قرض کا پہاڑ اور مالی چیلنجز
سال دو ہزار گیارہ کے بعد سے پاکستان کے بیرونی قرضوں میں تقریباً دگنا جب کہ داخلی قرضوں میں چھ گنا اضافہ ہوا ہے
ملک میں عام انتخابات کے بعد انتقال اقتدارکے جمہوری طریقہ کار کے مطابق دو صوبوں پنجاب اور سندھ میں حکومت سازی کا عمل مکمل ہوا ہے، مریم نواز ملکی تاریخ کی پہلی خاتون ہیں جو بطور وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئی ہیں، جب کہ سندھ میں سید مراد علی شاہ مسلسل تیسری بار وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے ہیں۔
خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس آیندہ چند دن میں متوقع ہیں جب کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد نئی وفاقی اتحادی حکومت قائم ہونی ہے لیکن اس موقع پر صدر مملکت قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بلا کر ایک تنازع کو جنم دے رہے ہیں۔ انھیں بطور صدر جمہوری عمل کے استحکام کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔
بلاشبہ آنے والے دنوں میں ملکی آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق صوبوں کو ان کا حق ملنا چاہیے اور کسی بھی طرح کی وفاق اور صوبوں کے درمیان محاذ آرائی کا ماحول نہیں ہونا چاہیے۔ الیکشن کے نتائج پر جس کو بھی اعتراض ہے تو سڑکوں کی سیاست کے بجائے قانون کے مطابق طریقہ کار اختیار کیا جانا چاہیے۔
الیکشن کمیشن، الیکشن ٹریبونل اور ہائی و سپریم کورٹس سے رجوع کر کے انتخابات کے نتائج پر اعتراضات کا معاملہ حل کرنا چاہیے اور اگر کسی بھی قانونی پلیٹ فارم پر نتائج میں تبدیلی ہوجاتی ہے تو ہارنے والے کو فراخدلی سے نتائج کو تسلیم کرنا ہوگا۔ ملک کسی بھی قسم کی سڑکوں کی سیاست کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ پہلے ہی ملک بدترین معاشی حالات، مہنگائی، بے روزگاری کا شکار ہے اور ملک کے یہ تمام سنگین مسائل سیاستدانوں نے ہی حل کرنے ہیں۔
سیاستدانوں کو آپس میں مل بیٹھ کر اختلافات کا حل نکالنا ہوگا تاکہ ملک کو مضبوط جمہوری نظام اور حکومت میسر آسکے۔ موجودہ تمام مسائل کے ذمے دار بھی سیاستدان ہی ہیں اور ان مسائل سے ملک کو نکالنے کے لیے سیاستدانوں کو پورا موقع میسر ہے۔ ہر ایک کو ضد، انا اور ذاتی اقتدارکے لالچ سے باہر آکر ملک کی خاطر کام کرنے کا تہیہ کرنا ہوگا۔
یہاں حالات تو یہ ہیں کہ بچہ بچہ ٹیکس ادا کرتا ہے جوکہ آخری سانسوں تک چلتا رہے گا مگر اُس کے باوجود قرضے کے لیے کشکول ہر وقت تیار رہتے ہیں، کوئی ان غریب عوام کو یہ بتائے کہ آخر یہ قرضے خرچ کہاں ہوتے ہیں؟ ہم پے در پے شکستوں سے دوچار ہیں دہشت گردی، غربت، قلت خوراک، بیماریوں کی یلغار، مہنگائی، بیروزگاری، کرپشن اور افراطِ زرکی وجہ سے روز بروز پریشانیاں بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
ایک حالیہ معاشی رپورٹ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ نئی حکومت کو جس پہلے بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے وہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ ہے۔ قومی واجبات کا پہاڑ ایک ایسا بحران ہے جس کے حجم میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مندرجات کے مطابق ملک کے مجموعی قرضے اور واجبات بشمول داخلی اور بیرونی قرضوں کا مجموعی حجم 77.66کھرب روپے (271.2ارب ڈالر) ہیں۔ پاکستان کا بیرونی قرض بنیادی طور پر قرض دہندگان سے لیا جاتا ہے۔
پاکستان کا فی کس قرضہ سال دوہزار گیارہ میں 823 ڈالر فی کس سے بڑھ کر 2023 میں 1122ڈالر فی کس ہوا، جو بارہ سال میں مجموعی طور پر چھتیس فیصد اضافہ ہے، ملک کا قرض اس کی آمدنی کے مقابلے میں تیز رفتاری سے بڑھ رہا ہے جس سے مالی خسارے میں اضافہ ہو رہا ہے اور اِس صورتحال سے فوری طور پر نمٹنے کے لیے مزید قرض لینے کی ضرورت ہے۔
سال دو ہزار گیارہ کے بعد سے پاکستان کے بیرونی قرضوں میں تقریباً دگنا جب کہ داخلی قرضوں میں چھ گنا اضافہ ہوا ہے جس میں سے ملک کو ایک اندازے کے مطابق انچاس اعشاریہ پچاس ارب ڈالر قرض کی ادائیگی کرنا ہوگی جو تیس فیصد سود ہے، یہ سنگین معاشی صورتحال حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور دیگر قرض دہندگان سے رجوع کرنے پر مجبورکرے گی جو کسی بھی مالی امداد یا قرض کی پیش کش کے لیے سخت شرائط مقرر کریں گے جس کا مطلب ہے کہ حکومت کو قیمتوں میں اضافے کے علاوہ مزید سبسڈی واپس لینا ہوگی جو اب بھی معاشرے کے کچھ طبقوں کو دی جا رہی ہے۔
حکومت کی جانب سے زرعی ٹیکس لگانے کے بجائے موجودہ ٹیکس دہندگان کا بوجھ بڑھانے کا بھی امکان ہے۔ اس طرح کے اقدامات تنخواہ دار طبقے کی مشکلات میں اضافہ کریں گے جو پہلے ہی بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ٹیکسوں کے بارے میں شکایت کر رہے ہیں۔ نئی حکومت کو مزید غیر مقبول اقدامات کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے، اتحادی رعایتیں حاصل کیے بغیر اس طرح کے اقدامات کی حمایت نہیں کریں گے، جس سے حکومتی استحکام پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔
ملکی معاشی استحکام کے لیے برآمدات میں اضافہ انتہائی ضروری ہے، لہٰذا اس سلسلے میں ہمیں اپنی مصنوعات کی پیداواری لاگت کم کرنے کے لیے فوری تمام ممکن اقدامات یقینی بنانا ہوں گے تاکہ ہم عالمی منڈیوں میں دیگر ممالک کی سستی مصنوعات کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں آسکیں، چونکہ ہماری مصنوعات کی پیداواری لاگت زیادہ ہے۔
اس لیے ہمارے ایکسپورٹرزکو عالمی منڈیوں میں مسابقتی و مقابلتی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ جب انٹرنیشنل امپورٹرزکو دیگر ممالک کی سستی مصنوعات دستیاب ہوں گی تو وہ ہماری مہنگی مصنوعات کیوں خریدیں گے اور جب ہماری مصنوعات کی پیداواری لاگت زیادہ ہے تو ہم اپنی اشیا سستی کیسے بیچ سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں اسٹیک ہولڈرزکی مشاورت سے فوری ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن سے جہاں ہماری ایکسپورٹ مصنوعات کی پیداواری لاگت کم ہو، وہیں فوری برآمدات بڑھانا بھی یقینی ہوسکے۔
حالیہ عام انتخابات کے دوران ملک کی سبھی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے معاشی بحالی کی ضرورت کو محسوس کیا اور اُمید ہے کہ ماضی کے برعکس اِس مرتبہ قومی مالی معاملات کی اصلاح کے لیے خاطر خواہ اصلاحات کی جائیں گی۔ فی الوقت پاکستان کو غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور آیندہ ایک ارب ڈالر کے بانڈز کی ادائیگی سمیت بڑے مالی چیلنجز کا سامنا ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ فنڈنگ پروگرام اپریل دو ہزار چوبیس میں ختم ہونے والا ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں ممکنہ تاخیر کا خطرہ اپنی جگہ موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آنے والی حکومت ملک کو انتہائی ضروری معاشی استحکام فراہم کر پائے گی؟ پاکستان کو درپیش بڑے چیلنجوں اور اِن کے ممکنہ حل کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ غربت سادہ نہیں بلکہ پیچیدہ صورت اختیار کر چکی ہے جس کی وجوہات میں معاشی عوامل سرفہرست ہیں۔
مالی فریم ورک بہتر بنانے کے لیے جامع معاشی اصلاحات، کم آمدنی والے لوگوں کو فائدہ پہنچانے والے پروگراموں پر عوامی اخراجات میں اضافہ اور مالیاتی منڈیوں تک رسائی کو بہتر بنانے کے اقدامات کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس میں نان فائلرز اورکم ٹیکس والے شعبوں سے زیادہ آمدنی حاصل کرنا اور پبلک فنانشل مینجمنٹ کو بہتر بنانا بھی شامل ہے۔ ان اقدامات سے حکومت کو سماجی اور ترقیاتی اقدامات کے لیے مزید فنڈز مختص کرنے کا موقع ملے گا۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر و نامزد وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک سے غربت، بے روزگاری اور جہالت کے خاتمہ کے لیے مل کر جدوجہد کرنا ہوگی، سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے باہمی اتحاد کی جتنی ضرورت آج ہے اس سے پہلے نہ تھی، ہمیں معاشی استحکام کے لیے تمام تر اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکر کاوشیں کرنا ہوں گی۔
درحقیقت ہمیں بنیادی طور پر دانشمندانہ فیصلہ سازی کی ضرورت ہے۔ ماضی قریب میں گیس، پٹرولیم اور بجلی کی اصل قیمتوں سے کم قیمت وصول کی گئی جس سے گردشی قرضوں میں اضافہ ہوا جو اب ایک عفریت بن چکا ہے۔ معیشت کی بہتری سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ امکان ہے کہ پیپلز پارٹی غیر مقبول معاشی فیصلوں سے خود کو دور رکھے گی جب کہ مسلم لیگ ن چاہے گی کہ پیپلزپارٹی بھی مزید مہنگائی کرنے کی ذمے داری میں شریک ہو جس سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے چھ کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوں گے۔
پاکستان کے طرز حکمرانی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ غیر پیداواری اخراجات میں کمی نہیں کی جا سکتی جب کہ قرضوں کی ادائیگی کی جانی چاہیے اور آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے مطالبات کو بغیر کسی ہنگامہ آرائی کے قبول کیا جانا چاہیے لہٰذا حکومت کے پاس سکڑتے ہوئے سماجی شعبے پر کفایت شعاری کی تلوار دبانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔
حکومت ممکنہ طور پر ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کرے گی اور وفاقی اکائیوں کے حصے کو تبدیل کیا جائے گا جس سے وفاقی اخراجات کم کرنے میں مدد ملے گی۔ وفاقی حکومت صوبوں کی ادائیگی میں تاخیر کی بھی کوشش کرے گی جس سے صوبوں میں سماجی شعبے کی ترقی بھی متاثر ہوگی۔
جمہوریت کے قیام اور تسلسل کے لیے ناگزیر ہے کہ ملک کے سب ادارے اپنے طے شدہ فرائض تک خود کو محدود رکھیں، پارلیمنٹ ایک بااختیار ادارہ بنے، الیکشن کمیشن ایک آزاد ادارے کی حیثیت سے کام کرے، ملک کی عدلیہ سیاسی اداروں کو کام کرنے کا موقع دے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ جمہوریت کا بیج یکدم ایک تناور درخت نہیں بن سکتا، لہٰذا جمہوریت کے تجربے کو صبر کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ یہ پودا آہستہ آہستہ ہی پروان چڑھتا ہے اور ثمر بار ہوتا ہے۔
خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس آیندہ چند دن میں متوقع ہیں جب کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد نئی وفاقی اتحادی حکومت قائم ہونی ہے لیکن اس موقع پر صدر مملکت قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بلا کر ایک تنازع کو جنم دے رہے ہیں۔ انھیں بطور صدر جمہوری عمل کے استحکام کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔
بلاشبہ آنے والے دنوں میں ملکی آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق صوبوں کو ان کا حق ملنا چاہیے اور کسی بھی طرح کی وفاق اور صوبوں کے درمیان محاذ آرائی کا ماحول نہیں ہونا چاہیے۔ الیکشن کے نتائج پر جس کو بھی اعتراض ہے تو سڑکوں کی سیاست کے بجائے قانون کے مطابق طریقہ کار اختیار کیا جانا چاہیے۔
الیکشن کمیشن، الیکشن ٹریبونل اور ہائی و سپریم کورٹس سے رجوع کر کے انتخابات کے نتائج پر اعتراضات کا معاملہ حل کرنا چاہیے اور اگر کسی بھی قانونی پلیٹ فارم پر نتائج میں تبدیلی ہوجاتی ہے تو ہارنے والے کو فراخدلی سے نتائج کو تسلیم کرنا ہوگا۔ ملک کسی بھی قسم کی سڑکوں کی سیاست کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ پہلے ہی ملک بدترین معاشی حالات، مہنگائی، بے روزگاری کا شکار ہے اور ملک کے یہ تمام سنگین مسائل سیاستدانوں نے ہی حل کرنے ہیں۔
سیاستدانوں کو آپس میں مل بیٹھ کر اختلافات کا حل نکالنا ہوگا تاکہ ملک کو مضبوط جمہوری نظام اور حکومت میسر آسکے۔ موجودہ تمام مسائل کے ذمے دار بھی سیاستدان ہی ہیں اور ان مسائل سے ملک کو نکالنے کے لیے سیاستدانوں کو پورا موقع میسر ہے۔ ہر ایک کو ضد، انا اور ذاتی اقتدارکے لالچ سے باہر آکر ملک کی خاطر کام کرنے کا تہیہ کرنا ہوگا۔
یہاں حالات تو یہ ہیں کہ بچہ بچہ ٹیکس ادا کرتا ہے جوکہ آخری سانسوں تک چلتا رہے گا مگر اُس کے باوجود قرضے کے لیے کشکول ہر وقت تیار رہتے ہیں، کوئی ان غریب عوام کو یہ بتائے کہ آخر یہ قرضے خرچ کہاں ہوتے ہیں؟ ہم پے در پے شکستوں سے دوچار ہیں دہشت گردی، غربت، قلت خوراک، بیماریوں کی یلغار، مہنگائی، بیروزگاری، کرپشن اور افراطِ زرکی وجہ سے روز بروز پریشانیاں بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
ایک حالیہ معاشی رپورٹ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ نئی حکومت کو جس پہلے بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے وہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ ہے۔ قومی واجبات کا پہاڑ ایک ایسا بحران ہے جس کے حجم میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مندرجات کے مطابق ملک کے مجموعی قرضے اور واجبات بشمول داخلی اور بیرونی قرضوں کا مجموعی حجم 77.66کھرب روپے (271.2ارب ڈالر) ہیں۔ پاکستان کا بیرونی قرض بنیادی طور پر قرض دہندگان سے لیا جاتا ہے۔
پاکستان کا فی کس قرضہ سال دوہزار گیارہ میں 823 ڈالر فی کس سے بڑھ کر 2023 میں 1122ڈالر فی کس ہوا، جو بارہ سال میں مجموعی طور پر چھتیس فیصد اضافہ ہے، ملک کا قرض اس کی آمدنی کے مقابلے میں تیز رفتاری سے بڑھ رہا ہے جس سے مالی خسارے میں اضافہ ہو رہا ہے اور اِس صورتحال سے فوری طور پر نمٹنے کے لیے مزید قرض لینے کی ضرورت ہے۔
سال دو ہزار گیارہ کے بعد سے پاکستان کے بیرونی قرضوں میں تقریباً دگنا جب کہ داخلی قرضوں میں چھ گنا اضافہ ہوا ہے جس میں سے ملک کو ایک اندازے کے مطابق انچاس اعشاریہ پچاس ارب ڈالر قرض کی ادائیگی کرنا ہوگی جو تیس فیصد سود ہے، یہ سنگین معاشی صورتحال حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور دیگر قرض دہندگان سے رجوع کرنے پر مجبورکرے گی جو کسی بھی مالی امداد یا قرض کی پیش کش کے لیے سخت شرائط مقرر کریں گے جس کا مطلب ہے کہ حکومت کو قیمتوں میں اضافے کے علاوہ مزید سبسڈی واپس لینا ہوگی جو اب بھی معاشرے کے کچھ طبقوں کو دی جا رہی ہے۔
حکومت کی جانب سے زرعی ٹیکس لگانے کے بجائے موجودہ ٹیکس دہندگان کا بوجھ بڑھانے کا بھی امکان ہے۔ اس طرح کے اقدامات تنخواہ دار طبقے کی مشکلات میں اضافہ کریں گے جو پہلے ہی بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ٹیکسوں کے بارے میں شکایت کر رہے ہیں۔ نئی حکومت کو مزید غیر مقبول اقدامات کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے، اتحادی رعایتیں حاصل کیے بغیر اس طرح کے اقدامات کی حمایت نہیں کریں گے، جس سے حکومتی استحکام پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔
ملکی معاشی استحکام کے لیے برآمدات میں اضافہ انتہائی ضروری ہے، لہٰذا اس سلسلے میں ہمیں اپنی مصنوعات کی پیداواری لاگت کم کرنے کے لیے فوری تمام ممکن اقدامات یقینی بنانا ہوں گے تاکہ ہم عالمی منڈیوں میں دیگر ممالک کی سستی مصنوعات کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں آسکیں، چونکہ ہماری مصنوعات کی پیداواری لاگت زیادہ ہے۔
اس لیے ہمارے ایکسپورٹرزکو عالمی منڈیوں میں مسابقتی و مقابلتی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ جب انٹرنیشنل امپورٹرزکو دیگر ممالک کی سستی مصنوعات دستیاب ہوں گی تو وہ ہماری مہنگی مصنوعات کیوں خریدیں گے اور جب ہماری مصنوعات کی پیداواری لاگت زیادہ ہے تو ہم اپنی اشیا سستی کیسے بیچ سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں اسٹیک ہولڈرزکی مشاورت سے فوری ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن سے جہاں ہماری ایکسپورٹ مصنوعات کی پیداواری لاگت کم ہو، وہیں فوری برآمدات بڑھانا بھی یقینی ہوسکے۔
حالیہ عام انتخابات کے دوران ملک کی سبھی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے معاشی بحالی کی ضرورت کو محسوس کیا اور اُمید ہے کہ ماضی کے برعکس اِس مرتبہ قومی مالی معاملات کی اصلاح کے لیے خاطر خواہ اصلاحات کی جائیں گی۔ فی الوقت پاکستان کو غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور آیندہ ایک ارب ڈالر کے بانڈز کی ادائیگی سمیت بڑے مالی چیلنجز کا سامنا ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ فنڈنگ پروگرام اپریل دو ہزار چوبیس میں ختم ہونے والا ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں ممکنہ تاخیر کا خطرہ اپنی جگہ موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آنے والی حکومت ملک کو انتہائی ضروری معاشی استحکام فراہم کر پائے گی؟ پاکستان کو درپیش بڑے چیلنجوں اور اِن کے ممکنہ حل کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ غربت سادہ نہیں بلکہ پیچیدہ صورت اختیار کر چکی ہے جس کی وجوہات میں معاشی عوامل سرفہرست ہیں۔
مالی فریم ورک بہتر بنانے کے لیے جامع معاشی اصلاحات، کم آمدنی والے لوگوں کو فائدہ پہنچانے والے پروگراموں پر عوامی اخراجات میں اضافہ اور مالیاتی منڈیوں تک رسائی کو بہتر بنانے کے اقدامات کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس میں نان فائلرز اورکم ٹیکس والے شعبوں سے زیادہ آمدنی حاصل کرنا اور پبلک فنانشل مینجمنٹ کو بہتر بنانا بھی شامل ہے۔ ان اقدامات سے حکومت کو سماجی اور ترقیاتی اقدامات کے لیے مزید فنڈز مختص کرنے کا موقع ملے گا۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر و نامزد وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک سے غربت، بے روزگاری اور جہالت کے خاتمہ کے لیے مل کر جدوجہد کرنا ہوگی، سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے باہمی اتحاد کی جتنی ضرورت آج ہے اس سے پہلے نہ تھی، ہمیں معاشی استحکام کے لیے تمام تر اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکر کاوشیں کرنا ہوں گی۔
درحقیقت ہمیں بنیادی طور پر دانشمندانہ فیصلہ سازی کی ضرورت ہے۔ ماضی قریب میں گیس، پٹرولیم اور بجلی کی اصل قیمتوں سے کم قیمت وصول کی گئی جس سے گردشی قرضوں میں اضافہ ہوا جو اب ایک عفریت بن چکا ہے۔ معیشت کی بہتری سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ امکان ہے کہ پیپلز پارٹی غیر مقبول معاشی فیصلوں سے خود کو دور رکھے گی جب کہ مسلم لیگ ن چاہے گی کہ پیپلزپارٹی بھی مزید مہنگائی کرنے کی ذمے داری میں شریک ہو جس سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے چھ کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوں گے۔
پاکستان کے طرز حکمرانی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ غیر پیداواری اخراجات میں کمی نہیں کی جا سکتی جب کہ قرضوں کی ادائیگی کی جانی چاہیے اور آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے مطالبات کو بغیر کسی ہنگامہ آرائی کے قبول کیا جانا چاہیے لہٰذا حکومت کے پاس سکڑتے ہوئے سماجی شعبے پر کفایت شعاری کی تلوار دبانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔
حکومت ممکنہ طور پر ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کرے گی اور وفاقی اکائیوں کے حصے کو تبدیل کیا جائے گا جس سے وفاقی اخراجات کم کرنے میں مدد ملے گی۔ وفاقی حکومت صوبوں کی ادائیگی میں تاخیر کی بھی کوشش کرے گی جس سے صوبوں میں سماجی شعبے کی ترقی بھی متاثر ہوگی۔
جمہوریت کے قیام اور تسلسل کے لیے ناگزیر ہے کہ ملک کے سب ادارے اپنے طے شدہ فرائض تک خود کو محدود رکھیں، پارلیمنٹ ایک بااختیار ادارہ بنے، الیکشن کمیشن ایک آزاد ادارے کی حیثیت سے کام کرے، ملک کی عدلیہ سیاسی اداروں کو کام کرنے کا موقع دے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ جمہوریت کا بیج یکدم ایک تناور درخت نہیں بن سکتا، لہٰذا جمہوریت کے تجربے کو صبر کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ یہ پودا آہستہ آہستہ ہی پروان چڑھتا ہے اور ثمر بار ہوتا ہے۔