مجبور حکومت
پی ڈی ایم کے تجربے کے باعث بلاول بھٹو لیگی حمایت سے وزیر اعظم بننے کے حق میں نہیں
پاکستان میں ہونے والے گزشتہ تمام انتخابات کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ہر الیکشن کے بعد ہارنے والی جماعتیں شد و مد کے ساتھ دھاندلی کے الزامات لگاتی رہی ہیں۔
آئین کے تحت الیکشن کمیشن کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ملک میں شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنائے تاکہ دھاندلی کے ہر حربے کو ناکام بنایا جاسکے اورکوئی بھی سیاسی جماعت مبصرین اور تجزیہ نگار انتخابات کی شفافیت اور غیر جانبداری پر انگلی نہ اٹھا سکیں، لیکن دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ الیکشن کمیشن اور اس کا سربراہ الیکشن کمشنر اب تک ہونے والے تمام انتخابات میں اپنی آئینی ذمے داری پوری کرنے میں کلی طور پرکامیاب نہ ہو سکا۔
1965 میں جنرل ایوب خان اور قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی انتخاب کے معرکے میں جس میں بی ڈی ممبران نے ووٹ ڈالے تھے، سرمائے اور ریاستی مشینری کا جس بے دریغ طریقے سے استعمال ہوا تھا اور مادر ملت کے حاصل کردہ 28,345 ووٹوں کے مقابلے میں ایوب خان نے 49,700 ووٹ لے کر مقابلہ جیتا تھا۔ اس پر عوامی شاعر حبیب جالب نے کیا خوب کہا تھا کہ :
دھاندلی، دھونس، دھن سے جیت گیا
ظلم پھر مکر و فن سے جیت گیا
جالب کا یہ شعر ہماری قومی تاریخ کے ہونے والے تمام انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی عکاسی کرتا ہے ۔ عام انتخابات میں عدم شفافیت اور دھاندلی کے نتائج کا ہم ماضی میں خمیازہ بھگت چکے ہیں۔
یادش بخیر!1970 میں ہونے والے الیکشن کے حوالے سے جنرل یحییٰ خان کو یہ رپورٹ دی گئی تھی کہ سیاسی منظر نامے کے مطابق کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی اور آپ کی طاقت کا پرچم لہراتا رہے گا، لیکن خدا کا کرنا یہ ہوا کہ بقول شاعر '' الٹی ہوگئیں سب تدبیریں'' کے مصداق عوامی لہر نے سب کچھ الٹ کے رکھ دیا۔
1977 کے انتخابات میں بھی دھاندلی کا شور و غل بلند ہوا کہ پی پی پی نے قومی اسمبلی کی 155 نشستیں جیت کر دو تہائی اکثریت کیسے حاصل کر لی۔ پی پی مخالف سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی این اے کو 36 نشستیں کیوں ملیں۔ اپوزیشن نے انتخابی نتائج کو دھاندلی کا الزام لگا کر نہ صرف تسلیم کرنے سے انکارکردیا بلکہ بھٹو حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کردی۔
سیاستدانوں کے اختلافات اور الیکشن میں دھاندلی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹ کر ملک میں مارشل لا نافذ کردیا گیا۔ بعد ازاں 1985 سے 2024 تک ہونے والے تمام انتخابات بھی دھاندلی کے الزامات سے آلودہ ہوتے رہے۔ ہارنے والی سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ احتجاج بھی ہوتا رہا اور حکومتیں بنتی بگڑتی رہیں۔
2024 کے انتخابات میں دھاندلی کا جو شور بلند ہوا ہے وہ کم ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ انتخابات کی شفافیت پر شکوک و شبہات ظاہرکیے جا رہے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھوملر نے کہا ہے کہ امریکا 2024 کے الیکشن کے حوالے سے انتخابی بے ضابطگیوں کے کسی بھی دعوے کی مکمل تحقیقات کا خواہاں ہے۔
دھاندلی کی شفاف تحقیقات ازبس ضروری ہیں۔ بجا کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے مخلوط حکومت بنانے کا '' فارمولا '' طے کر لیا ہے جس کے مطابق شہباز شریف وزیر اعظم، آصف زرداری صدر مملکت ہوں گے، چیئرمین سینیٹ اور گورنر پنجاب پی پی پی سے ہوں گے جب کہ اسپیکر قومی اسمبلی اور سندھ و بلوچستان کے گورنر (ن) لیگ کے امیدوار ہوں گے۔
پی ڈی ایم کے تجربے کے باعث بلاول بھٹو لیگی حمایت سے وزیر اعظم بننے کے حق میں نہیں۔ بعینہ (ن) لیگ کے اندر بھی پی پی پی سے اتحاد پر گومگوکی کیفیت موجود ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ چونکہ دونوں جماعتوں کے درمیان نظریاتی و سیاسی اور پالیسیوں و منشور پر اختلافات موجود ہیں لہٰذا مخلوط حکومت غیر مستحکم ہوگی۔
ادھر اسے پی ٹی آئی، جے یو آئی و دیگر جماعتوں کی مضبوط اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا جن کا پہلا مطالبہ ہی الیکشن کی شفاف تحقیقات ہوگا۔ اس سے کم پر اپوزیشن راضی نہیں ہوگی اور اس سے نمٹنا مخلوط حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا، ملک کو پہلے ہی درپیش سنگین معاشی چیلنج کا سامنا ہے۔ قدم قدم پر مجبوریاں مخلوط حکومت کے پاؤں کی زنجیر بنی رہیں گی۔ پی پی پی، (ن) لیگ مخلوط حکومت درحقیقت ایک '' مجبور حکومت'' ہوگی۔
آئین کے تحت الیکشن کمیشن کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ملک میں شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنائے تاکہ دھاندلی کے ہر حربے کو ناکام بنایا جاسکے اورکوئی بھی سیاسی جماعت مبصرین اور تجزیہ نگار انتخابات کی شفافیت اور غیر جانبداری پر انگلی نہ اٹھا سکیں، لیکن دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ الیکشن کمیشن اور اس کا سربراہ الیکشن کمشنر اب تک ہونے والے تمام انتخابات میں اپنی آئینی ذمے داری پوری کرنے میں کلی طور پرکامیاب نہ ہو سکا۔
1965 میں جنرل ایوب خان اور قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی انتخاب کے معرکے میں جس میں بی ڈی ممبران نے ووٹ ڈالے تھے، سرمائے اور ریاستی مشینری کا جس بے دریغ طریقے سے استعمال ہوا تھا اور مادر ملت کے حاصل کردہ 28,345 ووٹوں کے مقابلے میں ایوب خان نے 49,700 ووٹ لے کر مقابلہ جیتا تھا۔ اس پر عوامی شاعر حبیب جالب نے کیا خوب کہا تھا کہ :
دھاندلی، دھونس، دھن سے جیت گیا
ظلم پھر مکر و فن سے جیت گیا
جالب کا یہ شعر ہماری قومی تاریخ کے ہونے والے تمام انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی عکاسی کرتا ہے ۔ عام انتخابات میں عدم شفافیت اور دھاندلی کے نتائج کا ہم ماضی میں خمیازہ بھگت چکے ہیں۔
یادش بخیر!1970 میں ہونے والے الیکشن کے حوالے سے جنرل یحییٰ خان کو یہ رپورٹ دی گئی تھی کہ سیاسی منظر نامے کے مطابق کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی اور آپ کی طاقت کا پرچم لہراتا رہے گا، لیکن خدا کا کرنا یہ ہوا کہ بقول شاعر '' الٹی ہوگئیں سب تدبیریں'' کے مصداق عوامی لہر نے سب کچھ الٹ کے رکھ دیا۔
1977 کے انتخابات میں بھی دھاندلی کا شور و غل بلند ہوا کہ پی پی پی نے قومی اسمبلی کی 155 نشستیں جیت کر دو تہائی اکثریت کیسے حاصل کر لی۔ پی پی مخالف سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی این اے کو 36 نشستیں کیوں ملیں۔ اپوزیشن نے انتخابی نتائج کو دھاندلی کا الزام لگا کر نہ صرف تسلیم کرنے سے انکارکردیا بلکہ بھٹو حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کردی۔
سیاستدانوں کے اختلافات اور الیکشن میں دھاندلی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹ کر ملک میں مارشل لا نافذ کردیا گیا۔ بعد ازاں 1985 سے 2024 تک ہونے والے تمام انتخابات بھی دھاندلی کے الزامات سے آلودہ ہوتے رہے۔ ہارنے والی سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ احتجاج بھی ہوتا رہا اور حکومتیں بنتی بگڑتی رہیں۔
2024 کے انتخابات میں دھاندلی کا جو شور بلند ہوا ہے وہ کم ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ انتخابات کی شفافیت پر شکوک و شبہات ظاہرکیے جا رہے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھوملر نے کہا ہے کہ امریکا 2024 کے الیکشن کے حوالے سے انتخابی بے ضابطگیوں کے کسی بھی دعوے کی مکمل تحقیقات کا خواہاں ہے۔
دھاندلی کی شفاف تحقیقات ازبس ضروری ہیں۔ بجا کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے مخلوط حکومت بنانے کا '' فارمولا '' طے کر لیا ہے جس کے مطابق شہباز شریف وزیر اعظم، آصف زرداری صدر مملکت ہوں گے، چیئرمین سینیٹ اور گورنر پنجاب پی پی پی سے ہوں گے جب کہ اسپیکر قومی اسمبلی اور سندھ و بلوچستان کے گورنر (ن) لیگ کے امیدوار ہوں گے۔
پی ڈی ایم کے تجربے کے باعث بلاول بھٹو لیگی حمایت سے وزیر اعظم بننے کے حق میں نہیں۔ بعینہ (ن) لیگ کے اندر بھی پی پی پی سے اتحاد پر گومگوکی کیفیت موجود ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ چونکہ دونوں جماعتوں کے درمیان نظریاتی و سیاسی اور پالیسیوں و منشور پر اختلافات موجود ہیں لہٰذا مخلوط حکومت غیر مستحکم ہوگی۔
ادھر اسے پی ٹی آئی، جے یو آئی و دیگر جماعتوں کی مضبوط اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا جن کا پہلا مطالبہ ہی الیکشن کی شفاف تحقیقات ہوگا۔ اس سے کم پر اپوزیشن راضی نہیں ہوگی اور اس سے نمٹنا مخلوط حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا، ملک کو پہلے ہی درپیش سنگین معاشی چیلنج کا سامنا ہے۔ قدم قدم پر مجبوریاں مخلوط حکومت کے پاؤں کی زنجیر بنی رہیں گی۔ پی پی پی، (ن) لیگ مخلوط حکومت درحقیقت ایک '' مجبور حکومت'' ہوگی۔