے
اُس کے سانسوں کی ہے مہک ایسی
جیسے گُل، گلسِتاں میں رہتا ہے
میں چلوں جانبِ حرم کیسے
دل مِرا ایں و آں میں رہتا ہے
کیا وہ ایواں کے خواب دیکھے گا
خود جو کچے مکاں میں رہتا ہے
دیکھا مہوش کے سنگ تو بولے
خار گُل کی اماں میں رہتا ہے
(اقبال جعفر۔ دُرگ)
غزل
آنکھ جو اشکوں سے نم ہے
رم جھم رم جھم موسم ہے
ایک طرف ہے تنہائی
ایک طرف تیرا غم ہے
ساز بنا پتہ پتہ
بادِ بہاری سرگم ہے
دل کے زخموں پر جیسے
یاد تمہاری مرہم ہے
سوکھ گئیں ساری کلیاں
اور کانٹوں پر شبنم ہے
ان کی رنگت کے آگے
چاند بھی ظاؔہر مدھم ہے
(سید اظہار حسین ظاؔہر اچلپوری۔ آکولہ، بھارت)
غزل
مفلس کو سمجھ آئیں گے آزار نمک کے
پانی کی کہانی میں ہیں کردار نمک کے
خیمے کے چراغوں کو بجھانے سے کھلے گا
حب دار وفا ہو یا کہ حب دار نمک کے
سائے کی طرح رہتے ہیں خوش حالی میں لیکن
بارش میں بکھر جاتے ہیں سب یار نمک کے
اک شہر محبت کی سجاوٹ کی غرض سے
اشکوں سے چرائے گئے مینار نمک کے
رفتار زمانہ نے بتایا، یہ سبب ہے
ناؤ کو ڈبو دیتے ہیں غدار نمک کے
گفتار کے نشتر سے کریدو نہ زبوں کو
یہ زخمِ جنوں ہیں، نہیں حق دار نمک کے
تھوڑی سی نمی ہو تو پگھل جاتے ہیں زمزم
درپیش ہیں مخلوق کو سردار نمک کے
(مکرم حسین اعوان۔ گوجرانوالہ)
غزل
چھو کر زلف تری جب یہ ہوا لگتی ہے
اسی دوران مجھے سانس جدا لگتی ہے
لاکھ کوشش بھی کریں، مرض بھی بڑھتا جائے
موت لازم ہو تو بے کار دوا لگتی ہے
طور پر جاؤ، مگر یہ بھی رہے دل میں خیال
ہر کسی کو کہاں اللہ کی صدا لگتی ہے
اب محبت کی میاں خیر مناؤ کہ تمھیں
پیار سے بڑھ کے تجھیاپنی انا لگتی ہے
اس قدر ہوگئی تبدیل زمانے کی ہوا
مری تصویر بھی اب مجھ سے جدا لگتی ہے
ایک دوجے کو دعاؤں میں رکھو کیونکہ عقیلؔ
کیا خبر، کس کو کہاں، کس کی دعا لگتی ہے
(عقیل نواز۔ اسکردو)
غزل
وہ ہے بیدار یا وہ سو رہا ہے
خیال اتنا کہاں مجھ کو رہا ہے
اگاتا ہے کوئی خارِ تنفر
کوئی تخمِ محبت بو رہا ہے
نظر انداز کرنا چاہتا تھا
نظر انداز خود ہی ہو رہا ہے
کسی کی سرخ آنکھیں سامنے ہیں
کوئی اوسان اپنے کھو رہا ہے
متاع ہوش اس سے ہو گئی گم
درِ وحشت پہ بیٹھا رو رہا ہے
اُسے خود ہی نکلنا ہوگا اس سے
وہ بوجھ اپنی خطا کا ڈھو رہا ہے
نہیں اے نور ؔتبدیلی کوئی بھی
وہی اب بھی ہے پہلے جو رہا ہے
(سید محمد نورالحسن نور۔ ممبئی، بھارت)
غزل
ہم پر کوئی حق اپنا جتائے نہیں پسند
بس اک وہ! کوئی اس کے سوائے نہیں پسند
ہر بار وہ بہانے بنائے نہیں پسند
ہم گر نہیں تو کھل کے بتائے نہیں پسند
اس کی ہر اک پسند کو ہم نے کیا پسند!
اور اب وہ ہم سے جان چھڑائے نہیں پسند
وہ شخص جو پسند تھا مل تو گیا مگر
جس شخص کو ملے، اسے آئے نہیں پسند
غربت کے ہاتھوں مارے ہوئے لوگ ہیں وسیم
کیا ہم کو اس کی زلفوں کے سائے نہیں پسند
(سردار وسیم اکرم سیمی خاک۔ کیکوٹ، ہری پور)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی