سیاسی مکالمے اور اتفاق رائے کی ضرورت
معیشت کی بحالی اور استحکام کے ایسے منصوبہ پر عمل کرنا ہوگا جس کے فوائد عام آدمی تک کم سے کم وقت میں پہنچنے چاہیے
ملک میں عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کا عمل تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، پنجاب اور سندھ میں منتخب وزرائے اعلیٰ نے اپنے، اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا ہے۔
مریم نواز دو سو بیس ووٹ لے کر وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوگئیں، وہ پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بنی ہیںجب کہ سید مراد علی شاہ صوبہ سندھ کے مسلسل تیسری بار وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ہیں۔
دوسری جانب صدر عارف علوی کی جانب سے اجلاس کی سمری مسترد کرنے پر اسپیکر پرویز اشرف نے قومی اسمبلی کا افتتاحی اجلاس 29 فروری کو طلب کر لیا ہے۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ نئی حکومت سازی کے مراحل تیزی سے طے ہو رہے ہیں، دو صوبائی حکومتیں قائم ہوچکی ہیں، باقی ماندہ مراحل بھی جلد طے ہوجائیں گے، قوی امید ہے کہ نئی حکومت لوگوں کے لیے بحران میں گھری معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے گی۔
اس وقت ملک میں تقریباً 40 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے، مہنگائی 30 فیصد سے زیادہ ہوچکی ہے۔ ایک سروے کے مطابق تقریباً 70 فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ معاشی حالات خراب ہو رہے ہیں۔
اسی پس منظر میں نو منتخب وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اپنے پہلے خطاب میں ہیلتھ کارڈ بحال، ایئر ایمبولینس سروس شروع، رمضان پیکیج، منشور پر فوری عمل کرنے کا اعلان خوش آیند اقدامات ہیں، جب کہ سندھ کے تیسری بار وزیراعلیٰ منتخب ہونے والے مراد علی شاہ کا اپنے خطاب میں یہ کہنا کہ '' سندھ کے عوام کی بلا امتیاز خدمت کریں گے، ہم اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلیں گے، سندھ میں ترقی منصوبوں کی رفتار تیزکی جائے گی۔ کچے کے علاقے میں آپریشن ہوگا اورکراچی میں اسٹریٹ کرائم کا قلع قمع کردیا جائے گا۔''
دونوں نومنتخب وزرائے اعلیٰ کی رائے صائب اور دانشمندانہ ترجیحات ہیں جن پر یقینا وہ عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے۔
درحقیقت یہ انتخابات ایک ایسے وقت میں ہوئے جب پچیس کروڑ آبادی والا ملک کم جی ڈی پی اور بلند افراط زر کی وجہ سے معاشی عدم استحکام سے دوچار ہے، یہ ملک کے ایک بڑے حصے کے لیے مالی مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ عسکریت پسندی کے دیگر عوامل میں کرنسی کا کمزور ہونا، ٹیکس کی کم وصولی اور سیاسی عدم استحکام شامل ہیں۔ ان شعبوں میں بہتری نئے الیکشن سے مشروط سمجھی جا رہی تھی۔
اگست 2023 میں اقتدار سنبھالنے والی عبوری حکومت نے IMF پروگرام کے تسلسل کو یقینی بنانے کے بنیادی چیلنج کا سامنا کیا۔ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام مارچ میں اختتام پذیر ہو رہا ہے۔ نئی وفاقی حکومت کا پہلا چیلنج ملک میں استحکام برقرار رکھنے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ معاملات کو طے کرنا ہے۔ پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی کے بحران کا سامنا ہے۔
آنے والی حکومت کو اخراجات کو کم کرنے اور بجٹ خسارے کو متوازن کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہو گی، یہ وہ چیلنجز ہیں جن کا حل نئی حکومت کو کرنا ہے۔
مالیاتی ماہرین توانائی کے ٹیرف، مہنگائی، شرح سود، روپے کے استحکام اور عالمی بینک، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین اور امریکا سمیت دیگر ڈونر ممالک کے ساتھ مذاکرات کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔ پاکستان کو استحکام کی ضرورت ہے جو حکومت میں شامل جماعتوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن بنچوں کا انتخاب کرنے والوں کی یکساں ذمے داری ہے۔
معیشت کی بحالی اور استحکام کے ایسے منصوبہ پر عمل کرنا ہوگا جس کے فوائد عام آدمی تک کم سے کم وقت میں پہنچنے چاہیے۔ ماضی میں یہی دیکھا گیا ہے کہ ان کی منصوبہ بندی سے اس سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی ترقی کے فوائد ملک میں صرف دوچار فیصد افراد تک محدود رہتے ہیں جب کہ ملک کی بیشتر آبادی کے شب و روز میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آتی۔
جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام کے منفی اثرات کا سدباب نہایت ضروری ہے اور اسی طرح سرمایہ، صنعت، تجارت اور جائیداد کے حوالے سے اصلاحات کا وضح کرنا بھی لازم ہے۔ معیشت کے تجزیہ نگار اور ماہرین کی ایک اکثریت ہر روز معاشی حالات کو بہتر کرنے کے نسخے بتا رہی ہوتی ہے مگر بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
ہمیں ایک ایسی اقتصادی حکمت عملی تشکیل دینی چاہیے جو مخصوص طبقات کے بجائے پوری قوم کی خوشحالی کا ذریعہ بنے۔ سرمایہ کاری سہولت کونسل نے غیر مُلکی سرمایہ کاری کے لیے ٹھوس اقدامات شروع کیے ہیں، متحدہ عرب امارات اور کویت کے ساتھ اربوں ڈالرکی مفاہمتی منظوری بھی ہوچکی ہے جو نئی حکومت کے لیے یقینا خوش آیند ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے اور ساتھ ہی امن و امان کی صورتحال بھی دور اندیشی سے مگر فیصلہ کن انداز میں اقدامات کی متقاضی ہے۔
نئی حکومت کو فوری طور پر جن معاشی چیلنجزکا سامنا ہو گا ان میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور توانائی بحران ختم کرنے کے علاوہ بجلی وگیس کی قیمتوں میں کمی کا چیلنج سب سے بڑا ہے۔
ان دو بڑے مسائل کی وجہ سے ہی پاکستان کی معاشی ترقی کا سفر ایک ہی دائرے میں گھوم رہا ہے۔ مالیاتی بحران کی وجہ سے جہاں پاکستان عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کا دست نگر بنا ہوا ہے وہیں توانائی کے بحران کی وجہ سے ملک میں معاشی سرگرمیاں منجمد ہیں۔ بجلی کی ترسیل اور اس حوالے سے ماضی میں کیے گئے معاہدوں کی وجہ سے بھی صارفین کو اضافی مالی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ شعبہ طویل عرصے سے اصلاحات کا متقاضی ہے لیکن ماضی میں ہر حکومت نے سیاسی دباؤ اور دیگر وجوہات کی بنا پر اس معاملے کو زیر التوا رکھا جس کی وجہ سے آج صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ گھریلو صارفین سے لے کر صنعت کاروں تک ہر کوئی بجلی اور گیس کے بھاری بلز سے عاجز آچکا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بجلی اور گیس کے نرخ کم کیے بغیر انڈسٹری کی بحالی ممکن نہیں۔ انڈسٹری کو فراہم کی جانے والی بجلی کی فی یونٹ قیمت میں گزشتہ چند ماہ کے دوران تقریبا 30 سے 40 روپے فی یونٹ کا اضافہ ہو چکا ہے جس سے صنعتی اداروں کی پیداواری لاگت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
توانائی بحران، روپے کی قدر میں کمی اور پیداواری لاگت میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے تنخواہ دار درمیانہ طبقہ اور کاروباری طبقہ دونوں پریشان ہیں جب کہ صنعتی ادارے ان مشکل معاشی حالات میں بھی کام جاری رکھے ہوئے ہیں، ان کی بندش کا خطرہ بھی سروں پر منڈلا رہا ہے۔
بجلی اور گیس کی قیمتوں میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران جس قدر تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اس کی وجہ سے یہ ممکن نہیں رہا کہ کوئی بھی انڈسٹری کام جاری رکھ سکے۔ اس سلسلے میں عام آدمی اور انڈسٹری کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے نئی حکومت کو چاہیے کہ بجلی کے نرخوں میں فوری کمی کے لیے بجلی چوری اور لائن لاسز پر قابو پانے کے علاوہ آئی پی پیز کا آڈٹ کر کے کک بیک لینے والوں سے لوٹی گئی قومی دولت واپس لے۔
عوام مہنگائی سے تنگ آچکے ہیں لیکن اشیاء کی قیمتیں بڑھنے کا سلسلہ رک ہی نہیں رہا۔ خاص طور پر رمضان کی آمد سے قبل اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے۔
یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ جس مبارک مہینے میں لوگوں کو ریلیف ملنا چاہیے اس کے آنے سے پہلے ہی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس اضافے میں ایک بڑا حصہ منافع خور مافیا کا ہے جو کسی قاعدے ضابطے کا خیال نہیں کرتا اور جب چاہتا ہے اشیاء کی قیمتوں بڑھا دیتا ہے۔
یہ بہت اچھی بات ہے کہ نامزد وزیراعظم محمد شہباز شریف کو نہ صرف معاشی مسائل کا احساس و ادراک ہے بلکہ وہ سب کے ساتھ مل کر ان مسائل پر قابو پانے کے لیے کام بھی کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت ہماری معیشت جس حالت میں ہے وہ اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ مختلف سیاسی جماعتیں آپس میں الجھی رہیں اور معاشی مسائل کو مزید بگڑنے دیا جائے۔
اس صورتحال میں سیاسی قائدین کو اپنے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک اور عوام کی بھلائی کے لیے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر میثاقِ معیشت کرنا چاہیے تاکہ ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)، عالمی بینک اور دیگر ایسے ہی ادارے اور ممالک ایک حد تک تو ہماری مدد کرسکتے ہیں لیکن اس سے آگے ہمیں اپنی مدد آپ کرنا ہوگی۔
پاکستان مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ ایسے حالات میں ملک کو آگے لے جانے کے مستقبل کے نقطہ نظر کے ساتھ ایک عظیم سیاسی مکالمے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو موجودہ مسائل سے کوئی سیاسی جماعت تنہا نہیں نکال سکتی، اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ایک نیا سیاسی اتفاق رائے پیدا ہو۔
مریم نواز دو سو بیس ووٹ لے کر وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوگئیں، وہ پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بنی ہیںجب کہ سید مراد علی شاہ صوبہ سندھ کے مسلسل تیسری بار وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ہیں۔
دوسری جانب صدر عارف علوی کی جانب سے اجلاس کی سمری مسترد کرنے پر اسپیکر پرویز اشرف نے قومی اسمبلی کا افتتاحی اجلاس 29 فروری کو طلب کر لیا ہے۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ نئی حکومت سازی کے مراحل تیزی سے طے ہو رہے ہیں، دو صوبائی حکومتیں قائم ہوچکی ہیں، باقی ماندہ مراحل بھی جلد طے ہوجائیں گے، قوی امید ہے کہ نئی حکومت لوگوں کے لیے بحران میں گھری معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے گی۔
اس وقت ملک میں تقریباً 40 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے، مہنگائی 30 فیصد سے زیادہ ہوچکی ہے۔ ایک سروے کے مطابق تقریباً 70 فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ معاشی حالات خراب ہو رہے ہیں۔
اسی پس منظر میں نو منتخب وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اپنے پہلے خطاب میں ہیلتھ کارڈ بحال، ایئر ایمبولینس سروس شروع، رمضان پیکیج، منشور پر فوری عمل کرنے کا اعلان خوش آیند اقدامات ہیں، جب کہ سندھ کے تیسری بار وزیراعلیٰ منتخب ہونے والے مراد علی شاہ کا اپنے خطاب میں یہ کہنا کہ '' سندھ کے عوام کی بلا امتیاز خدمت کریں گے، ہم اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلیں گے، سندھ میں ترقی منصوبوں کی رفتار تیزکی جائے گی۔ کچے کے علاقے میں آپریشن ہوگا اورکراچی میں اسٹریٹ کرائم کا قلع قمع کردیا جائے گا۔''
دونوں نومنتخب وزرائے اعلیٰ کی رائے صائب اور دانشمندانہ ترجیحات ہیں جن پر یقینا وہ عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے۔
درحقیقت یہ انتخابات ایک ایسے وقت میں ہوئے جب پچیس کروڑ آبادی والا ملک کم جی ڈی پی اور بلند افراط زر کی وجہ سے معاشی عدم استحکام سے دوچار ہے، یہ ملک کے ایک بڑے حصے کے لیے مالی مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ عسکریت پسندی کے دیگر عوامل میں کرنسی کا کمزور ہونا، ٹیکس کی کم وصولی اور سیاسی عدم استحکام شامل ہیں۔ ان شعبوں میں بہتری نئے الیکشن سے مشروط سمجھی جا رہی تھی۔
اگست 2023 میں اقتدار سنبھالنے والی عبوری حکومت نے IMF پروگرام کے تسلسل کو یقینی بنانے کے بنیادی چیلنج کا سامنا کیا۔ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام مارچ میں اختتام پذیر ہو رہا ہے۔ نئی وفاقی حکومت کا پہلا چیلنج ملک میں استحکام برقرار رکھنے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ معاملات کو طے کرنا ہے۔ پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی کے بحران کا سامنا ہے۔
آنے والی حکومت کو اخراجات کو کم کرنے اور بجٹ خسارے کو متوازن کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہو گی، یہ وہ چیلنجز ہیں جن کا حل نئی حکومت کو کرنا ہے۔
مالیاتی ماہرین توانائی کے ٹیرف، مہنگائی، شرح سود، روپے کے استحکام اور عالمی بینک، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین اور امریکا سمیت دیگر ڈونر ممالک کے ساتھ مذاکرات کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔ پاکستان کو استحکام کی ضرورت ہے جو حکومت میں شامل جماعتوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن بنچوں کا انتخاب کرنے والوں کی یکساں ذمے داری ہے۔
معیشت کی بحالی اور استحکام کے ایسے منصوبہ پر عمل کرنا ہوگا جس کے فوائد عام آدمی تک کم سے کم وقت میں پہنچنے چاہیے۔ ماضی میں یہی دیکھا گیا ہے کہ ان کی منصوبہ بندی سے اس سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی ترقی کے فوائد ملک میں صرف دوچار فیصد افراد تک محدود رہتے ہیں جب کہ ملک کی بیشتر آبادی کے شب و روز میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آتی۔
جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام کے منفی اثرات کا سدباب نہایت ضروری ہے اور اسی طرح سرمایہ، صنعت، تجارت اور جائیداد کے حوالے سے اصلاحات کا وضح کرنا بھی لازم ہے۔ معیشت کے تجزیہ نگار اور ماہرین کی ایک اکثریت ہر روز معاشی حالات کو بہتر کرنے کے نسخے بتا رہی ہوتی ہے مگر بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
ہمیں ایک ایسی اقتصادی حکمت عملی تشکیل دینی چاہیے جو مخصوص طبقات کے بجائے پوری قوم کی خوشحالی کا ذریعہ بنے۔ سرمایہ کاری سہولت کونسل نے غیر مُلکی سرمایہ کاری کے لیے ٹھوس اقدامات شروع کیے ہیں، متحدہ عرب امارات اور کویت کے ساتھ اربوں ڈالرکی مفاہمتی منظوری بھی ہوچکی ہے جو نئی حکومت کے لیے یقینا خوش آیند ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے اور ساتھ ہی امن و امان کی صورتحال بھی دور اندیشی سے مگر فیصلہ کن انداز میں اقدامات کی متقاضی ہے۔
نئی حکومت کو فوری طور پر جن معاشی چیلنجزکا سامنا ہو گا ان میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور توانائی بحران ختم کرنے کے علاوہ بجلی وگیس کی قیمتوں میں کمی کا چیلنج سب سے بڑا ہے۔
ان دو بڑے مسائل کی وجہ سے ہی پاکستان کی معاشی ترقی کا سفر ایک ہی دائرے میں گھوم رہا ہے۔ مالیاتی بحران کی وجہ سے جہاں پاکستان عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کا دست نگر بنا ہوا ہے وہیں توانائی کے بحران کی وجہ سے ملک میں معاشی سرگرمیاں منجمد ہیں۔ بجلی کی ترسیل اور اس حوالے سے ماضی میں کیے گئے معاہدوں کی وجہ سے بھی صارفین کو اضافی مالی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ شعبہ طویل عرصے سے اصلاحات کا متقاضی ہے لیکن ماضی میں ہر حکومت نے سیاسی دباؤ اور دیگر وجوہات کی بنا پر اس معاملے کو زیر التوا رکھا جس کی وجہ سے آج صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ گھریلو صارفین سے لے کر صنعت کاروں تک ہر کوئی بجلی اور گیس کے بھاری بلز سے عاجز آچکا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بجلی اور گیس کے نرخ کم کیے بغیر انڈسٹری کی بحالی ممکن نہیں۔ انڈسٹری کو فراہم کی جانے والی بجلی کی فی یونٹ قیمت میں گزشتہ چند ماہ کے دوران تقریبا 30 سے 40 روپے فی یونٹ کا اضافہ ہو چکا ہے جس سے صنعتی اداروں کی پیداواری لاگت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
توانائی بحران، روپے کی قدر میں کمی اور پیداواری لاگت میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے تنخواہ دار درمیانہ طبقہ اور کاروباری طبقہ دونوں پریشان ہیں جب کہ صنعتی ادارے ان مشکل معاشی حالات میں بھی کام جاری رکھے ہوئے ہیں، ان کی بندش کا خطرہ بھی سروں پر منڈلا رہا ہے۔
بجلی اور گیس کی قیمتوں میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران جس قدر تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اس کی وجہ سے یہ ممکن نہیں رہا کہ کوئی بھی انڈسٹری کام جاری رکھ سکے۔ اس سلسلے میں عام آدمی اور انڈسٹری کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے نئی حکومت کو چاہیے کہ بجلی کے نرخوں میں فوری کمی کے لیے بجلی چوری اور لائن لاسز پر قابو پانے کے علاوہ آئی پی پیز کا آڈٹ کر کے کک بیک لینے والوں سے لوٹی گئی قومی دولت واپس لے۔
عوام مہنگائی سے تنگ آچکے ہیں لیکن اشیاء کی قیمتیں بڑھنے کا سلسلہ رک ہی نہیں رہا۔ خاص طور پر رمضان کی آمد سے قبل اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے۔
یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ جس مبارک مہینے میں لوگوں کو ریلیف ملنا چاہیے اس کے آنے سے پہلے ہی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس اضافے میں ایک بڑا حصہ منافع خور مافیا کا ہے جو کسی قاعدے ضابطے کا خیال نہیں کرتا اور جب چاہتا ہے اشیاء کی قیمتوں بڑھا دیتا ہے۔
یہ بہت اچھی بات ہے کہ نامزد وزیراعظم محمد شہباز شریف کو نہ صرف معاشی مسائل کا احساس و ادراک ہے بلکہ وہ سب کے ساتھ مل کر ان مسائل پر قابو پانے کے لیے کام بھی کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت ہماری معیشت جس حالت میں ہے وہ اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ مختلف سیاسی جماعتیں آپس میں الجھی رہیں اور معاشی مسائل کو مزید بگڑنے دیا جائے۔
اس صورتحال میں سیاسی قائدین کو اپنے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک اور عوام کی بھلائی کے لیے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر میثاقِ معیشت کرنا چاہیے تاکہ ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)، عالمی بینک اور دیگر ایسے ہی ادارے اور ممالک ایک حد تک تو ہماری مدد کرسکتے ہیں لیکن اس سے آگے ہمیں اپنی مدد آپ کرنا ہوگی۔
پاکستان مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ ایسے حالات میں ملک کو آگے لے جانے کے مستقبل کے نقطہ نظر کے ساتھ ایک عظیم سیاسی مکالمے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو موجودہ مسائل سے کوئی سیاسی جماعت تنہا نہیں نکال سکتی، اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ایک نیا سیاسی اتفاق رائے پیدا ہو۔