ترکی میں کان کنان کے احوال

ترکی میں کوئلے کی کان میں دب کر لگ بھگ ایک ہزار کان کنان جان سے جاتے رہے۔


Zuber Rehman June 09, 2014
[email protected]

ترکی میں کوئلے کی کان میں دب کر لگ بھگ ایک ہزار کان کنان جان سے جاتے رہے۔ یہ حادثہ گزشتہ کئی دہائیوں سے شدید نابرابری، بے رحم استحصال اور معاشی ناہمواری کا نتیجہ تھا۔ پورے ملک کے عوام آہ و بکا کررہے تھے اور رونے کی چیخ و پکار سے ترکی دہل گیا تھا۔ یہ حادثہ ٹرانسفارمر میں خرابی سے دھماکے کے باعث ہوا۔ اس دھماکے کے سبب کان میں آگ بھڑک اٹھی۔ اندرون کان زہریلی گیس پھیلنے سے امدادی ٹیم جانے سے قاصر تھی۔ 18 گھنٹے گزرنے کے باوجود کان کے اندر آگ کے شعلے بھڑکتے رہے۔

حادثے سے دو ہفتہ قبل ترکی کی حزب اختلاف ری پبلیکن پیپلز پارٹی نے سوما کے کوئلے کی کان کے حادثات کی تحقیق کرنے کا مطالبہ کیا تھا جسے حکمراں جماعت اے کے پی نے مسترد کردیا تھا۔ کانوں کے حادثات کی وجوہات کی خصوصی توجہ پر 29 اپریل کو پارلیمنٹ کے دائیں بازو کی ری پبلیکن پارٹی کے ایم ایچ پی نے کہا کہ 2013 میں سوما کے علاقے میں 5000 کارکنان حادثے سے متاثر ہوئے، ان میں 90 فیصد متاثرین کانکن تھے، جس میں بیشتر جل گئے تھے۔ مگر اس علاقے کے اسپتالوں میں جلنے کے علاج کا کوئی معقول انتظام نہیں تھا۔

یورپی یونین کے مقابلے میں ترکی میں 8.5 گنا لوگ مرتے ہیں۔ 2002 سے 2013 تک کانوں کے حادثات میں 13442 کانکن ہلاک ہوئے۔ 2002 میں 872 کانکن جب کہ 2013 میں مرنے والے مزدوروں کی تعداد 1235 تھی۔ بہت سے مزدور قبل از حادثہ کام کی جگہوں کے غیر محفوظ ہونے کی نشاندہی کرچکے تھے۔ یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں تھا کہ اچانک رونما ہوا ہو۔

سوما میں کانوں کی 2005 میں نجکاری کی گئی جو کہ حکمران اے کے پی کے قریبی رشتے دار مالکان کو بیچا گیا۔ ترکی کے کان کنوں کی لیبر یونین کے صدر تینفون گورکان نے کہا کہ لوگ کانوں میں بہت کم اجرت پہ کام کرنے پر مجبور ہیں، اور کانکنوں کی حفاظت کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ حفاظتی اقدامات کا انتظام اس لیے نہیں کیا جاتا کہ لاگت زیادہ آئے گی۔

ایجنین کون گلومر کے مالک آلپ گورکان نے اپنی کمپنی کی انتظامیہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ نجکاری کی آپریشنل ترکیب کے ذریعے لاگت کو 140 ڈالر سے گھٹاکر 23.8 ڈالر پر لے آئے۔ یہ ایک کارنامہ ہے۔ سوما ہولڈنگ ترکی کی سب سے بڑی کمپنی ہے جو 5.5 ملین ٹن سالانہ پیداوار کرتی ہے۔ استنبول ورکر ہیلتھ اینڈ ورک سیفٹی کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق 2011 میں 1203 مرنے والے مزدوروں میں 55 بچے تھے۔ بہرحال جب اردگان سوما کے حادثے کے بعد وہاں پہنچے تو ان سے غریب کان کنوں کے بارے میں سوال کیا گیا، تو انھوں نے ترقی یافتہ ممالک میں کان کنوں کے مرنے کی کہانی سنانا شروع کردی اور کہا کہ یہ سب حسب معمول ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حکومت اس حادثے کی تفصیلی تحقیقات کرے گی، مگر ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ سوما کی کانیں ترکی کی دیگر بہت سی جگہوں سے زیادہ محفوظ ہیں۔

سرمایہ داری کا رویہ یہ ہے کہ مزدور بھی ایک آلہ ہے جیسا کہ کان کنی میں دوسرے آلات استعمال ہوتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مزدور ہی تمام آلات کو بروئے کار لاتے ہیں۔ بہرحال مزدوروں سے پیش آنے والے ان انسانیت سوز رویوں کے خلاف ملک بھر کے مزدور سڑکوں پر نکل آئے۔ حادثے کے دوسرے دن ترکی کی سڑکیں اس نعرے سے گونج رہی تھیں کہ 'یہ حادثہ نہیں بلکہ قتل ہے۔' استنبول کی رائٹ پولیس نے گیزی پارک اور تقسیم اسکوائر کے گرد رکاوٹیں کھڑی کردیں، اس کے باوجود ہزاروں مزدور پارک میں پہنچ گئے۔

انقرہ، سوما، ازمیر، دیار بقر اور دیگر علاقوں میں کارکنوں کا سمندر امڈ آیا۔ مزدور سوما ہولڈنگ کے سامنے جمع ہوکر نعرے لگارہے تھے کہ 'قاتل ہے قاتل ہے'۔ اور سوما ہولڈنگ کی دیواروں پر لکھ رہے تھے کہ 'یہ عمارت مزدوروں کے خون پر کھڑی ہے۔' اور یہ مزدور، وزراء کی طرح خوبصورتی سے نہیں مرے، یہ تو قتل ہوئے ہیں۔ انقرہ میں پولیس نے مظاہرین پر پانی کی توپ اور آنسو گیس کا استعمال کیا، جب کہ 800 احتجاجی مزدور جو کہ یونیورسٹی کی جانب سے آرہے تھے اور توانائی کی وزارت کے دفتر کی جانب رواں دواں تھے۔

سوما کے شہریوں کا مزاج اردگان کی آمد سے بالکل بدل گیا۔ 3500 پولیس اور جندار میسن کو سخت ہدایات دی گئی تھیں کہ مشتعل ہجوم کو اردگان کی جانب نہ جانے دیا جائے۔ مجمع اردگان کے اقتدار سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ اس کے بعد ہجوم نے سوما کے اے کے پی کے مقامی دفتر پر دھاوا بول دیا۔ ان مزدوروں پر پولیس نے تشدد کیا۔ وزیراعظم کے نائب مشیر خاص یوسف پرکیل کو مظاہرین نے پکڑ لیا، جنھیں بعد میں پولیس نے چھڑوا لیا۔ سابقہ کان کنوں کے سربراہ جیشن ویگر نے کہا کہ آج ہم نے انتہا درجے کی کانکنان کا قتل دیکھا، ہم نے کام کی جگہ پر مرتے ہوئے ترکی کی تاریخ کا سب سے بڑا مقتل دیکھا۔

انقلابی ٹریڈ یونین کنفیڈریشن کے جنرل سیکریٹری آرزو سرکے زوگلو نے اعلان کیا کہ چار نیشنل ٹریڈ یونین سینٹر، کنفیڈریشن آف پبلک ورکرز یونین، ترکش میڈیکل ایسوسی ایشن اور یونین آف چیمبرز آف ترکش انجینئرنگ اینڈ آرکیٹیکٹ سب نے مل کر پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ ایک روز اپنا کام بند رکھیں۔ یہ مزدورفیڈریشنز 6 لاکھ مزدوروں کی نمایندگی کررہے تھے۔ پریس کانفرنس میں مزدور رہنمائوں نے کہا کہ ہمارے ساتھی مزدوروں کا قتل عام صرف پیسے بٹورنے کی خاطر کیا گیا ہے، ان کی صحت اور تحفظ کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ انھوں نے کہا کہ 2002 سے 2011 تک جتنے حادثات ہوئے تھے 2014 تک اس میں40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایک وزیر نے کہا کہ اس بار کی اموات اچھے حالات میں ہوئی ہیں، اموات اس پیشے کی فطرت ہے، ان ہلاکتوں کی تحقیقات میں 6 ماہ تک لگ سکتے ہیں۔

مختلف مزدور فیڈریشنوں نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اپنے گھروں پہ کالے جھنڈے لہرائیں، بازوئوں پر کالی پٹیاں باندھیں اور کالے بینرز پر احتجاج درج کریں، مقامی لیبر منسٹر اور سوشل سیکیورٹی کے آفس تک مارچ کریں۔ بائیں بازو کی فیڈریشن نے اپنے کارکنوں سے اس ریلی میں شرکت کی درخواست کی جن کی تعداد 20 لاکھ تھی۔ اس نجکاری سے طبقاتی خلیج میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اس صورت حال میں مزدور طبقہ انتہائی غصے اور اضطراب کا شکار ہوا ہے اور وہ اب ناقابل برداشت مقام پر پہنچ گیا ہے۔

ترکی کا محنت کش طبقہ بہت مضبوط ہے۔ جب یہ متحد اور ناقابل مصالحت جدوجہد کا آغاز کرے گا تو نہ صرف اس خطے کے عوام بلکہ دنیا بھر کے عوام کو متحرک کردے گا۔ کانکنوں کے مزدوروں کا مطالبہ ہے کہ تمام ذمے دار سرمایہ داروں اور سیاست دانوں پر مقدمہ چلا کر قرار واقعی سزا دی جائے، تمام اے کے پی سے منسلک نجی ملکیت کی صنعتوں کو ازسرنو سرکاری ملکیت میں لے لیا جائے۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک امداد باہمی یا جدید اشتمالی نظام یا نسل انسانی کی ہموار سماج کے قیام میں مضمر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں