ملک میں سیاسی استحکام کیلئے گرینڈ ڈائیلاگ ناگزیر
ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کرسیاسی جماعتوں اور سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر ملک کو آگے بڑھانا ہوگا، تجزیہ کار
ملک کو درپیش چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں '' سیاسی استحکام کیلئے گرینڈ ڈائیلاگ ناگزیر ؟'' کے موضوع پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں تجزیہ نگاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد
(چیئرپرسن شعبہ سیاسیات، جامعہ پنجاب)
پاکستان کی سالمیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ معاشرے کے اہم ترین عناصر کے درمیان گرینڈ ڈائیلاگ ہوجس میں سیاسی قیادت اور جماعتوں کا کردار سب سے اہم ہے۔ سیاسی جماعتوں کا اہم ترین فریضہ سیاسی رابطہ سازی ہوتا ہے، اگر وہ عوام کو شعور نہیں دیں گی تو ان کی شمولیت کیسے ہوگی۔ عوام کی شراکت کیلئے ضروری ہے کہ ان کی تربیت کی جائے۔میرے نزدیک عوام اور ریاست کے مابین رابطے کا سب سے مضبوط ذریعہ سیاسی جماعتوں کو ہی ہونا چاہیے۔
پاکستان کا قیام سیاسی عمل کے نتیجے میں آیا۔ آج 76برس بعد پاکستان جس مقام پر کھڑا ہے وہاں استحکام کیلئے ایک ایسا ڈائیلاگ کردار ادا کرسکتا ہے جس میں مختلف عناصر جو اس قت بٹے ہوئے ہیں ، مل کر سیاسی گرینڈ ڈائیلاگ کا حصہ بنیں گے تاکہ آپس کا ٹکراؤ ختم ہو اور ملک کو آگے بڑھایا جاسکے۔
کسی بھی جمہوری حکومت کے چلنے کیلئے سب سے اہم عوام کا اعتماد ہوتا ہے۔پھر حکومت جو بھی کام کرے عوام سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری بہتری کیلئے کیے جا رہا ہے چاہے وہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو۔ پاکستان کیلئے کسی بھی سیاسی نظام کی جائزیت اس وقت ممکن ہوگی جب اس نظام میں مختلف عناصر مل کر کام کرنے پر رضامند ہوں۔
اس کے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ اس کے بارے میں گفتگو کی جائے۔ ہم چاہے کسی بھی گروہ، سیاسی جماعت یا لیڈر کو پسند کرتے ہوں، جب تک ہماری اولین ترجیح پاکستان کا استحکام نہیں ہوگی ہم بحیثیت شہری اپنے حقیقی فرض سے دور سمجھے جائیں گے۔ دنیا کی نظر میں بھی اور خود بھی جب حالات کا جائزہ لیں گے تو خود کو اچھا پاکستانی نہیں کہہ سکیں گے۔ اگر ہم ملکی استحکام چاہتے ہیں تو تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر لائحہ عمل بنانا ہوگا کہ کس طرح نظام کی کارکردگی کو پرکھنا ہے ۔
ملک میں آئین موجود ہے،یہ صرف کتابی شکل میں ہونا کافی نہیں، اس پر عمل بھی ہونا چاہیے۔ جب کسی چیز پر عمل کیا جاتا ہے تو مسائل سامنے آتے ہیں اور مسائل کا حل ڈائیلاگ کے ذریعے نکلتا ہے۔
اس سے ہم بھی آگاہ ہیں اور ذمہ داران بھی لہٰذا ایک ایسے گرینڈ ڈائیلاگ کی طرف جانا چاہیے جس میں اپنے ذاتی، گروہی اور ترجیحی اختلافات کو ختم کرکے بحیثیت پاکستانی ملکی استحکام کو اولین ترجیح بنائیں۔ اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ کون سب کو ڈائیلاگ کی دعوت دے گا؟ فیڈریشن میں سب سے اہم عہدہ صدر کا ہے لہٰذا صدر پاکستان کو اپنے عہدے کی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کوگرینڈ ڈائیلاگ کی دعوت دینی چاہیے ۔
سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ صدر کے عہدے کو مانتے ہوئے ملکی مفاد میں گرینڈ ڈائیلاگ کا حصہ بنیں۔ اس میں تاخیر سے معاملات میں مزید الجھاؤ پیدا ہوگا ، پیچیدگیاں بڑھیں گی جنہیں سلجھانا مشکل ہو جائے گا۔ملک کی خاطر سب اپنی انا کو پس پشت ڈال دیں۔یہ ملک ہے تو ہم ہیں لہٰذا اگر ہم اپنی آزاد حیثیت اور ملک کو قائم رکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمارے قدم مشترکہ منزل کی طرف اٹھنے چاہئیں اور یہ منزل استحکام پاکستان ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر اقبال چاولہ
(سابق چیئرمین شعبہ تاریخ، جامعہ پنجاب)
پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں کا جائزہ لیں تو سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کے اپنے مسائل کی وجہ سے ان کی سیاسی مخالفت ذاتی مخاصمت بن جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے اور نقصان پہنچانے کیلئے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا۔
90ء کی دہائی اس حوالے سے بدنام ہے لیکن بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے سیاسی میچورٹی کا مظاہرہ کیا، ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے میثاق جمہوریت کیا گیا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف سیاسی میدان میں واپس آئے۔ بدقسمتی سے بے نظیر بھٹو کا پاکستان واپسی کے بعد قتل ہوگیا۔ 2008ء کے انتخابات اور اس کے بعد آسانی سے بننے والی حکومتوں کی وجہ میثاق جمہوریت تھا۔ 2013ء کے انتخابات میں بھی اس کی پختگی نظر آئی۔ 18ویں ترمیم بھی اسی وجہ سے ہوئی۔ 2018ء میں حالات پھر خراب ہوئے۔
میاں نواز شریف کو عدالت کے ذریعے پانامہ سے اقامہ پر نکالا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں سیاسی انتقام کی بھینٹ چڑھایا گیا اور بانی پی ٹی آئی کو اقتدار دیا گیا جن کا دور ہابرڈ کہلایا۔ بدقسمتی سے بانی پی ٹی آئی ڈیلور نہیں کرسکے۔ ان کی حکومت خصوصاََ پنجاب حکومت پر بہت سارے سوالات اٹھتے رہے۔ تحریک انصاف بھی اپنی حکومت کی مدت پوری نہ کرسکی۔ بانی پی ٹی آئی کو جو شہرت اقتدار سے نکل کر ملی وہ اقتدار میں رہ کر نہیں مل سکتی تھی۔
پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت میں مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر مسائل کی وجہ سے چیلنجز پیدا ہوا۔پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 8 فروری کو ہوئے۔ 2024ء کے انتخابات کی مماثلت 2008ئ، 2013ء اور 2018ء کے انتخابات سے دکھائی دیتی ہے اور بعض پہلوؤں میں کچھ نیا بھی ہے۔ یہ انتخابات 2023ء میں ہونے تھے مگر حالات کی خرابی کی وجہ سے نہیں ہوئے۔ 2024ء کے انتخابات سے پہلے جس طرح کی الزام تراشی اور سیاست کی گئی اس سے معیشت اور معاشرت دونوں کا نقصان ہوا۔ اس کا حل یہ ہے کہ ملک کو قومی حکومت کی طرف جانا چاہیے۔
بانی پی ٹی آئی کے معاملات قانون کے مطابق جاری رہنے چاہئیں لیکن ان کی جماعت کو آن بورڈ لیکر قومی حکومت کا حصہ بنانا چاہیے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے آئی ایم ایف کو خط لکھنے کی بات حماقت ہے۔
اس سے قومی سوچ کو ٹھیس پہنچی ہے اور ملکی ساکھ کو بھی نقصان ہوگا۔ پی ٹی آئی کی طرف سے قومی مفادات کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے جو افسوسناک ہے۔ اسی طرح کمشنر راولپنڈی اپنے بیان سے مکر گئے اور الزام لگایا کہ انہیں تحریک انصاف نے کہا تھا۔ ان حرکات سے ہمارے ملک کی وحدت پر سمجھوتہ کیا گیا ہے۔ مرکز میں مسلم لیگ (ن) اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت خطرناک رجحان ہے۔
بلوچستان ، سندھ اور خیبر پختونخوا میں قوم پرست جماعتوں اور جمعیت علماء اسلام (ف) کو وہ نمائندگی نہیں ملی جو پہلے ملتی تھی۔اس سے آگے چل کے قومی وحدت اور یکجہتی کی سوچ کے مسائل پیدا ہونگے۔ انتخابات میں ہونے والی دھاندلی پر سنجیدگی سے تحقیقات ہونی چاہئیں ۔ ہمیں تشدد اور گالم گلوچ کی سیاست کو ختم کرنا ہوگا۔ جھوٹی خبروں اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکنا ہوگا۔ اس سے ہمارے معاشرے میں تقسیم پیدا ہو رہی ہے، مسائل بڑھ رہے ہیں۔
ہم پولرائزیشن نہیں تقسیم کی طرف جا رہے ہیں جو افسوسناک ہے۔ موجودہ حالات کی بنگلہ دیش سے مماثلت غلط ہے۔ ہمارے تمام صوبوں میں محب وطن پاکستانی ہیں، اگر کہیں زیادہ احساس محرومی ہے تو وہ بلوچستان میں دکھائی دیتا ہے جسے دور کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو کام کرنا ہوگا۔ میرے نزدیک مسائل کا حل قومی حکومت ہے، اس کی طرف جانا ہوگا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ جیتنے اور ہارنے والے دونوں ہی الزامات لگا رہے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے۔
میرے نزدیک ہمیں پاکستانی بن کر سوچنا ہوگا۔ سیاسی جماعتیں اور شخصیات چھوٹی چیزیں ہیں۔ قومی سوچ کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے ایک دوسرے کو تسلیم کرنا ہوگا۔ میاں شہباز شریف، پیپلز پارٹی اور صحت مند سوچ کے حامل افراد نے پاکستان تحریک انصاف سے کہا کہ مخلوط حکومت کا حصہ بن جائیں لیکن پی ٹی آئی نے وہی سٹرٹیجی اپنائی جو 2013ء میں اپنائی گئی تھی کہ 35پنکچر اور دھاندلی ہوئی ہے۔
اسی طرح 2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی مخلوظ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی لیکن دھاندلی کا الزام لگایا۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں پی ٹی آئی کو جتنی نشستیں ملی ہیں، ان سے یہ سمجھ نہیں ہا رہی کہ دھاندلی ان کے حق میں ہوئی یا مخالف۔
مبصرین کے خیال میں دھاندلی ہوئی ہے لیکن شاید وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ منظم دھاندلی ہوئی ہے۔ بظاہر ایسا نظر بھی نہیں آتا لہٰذا اب یہ معاملہ عدالت میں چلا گیا ہے ، وہاں اصل حقائق سامنے آئیں گے۔ ہمارے ملک میں کھینچا تانی زیادہ اور ملکی سوچ کم ہوتی جا رہی ہے جس کا نقصان ہورہا ہے۔ہمیں قومی حکومت کی طرف جانا ہوگا۔
عبداللہ ملک
(نمائندہ سول سوسائٹی)
سیاسی استحکام کیلئے گرینڈ ڈائیلاگ ناگزیر ہے۔ 'پی ڈی ایم' کی حکومت کے دوران جو تلخیاں بڑھی انہیں کم کرنے کیلئے ضروری تھا کہ آئین کے مطابق نئے انتخابات کروائے جائیں تاکہ عوام اپنا ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے ایک ایسی حکومت کا انتخاب کرے جو ملک کو موجودہ مسائل سے نکال سکے۔
بدقسمتی سے 8 فروری کے عام انتخابات میں تلخیوں میں اضافہ ہوا۔ 9 فروری کو جو نتائج آئے ان میں کسی بھی جماعت کو واضح اکثریت نہیں ملی، تقسیم شدہ مینڈیٹ ملا اور ایسی جماعتوں کو ملا جن کا آپس میں منشور نہیں ملتا ، اس میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے آزاد امیدوار شامل ہیں۔ الیکشن میں پائے جانے والے شکوک و شبہات تلخیوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کے معاشی وسیاسی حالات، سرحدوں پر نظریاتی کشید گی جیسے مسائل کے ساتھ ساتھ 8 کروڑ عوام خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جو بڑا چیلنج ہے۔
ملک میں عدم استحکام پایا جا رہا ہے جو عام انتخابات کے بعد مزید بڑھ گیا ہے جو سیاسی جماعتیں حکومت بنا رہی ہیں ان کیے اپنے درمیان تلخیاں رہی ہیں لہٰذا جب بجٹ، آئی ایم ایف، بجلی کے بلوں میں اضافہ، اصلاحات و دیگر باتیں ہونگی تو حکومت کیلئے فیصلے کرنا مشکل ہونگے۔
پیپلز پارٹی نے آئینی عہدوں کا مطالبہ کیا جو انہیں مل گئے۔ میاں شہباز شریف مارچ کے پہلے ہفتے میں بطور وزیراعظم حلف اٹھائیں گے جبکہ اپوزیشن دھاندلی کا شور مچا رہی ہے۔ا س کے باوجود ایک اچھی تعداد اپوزیشن میں ہوگی۔ اس مرتبہ وکلاء کی بھاری تعداد اسمبلی میں ہوگی۔ مجھے ایک خلیج نظر آرہی ہے۔
ان حالات میں سیاسی استحکام کیلئے گرینڈ ڈائیلاگ کا ہونا ضروری ہے۔ میاں نواز شریف تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ ان سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ شاید ان کی جماعت نے انہیںاس لیے وزیراعظم نہیں بنایا کہ ان کے کیے گئے وعدے اور منشور کا اس حکومت میں پورا ہونا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے حالات میں جب تین بڑی سیاسی جماعتوں میں شدید اختلاف ہے تو ملک کیسے آگے بڑھے گا۔
تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم آئی ایم ایف کو خط لکھیں گے کہ پاکستان کے انتخابات پر اپنا موقف دے اور یہ کہے کہ دھاندلی زدہ حکومت کو امداد نہیں دی جائے گی۔ ابتداء سے ہی ٹکراؤ نظر آرہا ہے۔ ملک میں معاشی استحکام کیلئے ڈائیلاگ ہونا چاہیے جیسے 2006ء میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان میثاق جمہوریت کیا گیا۔ اس کے بعد اچھے حالات بنے تھے۔
سیاسی جماعتیں یہ کہتی تو ہیں کہ معیشت پر کام کرنا ہے لیکن اس کی شروعات کون کرے گا؟اس میں ملکی اداروں کو اپنا کردار اد ا کرنا چاہیے۔جہاں کسی سیاسی جماعت کے اراکین کو کیسز کا سامنا ہے تو یہ کام عدالتوں کا ہے۔ سیاسی ڈائیلاگ میں پہل کرنی چاہیے اور سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ کرنا چاہیے۔
بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ میں قوم پرست جماعتیں انتخابی نتائج کو ماننے کیلئے تیار نہیں۔ بلوچستان میں احتجاج ہورہے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی بھی آواز اٹھا رہی ہے۔ جمعیت علماء اسلام (ف) 'پی ڈی ایم' حکومت کا حصہ تھی مگر اب مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم ایوان میں نہیں سڑکوں پر ہونگے۔ یہی نعرہ بانی پی ٹی آئی لگایا کرتے تھے، اب تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعتیں لگا رہی ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا رہی ہیں۔
ان ناگزیر حالات میں جب مینڈیٹ، عوام اور جماعتوں کی سوچ مختلف ہے، ایسے میں دو جماعتیں حکومت بنانے جا رہی ہیں، کیایہ مسائل حل کر پائیں گی؟ چین، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک و دیگر صرف اس وقت مدد کریں گے جب انہیں معلوم ہو کہ حکومت مضبوط ہے اورملک میں سیاسی استحکام ہے لیکن اگر حکومت کمزور ہوئی تو مسائل پیدا ہونگے۔ اس وقت پاکستان کو میچوڑ قیادت کی ضرورت ہے۔ توقع ہے میاں نواز شریف سب کو اکٹھا کریں گے۔
اس وقت عوام، پارلیمان، عدلیہ اوراداروں سمیت سب پر تنقید کر رہے ہیں، لوگوں کا اعتماد کم ہوا ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، میڈیا سمیت تمام سٹیک ہولڈرز مل بیٹھیں، ملک کو مسائل سے نکالیں اور استحکام کی راہ ہموار کریں۔ میاں نواز شریف کو آگے بڑھتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کرنا چاہیے۔ پارلیمانی جماعتیں پارلیمنٹ میں آچکی ہیں لہٰذا مل کر ایک دوسرے کے گلے شکوے اور اختلافات دور کریں۔
آل پارٹیز کانفرنس کو عدلیہ سمیت سب کی حمایت حاصل ہونی چاہیے۔ سب کو ساتھ بٹھانے میں اسٹیبلشمنٹ اہم کردار ادا کر سکتی ہے، ملکی مفاد کیلئے سب کو ایک ساتھ بیٹھنا ہوگا۔ تجزیہ کار عرصہ دراز سے کہہ رہے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں ہر انتخاب پر ہی سوالات اٹھتے ہیں، اب بھی دھاندلی کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کو سمجھنا چاہیے کہ الیکشن ہوگیا ہے، اب ملک کو آگے بڑھانے کی بات کریں۔
پارلیمنٹ کے ذریعے مسائل حل کریں، بات چیت کے ساتھ معاملات طے کریں، اصلاحات لائیں، نئی قانون سازی کریں تاکہ مسائل دور کیے جاسکیں۔ سیاسی استحکام کیلئے ڈائیلاگ کے ساتھ ساتھ ایجنڈہ بھی ہونا چاہیے جس پر سیاسی جماعتیں متفق ہوں۔ ملک میں اس وقت تین بڑی جماعتیں ہیں، اگر یہ مل بیٹھیں تو اچھے نتائج مرتب ہونگے۔
بجٹ، اداروں کی نجکاری، قرضوں کی واپسی، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک و دیگر سے ڈیل جیسے بڑے معاملات نئی حکومت کو طے کرنا ہونگے جو چیلنج ہے۔ اگر ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہوگا تو مسائل سنگین ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے ساتھ ساتھ عوام کی اپوزیشن بھی موجود ہے۔لوگوں نے مہنگائی اور دیگر مسائل کے خلاف ووٹ دیے ہیں۔
نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے جس کے اپنے مسائل اور سوچ ہے لہٰذا ان سب معاملات کو سمجھتے ہوئے لائحہ عمل طے کرنا ہوگا، اگر عوام خصوصاََ نوجوان مایوس ہوگئے تو مسائل میں بدترین اضافہ ہوگا۔ ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو معیشت بہتر ہوگی۔ معاشی بہتری سے سکیورٹی بہتر ہوگی جس سے ملک کے طول و عرض میں تجارت بڑھے گی۔
بیرونی سرمایہ کاری آئے گی۔ معیشت کا پہیہ چلے گا اور لوگوں کو روزگار ملے گا۔ روزگار ملنے سے ان کے مسائل حل ہونگے اور ملک میں خوشحالی آئے گی۔تیزی سے بڑھتی ہوئی آباد ی ہمارا ایک بڑا مسئلہ ہے جس پر توجہ نہیں دی جارہی۔ ہماری آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، 2023ء کے بعد یہ دوگنا ہوجائے گی لہٰذا اس وقت وسائل بھی دوگنا چاہیے ہونگے۔ اگر ابھی سے تیاری نہ کی گئی تو ملک کو بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سیاستدان مل بیٹھ کر معاملات طے کریں، آئندہ انتخابات کو صاف و شفاف بنایا جائے۔ اپوزیشن کو صحیح معنوں میں اپوزیشن کرنے دی جائے تاکہ وہ اپنا درست کردار ادا کر سکے۔ اسی طرح میڈیا کی آزادی کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ تاکہ وہ مسائل پر آواز اٹھاتا رہے۔ اس کے علاوہ سول سوسائٹی، تھنک ٹینکس سمیت ہر شخص کا کردار اہم ہے۔ ملک اس وقت زخمی ہے ، معاشی مسائل بدترین ہیں لہٰذا سب کو مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔
پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد
(چیئرپرسن شعبہ سیاسیات، جامعہ پنجاب)
پاکستان کی سالمیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ معاشرے کے اہم ترین عناصر کے درمیان گرینڈ ڈائیلاگ ہوجس میں سیاسی قیادت اور جماعتوں کا کردار سب سے اہم ہے۔ سیاسی جماعتوں کا اہم ترین فریضہ سیاسی رابطہ سازی ہوتا ہے، اگر وہ عوام کو شعور نہیں دیں گی تو ان کی شمولیت کیسے ہوگی۔ عوام کی شراکت کیلئے ضروری ہے کہ ان کی تربیت کی جائے۔میرے نزدیک عوام اور ریاست کے مابین رابطے کا سب سے مضبوط ذریعہ سیاسی جماعتوں کو ہی ہونا چاہیے۔
پاکستان کا قیام سیاسی عمل کے نتیجے میں آیا۔ آج 76برس بعد پاکستان جس مقام پر کھڑا ہے وہاں استحکام کیلئے ایک ایسا ڈائیلاگ کردار ادا کرسکتا ہے جس میں مختلف عناصر جو اس قت بٹے ہوئے ہیں ، مل کر سیاسی گرینڈ ڈائیلاگ کا حصہ بنیں گے تاکہ آپس کا ٹکراؤ ختم ہو اور ملک کو آگے بڑھایا جاسکے۔
کسی بھی جمہوری حکومت کے چلنے کیلئے سب سے اہم عوام کا اعتماد ہوتا ہے۔پھر حکومت جو بھی کام کرے عوام سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری بہتری کیلئے کیے جا رہا ہے چاہے وہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو۔ پاکستان کیلئے کسی بھی سیاسی نظام کی جائزیت اس وقت ممکن ہوگی جب اس نظام میں مختلف عناصر مل کر کام کرنے پر رضامند ہوں۔
اس کے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ اس کے بارے میں گفتگو کی جائے۔ ہم چاہے کسی بھی گروہ، سیاسی جماعت یا لیڈر کو پسند کرتے ہوں، جب تک ہماری اولین ترجیح پاکستان کا استحکام نہیں ہوگی ہم بحیثیت شہری اپنے حقیقی فرض سے دور سمجھے جائیں گے۔ دنیا کی نظر میں بھی اور خود بھی جب حالات کا جائزہ لیں گے تو خود کو اچھا پاکستانی نہیں کہہ سکیں گے۔ اگر ہم ملکی استحکام چاہتے ہیں تو تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر لائحہ عمل بنانا ہوگا کہ کس طرح نظام کی کارکردگی کو پرکھنا ہے ۔
ملک میں آئین موجود ہے،یہ صرف کتابی شکل میں ہونا کافی نہیں، اس پر عمل بھی ہونا چاہیے۔ جب کسی چیز پر عمل کیا جاتا ہے تو مسائل سامنے آتے ہیں اور مسائل کا حل ڈائیلاگ کے ذریعے نکلتا ہے۔
اس سے ہم بھی آگاہ ہیں اور ذمہ داران بھی لہٰذا ایک ایسے گرینڈ ڈائیلاگ کی طرف جانا چاہیے جس میں اپنے ذاتی، گروہی اور ترجیحی اختلافات کو ختم کرکے بحیثیت پاکستانی ملکی استحکام کو اولین ترجیح بنائیں۔ اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ کون سب کو ڈائیلاگ کی دعوت دے گا؟ فیڈریشن میں سب سے اہم عہدہ صدر کا ہے لہٰذا صدر پاکستان کو اپنے عہدے کی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کوگرینڈ ڈائیلاگ کی دعوت دینی چاہیے ۔
سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ صدر کے عہدے کو مانتے ہوئے ملکی مفاد میں گرینڈ ڈائیلاگ کا حصہ بنیں۔ اس میں تاخیر سے معاملات میں مزید الجھاؤ پیدا ہوگا ، پیچیدگیاں بڑھیں گی جنہیں سلجھانا مشکل ہو جائے گا۔ملک کی خاطر سب اپنی انا کو پس پشت ڈال دیں۔یہ ملک ہے تو ہم ہیں لہٰذا اگر ہم اپنی آزاد حیثیت اور ملک کو قائم رکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمارے قدم مشترکہ منزل کی طرف اٹھنے چاہئیں اور یہ منزل استحکام پاکستان ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر اقبال چاولہ
(سابق چیئرمین شعبہ تاریخ، جامعہ پنجاب)
پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں کا جائزہ لیں تو سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کے اپنے مسائل کی وجہ سے ان کی سیاسی مخالفت ذاتی مخاصمت بن جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے اور نقصان پہنچانے کیلئے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا۔
90ء کی دہائی اس حوالے سے بدنام ہے لیکن بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے سیاسی میچورٹی کا مظاہرہ کیا، ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے میثاق جمہوریت کیا گیا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف سیاسی میدان میں واپس آئے۔ بدقسمتی سے بے نظیر بھٹو کا پاکستان واپسی کے بعد قتل ہوگیا۔ 2008ء کے انتخابات اور اس کے بعد آسانی سے بننے والی حکومتوں کی وجہ میثاق جمہوریت تھا۔ 2013ء کے انتخابات میں بھی اس کی پختگی نظر آئی۔ 18ویں ترمیم بھی اسی وجہ سے ہوئی۔ 2018ء میں حالات پھر خراب ہوئے۔
میاں نواز شریف کو عدالت کے ذریعے پانامہ سے اقامہ پر نکالا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں سیاسی انتقام کی بھینٹ چڑھایا گیا اور بانی پی ٹی آئی کو اقتدار دیا گیا جن کا دور ہابرڈ کہلایا۔ بدقسمتی سے بانی پی ٹی آئی ڈیلور نہیں کرسکے۔ ان کی حکومت خصوصاََ پنجاب حکومت پر بہت سارے سوالات اٹھتے رہے۔ تحریک انصاف بھی اپنی حکومت کی مدت پوری نہ کرسکی۔ بانی پی ٹی آئی کو جو شہرت اقتدار سے نکل کر ملی وہ اقتدار میں رہ کر نہیں مل سکتی تھی۔
پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت میں مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر مسائل کی وجہ سے چیلنجز پیدا ہوا۔پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 8 فروری کو ہوئے۔ 2024ء کے انتخابات کی مماثلت 2008ئ، 2013ء اور 2018ء کے انتخابات سے دکھائی دیتی ہے اور بعض پہلوؤں میں کچھ نیا بھی ہے۔ یہ انتخابات 2023ء میں ہونے تھے مگر حالات کی خرابی کی وجہ سے نہیں ہوئے۔ 2024ء کے انتخابات سے پہلے جس طرح کی الزام تراشی اور سیاست کی گئی اس سے معیشت اور معاشرت دونوں کا نقصان ہوا۔ اس کا حل یہ ہے کہ ملک کو قومی حکومت کی طرف جانا چاہیے۔
بانی پی ٹی آئی کے معاملات قانون کے مطابق جاری رہنے چاہئیں لیکن ان کی جماعت کو آن بورڈ لیکر قومی حکومت کا حصہ بنانا چاہیے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے آئی ایم ایف کو خط لکھنے کی بات حماقت ہے۔
اس سے قومی سوچ کو ٹھیس پہنچی ہے اور ملکی ساکھ کو بھی نقصان ہوگا۔ پی ٹی آئی کی طرف سے قومی مفادات کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے جو افسوسناک ہے۔ اسی طرح کمشنر راولپنڈی اپنے بیان سے مکر گئے اور الزام لگایا کہ انہیں تحریک انصاف نے کہا تھا۔ ان حرکات سے ہمارے ملک کی وحدت پر سمجھوتہ کیا گیا ہے۔ مرکز میں مسلم لیگ (ن) اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت خطرناک رجحان ہے۔
بلوچستان ، سندھ اور خیبر پختونخوا میں قوم پرست جماعتوں اور جمعیت علماء اسلام (ف) کو وہ نمائندگی نہیں ملی جو پہلے ملتی تھی۔اس سے آگے چل کے قومی وحدت اور یکجہتی کی سوچ کے مسائل پیدا ہونگے۔ انتخابات میں ہونے والی دھاندلی پر سنجیدگی سے تحقیقات ہونی چاہئیں ۔ ہمیں تشدد اور گالم گلوچ کی سیاست کو ختم کرنا ہوگا۔ جھوٹی خبروں اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکنا ہوگا۔ اس سے ہمارے معاشرے میں تقسیم پیدا ہو رہی ہے، مسائل بڑھ رہے ہیں۔
ہم پولرائزیشن نہیں تقسیم کی طرف جا رہے ہیں جو افسوسناک ہے۔ موجودہ حالات کی بنگلہ دیش سے مماثلت غلط ہے۔ ہمارے تمام صوبوں میں محب وطن پاکستانی ہیں، اگر کہیں زیادہ احساس محرومی ہے تو وہ بلوچستان میں دکھائی دیتا ہے جسے دور کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو کام کرنا ہوگا۔ میرے نزدیک مسائل کا حل قومی حکومت ہے، اس کی طرف جانا ہوگا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ جیتنے اور ہارنے والے دونوں ہی الزامات لگا رہے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے۔
میرے نزدیک ہمیں پاکستانی بن کر سوچنا ہوگا۔ سیاسی جماعتیں اور شخصیات چھوٹی چیزیں ہیں۔ قومی سوچ کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے ایک دوسرے کو تسلیم کرنا ہوگا۔ میاں شہباز شریف، پیپلز پارٹی اور صحت مند سوچ کے حامل افراد نے پاکستان تحریک انصاف سے کہا کہ مخلوط حکومت کا حصہ بن جائیں لیکن پی ٹی آئی نے وہی سٹرٹیجی اپنائی جو 2013ء میں اپنائی گئی تھی کہ 35پنکچر اور دھاندلی ہوئی ہے۔
اسی طرح 2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی مخلوظ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی لیکن دھاندلی کا الزام لگایا۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں پی ٹی آئی کو جتنی نشستیں ملی ہیں، ان سے یہ سمجھ نہیں ہا رہی کہ دھاندلی ان کے حق میں ہوئی یا مخالف۔
مبصرین کے خیال میں دھاندلی ہوئی ہے لیکن شاید وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ منظم دھاندلی ہوئی ہے۔ بظاہر ایسا نظر بھی نہیں آتا لہٰذا اب یہ معاملہ عدالت میں چلا گیا ہے ، وہاں اصل حقائق سامنے آئیں گے۔ ہمارے ملک میں کھینچا تانی زیادہ اور ملکی سوچ کم ہوتی جا رہی ہے جس کا نقصان ہورہا ہے۔ہمیں قومی حکومت کی طرف جانا ہوگا۔
عبداللہ ملک
(نمائندہ سول سوسائٹی)
سیاسی استحکام کیلئے گرینڈ ڈائیلاگ ناگزیر ہے۔ 'پی ڈی ایم' کی حکومت کے دوران جو تلخیاں بڑھی انہیں کم کرنے کیلئے ضروری تھا کہ آئین کے مطابق نئے انتخابات کروائے جائیں تاکہ عوام اپنا ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے ایک ایسی حکومت کا انتخاب کرے جو ملک کو موجودہ مسائل سے نکال سکے۔
بدقسمتی سے 8 فروری کے عام انتخابات میں تلخیوں میں اضافہ ہوا۔ 9 فروری کو جو نتائج آئے ان میں کسی بھی جماعت کو واضح اکثریت نہیں ملی، تقسیم شدہ مینڈیٹ ملا اور ایسی جماعتوں کو ملا جن کا آپس میں منشور نہیں ملتا ، اس میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے آزاد امیدوار شامل ہیں۔ الیکشن میں پائے جانے والے شکوک و شبہات تلخیوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کے معاشی وسیاسی حالات، سرحدوں پر نظریاتی کشید گی جیسے مسائل کے ساتھ ساتھ 8 کروڑ عوام خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جو بڑا چیلنج ہے۔
ملک میں عدم استحکام پایا جا رہا ہے جو عام انتخابات کے بعد مزید بڑھ گیا ہے جو سیاسی جماعتیں حکومت بنا رہی ہیں ان کیے اپنے درمیان تلخیاں رہی ہیں لہٰذا جب بجٹ، آئی ایم ایف، بجلی کے بلوں میں اضافہ، اصلاحات و دیگر باتیں ہونگی تو حکومت کیلئے فیصلے کرنا مشکل ہونگے۔
پیپلز پارٹی نے آئینی عہدوں کا مطالبہ کیا جو انہیں مل گئے۔ میاں شہباز شریف مارچ کے پہلے ہفتے میں بطور وزیراعظم حلف اٹھائیں گے جبکہ اپوزیشن دھاندلی کا شور مچا رہی ہے۔ا س کے باوجود ایک اچھی تعداد اپوزیشن میں ہوگی۔ اس مرتبہ وکلاء کی بھاری تعداد اسمبلی میں ہوگی۔ مجھے ایک خلیج نظر آرہی ہے۔
ان حالات میں سیاسی استحکام کیلئے گرینڈ ڈائیلاگ کا ہونا ضروری ہے۔ میاں نواز شریف تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ ان سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ شاید ان کی جماعت نے انہیںاس لیے وزیراعظم نہیں بنایا کہ ان کے کیے گئے وعدے اور منشور کا اس حکومت میں پورا ہونا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے حالات میں جب تین بڑی سیاسی جماعتوں میں شدید اختلاف ہے تو ملک کیسے آگے بڑھے گا۔
تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم آئی ایم ایف کو خط لکھیں گے کہ پاکستان کے انتخابات پر اپنا موقف دے اور یہ کہے کہ دھاندلی زدہ حکومت کو امداد نہیں دی جائے گی۔ ابتداء سے ہی ٹکراؤ نظر آرہا ہے۔ ملک میں معاشی استحکام کیلئے ڈائیلاگ ہونا چاہیے جیسے 2006ء میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان میثاق جمہوریت کیا گیا۔ اس کے بعد اچھے حالات بنے تھے۔
سیاسی جماعتیں یہ کہتی تو ہیں کہ معیشت پر کام کرنا ہے لیکن اس کی شروعات کون کرے گا؟اس میں ملکی اداروں کو اپنا کردار اد ا کرنا چاہیے۔جہاں کسی سیاسی جماعت کے اراکین کو کیسز کا سامنا ہے تو یہ کام عدالتوں کا ہے۔ سیاسی ڈائیلاگ میں پہل کرنی چاہیے اور سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ کرنا چاہیے۔
بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ میں قوم پرست جماعتیں انتخابی نتائج کو ماننے کیلئے تیار نہیں۔ بلوچستان میں احتجاج ہورہے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی بھی آواز اٹھا رہی ہے۔ جمعیت علماء اسلام (ف) 'پی ڈی ایم' حکومت کا حصہ تھی مگر اب مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم ایوان میں نہیں سڑکوں پر ہونگے۔ یہی نعرہ بانی پی ٹی آئی لگایا کرتے تھے، اب تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعتیں لگا رہی ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا رہی ہیں۔
ان ناگزیر حالات میں جب مینڈیٹ، عوام اور جماعتوں کی سوچ مختلف ہے، ایسے میں دو جماعتیں حکومت بنانے جا رہی ہیں، کیایہ مسائل حل کر پائیں گی؟ چین، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک و دیگر صرف اس وقت مدد کریں گے جب انہیں معلوم ہو کہ حکومت مضبوط ہے اورملک میں سیاسی استحکام ہے لیکن اگر حکومت کمزور ہوئی تو مسائل پیدا ہونگے۔ اس وقت پاکستان کو میچوڑ قیادت کی ضرورت ہے۔ توقع ہے میاں نواز شریف سب کو اکٹھا کریں گے۔
اس وقت عوام، پارلیمان، عدلیہ اوراداروں سمیت سب پر تنقید کر رہے ہیں، لوگوں کا اعتماد کم ہوا ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، میڈیا سمیت تمام سٹیک ہولڈرز مل بیٹھیں، ملک کو مسائل سے نکالیں اور استحکام کی راہ ہموار کریں۔ میاں نواز شریف کو آگے بڑھتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کرنا چاہیے۔ پارلیمانی جماعتیں پارلیمنٹ میں آچکی ہیں لہٰذا مل کر ایک دوسرے کے گلے شکوے اور اختلافات دور کریں۔
آل پارٹیز کانفرنس کو عدلیہ سمیت سب کی حمایت حاصل ہونی چاہیے۔ سب کو ساتھ بٹھانے میں اسٹیبلشمنٹ اہم کردار ادا کر سکتی ہے، ملکی مفاد کیلئے سب کو ایک ساتھ بیٹھنا ہوگا۔ تجزیہ کار عرصہ دراز سے کہہ رہے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں ہر انتخاب پر ہی سوالات اٹھتے ہیں، اب بھی دھاندلی کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کو سمجھنا چاہیے کہ الیکشن ہوگیا ہے، اب ملک کو آگے بڑھانے کی بات کریں۔
پارلیمنٹ کے ذریعے مسائل حل کریں، بات چیت کے ساتھ معاملات طے کریں، اصلاحات لائیں، نئی قانون سازی کریں تاکہ مسائل دور کیے جاسکیں۔ سیاسی استحکام کیلئے ڈائیلاگ کے ساتھ ساتھ ایجنڈہ بھی ہونا چاہیے جس پر سیاسی جماعتیں متفق ہوں۔ ملک میں اس وقت تین بڑی جماعتیں ہیں، اگر یہ مل بیٹھیں تو اچھے نتائج مرتب ہونگے۔
بجٹ، اداروں کی نجکاری، قرضوں کی واپسی، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک و دیگر سے ڈیل جیسے بڑے معاملات نئی حکومت کو طے کرنا ہونگے جو چیلنج ہے۔ اگر ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہوگا تو مسائل سنگین ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے ساتھ ساتھ عوام کی اپوزیشن بھی موجود ہے۔لوگوں نے مہنگائی اور دیگر مسائل کے خلاف ووٹ دیے ہیں۔
نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے جس کے اپنے مسائل اور سوچ ہے لہٰذا ان سب معاملات کو سمجھتے ہوئے لائحہ عمل طے کرنا ہوگا، اگر عوام خصوصاََ نوجوان مایوس ہوگئے تو مسائل میں بدترین اضافہ ہوگا۔ ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو معیشت بہتر ہوگی۔ معاشی بہتری سے سکیورٹی بہتر ہوگی جس سے ملک کے طول و عرض میں تجارت بڑھے گی۔
بیرونی سرمایہ کاری آئے گی۔ معیشت کا پہیہ چلے گا اور لوگوں کو روزگار ملے گا۔ روزگار ملنے سے ان کے مسائل حل ہونگے اور ملک میں خوشحالی آئے گی۔تیزی سے بڑھتی ہوئی آباد ی ہمارا ایک بڑا مسئلہ ہے جس پر توجہ نہیں دی جارہی۔ ہماری آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، 2023ء کے بعد یہ دوگنا ہوجائے گی لہٰذا اس وقت وسائل بھی دوگنا چاہیے ہونگے۔ اگر ابھی سے تیاری نہ کی گئی تو ملک کو بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سیاستدان مل بیٹھ کر معاملات طے کریں، آئندہ انتخابات کو صاف و شفاف بنایا جائے۔ اپوزیشن کو صحیح معنوں میں اپوزیشن کرنے دی جائے تاکہ وہ اپنا درست کردار ادا کر سکے۔ اسی طرح میڈیا کی آزادی کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ تاکہ وہ مسائل پر آواز اٹھاتا رہے۔ اس کے علاوہ سول سوسائٹی، تھنک ٹینکس سمیت ہر شخص کا کردار اہم ہے۔ ملک اس وقت زخمی ہے ، معاشی مسائل بدترین ہیں لہٰذا سب کو مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔