بھتہ خوری کا علاج
بھتہ خوری کا کینسر پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ تاجر اس مسئلے سے پریشان ہیں تو صنعت کار اس وبا کی وجہ سے ملک
بھتہ خوری کا کینسر پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ تاجر اس مسئلے سے پریشان ہیں تو صنعت کار اس وبا کی وجہ سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ اس مصیبت نے کاروباری حضرات کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ وہ کئی مرتبہ سڑکوں پر آکر احتجاج کرچکے ہیں۔ وہ صنعتی علاقوں میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ اغوا برائے تاوان تو بھتہ خوری کی انتہائی شکل ہے، خوفناک اور ڈراؤنی شکل۔ ان دونوں کے درمیان بھی بھتہ خور خوفزدہ کرنے کے لیے گھروں پر گولیاں برساتے ہیں۔ ڈرانے کے لیے دکان اور فیکٹری پر کریکر بم پھینکتے ہیں۔
ٹینس بال کی طرح کے یہ بم جانی اور مالی نقصان سے زیادہ انسان کو نفسیاتی مریض بنا دیتے ہیں۔ اغوا کرنے کے بعد تاجروں کو ایک سے دوسرے کو فروخت کیا جاتا ہے۔ پہلا شخص اپنا منافع جیب میں رکھ کر اغوا شدہ شخص کو دوسرے کے حوالے کردیتا ہے۔ انسان کو مال کی طرح تیسرے سے چوتھے کو بیچا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اب بھتہ خوری منافع بخش کاروبار بن چکی ہے۔ سب کچھ اس انداز میں ہوتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ اب یہ صنعت کا روپ دھار چکی ہے۔ تاجروں اور صنعتکاروں کے مقابل ایک نئی تجارت اور ایک نئی صنعت۔
کیا بھتہ خوری ختم ہوسکتی ہے؟ ایک نظر سے دیکھا جائے تو اس کا علاج موجود ہے۔ دوسری نظر سے محسوس کیا جائے تو لگتا ہے کہ یہ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ جس نوجوان کو کوئی دس ہزار روپے مہینے کے نہ دے وہ اگر اتنی رقم روزانہ اور مہینے کے لاکھوں کما رہا ہے تو اسے اس کام سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟ جب یہ کاروبار کی شکل کے بعد صنعت کا روپ دھار چکا ہے تو اسے کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟ اگر کچھ لوگ پکڑے جائیں تو نئے لوگ اس صنعت میں داخل ہوجائیں گے۔
ماہرین نفسیات کچھ کہیں نہ کہیں لیکن معاشرے کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے والے کہہ سکتے ہیں کہ یہ کبھی ختم نہ ہونے والا ناسور ہے۔ قتل و غارت گری تو ختم ہوسکتی ہے لیکن بھتہ خوری کی وبا شاید کبھی ختم نہ ہو۔ جب اس مرض کا خاتمہ ممکن ہی نہیں تو ہم نے کالم کا عنوان ''بھتہ خوری کا علاج'' کیوں تجویز کیا ہے؟ جب تک تین کام نہیں ہوں گے تب تک بھتہ خوری کا جن بوتل میں واپس نہیں جائے گا۔ یہ جن بوتل سے کس کی حماقت سے باہر آیا ہے؟ کس نے لالچ میں آکر اسے قابو کرنے کی کوشش کی تھی؟
پہلے ہم مرض کی نوعیت کو سمجھتے ہیں اور پھر اس کا علاج تجویز کریں گے۔ مشکل یہ ہے کہ اب تاجروں نے اغوا کی رپورٹ کروانا ہی چھوڑ دی ہے۔ وہ جلدازجلد رقم کی ادائیگی کرکے بندہ چھڑوا لیتے ہیں۔ یوں اتنی جلد اور اتنی آسانی سے چند دنوں میں لاکھوں اور مہینے بھر میں کروڑوں کمانے والے گروہ کو کیسے اس عادت بد سے چھٹکارا دلایا جائے گا؟
تاجر اور صنعتکار حکومت وقت کو ایمرجنسی لگانے اور بھتہ خوروں کے خلاف آپریشن کا کہہ رہے ہیں۔ وہ کاروبار بند کرنے اور ٹیکس کی ادائیگی روک دینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ حکومت اسے اہمیت نہ دے کر تاجروں کے مطالبات کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتی ہے۔ افسران بالا صنعت کاروں کو بالا ہی بالا اغوا کاروں سے معاملات طے کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ تھانے کی پولیس تاجروں کو بھتہ خوروں سے نہ الجھنے کا مشورہ دیتی ہے۔
ایسے میں تاجر کس سے آہ و زاری کریں؟ صنعتکار کس در پر فریاد کریں؟ تنظیمیں کس زنجیر عدل کو ہلائیں؟ نہ موبائل فون سموں کا کوئی علاج کیا جاتا ہے اور نہ کیمروں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اب جو کچھ کرنا ہوگا وہ شہر کی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کو کرنا ہوگا۔ انھیں بھتہ خوری کے علاج کے لیے گولی کے بدلے گولی دینی ہوگی۔ بندوق کی گولی نہیں بلکہ دوا والی گولی۔ پھر انھیں ایک ڈرپ لگانی ہوگی اور ایک انجکشن تیار رکھنا ہوگا۔ یہ ہے بھتہ خوری کا علاج جو تاجروں اور صنعتکاروں کو خود کرنا ہوگا۔ اگر وہ ذہنی مریض بن گئے ہیں اور کوئی مسیحا نہیں ہے تو انھیں خود اپنا معالج بننا ہوگا۔
کوئی ڈرپ اور انجکشن علاج ہے بھتہ خوری کا۔پہلے تاجر و صنعتکار یہ تین کام کریں گے پھر ہی حکومت مجبور ہوگی آپریشن کے لیے۔ جب تک مریض کو دوا کی ٹکیا نہ دی جائے اور اسے قطرے ٹپکا کر طاقتور نہ بنادیا جائے اور آخر میں اسے ٹیکا لگا کر جراثیم کا مقابلہ کرنے والا نہ بنایا جائے، اس وقت تک معاشرے کا جسم کمزور رہے گا۔ ناتواں جسم کو آپریشن سے پہلے طاقتور بنانا لازمی ہے ورنہ مریل جسم سے چیر پھاڑ خطرناک ہوگی۔ آئیے اب کھل کر بات کرتے ہیں بھتہ خوری کے علاج کی۔
1+3 یعنی چار سطحی علاج ہے بھتہ خوری کا۔ پہلے تاجروں کو تین کام کرنے ہوں گے اور اس کے بعد حکومت سے آپریشن کا مطالبہ کرنا ہوگا۔ تھری پلس ون سے قبل کی فرمائشوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا جائے گا۔ حکومت کے علاوہ افسران اور پولیس جانتے ہیں کہ تاجر اور صنعتکار کمزور وکٹ پر کھیل رہے ہیں۔ عوام میں انھیں اعلیٰ اخلاقی برتری حاصل نہیں۔ اس کے لیے مل مالکان کو ذخیرہ اندوزی سے گریز اور تاجروں کو مصنوعی مہنگائی سے پرہیز کرنا ہوگا۔ معاشرے کو یہ ٹیبلٹ دینی ہوگی۔ یہ گولی کے جواب میں گولی ہوگی۔ اگر فیڈریشن آف چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز نے پورے پاکستان کو یہ توانائی دے دی تو یہ پہلا قدم ہوگا بھتہ خوری کے علاج کی جانب۔
دوسری تدبیر ڈرپ ہے۔ رمضان میں جان بوجھ کر مہنگائی کردینا اور تہواروں پر نفع خوری کرنا کہاں ہوتا ہے؟ دنیا بھر کے خوب صورت معاشروں کی باتیں کرنے والوں کو عید، کرسمس اور ہولی کے موقع پر عوام کو سستی اشیا کی فراہمی کی اعلیٰ قدروں کو نہیں بھولنا چاہیے۔ غریب کو بھی سکون سے خوشی منانے دینے والے معاشرے خود بھی پرسکون رہتے ہیں۔ چوری کی سزا سے پہلے زکوٰۃ کی ادائیگی ہوتی ہے۔
تیسرا نسخہ ہے انجکشن۔ جب تک تاجروں اور صنعتکاروں کے علاوہ زمیندار ہماری معیشت کو ٹیکس کی ادائیگی کا انجکشن نہیں لگائیں گے تب تک وہ اطمینان سے نہیں جی سکیں گے۔ اسلام نے بھوک اور خوف کو مصیبت قرار دیا ہے۔ غریبوں کے لیے بھوک کا عذاب پیدا کرنے والوں کو خوف کے آسیب سے کیسے نجات ملے گی؟ آج اگر یہ وبا ایک دو شہروں میں ہے تو کل درجنوں شہروں اور پھر سیکڑوں دیہاتوں تک پھیل جائے گی۔ 99 فیصد غربا مانگ لیں اور ایک فیصد اگر چھیننے پر آجائیں تو معاشرے کا امن تباہ ہوجاتا ہے۔
تاجروں کے ان تین کاموں کے بعد ہی حکومت کا بھتہ خوری کے خلاف آپریشن کامیاب ہوسکتا ہے۔ امید ہے کہ تین جمع ایک کو سمجھا جائے گا بھتہ خوری کا علاج۔