نئی سیاسی آڈیو لیکس
مصطفی کمال نے تو اپنی آواز کو تسلیم بھی کر لی ہے۔ اسی طرح کامران ٹیسوری نے بھی کوئی خاص تردید نہیں کی ہے
ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کی دو آڈیوز منظر عام پر آگئی ہیں۔ ایک آڈیو مصطفی کمال کی ہے جب کہ دوسری گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی ہے۔ دونوں آڈیوز نے سیاسی منظر نامہ پر کافی شور مچایا ہے۔
مصطفی کمال نے تو اپنی آواز کو تسلیم بھی کر لی ہے۔ اسی طرح کامران ٹیسوری نے بھی کوئی خاص تردید نہیں کی ہے۔دونوں آڈیوز کو یہاں دوبارہ رقم کرنے کی ضرورت نہیں۔ مجھے امید ہے کہ آجکل کے سوشل میڈیا کے دور میں سب نے سن ہی لی ہوں گی۔
ان دونوں آڈیوز سے ایک بات واضح ہے کہ ایم کیو ایم کا ابھی تک مرکزی حکومت میں شراکت اقتدار کا فارمولہ طے نہیں ہوا ہے۔ بلکہ ہم سب جو یہ سمجھ رہے تھے کہ معاملات طے ہیں' وہ غلط ہے۔ معاملہ ویسا ہی لگتا ہے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ جنھوں نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان بات آخر میں طے کروائی تھی کیا وہی اب بھی طے کروائیں گے۔
یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کی دونوں آڈیوز وہاں سے لیک نہیں ہوئی ہیں جہاں سے اکثر آڈیوز لیک ہونے کا تاثر ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کی اسٹبلشمنٹ سے اس وقت کوئی لڑائی نہیں ہے۔ ان آڈیوز میں ایسی کوئی بات بھی نہیں جس سے اسٹبلشمنٹ کا کوئی فائدہ ہوتا ہو' پھر سوال یہ ہے کہ یہ کیسے 'کس نے اور کیوں لیک ہوئی ہیں۔ ایک عمومی رائے یہی ہے کہ کوئی گھر کا بھیدی ہے۔
ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان سیاسی لڑائی کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ بانی متحدہ کی ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کے بارے میں گفتگو بھی اس لڑائی کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ بہرحال جو کچھ بھی ہے' ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت کو اہم اجلاس کی اسکرینی فول پروف بنانے پر توجہ دینی ہو گی۔
آجکل تو معمولی اجلاسوں میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ سب لوگ موبائل باہر رکھ دیں۔ تمام بڑی تقریبات اور سیاسی جماعتوں کے اہم اجلاسوں میں بھی شرکا ء موبائل باہر رکھ دیتے ہیں۔ پھر ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں سب موبائل لے کر کیسے بیٹھ جاتے ہیں ۔ یقینا یہ ایک غلطی تھی جس کی قیمت آج ایم کیو ایم ادا کر رہی ہے۔
میں سمجھتا ہوں آڈیوز وائرل کرنے کی سیاسی وجوہات ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ موجودہ انتخابات میں پہلی دفعہ ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن نے براہ راست ایک دوسرے کے خلاف انتخابات لڑا ہے۔
اس سے پہلے ایم کیو ایم لندن بائیکاٹ ہی کرتی تھی۔ لیکن اس دفعہ لندن گروپ نے اپنے امیدوار میدان میں کھڑے کیے ہیںلیکن ان کے سیاسی غبارے سے ہوا نکل گئی ہے۔ لندن گروپ کے امیدواران کی ضمانتیں ہی ضبط ہو گئی ہیں۔ ان امیدواران کے لیے کوئی عوامی جوش و خروش بھی نظر نہیں آیا۔ جیسا ایم کیو ایم پاکستان کے امیدواران کے لیے نظر آیا۔
اس لیے شاید ایم کیو ایم پاکستان سے شکست نے لندن گروپ کی بقا پر بھی سیاسی سوال پیدا کر دیا ہے۔ بقا پر بھی سوال پیدا ہو گئے ہیں۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ فرسٹریشن اور ڈپریشن میں یہ آڈیوز لیک کی ہیں۔ بہر حال ایم کیو ایم پاکستان کو مخبر ڈھونڈ کر قوم کے سامنے لانا چاہیے۔ اس پر خاموشی درست نہیں۔
ان آڈیوز سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پیپلزپارٹی ایم کیو ایم پاکستان کا اقتدار میں راستہ روک رہی ہے۔ پیپلزپارٹی نہیں چاہتی کہ ایم کیو ایم پاکستان کو مرکزی حکومت میں شامل کیا جائے۔ ان کا موقف ہے کہ جب ووٹ پورے ہیں تو انھیں شامل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اب ایک طرح سے دیکھا جائے تو ایم کیو ایم پاکستان کو بھی اندازہ ہونا چاہیے کہ ان کے ووٹوں کی سیاسی اہمیت کیا ہے۔ اور انھیں سیاسی طور پر اس کی کیا قیمت مل سکتی ہے۔
کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے اجلاسوں میں اپنے ووٹ بینک کے بارے میں ضرور بات کرتی ہے۔ مصطفی کمال بھی اپنی جماعت کے ووٹ بینک کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ جہاں تک مینڈیٹ کے جعلی اور اصلی ہونے کی بحث ہے۔ پیپلزپارٹی کہتی ہے کہ ایم کیو ایم کا سو فیصد مینڈیٹ جعلی ہے اور ایم کیو ایم کا موقف ہے کہ پیپلزپارٹی کا دو سو فیصد مینڈیٹ جعلی ہے۔ یہی بات آڈیو میں بھی ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جو باعث حیرانگی ہو۔
دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے مینڈیٹ کے بارے میں یہ باتیں کھلے عام ٹی وی ٹاک شوز میں بھی کر رہی ہیں۔ اور مصطفی کمال کی آڈیو میں یہی بات ہے۔ کامران ٹیسوری کی آڈیو میں بھی یہ بات ہے۔ یہ سوال تو اہم ہے کہ کل تک بلدیات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنے والی پیپلزپارٹی کراچی سے ہار کیسے گئی۔ کیا بلدیات کی جیت ایم کیو ایم پاکستان کے بائیکاٹ کی وجہ سے ہی تھی۔
جہاں تک گورنر کی بات ہے تو پیپلزپارٹی نے ن لیگ کے ساتھ فارمولہ میں دو دو گورنر تقسیم کرنے کی بات کی ہے۔ پیپلزپارٹی کا موقف ہے کہ دو گورنر ن لیگ لے لے اور دو پیپلزپارٹی کو مل جائیں۔ پیپلزپارٹی کا موقف ہے کہ اگر ن لیگ ایم کیو ایم کو گورنر دینا چاہتی ہے تو اپنے کوٹے سے دے دے۔
ان کی گورنری کسی شراکت اقتدار کے فارمولہ میں نہیں ہو سکتی۔ یہ ن لیگ کے لیے بھی ایک مشکل صورتحال ہے۔ یقیناً پیپلزپارٹی ایم کیو ایم کو دیوار سے لگا رہی ہے۔ آگے آصف زرداری نے صدر کا الیکشن لڑنا ہے۔انھیں صدر کے لیے ووٹ چاہیے ہوں گے۔ تب ایم کیو ایم اپنا سیاسی اسکور اور وزن برابر کر سکتی ہے۔ مجھے لگتا ہے صدارتی الیکشن پر یہ سب طے ہو جائے گا اگر ایم کو ایم نے ووٹ نہ دینے کا تاثر بھی دیا تو پیپلزپارٹی زمین پر آجائے گی۔
مصطفی کمال نے تو اپنی آواز کو تسلیم بھی کر لی ہے۔ اسی طرح کامران ٹیسوری نے بھی کوئی خاص تردید نہیں کی ہے۔دونوں آڈیوز کو یہاں دوبارہ رقم کرنے کی ضرورت نہیں۔ مجھے امید ہے کہ آجکل کے سوشل میڈیا کے دور میں سب نے سن ہی لی ہوں گی۔
ان دونوں آڈیوز سے ایک بات واضح ہے کہ ایم کیو ایم کا ابھی تک مرکزی حکومت میں شراکت اقتدار کا فارمولہ طے نہیں ہوا ہے۔ بلکہ ہم سب جو یہ سمجھ رہے تھے کہ معاملات طے ہیں' وہ غلط ہے۔ معاملہ ویسا ہی لگتا ہے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ جنھوں نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان بات آخر میں طے کروائی تھی کیا وہی اب بھی طے کروائیں گے۔
یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کی دونوں آڈیوز وہاں سے لیک نہیں ہوئی ہیں جہاں سے اکثر آڈیوز لیک ہونے کا تاثر ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کی اسٹبلشمنٹ سے اس وقت کوئی لڑائی نہیں ہے۔ ان آڈیوز میں ایسی کوئی بات بھی نہیں جس سے اسٹبلشمنٹ کا کوئی فائدہ ہوتا ہو' پھر سوال یہ ہے کہ یہ کیسے 'کس نے اور کیوں لیک ہوئی ہیں۔ ایک عمومی رائے یہی ہے کہ کوئی گھر کا بھیدی ہے۔
ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان سیاسی لڑائی کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ بانی متحدہ کی ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کے بارے میں گفتگو بھی اس لڑائی کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ بہرحال جو کچھ بھی ہے' ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت کو اہم اجلاس کی اسکرینی فول پروف بنانے پر توجہ دینی ہو گی۔
آجکل تو معمولی اجلاسوں میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ سب لوگ موبائل باہر رکھ دیں۔ تمام بڑی تقریبات اور سیاسی جماعتوں کے اہم اجلاسوں میں بھی شرکا ء موبائل باہر رکھ دیتے ہیں۔ پھر ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں سب موبائل لے کر کیسے بیٹھ جاتے ہیں ۔ یقینا یہ ایک غلطی تھی جس کی قیمت آج ایم کیو ایم ادا کر رہی ہے۔
میں سمجھتا ہوں آڈیوز وائرل کرنے کی سیاسی وجوہات ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ موجودہ انتخابات میں پہلی دفعہ ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن نے براہ راست ایک دوسرے کے خلاف انتخابات لڑا ہے۔
اس سے پہلے ایم کیو ایم لندن بائیکاٹ ہی کرتی تھی۔ لیکن اس دفعہ لندن گروپ نے اپنے امیدوار میدان میں کھڑے کیے ہیںلیکن ان کے سیاسی غبارے سے ہوا نکل گئی ہے۔ لندن گروپ کے امیدواران کی ضمانتیں ہی ضبط ہو گئی ہیں۔ ان امیدواران کے لیے کوئی عوامی جوش و خروش بھی نظر نہیں آیا۔ جیسا ایم کیو ایم پاکستان کے امیدواران کے لیے نظر آیا۔
اس لیے شاید ایم کیو ایم پاکستان سے شکست نے لندن گروپ کی بقا پر بھی سیاسی سوال پیدا کر دیا ہے۔ بقا پر بھی سوال پیدا ہو گئے ہیں۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ فرسٹریشن اور ڈپریشن میں یہ آڈیوز لیک کی ہیں۔ بہر حال ایم کیو ایم پاکستان کو مخبر ڈھونڈ کر قوم کے سامنے لانا چاہیے۔ اس پر خاموشی درست نہیں۔
ان آڈیوز سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پیپلزپارٹی ایم کیو ایم پاکستان کا اقتدار میں راستہ روک رہی ہے۔ پیپلزپارٹی نہیں چاہتی کہ ایم کیو ایم پاکستان کو مرکزی حکومت میں شامل کیا جائے۔ ان کا موقف ہے کہ جب ووٹ پورے ہیں تو انھیں شامل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اب ایک طرح سے دیکھا جائے تو ایم کیو ایم پاکستان کو بھی اندازہ ہونا چاہیے کہ ان کے ووٹوں کی سیاسی اہمیت کیا ہے۔ اور انھیں سیاسی طور پر اس کی کیا قیمت مل سکتی ہے۔
کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے اجلاسوں میں اپنے ووٹ بینک کے بارے میں ضرور بات کرتی ہے۔ مصطفی کمال بھی اپنی جماعت کے ووٹ بینک کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ جہاں تک مینڈیٹ کے جعلی اور اصلی ہونے کی بحث ہے۔ پیپلزپارٹی کہتی ہے کہ ایم کیو ایم کا سو فیصد مینڈیٹ جعلی ہے اور ایم کیو ایم کا موقف ہے کہ پیپلزپارٹی کا دو سو فیصد مینڈیٹ جعلی ہے۔ یہی بات آڈیو میں بھی ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جو باعث حیرانگی ہو۔
دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے مینڈیٹ کے بارے میں یہ باتیں کھلے عام ٹی وی ٹاک شوز میں بھی کر رہی ہیں۔ اور مصطفی کمال کی آڈیو میں یہی بات ہے۔ کامران ٹیسوری کی آڈیو میں بھی یہ بات ہے۔ یہ سوال تو اہم ہے کہ کل تک بلدیات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنے والی پیپلزپارٹی کراچی سے ہار کیسے گئی۔ کیا بلدیات کی جیت ایم کیو ایم پاکستان کے بائیکاٹ کی وجہ سے ہی تھی۔
جہاں تک گورنر کی بات ہے تو پیپلزپارٹی نے ن لیگ کے ساتھ فارمولہ میں دو دو گورنر تقسیم کرنے کی بات کی ہے۔ پیپلزپارٹی کا موقف ہے کہ دو گورنر ن لیگ لے لے اور دو پیپلزپارٹی کو مل جائیں۔ پیپلزپارٹی کا موقف ہے کہ اگر ن لیگ ایم کیو ایم کو گورنر دینا چاہتی ہے تو اپنے کوٹے سے دے دے۔
ان کی گورنری کسی شراکت اقتدار کے فارمولہ میں نہیں ہو سکتی۔ یہ ن لیگ کے لیے بھی ایک مشکل صورتحال ہے۔ یقیناً پیپلزپارٹی ایم کیو ایم کو دیوار سے لگا رہی ہے۔ آگے آصف زرداری نے صدر کا الیکشن لڑنا ہے۔انھیں صدر کے لیے ووٹ چاہیے ہوں گے۔ تب ایم کیو ایم اپنا سیاسی اسکور اور وزن برابر کر سکتی ہے۔ مجھے لگتا ہے صدارتی الیکشن پر یہ سب طے ہو جائے گا اگر ایم کو ایم نے ووٹ نہ دینے کا تاثر بھی دیا تو پیپلزپارٹی زمین پر آجائے گی۔