سچی بات
ابھی چند مہینوں پہلے ہی کی بات ہے جب نیویارک میں ایک بھارتی ڈپلومیٹ دیویانی کوبرا جادے کو گرفتار کرلیا گیا، اس وقت وہ اپنے بچوں کو اسکول چھوڑ کر آرہی تھی۔ یہ ایک ایسا حملہ تھا جسے بھارتی سرکار نے شدت سے محسوس کیا، ویسے بھی دنیا بھر میں سفارت کاری کے کچھ اصول وضع ہیں جن کا پاس کرنا ممالک کا فرض ہے لیکن دیویانی کی گرفتاری نے ایک شور سا بپا کردیا، وہ مجرم تھیں یا نہیں اس سے قطع نظر ان کی گرفتاری ایک بہت بڑا ایشو تھی جسے نہ صرف بھارتی حکومت بلکہ ان کی عوام نے ناپسندیدگی سے دیکھا اور پورے ملک سے امریکا راج بہادر کے خلاف جیسے شعلے سے نکلنے لگے۔
1998 کے ایٹمی دھماکے کے بعد امریکا نے جن پابندیوں کی زنجیروں میں اسے باندھ رکھا تھا اس احساس محرومی کو اس وقت بہت محسوس کیا اور ساتھ ہی یہ خیال بھی ابھرنے لگا کہ کہیں امریکا اپنی سربراہی کی حدود کو اور وسیع تو نہیں کر رہا۔ ایک کے بعد ایک حکمت عملی، ری ایکشن ظاہر ہونا شروع ہوگیا، امریکی بھارت کی سرزمین پر اپنے آپ کو یتیم سمجھنا شروع ہوگئے تھے اور اس یتیمی کا احساس انھیں بھارتی حکومت ان کے رویے اور عوام نے دلانا شروع کردیا تھا۔ بارک اوباما کی مقبولیت کا گراف کہیں گرا ہو نہ ہو لیکن ان کے پوسٹرز جلنا ضرور شروع ہوگئے تھے، یہ ایک کھلم کھلا احتجاج تھا جو بھارت کی سرزمین سے ایک سپرپاور کے خلاف کیا گیا تھا اور یہ کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا۔
امریکا نے سفارتی اصولوں کی خلاف ورزی کی تھی۔ جس شدت سے دوسری جانب سے احتجاج کیا گیا تھا کہ بعد میں بڑے بڑوں کو وضاحتیں دینی پڑی تھیں۔ انھوں نے صرف دیویانی کو اپنی نوکرانی کے سلسلے میں غلط معلومات فراہم کرنے اور کم سے کم تنخواہ دینے کے جرم میں پکڑ دھکڑ کی تھی تو بھارت نے بھارت میں امریکی سفارت خانے میں کام کرنے والے تمام بھارتی ملازمین کے کھاتے کھنگالنے شروع کردیے تھے، خاص پروٹوکول کو پرے کردیا گیا تھا، بہرحال یہ ایک کڑوی کسیلی گولی تھی جسے پہلے امریکا بہادر وٹامن کی گولی سمجھ کر پھانکنا چاہتا تھا۔
ابھی کچھ دن پہلے جاننے والے کے یہاں دعوت میں جانا ہوا، ان کی دونوں شادی شدہ بیٹیاں دبئی میں مقیم تھیں، ان کی ایک صاحبزادی کی شادی بھارتی نوجوان سے ہوئی تھی، خیر سے دو تین بچوں کے والدین ہیں، شادی کو اتنے برس گزر چکے ہیں لیکن ایک بھارتی کی بیوی ہونے کے باوجود ان کی صاحبزادی کو انڈین شہریت نہیں دی گئی، جب اپلائی کیا گیا تو انھیں کہا گیا کہ شہریت اس وقت دی جائے گی جب دس سال تک بنا پاکستان جائے بھارت میں ہی وہ قیام کریں گی۔ آپ خود ہی سوچیے ایسا کیسے ہوسکتا ہے، ہمارے بیٹے تو ہیں نہیں بیٹیاں ہی ہیں۔
دکھ، بیماری، خوشی یہ تو انسان ساتھ جڑا ہوتا ہے، پھر والدین پاکستان میں ہیں، چند گھنٹوں کی تو فلائٹ ہوتی ہے لیکن وہاں کے رولز بڑے سخت ہیں، یہاں تک کہ ویزا بھی آسانی سے نہیں ملتا، ہاں ایک بار بچہ بہت بیمار تھا تو اس بنیاد پر ذرا جلدی ویزا مل گیا پھر جس شہر کے لیے ویزا دیا جاتا ہے اس سے باہر نہیں جاسکتے اور اگر چلے گئے تو بڑے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں، پھر بھی کچھ لوگ چالاکی سے چھپ چھپا کر گھومنے چلے جاتے ہیں لیکن پھر بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہمارے پاکستان میں تو ایسا نہیں ہوتا؟
یہ ان کا سادہ سا سوال تھا اور ہم سب کے لیے ایک بڑی سوچ کا مقام۔ ہمارے پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ وہ خاتون بتا رہی تھیں کہ بھارت میں ذرا ویزا ختم ہو اور ایک آدھ دن اوپر بھی ہوجائے تو پولیس آجاتی ہے، پکڑ کر لے جاتی ہے، لیکن ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوتا۔ لیکن ہمارے یہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ ہمارے ہاں کیوں بھارت، افغانستان، بنگلہ دیش، روس، برما اور نیپال خدا جانے کون کون سے ملک سے آئے لوگ مستقل قیام کرلیتے ہیں، ہم کیوں ہر ایک کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتے ہیں یا زبردستی بہت سے لوگ کیوں ہمارے دامن سے لپٹ جاتے ہیں۔ ہم کیوں موم کی ناک بن جاتے ہیں کہ جس کا دل چاہا پکڑ کر گھما دیا اور ہم گھوم جاتے ہیں۔ کیا ہمارا گھوم جانا ہماری فطرت ہے، حمیت ہے، رواداری ہے یا بزدلی۔
بھارت میں نئی حکومت آچکی ہے، ایک عام سے آدمی نے زمین سے وزارت کی اعلیٰ کرسی تک کا سفر طے کرلیا ہے، نریندر مودی مسلمانوں کے لیے ویمپائر تھے، اب سنا ہے کہ فجر کی اذانوں پر پابندی کے دھیمے دھیمے احتجاج ابھر رہے ہیں، دیکھیے یہ دھیمے انداز میں ابھرنے والے اور کتنا اونچا جاتے ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ بھارت آسانی سے موم کی ناک نہیں بنتا، اس نے بڑے بڑے ہاتھیوں کو ناکوں چنے چبوا دیے اور بڑے ہاتھیوں کو ایشیا کی ریاست میں کوئی ایسا ضرور چاہیے جو سب کے بیچوں بیچ انھیں چاہے دکھاوے کو ہی سہی گلے لگا لے کیونکہ اس میں ان کا بھلا ہے جب کہ بھارت سب کا بھلا سب کی خیر پر یقین نہیں رکھتا، اس کی وجہ کیا ہے؟
کیا بھارت کے پاس ایٹمی طاقت ہے۔ تو ایٹمی طاقت تو ہمارے پاس بھی ہے۔ کیا بھارت کے پاس زرخیز ذہن ہیں تو زرخیز ذہن تو ہمارے پاس بھی بہت ہیں۔ بھارت ہمت والا ہے یا نہیں لیکن ماضی میں ہم ثابت کرچکے ہیں کہ ہم چھوٹا ملک ہونے کے باوجود بہت بڑا دل گردہ رکھتے ہیں، لیکن ان سب کے باوجود بھارت کے پاس جو اور کچھ ہے وہ ہمارے پاس کیوں نہیں ہے۔ آئیے ہم سب مل کر سوچتے ہیں کہ کیوں ہمیں بار بار عالمی طور پر احساس کمتری میں مبتلا کیا جاتا ہے، ہمارے چھوٹا ہونے کا، پسماندہ ہونے کا یا شاید مسلمان ہونے کا احساس۔
1998 کے ایٹمی دھماکے کے بعد امریکا نے جن پابندیوں کی زنجیروں میں اسے باندھ رکھا تھا اس احساس محرومی کو اس وقت بہت محسوس کیا اور ساتھ ہی یہ خیال بھی ابھرنے لگا کہ کہیں امریکا اپنی سربراہی کی حدود کو اور وسیع تو نہیں کر رہا۔ ایک کے بعد ایک حکمت عملی، ری ایکشن ظاہر ہونا شروع ہوگیا، امریکی بھارت کی سرزمین پر اپنے آپ کو یتیم سمجھنا شروع ہوگئے تھے اور اس یتیمی کا احساس انھیں بھارتی حکومت ان کے رویے اور عوام نے دلانا شروع کردیا تھا۔ بارک اوباما کی مقبولیت کا گراف کہیں گرا ہو نہ ہو لیکن ان کے پوسٹرز جلنا ضرور شروع ہوگئے تھے، یہ ایک کھلم کھلا احتجاج تھا جو بھارت کی سرزمین سے ایک سپرپاور کے خلاف کیا گیا تھا اور یہ کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا۔
امریکا نے سفارتی اصولوں کی خلاف ورزی کی تھی۔ جس شدت سے دوسری جانب سے احتجاج کیا گیا تھا کہ بعد میں بڑے بڑوں کو وضاحتیں دینی پڑی تھیں۔ انھوں نے صرف دیویانی کو اپنی نوکرانی کے سلسلے میں غلط معلومات فراہم کرنے اور کم سے کم تنخواہ دینے کے جرم میں پکڑ دھکڑ کی تھی تو بھارت نے بھارت میں امریکی سفارت خانے میں کام کرنے والے تمام بھارتی ملازمین کے کھاتے کھنگالنے شروع کردیے تھے، خاص پروٹوکول کو پرے کردیا گیا تھا، بہرحال یہ ایک کڑوی کسیلی گولی تھی جسے پہلے امریکا بہادر وٹامن کی گولی سمجھ کر پھانکنا چاہتا تھا۔
ابھی کچھ دن پہلے جاننے والے کے یہاں دعوت میں جانا ہوا، ان کی دونوں شادی شدہ بیٹیاں دبئی میں مقیم تھیں، ان کی ایک صاحبزادی کی شادی بھارتی نوجوان سے ہوئی تھی، خیر سے دو تین بچوں کے والدین ہیں، شادی کو اتنے برس گزر چکے ہیں لیکن ایک بھارتی کی بیوی ہونے کے باوجود ان کی صاحبزادی کو انڈین شہریت نہیں دی گئی، جب اپلائی کیا گیا تو انھیں کہا گیا کہ شہریت اس وقت دی جائے گی جب دس سال تک بنا پاکستان جائے بھارت میں ہی وہ قیام کریں گی۔ آپ خود ہی سوچیے ایسا کیسے ہوسکتا ہے، ہمارے بیٹے تو ہیں نہیں بیٹیاں ہی ہیں۔
دکھ، بیماری، خوشی یہ تو انسان ساتھ جڑا ہوتا ہے، پھر والدین پاکستان میں ہیں، چند گھنٹوں کی تو فلائٹ ہوتی ہے لیکن وہاں کے رولز بڑے سخت ہیں، یہاں تک کہ ویزا بھی آسانی سے نہیں ملتا، ہاں ایک بار بچہ بہت بیمار تھا تو اس بنیاد پر ذرا جلدی ویزا مل گیا پھر جس شہر کے لیے ویزا دیا جاتا ہے اس سے باہر نہیں جاسکتے اور اگر چلے گئے تو بڑے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں، پھر بھی کچھ لوگ چالاکی سے چھپ چھپا کر گھومنے چلے جاتے ہیں لیکن پھر بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہمارے پاکستان میں تو ایسا نہیں ہوتا؟
یہ ان کا سادہ سا سوال تھا اور ہم سب کے لیے ایک بڑی سوچ کا مقام۔ ہمارے پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ وہ خاتون بتا رہی تھیں کہ بھارت میں ذرا ویزا ختم ہو اور ایک آدھ دن اوپر بھی ہوجائے تو پولیس آجاتی ہے، پکڑ کر لے جاتی ہے، لیکن ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوتا۔ لیکن ہمارے یہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ ہمارے ہاں کیوں بھارت، افغانستان، بنگلہ دیش، روس، برما اور نیپال خدا جانے کون کون سے ملک سے آئے لوگ مستقل قیام کرلیتے ہیں، ہم کیوں ہر ایک کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتے ہیں یا زبردستی بہت سے لوگ کیوں ہمارے دامن سے لپٹ جاتے ہیں۔ ہم کیوں موم کی ناک بن جاتے ہیں کہ جس کا دل چاہا پکڑ کر گھما دیا اور ہم گھوم جاتے ہیں۔ کیا ہمارا گھوم جانا ہماری فطرت ہے، حمیت ہے، رواداری ہے یا بزدلی۔
بھارت میں نئی حکومت آچکی ہے، ایک عام سے آدمی نے زمین سے وزارت کی اعلیٰ کرسی تک کا سفر طے کرلیا ہے، نریندر مودی مسلمانوں کے لیے ویمپائر تھے، اب سنا ہے کہ فجر کی اذانوں پر پابندی کے دھیمے دھیمے احتجاج ابھر رہے ہیں، دیکھیے یہ دھیمے انداز میں ابھرنے والے اور کتنا اونچا جاتے ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ بھارت آسانی سے موم کی ناک نہیں بنتا، اس نے بڑے بڑے ہاتھیوں کو ناکوں چنے چبوا دیے اور بڑے ہاتھیوں کو ایشیا کی ریاست میں کوئی ایسا ضرور چاہیے جو سب کے بیچوں بیچ انھیں چاہے دکھاوے کو ہی سہی گلے لگا لے کیونکہ اس میں ان کا بھلا ہے جب کہ بھارت سب کا بھلا سب کی خیر پر یقین نہیں رکھتا، اس کی وجہ کیا ہے؟
کیا بھارت کے پاس ایٹمی طاقت ہے۔ تو ایٹمی طاقت تو ہمارے پاس بھی ہے۔ کیا بھارت کے پاس زرخیز ذہن ہیں تو زرخیز ذہن تو ہمارے پاس بھی بہت ہیں۔ بھارت ہمت والا ہے یا نہیں لیکن ماضی میں ہم ثابت کرچکے ہیں کہ ہم چھوٹا ملک ہونے کے باوجود بہت بڑا دل گردہ رکھتے ہیں، لیکن ان سب کے باوجود بھارت کے پاس جو اور کچھ ہے وہ ہمارے پاس کیوں نہیں ہے۔ آئیے ہم سب مل کر سوچتے ہیں کہ کیوں ہمیں بار بار عالمی طور پر احساس کمتری میں مبتلا کیا جاتا ہے، ہمارے چھوٹا ہونے کا، پسماندہ ہونے کا یا شاید مسلمان ہونے کا احساس۔