ایک پیدائشی باغی کی کہانی آخری حصہ
بوس ایک بہت دور تک دیکھنے والے رہنما اور دانشور تھے اور رنگ نسل، ذات پات اور مذہبی تفریق سے بالاتر سوچ رکھتے تھے
آزاد ہندوستان کی علامتی حکومت کے قیام پر سنگار پور سے جاری اعلان نامے میں سبھاش چندر بوس نے کہا تھا،''آزادی ہند کی منزل قریب ہے۔
ہندوستانی عوام کا فرض ہے کہ وہ اپنی ایک عارضی گورنمنٹ بنالیں اور اپنی جنگ آزادی کی اس آخری جدوجہد کو عارضی حکومت کے جھنڈے تلے ہی شروع کریں، لیکن چونکہ آج کل ہندوستان کے تمام لیڈر جیل کی چار دیواری میں بند ہیں اور دوسرے وہاں عوام بالکل غیر مسلح ہیں۔
اس لیے اس بات کا قطعی امکان نہیں کہ ہندوستان کی سرزمین پر عارضی حکومت بنائی جائے لہٰذا اس کام کی ذمے داری اب انڈین انڈیپنڈس لیگ پر عائد ہوتی ہے جو مشرقی ایشیا میں قائم ہے اور جسے ہندوستان اور بیرون ہندوستان کے تمام محب وطن ہندوستانیوں کی ہمدردی حاصل ہے۔''
چونکہ اس لیگ نے یہ عارضی حکومت قائم کر دی ہے اور ہم لوگوں کو اس حکومت کے عہدیدار مقررکیا ہے۔ اس لیے ہم پورے احساس ذمے داری کے ساتھ اپنے تمام فرائض کو ادا کرنے کا ذمے لیتے ہیں، جو ہم پر عائد ہوتے ہیں۔ پرماتما سے پرارتھنا ہے کہ وہ مادر وطن کی آزادی کے لیے ہماری جدوجہد کو مقبول بنائیں۔
اس عارضی حکومت کا فرض ہے کہ وہ ہندوستان کی سرزمین کو انگریزوں اور ان کے اتحادیوں کے منحوس وجود سے نجات دلانے کے لیے جدوجہد شروع کرے اور مقصد میں کامیاب ہونے کے بعد اس عارضی حکومت کا یہ فرض ہوگا کہ وہ آزاد ہندوستان میں ہندوستانیوں کی مرضی کے مطابق ایک مستقل حکومت بنائے جسے ہندوستان کے تمام باشندوں کا اعتماد حاصل ہو۔
جب تک ہندوستان میں یہ مستقل حکومت قائم نہ ہو، یہ عارضی حکومت ہندوستانی عوام کی امانت کے طور پر ملک کے معاملات کا انتظام کرے گی۔ ان حالات میں عارضی حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہر ہندوستانی سے اطاعت وفرمانبرداری کا مطالبہ کرے۔ عارضی حکومت ان تمام اختلافات کو ختم کردے گی۔
ان تمام ہمدروں کے خلاف جو ہندوستان میں موجود ہیں۔ ایک آخری جنگ لڑنے کی دعوت دیتے ہیں اور ان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی جنگ بہادری اور استقلال کے ساتھ جاری رکھیں گے اور اپنے اس یقین و ایمان کو کبھی متزلزل نہ ہونے دیں گے کہ آخری فتح انھی کے ہاتھ ہے۔ ہماری یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک سر زمین ہند دشمنوں سے خالی نہ ہوجائے اور ہندوستانی قوم ایک مرتبہ آزادی کی فضا میں سانس نہ لینے لگے۔''
عارضی حکومت کے عہدیداروں کی تفصیل ذیل میں دی جاتی ہے۔
-1 شری سبھاش چندر بوس ،صدر، وزیر اعظم، وزیر جنگ اور امور خارجہ -2 لیفٹیننٹ کرنل اے سی چیٹر جی، وزیر مالیات۔ -3 مسٹر ایس اے آئر، وزیر پراپیگنڈہ، -4 کیپٹن مس لکشمی، انچارج محکمہ خواتین۔
نمایندگان فوج
-5 لیفٹیننٹ کرنل عزیز احمد،-6 لیفٹیننٹ کرنل این ایس بھگت،-7 لیفٹیننٹ کرنل بھونسلے،-8 لیفٹیننٹ کرنل گلزار سنگھ،-9 لیفٹیننٹ کرنل ایم زیڈ کیانی۔-10 کرنل لوک ناتھن۔-11 لیفٹیننٹ کرنل احسان قادر،-12 جنرل شاہنواز۔-13 مسٹر اے ایم سہائے وزیر۔ -14 شری راش بہاری بوس۔ مشیر اعلیٰ۔ -15 مسٹر اے این سرکار، مشیر قانون ۔ -16 مسٹر کریم غنی۔ -17 مسٹر دیناناتھ۔ -18 اے الپا۔ -19 مسٹر ڈی ایم خان۔ -20 مسٹر جے تھوی -21 سردار ایشر سنگھ
عارضی گورنمنٹ کے قیام پر ہندوستانیوں کے نام جو پیغام جاری کیا گیا تھا۔ ان پر ان سب اصحاب کے دستخط تھے۔ اس حکومت کے قیام کے بعد نیتا جی نے مندرجہ ذیل حلف اٹھایا۔
''میں سبھاش چندر بوس، پرماتما ،آزاد ہند اور 40 کروڑ ہندوستانیوں کے نام سے حلف لیتا ہوں کہ میں اس عہد پر مرتے دم تک عمل کروں گا اور اپنے ملک کی آزادی کے لیے ہمیشہ کوشش کروں گا۔ نیز ہندوستان کی آزادی کے بعد بھی اپنے وطن کی خدمت کے لیے تیار رہوں گا۔''
عارضی حکومت کے کام کو تقویت پہنچانے اور توسیع دینے ، جنگی کوششوں کو فروغ دینے اور دشمن پر حملے کے پروگرام وغیرہ کو مرتب کرنے کے لیے ایک وار کونسل بنائی گئی تھی۔ اس کونسل کے ممبران حسب ذیل تھے۔
-1 کرنل بھونسلے۔ -2 محمد زمان کیانی۔ -3 لیفٹیننٹ کرنل احسان احمد -4 لیفٹیننٹ کرنل عزیز احمد خان -5 لیفٹیننٹ کرنل حبیب الرحمان، -6 لیفٹیننٹ کرنل گلزار سنگھ ،-7 کپتان مسز لکشمی۔ -8 شری این راگھون، -9 شری۔ ایس۔ اے آئر۔ -10 شر پرمانند، -11 کرنل اے۔ سی چیٹر جی (سیکریٹری)، -12بعدازاں ایک اور ممبر کا اضافہ کیا گیا۔ ان کا نام اے الپا تھا۔ نیتا جی سبھاش چندر بوس آزاد ہند فوج کے سپریم کمانڈر منتخب کیے گئے تھے۔ چیف آف دی جنرل اسٹاف میجر جنرل بھونسلے اور اسسٹنٹ آف دی جنرل اسٹاف کرنل حبیب الرحمان تھے۔
سبھاش چندر بوس نے برما کے دارالحکومت رنگون پہنچ کر بہادر شاہ ظفر کے مزار پر حاضری دی اور یہ عہد کیا کہ جب وہ ہندوستان سے انگریزوں کو نکال دیں گے تو اپنے بادشاہ کا جسد خاکی تعظیم و تکریم کے ساتھ دلّی لے جائیں گے۔ سبھاش ایک ایسے سچے قوم پرست تھے جن کے لیے اشوک اعظم اور اکبر اعظم میںکوئی فرق نہ تھا۔ شہید ٹیپو سلطان ، آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر، حضرت محل ، جھانسی کی رانی اور راجہ کنور سنگھ ان کے ہیرو تھے۔
ان کی انتہا کو پہنچی ہوئی قوم پرستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1757 میں پلاسی میں شکست کھانے والے نواب سراج الدولہ کو وہ جنگ آزادی کا پہلا شہید کہتے تھے۔ بوس نے انڈیمان میں پہلی آزاد ہند حکومت قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ وہ اس حکومت کے وزیر اعظم، وزیر دفاع اور وزیر خارجہ تھے۔ اس کے علاوہ بھی کئی لوگ اس حکومت کے وزیر تھے۔ اس حکومت نے اپنا الگ بینک قائم کیا، کرنسی نوٹ اور ڈاک کا ٹکٹ جاری کیا۔
ان کے بینک میں 40 کلو سونا اورکروڑوں روپے جمع ہوگئے جس کا باقاعدہ حساب کتاب رکھا گیا تھا۔ اس بینک کا نام آزادہند بینک رکھاگیا تھا جس نے 10 روپے سے لے کر ایک لاکھ روپے تک کے نوٹ جاری کیے تھے۔ ان کی حکومت کو دنیا کے نوملکوں نے تسلیم کیا تھا اور کئی ملکوں میں اس کی سفارتخانے بھی قائم کر دیے گئے تھے۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ بوس ایک بہت دور تک دیکھنے والے رہنما اور دانشور تھے اور رنگ نسل، ذات پات اور مذہبی تفریق سے بالاتر سوچ رکھتے تھے۔ ان کا واحد مقصد غلامی سے نجات تھا۔ اس مقصد کے لیے ان کی آزاد ہند فوج نے برما کے محاذ پر برطانوی فوجوں سے زبردست لڑائی لڑی۔
سبھاش چندر بوس کسی ہوائی حادثے میں 1945 میں ہلاک ہوئے یا ان کے آخری لمحات بندی خانے میں گزرے، یا وہ روپوشی کے دن گزار کر کسی حادثے کا شکار ہوئے، کوئی نہیں جانتا۔ ان کی زندگی لوگوں کے لیے ایک کھلی کتاب رہی لیکن موت آج تک ایک سربستہ راز ہے۔
ہندوستانی عوام کا فرض ہے کہ وہ اپنی ایک عارضی گورنمنٹ بنالیں اور اپنی جنگ آزادی کی اس آخری جدوجہد کو عارضی حکومت کے جھنڈے تلے ہی شروع کریں، لیکن چونکہ آج کل ہندوستان کے تمام لیڈر جیل کی چار دیواری میں بند ہیں اور دوسرے وہاں عوام بالکل غیر مسلح ہیں۔
اس لیے اس بات کا قطعی امکان نہیں کہ ہندوستان کی سرزمین پر عارضی حکومت بنائی جائے لہٰذا اس کام کی ذمے داری اب انڈین انڈیپنڈس لیگ پر عائد ہوتی ہے جو مشرقی ایشیا میں قائم ہے اور جسے ہندوستان اور بیرون ہندوستان کے تمام محب وطن ہندوستانیوں کی ہمدردی حاصل ہے۔''
چونکہ اس لیگ نے یہ عارضی حکومت قائم کر دی ہے اور ہم لوگوں کو اس حکومت کے عہدیدار مقررکیا ہے۔ اس لیے ہم پورے احساس ذمے داری کے ساتھ اپنے تمام فرائض کو ادا کرنے کا ذمے لیتے ہیں، جو ہم پر عائد ہوتے ہیں۔ پرماتما سے پرارتھنا ہے کہ وہ مادر وطن کی آزادی کے لیے ہماری جدوجہد کو مقبول بنائیں۔
اس عارضی حکومت کا فرض ہے کہ وہ ہندوستان کی سرزمین کو انگریزوں اور ان کے اتحادیوں کے منحوس وجود سے نجات دلانے کے لیے جدوجہد شروع کرے اور مقصد میں کامیاب ہونے کے بعد اس عارضی حکومت کا یہ فرض ہوگا کہ وہ آزاد ہندوستان میں ہندوستانیوں کی مرضی کے مطابق ایک مستقل حکومت بنائے جسے ہندوستان کے تمام باشندوں کا اعتماد حاصل ہو۔
جب تک ہندوستان میں یہ مستقل حکومت قائم نہ ہو، یہ عارضی حکومت ہندوستانی عوام کی امانت کے طور پر ملک کے معاملات کا انتظام کرے گی۔ ان حالات میں عارضی حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہر ہندوستانی سے اطاعت وفرمانبرداری کا مطالبہ کرے۔ عارضی حکومت ان تمام اختلافات کو ختم کردے گی۔
ان تمام ہمدروں کے خلاف جو ہندوستان میں موجود ہیں۔ ایک آخری جنگ لڑنے کی دعوت دیتے ہیں اور ان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی جنگ بہادری اور استقلال کے ساتھ جاری رکھیں گے اور اپنے اس یقین و ایمان کو کبھی متزلزل نہ ہونے دیں گے کہ آخری فتح انھی کے ہاتھ ہے۔ ہماری یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک سر زمین ہند دشمنوں سے خالی نہ ہوجائے اور ہندوستانی قوم ایک مرتبہ آزادی کی فضا میں سانس نہ لینے لگے۔''
عارضی حکومت کے عہدیداروں کی تفصیل ذیل میں دی جاتی ہے۔
-1 شری سبھاش چندر بوس ،صدر، وزیر اعظم، وزیر جنگ اور امور خارجہ -2 لیفٹیننٹ کرنل اے سی چیٹر جی، وزیر مالیات۔ -3 مسٹر ایس اے آئر، وزیر پراپیگنڈہ، -4 کیپٹن مس لکشمی، انچارج محکمہ خواتین۔
نمایندگان فوج
-5 لیفٹیننٹ کرنل عزیز احمد،-6 لیفٹیننٹ کرنل این ایس بھگت،-7 لیفٹیننٹ کرنل بھونسلے،-8 لیفٹیننٹ کرنل گلزار سنگھ،-9 لیفٹیننٹ کرنل ایم زیڈ کیانی۔-10 کرنل لوک ناتھن۔-11 لیفٹیننٹ کرنل احسان قادر،-12 جنرل شاہنواز۔-13 مسٹر اے ایم سہائے وزیر۔ -14 شری راش بہاری بوس۔ مشیر اعلیٰ۔ -15 مسٹر اے این سرکار، مشیر قانون ۔ -16 مسٹر کریم غنی۔ -17 مسٹر دیناناتھ۔ -18 اے الپا۔ -19 مسٹر ڈی ایم خان۔ -20 مسٹر جے تھوی -21 سردار ایشر سنگھ
عارضی گورنمنٹ کے قیام پر ہندوستانیوں کے نام جو پیغام جاری کیا گیا تھا۔ ان پر ان سب اصحاب کے دستخط تھے۔ اس حکومت کے قیام کے بعد نیتا جی نے مندرجہ ذیل حلف اٹھایا۔
''میں سبھاش چندر بوس، پرماتما ،آزاد ہند اور 40 کروڑ ہندوستانیوں کے نام سے حلف لیتا ہوں کہ میں اس عہد پر مرتے دم تک عمل کروں گا اور اپنے ملک کی آزادی کے لیے ہمیشہ کوشش کروں گا۔ نیز ہندوستان کی آزادی کے بعد بھی اپنے وطن کی خدمت کے لیے تیار رہوں گا۔''
عارضی حکومت کے کام کو تقویت پہنچانے اور توسیع دینے ، جنگی کوششوں کو فروغ دینے اور دشمن پر حملے کے پروگرام وغیرہ کو مرتب کرنے کے لیے ایک وار کونسل بنائی گئی تھی۔ اس کونسل کے ممبران حسب ذیل تھے۔
-1 کرنل بھونسلے۔ -2 محمد زمان کیانی۔ -3 لیفٹیننٹ کرنل احسان احمد -4 لیفٹیننٹ کرنل عزیز احمد خان -5 لیفٹیننٹ کرنل حبیب الرحمان، -6 لیفٹیننٹ کرنل گلزار سنگھ ،-7 کپتان مسز لکشمی۔ -8 شری این راگھون، -9 شری۔ ایس۔ اے آئر۔ -10 شر پرمانند، -11 کرنل اے۔ سی چیٹر جی (سیکریٹری)، -12بعدازاں ایک اور ممبر کا اضافہ کیا گیا۔ ان کا نام اے الپا تھا۔ نیتا جی سبھاش چندر بوس آزاد ہند فوج کے سپریم کمانڈر منتخب کیے گئے تھے۔ چیف آف دی جنرل اسٹاف میجر جنرل بھونسلے اور اسسٹنٹ آف دی جنرل اسٹاف کرنل حبیب الرحمان تھے۔
سبھاش چندر بوس نے برما کے دارالحکومت رنگون پہنچ کر بہادر شاہ ظفر کے مزار پر حاضری دی اور یہ عہد کیا کہ جب وہ ہندوستان سے انگریزوں کو نکال دیں گے تو اپنے بادشاہ کا جسد خاکی تعظیم و تکریم کے ساتھ دلّی لے جائیں گے۔ سبھاش ایک ایسے سچے قوم پرست تھے جن کے لیے اشوک اعظم اور اکبر اعظم میںکوئی فرق نہ تھا۔ شہید ٹیپو سلطان ، آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر، حضرت محل ، جھانسی کی رانی اور راجہ کنور سنگھ ان کے ہیرو تھے۔
ان کی انتہا کو پہنچی ہوئی قوم پرستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1757 میں پلاسی میں شکست کھانے والے نواب سراج الدولہ کو وہ جنگ آزادی کا پہلا شہید کہتے تھے۔ بوس نے انڈیمان میں پہلی آزاد ہند حکومت قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ وہ اس حکومت کے وزیر اعظم، وزیر دفاع اور وزیر خارجہ تھے۔ اس کے علاوہ بھی کئی لوگ اس حکومت کے وزیر تھے۔ اس حکومت نے اپنا الگ بینک قائم کیا، کرنسی نوٹ اور ڈاک کا ٹکٹ جاری کیا۔
ان کے بینک میں 40 کلو سونا اورکروڑوں روپے جمع ہوگئے جس کا باقاعدہ حساب کتاب رکھا گیا تھا۔ اس بینک کا نام آزادہند بینک رکھاگیا تھا جس نے 10 روپے سے لے کر ایک لاکھ روپے تک کے نوٹ جاری کیے تھے۔ ان کی حکومت کو دنیا کے نوملکوں نے تسلیم کیا تھا اور کئی ملکوں میں اس کی سفارتخانے بھی قائم کر دیے گئے تھے۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ بوس ایک بہت دور تک دیکھنے والے رہنما اور دانشور تھے اور رنگ نسل، ذات پات اور مذہبی تفریق سے بالاتر سوچ رکھتے تھے۔ ان کا واحد مقصد غلامی سے نجات تھا۔ اس مقصد کے لیے ان کی آزاد ہند فوج نے برما کے محاذ پر برطانوی فوجوں سے زبردست لڑائی لڑی۔
سبھاش چندر بوس کسی ہوائی حادثے میں 1945 میں ہلاک ہوئے یا ان کے آخری لمحات بندی خانے میں گزرے، یا وہ روپوشی کے دن گزار کر کسی حادثے کا شکار ہوئے، کوئی نہیں جانتا۔ ان کی زندگی لوگوں کے لیے ایک کھلی کتاب رہی لیکن موت آج تک ایک سربستہ راز ہے۔