پاکستان ایک نظر میں کل شاید کوئی خاص قسم کا اندھیرا تھا

جب ہماری اتنی اہم تنصیبات محفوظ نہیں تو ہم خود کس خوش فہمی میں جی رہے ہیں۔


سدرہ ایاز June 09, 2014
جب ہماری اتنی اہم تنصیبات محفوظ نہیں تو ہم خود کس خوش فہمی میں جی رہے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

11 بج کر 45 منٹ پر اچانک میرے موبائل پر میسج کی ٹون بج اٹھی۔ میں کھانا چھوڑ کر مجبورا میسج دیکھنے کے لئے اٹھ گئی کہ شاید کوئی ضروری میسج آیا ہوا۔ میسج پڑھنے کی دیر تھی میں نے فورا ٹی وی کھولا اور نیوز چینل تیز آواز میں لگا دیا۔ ہر طرف سے کراچی ایئرپورٹ پر حملے کی خبریں آرہی تھی۔ ٹی وی کی تیز آواز سن کر میرے گھر والے بھی ٹی لاؤنج میں آگئے اور اظہار افسوس کرنے لگے۔ ایک لمحے کے لئے یقین کرنا مشکل ہی نہیں نہ ممکن بھی تھا کہ کس طرح کوئی بھی آکر کراچی جیسے شہر کے ایئرپورٹ میں گھس کر اسے یرغمال بنا سکتا ہے؟ سیکورٹی اہلکار کیا کررہے تھے؟ دہشت گرد وہاں پہنچے کیسے؟ غرض یہ کہ جیسے جیسے مختلف خبریں آتی جارہی تھیں میرے ذہن میں سوالات الجھتے جارہے تھے۔

1 بجے تک آرام کی غرض سے سب اپنے کمروں میں سونے چلے گئے۔ لیکن میں بے یقینی کی کیفیت میں ٹی وی آن کئے بیٹھی رہی۔ 2 بجے کے قریب میری آنکھوں نے مزید جاگنے سے انکار کردیا اور میں بھی سونے چلی گئی۔ کہتے ہیں اعصاب پر اگر کوئی بات سوار ہو تو نیند بھی ٹھیک سے نہیں آتی۔ خبروں نے مجھے نیند میں بھی چین لینے نہ دیا۔ اور صبح اٹھتے ہی میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئی۔ فورسز نے 5 گھنٹے طویل آپریشن کے بعد ٹرمینل کو کلیئر قرار دے دیا۔ مجھ سے رہا نہ گیا مجھے اپنے تمام سوالوں کے جواب درکار تھے۔ لہذا میں نے اپنے ''ذرائع'' استعمال کرتے ہوئے ایئرپورٹ کے عملے تک رسائی حاصل کرکے ان سے کچھ یوں جوابات طلب کئے؛

ایئرپورٹ کے اطراف کس طرح کی سیکیورٹی پائی جاتی ہے؟

ذرائع: ایئرپورٹ کے چاروں طرف 24 گھنٹے ہمارے اہلکار تعینات ہوتے ہیں جو ہر قسم کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہیں۔ شاہ فیصل اور شاہراہ فیصل دونوں تھانوں کی پولیس موبائل بھی موجود ہوتی ہے جو صبح و شام گشت کرتی رہتی ہے۔

اولڈ ٹرمینل سے فوکر گیٹ، اصفہائی گیٹ اور پھر رن وے تک پہنچا کتنا آسان ہے؟

ذرائع: کسی بھی غیر متعلقہ شخص کا گذشتہ رات کی طرح رن وے تک پہنچنا آسان نہیں ہے، یہاں تک پہنچنے کے لئے 2 سیکیورٹی چیک پوسٹ کو عبور کرنا ہوتا ہے، ہمارے پاس سیکیورٹی آلات موجود ہیں۔ جس سے ہر اندر آنے والے شخص کی چیکنگ کی جاتی ہے، جس طرح گذشتہ رات دہشتگروں نے فائرنگ کر کے دونوں چیک پوسٹوں پر تعینات اے ایس ایف اہلکاروں کو شہید کردیا تھا صرف اسی صورت میں زبردستی کوئی شخص اندر داخل ہوسکتا ہے۔ بلکہ اے ایس ایف کے اہلکاروں کے علاوہ کمانڈوز بھی چیک پوسٹ کے اطراف گشت کرتے رہتے ہیں۔

ذرائع کے جواب کے بعد میں نے سوچا کہ جب اہلکار بھی موجود ہوتے ہیں، کمانڈوز بھی گشت کرتے رہتے ہیں تو پھر کیسے کوئی بھاگ کر رن وے پر پہنچ سکتا ہے اور اسلحہ لہرا کر بول سکتا ہے اب پکڑ کر دکھاؤ؟

سیکیورٹی چیک پوسٹ پر عام طور پر اے ایس ایف کے کتنے اہلکار تعینات ہوتے ہیں؟

ذرائع: 10 سے 12 اہلکار تعینات ہوتے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی چیک پوسٹ پر کوئی اہلکار موجود نہ ہو۔

کیا گیٹ پاس کسی بھی شخص کو با آسانی مل سکتا ہے؟

ذرائع: گیٹ پاس کسی بھی شخص کو آسانی سے نہیں مل سکتا۔ یہ صرف اور صرف ملازمین کے پاس گیٹ پاس موجود ہوتا جس پر ان کی تصویر بھی آویزاں ہوتی ہے۔ بلکہ گیٹ پاس میں ایک مائیکرو چپ بھی موجود ہوتی ہیں جس میں متعلقہ ملازم کی معلومات درج ہوتی ہیں۔ لہذا یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی بھی غیر متعلقہ شخص گیٹ پاس دیکھا کر اندر داخل ہوجائے۔

آپ کو نہیں لگتا کہ کل رات کے حملے کے بعد کراچی ایئرپورٹ کسی بھی حملہ آور کے لئے آسان ہدف بن گیا ہے؟

ذرائع: نہیں ایسا کچھ نہیں ہے، یہ بلکل آسان ہدف نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کل کے حملے کے بعد لوگوں کے ذہنوں میں اس قسم کے ہزاروں سوالات ہونگے لیکن یقین کیجئے یہ آسان نہیں ہے۔

مجھے ذرائع کے اس جواب سے اختلاف ہے، اگر آسان ہدف نہیں تھا تو کس طرح دہشت گرد کھانا سمیت ایئرپورٹ کے اندرونی حصے تک پہنچ گئے؟ شاید ان کا ادارہ 2 سے 3 دن رن وے پر پر کھلی فضا میں سانس لینے کا تھا لیکن فورسز نے پہنچ کر سارا مزا خراب کردیا۔ آسان ہدف ہیں تھا تو کیا تھا؟

کیا آپ کے پاس اس قسم کے حملے کی کوئی پیشگی اطلاعات موجود تھیں؟

ذرائع: نہیں ہمارے پاس کوئی پیشگی اطلاعات موجود نہیں تھیں۔ دہشت گردوں نے اندھیروں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حملہ کیا تھا۔

مجھے ذرائع سے اس قسم کے جواب کی توقع نہیں تھی۔ کیا روز اندھیرا نہیں ہوتا؟ یا کل کوئی خاص قسم کا اندھیرا تھا جو دہشت گردوں نے فائدہ اٹھاتے ہوئے حملہ کردیا؟

کیا اے ایس ایف کے اہلکاروں کو اس طرح کے حملے سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی ہے؟

ذرائع: جی بلکل دی جاتی ہے، ہمارا ایک کمانڈو ونگ ہے جہاں ہر ہفتے اہلکاروں کی ٹرینگ ہوتی ہیں۔ جن میں خواتین اور مرد دونوں اہلکار شامل ہیں۔

آپ کے خیال میں اب حملے کے بعد ایئرپورٹ حکام کی حکمت عملی ہونی چاہئے؟

ذرائع: ہمارے اپنے سیکیورٹی پلان ہوتے ہیں۔ میں اس بارے میں آپ کو واضح طور پر کچھ نہیں بتا سکتا۔ لیکن اتنا ضرور کہ سکتا ہوں کہ 24 گھنٹے کے اندر اندر کوئی حکمت عملے سامنے آ ہی جائے گی۔

ظاہر ہے یہ ایک عام عوام کی حیثیت سے یہ تمام جوابات میرے لئے تسلی بخش تو نہ تھے۔ جب ہماری اتنی اہم تنصیبات محفوظ نہیں تو ہم خود کس خوش فہمی میں جی رہے ہیں۔ لیکن ذرائع سے بات کرنے کے بعد اتنا اطمینان ہوگیا کہ ہمارے جوانوں کے عزائم بلند ہیں اور وہ ہر طرح کے خطرات سے نمٹنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ ضرورت صرف ایک جامع حکمت عملی کی ہے جس کے ذریعے ہم دشمنوں پر قابو پا کر انہیں پسپا کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔