محبت کا سفر

تاریخ کے سفر میں عورت کی مسافت کی تفصیل دراصل اس درد کی تفصیل ہے

umerkazi555@yahoo.com

تاریخ کے سفر میں عورت کی مسافت کی تفصیل دراصل اس درد کی تفصیل ہے جو ابھی تک پوری طرح سے رقم نہیں ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ''وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ'' مگر یہ خوبصورت وجود جس تشدد اور جس تکالیف سے گزرا ہے اس کا تذکرہ اس ادب اور آرٹ میں نہیں جو اس کی تعریف میں لکھا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ فرانسیسی زبان کے عظیم ادیب اور دانشور البرٹ کامو نے اپنی مشہور کتاب ''زوال'' میں گہرا طنز کرتے ہوئے اس آرٹسٹ کا حوالہ دیا ہے جو رات کو شراب پینے کے بعد اپنی بیوی کو مارتا پیٹتا ہے اور اس کی بیوی کی چیخیں پورا محلہ سنتا ہے اور جب وہ بیچاری درد میں سوجاتی ہے اور ایک اچھی زندگی کے سپنوں میں کھوجاتی ہے تب وہ شخص اپنے فلیٹ کی گیلری میں بیٹھ کر گٹار بجاتا ہے اور یہ گیت گاتا ہے کہ:

''اے عورت تم کتنی عظیم ہو''

ہمارے ادیبوں اور شاعروں بلکہ موسیقاروں اور مصوروں کی بات ہی کیا! معاشرہ ان کے دم سے نہ چلتا ہے اور نہ آگے بڑھتا ہے۔ وہ تو صرف دنیا میں دلچسپی کے اسباب پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں وہ طاقت کہاں جو معاشرے کو منفی یا مثبت انداز سے متاثر کرسکے۔ مگر اب اہم بات ان سیاستدانوں کی ہے جو کامیاب ہونے کی صورت میں حکمران بن جاتے ہیں۔ ہم اگر ان کامیاب سیاستدانوں کی حکمرانی والی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان کے دور حکومت کے دوران صرف جنگ و جدل کے واقعات نظر نہیں آتے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ میں بھی سب سے زیادہ عورت کا استحصال ہوتا ہے۔

جنگ میں سب سے زیادہ تکلیف اس صنف نازک کے حصے میں آتی ہے جس کا دل اگر مضبوط نہ ہوتا تو کب کا ریزہ ریزہ ہوچکا ہوتا۔ مگر جب سیاست سوجاتی ہے اور سماج میں امن کی فضا لہراتی ہے تب بھی عورت کا استحصال ختم نہیں ہوتا۔ کیوں کہ جنگ کے دوران تو حکمران میدان میں ہوتے ہیں مگر جب امن ہوتا ہے تو وہ اپنے شبستانوں میں ان عورتوں کے ساتھ دل بہلاتے ہیں جن کی تعداد تاریخ میں پہلے تو بہت زیادہ تھی مگر اب بھی کم نہیں ہے۔

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ ہمارا آرٹ اور ادب اور کچھ بھی نہیں سوائے اس مرہم کے جو عورت کے روحانی اور ذہنی زخموں پر رکھا جاتا ہے۔ ہمارے ادیب اور شاعر سوچتے ہیں کہ جب وہ عورت کی تعریف کرتے ہیں، جب وہ اس کو مجسمہ حسن قرار دیتے ہیں، جب اس کے حوالے سے محبت کے گیت گاتے ہیں تب وہ خوش ہوتی ہے۔ وہ یقیناً ایک قسم کا سکون محسوس کرتی ہوگی مگر وہ ایسا سکون ہے جو بہت تکلیف والے علاج کے بعد ایک مظلوم مریض محسوس کرتا ہے۔

ایک دانشور نے عورت کے دل کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ''ہر مرد کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ عورت کی زندگی کا پہلا مرد بنے اور ہر عورت یہ چاہتی ہے کہ وہ مرد اس کی زندگی کا آخری مرد بنے''۔ عورت اس معاشرے میں ابھی تک قید ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ آہستہ آہستہ اس قید کی چابیاں اس انداز سے چرا رہی ہے کہ مرد کو یہ معلوم نہیں ہو پا رہا کہ اب غلامی کا دور اس کے حصے میں آنے والا ہے۔ مگر یہ حکمت عملی اتنے محتاط انداز سے عمل میں آرہی ہے کہ ہمیں اس کا ٹھیک طرح سے احساس نہیں ہورہا۔

میں اس حکمت عملی کا مخالف نہیں ہوں اور یہ چاہتا بھی ہوں کہ عورت آگے آئے اور وہ اس معاشرے کو اپنے ہاتھوں میں لے جس معاشرے کی تخلیق اس نے قیدی کی صورت میں بڑے خطرے اٹھانے اور بہت بڑا تشدد برداشت کرنے کے بعد کی ہے۔ اگر اس معاشرے کے تانے بانے کو جوڑنے میں عورت کا کردار نہ ہوتا تو آج ہم ایک تنہا معاشرے میں زندگی گزارنے کے تلخ احساس سے ہم آغوش ہوتے۔ ہمیں اس عورت کا تہہ دل سے شکر گزار ہونا چاہیے جس نے ملامتیں برداشت کی ہیں اور نسل در نسل معاشرے کو رشتوں کے حوالے سے مضبوط کرنے کا فرض سرانجام دیا ہے۔

آرٹسٹ لوگ بنیادی طور پر حساس ہوا کرتے ہیں اور ان کی عقل ان کے احساس پر بنیاد رکھتی ہے۔ مگر احساس کبھی بھی معروضی نہیں ہوسکتا۔ وہ ہمیشہ موضوعی رہتا ہے۔ اس لیے آرٹسٹ یہ بات فراموش کرتے رہے ہیں کہ عورت کا اصل کردار معشوق والا نہیں بلکہ عاشق والا ہے۔ مگر وہ عاشقی کے اس سلسلے کو اس طرح چلاتی ہے گویا مرد اس فریب میں مبتلا رہتا ہے کہ عاشق وہ ہے۔ حالانکہ مرد کبھی عاشق نہیں ہوسکتا۔ مرد تو ایک سرکش روح کا مالک ہوتا ہے۔


ایک عاشق اس قدر ظالم نہیں ہوسکتا۔ ایک عاشق اتنا بے وفا کیسے ہوسکتا ہے۔ ایک عاشق اتنا خودغرض اور اس قدر لالچی نہیں ہوسکتا۔ عاشق کے لیے وفا کی شرط لازمی ہوا کرتی ہے اور تاریخ کے جذباتی سفر میں وفا ہمیشہ عورت کی طرف رہتی آئی ہے۔ اس بات کو صرف ہمارے صوفی شعرا نے ٹھیک سے سمجھا ہے اس لیے انھوں نے اپنی شاعری کے لیے ان لوک کہانیوں کا انتخاب کیا جن لوک کہانیوں میں محبت کے سفر کی باگ ہمیشہ عورت کے ہاتھ میں ہوا کرتی ہے۔ پھر وہ سسی پنوں کی کہانی ہو یا سوہنی اور مہنیوال کی۔ ان کہانیوں میں محبت کے افسانے کا مرکزی کردار عورت رہی ہے۔ اس لیے شاہ لطیف نے لکھا ہے کہ:

''سردی کی سیاہ رات میں جو اوپر سے پڑتی ہوئی بارش کے باوجود دریا کی لہروں میں اپنے وجود کو سفر کے لیے آگے بڑھاتی ہے، اس سوہنی سے محبت کا سبق سیکھا جانا چاہیے''۔

لیکن ہم نے محبت کا سبق عورت سے نہیں سیکھا۔ ہم نے محبت کے مکتب میں اگر عشق کا علم عورت سے سیکھا ہوتا تو شاید پیار کے افسانوں کا انجام المناک نہ ہوتا۔ مرد نے محبت کے میدان میں جو تجربے کیے ہیں اس کا تشدد عورت نے برداشت کیا ہے۔ مرد بنیادی طور پر محبت کے معاملے میں متشدد فطرت کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔ وہ عورت کو اذیت پسند سمجھتے ہوئے اپنی چاہت کا اظہار اس کو چیر پھاڑ کر کرتا رہا ہے حالانکہ اگر اسے عورت کے دل کا احساس ہوتا تو وہ سمجھ جاتا کہ ایک عورت محبت میں نفاست چاہتی ہے۔ وہ اس زور اور جبر سے خوش نہیں ہوتی جو مرد اپنی مردانگی کا زیور سمجھتے ہیں۔

عورت آخر کیا چاہتی ہے؟ اس سوال پر مرد ہمیشہ سوچتا رہا ہے لیکن اگر وہ عورت سے اس بارے میں ایک بار بھی پوچھ لیتا تو عورت اسے محبت کے ساتھ بتاپاتی کہ اسے محبت میں ایک مہنگی چیز والا رتبہ نہیں، ایک شو پیس والی حیثیت نہیں، ایک دولت اور سرمائے جیسے احساس کی مالک نہیں بلکہ اسے ایک ایسے ساتھی اور دوست کی ضرورت ہوا کرتی ہے جو اس پر ملامت نہ کرے، جو اسے نصیحت نہ دے بلکہ اس کے دل کا بوجھ ہلکا کرے۔ جس طرح غالب نے لکھا ہے کہ:

یہ کہاں کی دوستی کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا

عورت کے دل میں صرف آج اور کل کے دکھ نہیں، بلکہ اس کے درد صدیوں پرانے ہیں۔ وہ کہنہ زخموں سے چور ہے۔ اس کے دل کے درد بہت پرانے ہیں۔ اس لیے اس کو اتنے پیار کی ضرورت ہے جتنا سمندر میں پانی ہوا کرتا ہے۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ جس طرح عورت نے آج تک رسم محبت نباہی ہے وہ مرد سے بھی اسی محبت کے انداز کا تقاضا کرتی ہے کہ اسے اس طرح محبوب بنایا جائے کہ عاشقی کی باگ اس کے ہاتھ میں ہو۔ آج تک محبت کا جو سفر طے ہوا ہے اس میں مرد نے وہ منزل حاصل نہیں کی جس منزل کے لیے دو دلوں نے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر آگے بڑھنے کا عزم کیا تھا۔

وہ منزل کہیں کھوگئی ہے۔ کیوں کہ مرد نے اپنے سرکش اور تشدد پسند انداز سے جس محبت کو اپنایا ہے اس محبت کے انجام میں تو یہی کچھ ہونا تھا۔ اس لیے اب محبت کی قیادت عورت کے ہاتھوں میں دینے کی ضرورت ہے۔ اس یقین کے ساتھ کے اس محبت میں تشدد کا عنصر نہیں ہوگا۔ وہ سفر زمین پر نشیب و فراز کا سفر نہیں بلکہ ہوائوں سے اوپر خلائوں کی جانب ایک خوبصورت سفر ہوگا، محبت کے اس چاند کی طرف جو دلوں کو ہمیشہ بلاتا رہتا ہے۔
Load Next Story