جنگیں نہیں امن عالم انسانیت کی پکار
جنگوں میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا، لیکن عالمی طاقتوں نے ابھی تک جنگ کی تباہی سے سبق نہیں سیکھا ہے
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ2 برس سے جاری روس یوکرین تنازعے میں 5لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک یا زخمی ہوچکے ہیں، جب کہ ایک کروڑ سے زائد یو کرینی بے گھر ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے مطابق، اس تنازعے کے پھیلنے کے بعد، تیزی سے عالمی سطح پر توانائی کی قیمتوں اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور کچھ افریقی ممالک کو '' خوراک کی قلت'' کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔ سرد جنگ کی ذہنیت اس تنازعے کے باعث تباہی و بربادی لائی ہے۔
جنگ میں سب سے پہلی موت سچ کی ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے جنگ و جدل پاگل پن کی تمام شکلوں کے دروازے کھول دیتی ہے، انسانی حساسیت کو ختم کر کے انسانی تہذیب و تمدن کو بربریت اور وحشت کے اندھیروں میں دھکیل دینے کا باعث بنتی ہے اور جنگل کے دور کی یاد تازہ کرتی ہے۔
جنگوں میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا، لیکن عالمی طاقتوں نے ابھی تک جنگ کی تباہی سے سبق نہیں سیکھا ہے اور سالانہ کھربوں ڈالر جنگی سازو سامان اور خطرناک ترین ہتھیار بنانے میں خرچ کرتے ہیں اور تمام حقائق کو جاننے کے باوجود انسانیت کی تباہی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والے ترقی یافتہ ممالک ہی پسماندہ اقوام کے انسانی حقوق غصب کر رہے ہیں۔
اس وقت فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کا دفاع امریکا کر رہا ہے، اگر سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف قرارداد کی بات کی جائے تو وہاں بھی امریکا اسے ویٹو کردیتا ہے، جب بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے تحت کچھ ملکوں کو بلاجواز تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، تو اس سے طاقت کا توازن بگڑ جاتا ہے جنھیں درست کرنا آسان نہیں ہوتا۔
گلوبلائزیشن کے بعد جیسے جیسے عالمی تجارت آزاد تجارت میں بدل رہی ہے، اسی طرح ہتھیاروں کی یہ تجارت بھی تمام بندشوں سے آزاد ہوتی جا رہی ہے، اور اس پر سے حکومتوں کا کنٹرول بھی کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔
ان بڑی طاقتوں کی جانب سے تیار کیے گئے اسلحے کے اصل خریدار تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک ہیں۔ چند ترقی پذیر ممالک میں دہشت گردی اور افراتفری کے ذمے دار بھی یہ ترقی یافتہ ممالک ہیں جو اپنا اسلحہ بیچنے کے لیے وہاں امن قائم نہیں ہونے دیتے۔
یہ کس قدر عجیب اور مضحکہ خیز صورت حال ہے کہ جو دنیا میں امن کے چمپئین بنے پھرتے ہیں دنیا کو امن کا درس دیتے نہیں تھکتے وہی اس ہلاکت خیز ہتھیاروں کے سب سے بڑے کاروباری ہیں۔
صورت حال کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ہتھیاروں کے اس کاروبار کے ذریعے ان بڑے ممالک کی حکومتیں اور کارپوریٹس ایک دوسرے کے تعاون سے مختلف غریب اور تیسری دنیا کے ممالک کی خارجہ پالیسی، جنگی حکمت عملیوں اور داخلی پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں، وہ ایسی صورت حال پیدا کر دیتے ہیں کہ پڑوسی ملکوں کے درمیان شکوک وشبہات پیدا ہو جائیں تاکہ اس کے ذریعے سے وہ اپنے ہتھیار بیچ کر بھاری منافع کماتے رہیں اور اپنے مختلف سیاسی و معاشی ایجنڈوں کو آگے بڑھاتے رہیں۔
دوسری طرف دنیا بھر میں کروڑوں انسان بھوک، افلاس اور بیماریوں میں مبتلا ہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جدید ہتھیاروں کے حصول کے اس خطرناک کھیل میں دنیا کے غریب ترین ممالک بھی کسی سے پیچھے نہیں، جو ہر سال اپنی قومی آمدنی کا ایک کثیر حصہ جنگی ساز و سامان کی خریداری میں استعمال کرتے ہیں، جب کہ ایسے ملکوں میں لوگوں کی اکثریت غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
مثال کے طور پر آج تیسری دنیا کے 149 میں سے 105 ممالک غذائی اجناس تک بیرونی طاقتور ممالک سے درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ دنیا بھر میں مختلف تنازعات جھگڑے، قتل عام، تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں، جو کہ باعث تشویش ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ جنگوں میں نہ صرف بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیا جاتا ہے بلکہ اسکول کالج، فیکٹریاں، کارخانے، ایئر پورٹس، ڈیمز، سڑکیں اور دیگر انفرا اسٹرکچر کے ساتھ ثقافتی ورثہ اور آثار قدیمہ کے اہم ترین تاریخی مقامات بھی تباہ کیے جاتے ہیں۔ اگر ہم ماضی کے دریچوں میں جھانک کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ جب بھی ریاستوں یا اقوام کے مابین جنگیں ہوئی ہیں۔
ان سب میں ایک سبب عام تھا کہ ایک ریاست کمزور ہوتی تھی اور ایک طاقتور، کوئی طاقتور سلطنت، ملک یا ریاست استبداد میں تبدیل ہوتی ہے تو وہ کمزور ریاستوں پر چڑھ دوڑتی ہے، کمزور ریاست کے وسائل پر قبضہ کرتی ہے، مزاحمت کرنے والوں کو قتل کرتی ہے، زندہ بچ جانے والوں کو غلام بنا لیتی ہے اور ان کی زمینوں، جائیدادوں کو اپنے وفاداروں میں تقسیم کردیتی ہے۔
آج زمانہ جدید میں طاقتورریاستوں کو اقوام متحدہ کاایک پلیٹ فارم مہیا کردیا گیا ہے جہاں وہ کمزور اور پسماندہ ریاستوں اور اقوام کے حقوق نہایت سہل انداز میں سلب کرتی جا رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کو ویٹو کا حق دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ریاست اپنی مرضی سے کسی بھی قرارداد کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
حال ہی میں روس اور یوکرین کی جنگ کے آغاز کے بعد جب روس کے خلاف قرارداد پیش کی گئی تو روس نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا۔ ماضی میں کشمیر کے حوالے سے منظور کی گئی کئی قراردادوں کو بھارت کے اتحادی ویٹو پاور ممالک نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔
انسانی حقوق کی علمبردار عالمی قوانین کی تمام شقیں دھری کی دھری رہ گئیں اور عالمی وڈیروں نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے انسانیت کا جنازہ نکال دیا۔اب فلسطین کے حوالے سے اسرائیل کے خلاف جو قراداد پیش ہوتی ہے، اسے امریکا ویٹو کرکے بے اثر کردیتا ہے۔
عالمی عدالتی نظام کے لیے باقاعدہ عالمی عدالت برائے انصاف (ICJ) کا وجود ہے لیکن یہاں ریاستوں کی اپنی منشا ہوتی ہے کہ وہ اپنا جھگڑا عدالت میں لانا چاہتی ہیں یا نہیں؟ یعنی مجرم ریاست سے بھی پوچھا جاتا ہے کہ وہ سزا لینا چاہتی ہے یا نہیں! بڑی طاقتیں عالمی قوانین اپنے حق میں بنواتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے عالمی پلیٹ فارم کو ویٹو پاور کے حامل طاقتور ملک ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے آرہے ہیں، عراق، افغانستان، لیبیا،شام پر حملہ کرنا ہو ، ایران پر پابندیاں لگانی ہوں، فلسطین ہو یا برما، چاہے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے لیے بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ ہونا ہو، ہر مقام پر طاقتور ریاستوں نے اپنے اپنے عالمی مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں تنازعات حل نہیں ہورہے ہیں بلکہ کوئی نہ کوئی نیا تنازعہ سامنے آجاتا ہے۔
امریکا نے عراق، افغانستان، شام، یمن، سوڈان، صومالیہ اورلیبیا وغیرہ کے خلاف فوجی کارروائیاں کی ہیں، ان لڑائیوں میں لاکھوں انسان مارے گئے ہیں ، اربوں کھربوں ڈالر کا مالی نقصان ہوا ہے ۔کئی کروڑ لوگ بے گھرہوئے ہیں۔
اسی طرح روس نے اپنے اردگرد کمزور ریاستوں کو اپنے زیر تسلط رکھنے کے لیے جنگی کارروائیاں کی ہیں، چیچنیا اور یوکرائن تازہ مثالیں ہیں۔ یوکرین پر جنگ مسلط کرنے کا مقصد روسی سرمائے کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ روس کے وسط ایشیائ، کاکیشیا، مشرقِ وسطیٰ، مشرقی یورپ اور خطہ بلقان یعنی بوسنیا، ترکی، یونان، بلغاریہ، مقدونیہ اور قریبی ممالک میں مفادات موجود ہیں۔
سرد جنگ 1945۔ 1991 کے دوران دو سپر طاقتوں امریکا اور سابق USSR نے اپنے مفادات کی بنیاد پر دنیا کو سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام میں تقسیم کر کے دنیا کے مختلف حصوں میں پراکسی وارز کا آغازکیا، مغربی یورپ میں جرمنی کو مغربی اور مشرقی جرمنی میں تقسیم کر کے دیوار برلن تعمیر کی، سوویت یونین کی تحلیل کے بعد جرمنی متحد ہوگیا لیکن کوریا تاحال جنوبی کوریا اور شمالی کوریا میں تقسیم ہے ۔
امریکا، روس برطانیہ، فرانس نے ایٹمی ہتھیار بہت پہلے بنا لیے تھے، ان کے بعد چین ایٹمی طاقت بن گیا، اس کے بعد ہر ملک ایٹمی طاقت بننے کی کوششوں میں مصروف ہوگیا، انڈیا، پاکستان، اسرائیل، شمالی کوریا نے بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کی، ایران بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کرچکا ہے، یوں ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ نے انسانیت کے مستقبل کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کیا ہے، سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ 1945 کے مقابلے میں آج کے ایٹمی ہتھیار پانچ ہزار گنا زیادہ خطرناک بن چکے ہیں۔
اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ دنیا کے ممالک کے درمیان تمام تنازعات کو بات چیت، مذاکرات اور ڈپلومیسی کے ذریعے پرامن بقاء باہمی کے تحت حل کیا جائے نہ کہ جنگ و جدل کے ذریعے، چونکہ تاریخ شاہد ہے کہ جنگ کے ذریعے تنازعوں کا فیصلہ غیر تسلی بخش اور عارضی ہوتا ہے، اور جنگ کا خطرہ بدستور برقرار رہتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے مطابق، اس تنازعے کے پھیلنے کے بعد، تیزی سے عالمی سطح پر توانائی کی قیمتوں اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور کچھ افریقی ممالک کو '' خوراک کی قلت'' کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔ سرد جنگ کی ذہنیت اس تنازعے کے باعث تباہی و بربادی لائی ہے۔
جنگ میں سب سے پہلی موت سچ کی ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے جنگ و جدل پاگل پن کی تمام شکلوں کے دروازے کھول دیتی ہے، انسانی حساسیت کو ختم کر کے انسانی تہذیب و تمدن کو بربریت اور وحشت کے اندھیروں میں دھکیل دینے کا باعث بنتی ہے اور جنگل کے دور کی یاد تازہ کرتی ہے۔
جنگوں میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا، لیکن عالمی طاقتوں نے ابھی تک جنگ کی تباہی سے سبق نہیں سیکھا ہے اور سالانہ کھربوں ڈالر جنگی سازو سامان اور خطرناک ترین ہتھیار بنانے میں خرچ کرتے ہیں اور تمام حقائق کو جاننے کے باوجود انسانیت کی تباہی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والے ترقی یافتہ ممالک ہی پسماندہ اقوام کے انسانی حقوق غصب کر رہے ہیں۔
اس وقت فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کا دفاع امریکا کر رہا ہے، اگر سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف قرارداد کی بات کی جائے تو وہاں بھی امریکا اسے ویٹو کردیتا ہے، جب بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے تحت کچھ ملکوں کو بلاجواز تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، تو اس سے طاقت کا توازن بگڑ جاتا ہے جنھیں درست کرنا آسان نہیں ہوتا۔
گلوبلائزیشن کے بعد جیسے جیسے عالمی تجارت آزاد تجارت میں بدل رہی ہے، اسی طرح ہتھیاروں کی یہ تجارت بھی تمام بندشوں سے آزاد ہوتی جا رہی ہے، اور اس پر سے حکومتوں کا کنٹرول بھی کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔
ان بڑی طاقتوں کی جانب سے تیار کیے گئے اسلحے کے اصل خریدار تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک ہیں۔ چند ترقی پذیر ممالک میں دہشت گردی اور افراتفری کے ذمے دار بھی یہ ترقی یافتہ ممالک ہیں جو اپنا اسلحہ بیچنے کے لیے وہاں امن قائم نہیں ہونے دیتے۔
یہ کس قدر عجیب اور مضحکہ خیز صورت حال ہے کہ جو دنیا میں امن کے چمپئین بنے پھرتے ہیں دنیا کو امن کا درس دیتے نہیں تھکتے وہی اس ہلاکت خیز ہتھیاروں کے سب سے بڑے کاروباری ہیں۔
صورت حال کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ہتھیاروں کے اس کاروبار کے ذریعے ان بڑے ممالک کی حکومتیں اور کارپوریٹس ایک دوسرے کے تعاون سے مختلف غریب اور تیسری دنیا کے ممالک کی خارجہ پالیسی، جنگی حکمت عملیوں اور داخلی پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں، وہ ایسی صورت حال پیدا کر دیتے ہیں کہ پڑوسی ملکوں کے درمیان شکوک وشبہات پیدا ہو جائیں تاکہ اس کے ذریعے سے وہ اپنے ہتھیار بیچ کر بھاری منافع کماتے رہیں اور اپنے مختلف سیاسی و معاشی ایجنڈوں کو آگے بڑھاتے رہیں۔
دوسری طرف دنیا بھر میں کروڑوں انسان بھوک، افلاس اور بیماریوں میں مبتلا ہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جدید ہتھیاروں کے حصول کے اس خطرناک کھیل میں دنیا کے غریب ترین ممالک بھی کسی سے پیچھے نہیں، جو ہر سال اپنی قومی آمدنی کا ایک کثیر حصہ جنگی ساز و سامان کی خریداری میں استعمال کرتے ہیں، جب کہ ایسے ملکوں میں لوگوں کی اکثریت غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
مثال کے طور پر آج تیسری دنیا کے 149 میں سے 105 ممالک غذائی اجناس تک بیرونی طاقتور ممالک سے درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ دنیا بھر میں مختلف تنازعات جھگڑے، قتل عام، تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں، جو کہ باعث تشویش ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ جنگوں میں نہ صرف بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیا جاتا ہے بلکہ اسکول کالج، فیکٹریاں، کارخانے، ایئر پورٹس، ڈیمز، سڑکیں اور دیگر انفرا اسٹرکچر کے ساتھ ثقافتی ورثہ اور آثار قدیمہ کے اہم ترین تاریخی مقامات بھی تباہ کیے جاتے ہیں۔ اگر ہم ماضی کے دریچوں میں جھانک کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ جب بھی ریاستوں یا اقوام کے مابین جنگیں ہوئی ہیں۔
ان سب میں ایک سبب عام تھا کہ ایک ریاست کمزور ہوتی تھی اور ایک طاقتور، کوئی طاقتور سلطنت، ملک یا ریاست استبداد میں تبدیل ہوتی ہے تو وہ کمزور ریاستوں پر چڑھ دوڑتی ہے، کمزور ریاست کے وسائل پر قبضہ کرتی ہے، مزاحمت کرنے والوں کو قتل کرتی ہے، زندہ بچ جانے والوں کو غلام بنا لیتی ہے اور ان کی زمینوں، جائیدادوں کو اپنے وفاداروں میں تقسیم کردیتی ہے۔
آج زمانہ جدید میں طاقتورریاستوں کو اقوام متحدہ کاایک پلیٹ فارم مہیا کردیا گیا ہے جہاں وہ کمزور اور پسماندہ ریاستوں اور اقوام کے حقوق نہایت سہل انداز میں سلب کرتی جا رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کو ویٹو کا حق دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ریاست اپنی مرضی سے کسی بھی قرارداد کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
حال ہی میں روس اور یوکرین کی جنگ کے آغاز کے بعد جب روس کے خلاف قرارداد پیش کی گئی تو روس نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا۔ ماضی میں کشمیر کے حوالے سے منظور کی گئی کئی قراردادوں کو بھارت کے اتحادی ویٹو پاور ممالک نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔
انسانی حقوق کی علمبردار عالمی قوانین کی تمام شقیں دھری کی دھری رہ گئیں اور عالمی وڈیروں نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے انسانیت کا جنازہ نکال دیا۔اب فلسطین کے حوالے سے اسرائیل کے خلاف جو قراداد پیش ہوتی ہے، اسے امریکا ویٹو کرکے بے اثر کردیتا ہے۔
عالمی عدالتی نظام کے لیے باقاعدہ عالمی عدالت برائے انصاف (ICJ) کا وجود ہے لیکن یہاں ریاستوں کی اپنی منشا ہوتی ہے کہ وہ اپنا جھگڑا عدالت میں لانا چاہتی ہیں یا نہیں؟ یعنی مجرم ریاست سے بھی پوچھا جاتا ہے کہ وہ سزا لینا چاہتی ہے یا نہیں! بڑی طاقتیں عالمی قوانین اپنے حق میں بنواتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے عالمی پلیٹ فارم کو ویٹو پاور کے حامل طاقتور ملک ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے آرہے ہیں، عراق، افغانستان، لیبیا،شام پر حملہ کرنا ہو ، ایران پر پابندیاں لگانی ہوں، فلسطین ہو یا برما، چاہے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے لیے بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ ہونا ہو، ہر مقام پر طاقتور ریاستوں نے اپنے اپنے عالمی مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں تنازعات حل نہیں ہورہے ہیں بلکہ کوئی نہ کوئی نیا تنازعہ سامنے آجاتا ہے۔
امریکا نے عراق، افغانستان، شام، یمن، سوڈان، صومالیہ اورلیبیا وغیرہ کے خلاف فوجی کارروائیاں کی ہیں، ان لڑائیوں میں لاکھوں انسان مارے گئے ہیں ، اربوں کھربوں ڈالر کا مالی نقصان ہوا ہے ۔کئی کروڑ لوگ بے گھرہوئے ہیں۔
اسی طرح روس نے اپنے اردگرد کمزور ریاستوں کو اپنے زیر تسلط رکھنے کے لیے جنگی کارروائیاں کی ہیں، چیچنیا اور یوکرائن تازہ مثالیں ہیں۔ یوکرین پر جنگ مسلط کرنے کا مقصد روسی سرمائے کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ روس کے وسط ایشیائ، کاکیشیا، مشرقِ وسطیٰ، مشرقی یورپ اور خطہ بلقان یعنی بوسنیا، ترکی، یونان، بلغاریہ، مقدونیہ اور قریبی ممالک میں مفادات موجود ہیں۔
سرد جنگ 1945۔ 1991 کے دوران دو سپر طاقتوں امریکا اور سابق USSR نے اپنے مفادات کی بنیاد پر دنیا کو سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام میں تقسیم کر کے دنیا کے مختلف حصوں میں پراکسی وارز کا آغازکیا، مغربی یورپ میں جرمنی کو مغربی اور مشرقی جرمنی میں تقسیم کر کے دیوار برلن تعمیر کی، سوویت یونین کی تحلیل کے بعد جرمنی متحد ہوگیا لیکن کوریا تاحال جنوبی کوریا اور شمالی کوریا میں تقسیم ہے ۔
امریکا، روس برطانیہ، فرانس نے ایٹمی ہتھیار بہت پہلے بنا لیے تھے، ان کے بعد چین ایٹمی طاقت بن گیا، اس کے بعد ہر ملک ایٹمی طاقت بننے کی کوششوں میں مصروف ہوگیا، انڈیا، پاکستان، اسرائیل، شمالی کوریا نے بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کی، ایران بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کرچکا ہے، یوں ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ نے انسانیت کے مستقبل کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کیا ہے، سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ 1945 کے مقابلے میں آج کے ایٹمی ہتھیار پانچ ہزار گنا زیادہ خطرناک بن چکے ہیں۔
اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ دنیا کے ممالک کے درمیان تمام تنازعات کو بات چیت، مذاکرات اور ڈپلومیسی کے ذریعے پرامن بقاء باہمی کے تحت حل کیا جائے نہ کہ جنگ و جدل کے ذریعے، چونکہ تاریخ شاہد ہے کہ جنگ کے ذریعے تنازعوں کا فیصلہ غیر تسلی بخش اور عارضی ہوتا ہے، اور جنگ کا خطرہ بدستور برقرار رہتا ہے۔