پاکستان ایک نظر میں کراچی ایئرپورٹ حملہ اب کارروائی وقت کی اہم ضرورت ہے
حالات کا تقاضہ ہےکہ حکومت،اسٹبلشمنٹ اور سیاسی جماعتیں دوہرےمعیار کوچھور کر دہشتگردوں کیخلاف سخت کارروائی کا آغاز کریں
ویسے تو وطن عزیز کے باسیوں بالخصوص کراچی کے شہریوں کی زندگیاں کئی برسوں سے شدت پسند عناصر کے رحم وکرم پر چلی آرہی ہیں۔ لیکن جس انداز میں شدت پسند عناصر آپریٹ کررہے ہیں، اس نے ہر شخص کو اپنے تحفظ اور سلامتی کے حوالے سے انتہائی متفکر کردیاہے۔اتوارکی شب اپنے معمولات سے فارغ ہونے کے بعد ابھی ہم بستر پر جانے کی تیاری کررہے تھے کہ ٹیلے ویژن پر بریکنگ نیوز نے ہماری نیند اڑادی۔ کراچی ائیر پورٹ پر دہشت گردوں کے حملہ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہنے والے سنگین صورتحال میں کیسی نینداور کہاں کا آرام ۔اس صورتحال میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ حملہ کیوں ہوا؟ دہشت گرد کس طرح حساس علاقے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے؟ اور کیا یہ حکومت اور متعلقہ اداروں کی ناکامی نہیں ہے؟
گذشتہ دس برس سے بالخصوص جو صورتحال پیدا ہوچکی ہے اور جس طرح دہشت گرد کامرہ ائیر بیس پر حملہ کرکے قومی اہمیت کے حامل اورین جہاز تباہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کی روشنی میں قومی سلامتی کے اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد بڑھانے کی ضرورت تھی۔ مگر اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ 7 ہوائی جہازوں، ہینگر کی تباہی اور 21 افراد کی جان کی قربانی کے بعد اگر10 دہشت گرد ماردئیے جاتے ہیں تو یہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں بلکہ سیکیورٹی اداروں کیلئے شرمندگی کی بات ہے۔
ان واقعات کے رونماء ہونے کا اصل سبب یہ ہے کہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں پری ایکٹ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔انہیں خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ ملنے کے باوجود یہ پہلے سے حفاظتی اقدامات کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں کسی واقعہ کے رونماء ہوجانے کے بعد کاروائی کرتے ہیں، جب نقصان دو چند ہوچکا ہوتا ہے۔ اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پوسٹ ٹیرریزم ایکٹ کاجائزہ لیا جائے اور دہشت گردوں کی کارروائی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگایا جائے تو حکومتی دعوئوں کی قلعی کھل جاتی ہے۔
وقت و حالات کا تقاضہ ہے کہ حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتیں دوہرے معیار کو چھور کر دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کا آغاز کریں۔ ہمارے منصوبہ سازوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ عناصر جو پاکستان کے آئین اور اس کی قومی سلامتی کو تسلیم نہیں کرتے ان کے خلاف فوری ایکشن وقت کی اہم ترین ضرورت بن گیا ہے۔ اس لئے مذاکرات کا نام نہاد تصور چھوڑ کر ایک انتہائی سخت گیر اور پیشہ ورانہ ایکشن کا آغاز کیا جائے۔ اب اس کے علاوہ کوئی اور راستہ باقی نہیں بچا ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
گذشتہ دس برس سے بالخصوص جو صورتحال پیدا ہوچکی ہے اور جس طرح دہشت گرد کامرہ ائیر بیس پر حملہ کرکے قومی اہمیت کے حامل اورین جہاز تباہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کی روشنی میں قومی سلامتی کے اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد بڑھانے کی ضرورت تھی۔ مگر اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ 7 ہوائی جہازوں، ہینگر کی تباہی اور 21 افراد کی جان کی قربانی کے بعد اگر10 دہشت گرد ماردئیے جاتے ہیں تو یہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں بلکہ سیکیورٹی اداروں کیلئے شرمندگی کی بات ہے۔
ان واقعات کے رونماء ہونے کا اصل سبب یہ ہے کہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں پری ایکٹ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔انہیں خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ ملنے کے باوجود یہ پہلے سے حفاظتی اقدامات کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں کسی واقعہ کے رونماء ہوجانے کے بعد کاروائی کرتے ہیں، جب نقصان دو چند ہوچکا ہوتا ہے۔ اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پوسٹ ٹیرریزم ایکٹ کاجائزہ لیا جائے اور دہشت گردوں کی کارروائی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگایا جائے تو حکومتی دعوئوں کی قلعی کھل جاتی ہے۔
وقت و حالات کا تقاضہ ہے کہ حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتیں دوہرے معیار کو چھور کر دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کا آغاز کریں۔ ہمارے منصوبہ سازوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ عناصر جو پاکستان کے آئین اور اس کی قومی سلامتی کو تسلیم نہیں کرتے ان کے خلاف فوری ایکشن وقت کی اہم ترین ضرورت بن گیا ہے۔ اس لئے مذاکرات کا نام نہاد تصور چھوڑ کر ایک انتہائی سخت گیر اور پیشہ ورانہ ایکشن کا آغاز کیا جائے۔ اب اس کے علاوہ کوئی اور راستہ باقی نہیں بچا ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔