سیاسی مفادات ہی بالا کیوں
اگر یہ دونوں چاہتے تو مولانا کو موجودہ نظام کا حصہ بنا سکتے تھے
ماضی میں اقتدار کی باریاں لینے والی دو بڑی پارٹیوں نے نئی حکومت کے لیے اپنے سیاسی مفادات طے کر لیے ہیں جب کہ ان دونوں پارٹیوں سے زیادہ نشستیں جیتنے کی دعویدار پی ٹی آئی دونوں بڑی پارٹیوں کی مخالفت میں الگ رہ کر اپنی وہی سیاست کر رہی ہے جو وہ ماضی سے کرتی آ رہی ہے مگر اپنی غلط پالیسیوں اور منفی رویے کے باعث پی ٹی آئی اب یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ اسے اب اپنی سیاسی تنہائی ختم کرکے دیگر پارٹیوں کو ساتھ ملانا ہوگا اور یہ موقع پی ٹی آئی کو اب 8فروری کے متنازع انتخابات نے فراہم کر دیا ہے اور اس نے دونوں بڑی پارٹیوں کے بجائے چھوٹی پارٹیوں سے قربت بڑھانا شروع کردی ہے جس کی ابتدا پی ٹی آئی نے اپنے شدید ناقد مولانا فضل الرحمن سے مل کر کی اور بعد میں اپنے دیگر چھوٹے مخالف رہنماؤں خصوصاً محمود خان اچکزئی کے پاس بھی اپنے رہنما بھیج دیے مگر پیپلز پارٹی کی طرف سے مفاہمتی پیغام کے باوجود بانی پی ٹی آئی نے سیاسی مخالفت میں کمی نہیں آنے دی اور مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ مفاہمت سے صاف انکار کرکے ثابت کر دیا کہ انھوں نے ان تینوں جماعتوں سے مزاحمت جاری رکھنی ہے۔
بانی پی ٹی آئی ان تینوں سے شدید ناراض ہیں کہ ان تینوں پارٹیوں نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرائی تھی مگر تحریک اعتماد پیش کرنے والی پی ڈی ایم کے سربراہ تو مولانا فضل الرحمن تھے تو مولانا کے پاس اپنے رہنما بھیجنا اور باقی تین بڑی پارٹیوں سے ملنے سے صاف انکار صاف ظاہر کرتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے 6 ماہ جیل میں گزار کر بھی حالات سے سبق نہیں سیکھا اور وہ ان تینوں پارٹیوں سے اس لیے تعلق بحال کرنا نہیں چاہتے کہ پی پی اور مسلم لیگ (ن) نے سندھ و پنجاب میں اپنی حکومتیں بنا لی ہیں اور دونوں کی وفاقی حکومت کی پی ٹی آئی نے سخت اپوزیشن کرنی ہے۔
مولانا فضل الرحمن کے ساتھ الیکشن میں جو ہوا وہ مولانا کے لیے غیر متوقع تھا حالانکہ کے پی میں مولانا کا سمدھی گورنر اور مرضی کی نگراں حکومت تھی۔
اپنے آبائی حلقے ڈی آئی خان میں پی ٹی آئی امیدوار سے دوسری بار ہارنا مولانا کے لیے پریشانی کا باعث بنا۔ کے پی مولانا کا گڑھ ہے جہاں حکومت پی ٹی آئی کی ہو گی اور اب مولانا پہلی بار اپنے سابق حلیفوں کی حکومت میں اپوزیشن میں بیٹھیں گے اور انھوں نے آئینی عہدوں سے باہر رہنے کا اعلان کر دیا ہے اور وہ بھی پی ٹی آئی کے ساتھ ایوانوں میں موجود تو ہوں گے مگر نظام سے باہر رہیں گے۔
مولانا کے سابق حلیفوں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے بھی جے یو آئیکو اپنی حکومت سازی سے دور رکھا۔ اگر یہ دونوں چاہتے تو مولانا کو موجودہ نظام کا حصہ بنا سکتے تھے۔ بلوچستان میں پی پی، مسلم لیگ اور جے یو آئی کی تقریباً یکساں نشستیں تھیں مگر سیاسی مفاد مقدم رکھا گیا۔ پی پی اور (ن) لیگی قیادت مل کر مولانا کو منا سکتی تھیں اور جے یو آئی کو بلوچستان کی وزارت اعلیٰ دے کر تینوں پرانے اتحادی اکٹھے چل سکتے تھے۔
آصف زرداری اب خود دوبارہ صدر مملکت ہوں گے۔ پنجاب و کے پی کی گورنر شپ بھی ملے گی اور صوبائی اسمبلیوں اور حکومتوں میں حصہ بھی اور بعد میں وفاقی وزارتوں میں پیپلز پارٹی بھی نمایاں نظر آئے گی۔
پنجاب و سندھ میں اکثریت کے باعث مسلم لیگ (ن) اور پی پی کے وزیر اعلیٰ آ چکے اگر وفاقی اقتدار کے حصول کی خواہشمند مسلم لیگ (ن) آصف زرداری کو قائل کر لیتی کہ ہمیں اپنے پرانے اتحادیوں ایم کیو ایم، مولانا فضل الرحمن و دیگر کو بھی ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرنی چاہیے اور پہلے کی طرح پی ٹی آئی کے خلاف متحد رہنا چاہیے تو ایسا ہونے پر ممکن تھا کہ سیاسی کشیدگی کچھ کم ہو جاتی۔پی ٹی آئی کو اگر حقائق اور ملکی مفاد کا احساس ہوتا تو وہ پی پی اور (ن) لیگ سے مل کر عوام کا بھلا سوچتی۔ اس بار پی ٹی آئی کو ووٹ حکومتی حماقتوں کے باعث ہمدردی کا ملا ہے۔ اب انھیں چور ڈاکو کے بیانیے پر ووٹ نہیں ملا۔ (ن) لیگ بھی پی پی کی طرح پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کی آفر دیتی تو حالات میں بہتری بعض شرائط پر ممکن تھی مگر تینوں بڑی پارٹیوں نے اپنے سیاسی مفادات کو بالا رکھا اور ملک کے وسیع تر مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح نہیں دی۔