دہشت گردی کے واقعات اور زمینی حقائق
سندھ میں بڑے پیمانہ پر دہشتگردی کا خطرہ ہے ، کالعدم تنظیمیں کارروائی کی منصوبہ بندی کررہی ہیں
KARACHI:
کراچی ایئرپورٹ پر اتوار کی شب دہشت گردوں کا خوفناک حملہ بلاشبہ دہشت گردی کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی موثر کارروائیوں کا بزدلانہ جواب ہے جس کے نتیجے میں فورسز کے 15اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہوگئے، سیکیورٹی اہلکاروں سے مقابلے میں10دہشت گرد مارے گئے۔ ڈی جی رینجرز رضوان اختر کے مطابق تمام 10 دہشت گرد ہلاک کردیے گئے ہیں اور پولیس نے پیر کی صبح ایئر پورٹ تقریباً کلیئر کردیا۔ آپریشن میں پاکستان آرمی کے اسپیشل سروسزگروپ کے کمانڈوز نے بھی حصہ لیا ۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس حملہ کی ذمے داری قبول کرلی ہے۔ وقوعہ سے ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لے لیا گیا۔
ایک اطلاع کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کو پیش کی گئی ابتدائی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دہشت گرد تمام طیاروں کو تباہ کرنا چاہتے تھے جب کہ بعض ذرایع کا کہنا ہے کہ حملہ آور ایک جہاز کو ہائی جیک کرنے کی منصوبہ بندی کے ساتھ ایئر پورٹ کے دو راستوں سے اندر داخل ہوئے ۔ کراچی ایئرپورٹ اور پی این ایس مہران پر حملوں میں مماثلت کی نشاندہی کی گئی ہے، یاد رہے 22 مئی2011 ء کو شارع فیصل پر واقع پی این ایس مہران پر بھی دہشت گردوں نے رات کے وقت حملہ کیا تھا جس میں دہشت گردوں نے شدید فائرنگ کی ، ہینڈ گرینیڈ کا استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھے جب کہ ایئر پورٹ کے حملے میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا۔
ایئر پورٹ پر حملہ دہشت گردی کی معمولی کارروائی کا ٹریلر نہیں تھا بلکہ ریاست مخالف عناصر کی طرف سے کھلا اعلان جنگ ہے ۔ حملہ آور فوکر گیٹ کی جانب سے داخل ہوئے، اصفہانی ہینگر پہنچے اور جدید وخودکار ہتھیاروں سے فائرنگ کرتے ہوئے اولڈ ٹرمینل تک پہنچ گئے اور مورچہ بند ہو کر مسلسل فائرنگ کرتے رہے، حملہ آوروں کی حتمی تعداد کا فوری طور پر علم نہیں ہو سکا، پاک فوج کے دستے، پولیس و رینجرز کی بھاری نفری اور کمانڈوز بکتربند گاڑیوں سمیت ایئرپورٹ پہنچ گئے اور ان کا بروقت گھیرائو کر لیا ، بعض دہشت گرد شاپنگ بیگ میں بھی اسلحہ لیے ہوئے تھے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ بھرپور تیاری کے ساتھ کئی گھنٹے تک مقابلے کے لیے آئے تھے۔
انٹیلی جنس ذرایع نے بتایا کہ حملے کے وقت ایئرپورٹ پر 3 فلائٹس میں بورڈنگ کا عمل جاری تھا ، حملہ آور طیاروں کی مینٹیننس کے ایریا سے ایئرپورٹ میں گھسے اور وقوعہ کے وقت کئی طیارے وہاں موجود تھے لیکن حملہ آور جناح ٹرمینل کی جانب ہی بڑھتے رہے ، مینٹیننس ایریا سے جناح ٹرمینل پر جہاں جہازوں پر بورڈنگ کا عمل جاری تھا تک کا فاصلہ تقریباً ایک سے ڈیڑھ کلومیٹر ہے جسے دہشت گرد جلد از جلد عبور کرنا چاہتے تھے لیکن ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس کی جانب سے بروقت کارروائی کی وجہ سے وہ اپنے ہدف تک پہنچنے میں ناکام رہے ۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ آور ازبک یا چیچن معلوم ہوتے تھے ۔
اگست 2012 ء میں کامرہ بیس پر بھی حملے کا یہی انداز تھا ۔ تاہم آرمی کمانڈوز اور پولیس و رینجرز کی مجموعی طور پر کائونٹر ٹیررازم کی بر وقت حکمت عملی کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایئر پورٹ پر حملہ آوروں کے نیٹ ورک کی فعالیت ، جارحانہ حملے اور اہداف و حساس تنصیبات تک مجرمانہ رسائی کے باوجود وہ ایئرپورٹ کی مکمل تباہی کے منصوبے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔بہر کیف گزشتہ روز ملک میں جو دو بڑے دردناک واقعات ہوئے وہ دہشت گردی میں شدت کے ایک نئے زاویئے کا پتا دیتے ہیں،ارباب اختیار اس امر کا ادراک کریں کہ انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے بات چیت کے علاوہ بھی قابل عمل آپشنز کو مد نظر رکھنا اشد ضروری ہے ۔
اس لیے سلامتی پر مامور اداروں کا یہ محسوس کرنا ناگزیر ہوگیا ہے کہ ریاستی رٹ قائم ہوئے بغیر معاملات قطعی درست نہیں ہوسکتے جب کہ ایئر پورٹ سانحہ کے بعد طالبان سے مذاکرات کرنا بذات خود ایک بڑا سوالیہ نشان اور حکومت کے لیے ایک آزمائش ہے جس سے عہدہ برآ ہونا ارباب اختیار کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ اطلاع یہ بھی ہے کہ پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال کے پیش نظر وزیراعظم اسی ہفتہ قومی سلامتی کے دیگر امور کے علاوہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے دہشت گرد کارروائیوں کے حوالے سے اہم اجلاس میں بات چیت کے ممکنہ آپشن پر غور کریں گے اور پاک فوج اور قومی سلامتی کے دیگر اداروں کے اتفاق رائے سے حکمت عملی تیار کی جائے گی ۔
دوسرا افسوس ناک واقعہ بلوچستان کے سرحدی علاقے تفتان میں ایران سے کوئٹہ آنیوالے زائرین پر فائرنگ کا ہے جس میں 25افراد جاں بحق اور 30 زخمی ہوگئے، پولیس اور لیویز کی کارروائی میں چاردہشت گرد بھی مارے گئے، سیکیورٹی فورسز اور حملہ آوروں کے مابین فائرنگ کا تبادلہ کئی گھنٹے تک جاری رہا ، حملے کی ذمے داری کالعدم جیش الاسلام نے قبول کر لی ہے ، وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ تفتان میں دہشتگردوں کے حملے میں 23 زائرین جاں بحق ہوئے ، فورسز سے فائرنگ کے تبادلے میں چار دہشتگرد بھی مارے گئے۔ تحفظ عزاداری کونسل نے زائرین پر حملے کے خلاف تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
جعفریہ الائنس نے تفتان ہوٹل پر دہشتگردوں کے حملے کی مذمت کی ہے ۔ ترجمان مجلس وحدت المسلمین نے کہا ہے کہ حملے میں کالعدم جماعتیں ملوث ہیں ۔ ادھر سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے مشترکہ سرحدی علاقے گندیاری ٹائون میں فرنٹیئر کور بلوچستان کے آپریشن میں 10 سے زائد دہشت گرد ہلاک ہوگئے ۔آئی جی ایف سی میجر جنرل اعجاز شاہد کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں اور جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی تک صوبائی حکومت کے احکامات کے مطابق ٹارگٹڈ آپریشن کیا جا ئیگا ۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی اور فرقہ واریت کے دو خونیں دھارے قومی سیاست اور وطن عزیز کے وجود کے لیے سنگین خطرہ بن چکے ہیں، فرقہ واریت کو دہشت گردی کے واقعات کے جداگانہ تناطر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ قومی یکجہتی پر وار ہے ۔اس لیے ان قوتوں پر وارادات سے قبل ہی پیشگی ہلہ بولنے کی حکمت عملی لازم ہے۔
مزید برآں ایک رپورٹ پر بھی ارباب بست و کشاد غور کریں جس میں کہا گیا کہ سائبر اسپیس کے ایک سروے '' بائٹس فار آل ''کے مطابق پاکستان میں مذہبی ، نسلی،اور صنفی بنیاد پر نفرت انگیزرجحانات میں اضافہ ہوا ہے جب کہ سوشل میڈیا پر بھی اس قسم کا مواد جو قومی یکجہتی اور اسلامی اخوت کے لیے ضرر رساں ہے فیس بک پر رومن اردو میں 74 فیصد ، انگریزی 22میں فی صد اور اردو میں 4 فی صد مواد پیش ہوتا رہا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمراں دہشت گردی ،فرقہ واریت، انتہا پسندی، عدم رواداری، ناانصافی ، ناخواندگی اور غربت و بدامنی کے عفریت سے چومکھی لڑنے کی تیاری کریں۔
کراچی ایئر پورٹ پر دہشت گردی کی واردات اور دیگر واقعات کا سدباب ممکن ہوتا اگر حکام سندھ میں دہشت گردی کے خدشہ سے متعلق ایک پیشگی خبر پر توجہ دیتے جو 5 جون کو نمایندہ ایکسپریس نے فائل کی تھی ۔ وزارت داخلہ کی طرف سے جاری مراسلہ میں خبردار کیا گیا تھا کہ سندھ میں بڑے پیمانہ پر دہشتگردی کا خطرہ ہے ، کالعدم تنظیمیں کارروائی کی منصوبہ بندی کررہی ہیں ۔ اب میڈیا اور کتنا چلائے، شور مچائے ، عوام کتنی آہ و فغاں کریں ۔ وقت آگیا ہے کہ وطن عزیز کی سالمیت اور داخلی امن و استحکام کے لیے قوم ، حکمراں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں ۔اسی میں سب کا مفاد ہے۔
کراچی ایئرپورٹ پر اتوار کی شب دہشت گردوں کا خوفناک حملہ بلاشبہ دہشت گردی کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی موثر کارروائیوں کا بزدلانہ جواب ہے جس کے نتیجے میں فورسز کے 15اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہوگئے، سیکیورٹی اہلکاروں سے مقابلے میں10دہشت گرد مارے گئے۔ ڈی جی رینجرز رضوان اختر کے مطابق تمام 10 دہشت گرد ہلاک کردیے گئے ہیں اور پولیس نے پیر کی صبح ایئر پورٹ تقریباً کلیئر کردیا۔ آپریشن میں پاکستان آرمی کے اسپیشل سروسزگروپ کے کمانڈوز نے بھی حصہ لیا ۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس حملہ کی ذمے داری قبول کرلی ہے۔ وقوعہ سے ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لے لیا گیا۔
ایک اطلاع کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کو پیش کی گئی ابتدائی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دہشت گرد تمام طیاروں کو تباہ کرنا چاہتے تھے جب کہ بعض ذرایع کا کہنا ہے کہ حملہ آور ایک جہاز کو ہائی جیک کرنے کی منصوبہ بندی کے ساتھ ایئر پورٹ کے دو راستوں سے اندر داخل ہوئے ۔ کراچی ایئرپورٹ اور پی این ایس مہران پر حملوں میں مماثلت کی نشاندہی کی گئی ہے، یاد رہے 22 مئی2011 ء کو شارع فیصل پر واقع پی این ایس مہران پر بھی دہشت گردوں نے رات کے وقت حملہ کیا تھا جس میں دہشت گردوں نے شدید فائرنگ کی ، ہینڈ گرینیڈ کا استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھے جب کہ ایئر پورٹ کے حملے میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا۔
ایئر پورٹ پر حملہ دہشت گردی کی معمولی کارروائی کا ٹریلر نہیں تھا بلکہ ریاست مخالف عناصر کی طرف سے کھلا اعلان جنگ ہے ۔ حملہ آور فوکر گیٹ کی جانب سے داخل ہوئے، اصفہانی ہینگر پہنچے اور جدید وخودکار ہتھیاروں سے فائرنگ کرتے ہوئے اولڈ ٹرمینل تک پہنچ گئے اور مورچہ بند ہو کر مسلسل فائرنگ کرتے رہے، حملہ آوروں کی حتمی تعداد کا فوری طور پر علم نہیں ہو سکا، پاک فوج کے دستے، پولیس و رینجرز کی بھاری نفری اور کمانڈوز بکتربند گاڑیوں سمیت ایئرپورٹ پہنچ گئے اور ان کا بروقت گھیرائو کر لیا ، بعض دہشت گرد شاپنگ بیگ میں بھی اسلحہ لیے ہوئے تھے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ بھرپور تیاری کے ساتھ کئی گھنٹے تک مقابلے کے لیے آئے تھے۔
انٹیلی جنس ذرایع نے بتایا کہ حملے کے وقت ایئرپورٹ پر 3 فلائٹس میں بورڈنگ کا عمل جاری تھا ، حملہ آور طیاروں کی مینٹیننس کے ایریا سے ایئرپورٹ میں گھسے اور وقوعہ کے وقت کئی طیارے وہاں موجود تھے لیکن حملہ آور جناح ٹرمینل کی جانب ہی بڑھتے رہے ، مینٹیننس ایریا سے جناح ٹرمینل پر جہاں جہازوں پر بورڈنگ کا عمل جاری تھا تک کا فاصلہ تقریباً ایک سے ڈیڑھ کلومیٹر ہے جسے دہشت گرد جلد از جلد عبور کرنا چاہتے تھے لیکن ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس کی جانب سے بروقت کارروائی کی وجہ سے وہ اپنے ہدف تک پہنچنے میں ناکام رہے ۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ آور ازبک یا چیچن معلوم ہوتے تھے ۔
اگست 2012 ء میں کامرہ بیس پر بھی حملے کا یہی انداز تھا ۔ تاہم آرمی کمانڈوز اور پولیس و رینجرز کی مجموعی طور پر کائونٹر ٹیررازم کی بر وقت حکمت عملی کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایئر پورٹ پر حملہ آوروں کے نیٹ ورک کی فعالیت ، جارحانہ حملے اور اہداف و حساس تنصیبات تک مجرمانہ رسائی کے باوجود وہ ایئرپورٹ کی مکمل تباہی کے منصوبے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔بہر کیف گزشتہ روز ملک میں جو دو بڑے دردناک واقعات ہوئے وہ دہشت گردی میں شدت کے ایک نئے زاویئے کا پتا دیتے ہیں،ارباب اختیار اس امر کا ادراک کریں کہ انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے بات چیت کے علاوہ بھی قابل عمل آپشنز کو مد نظر رکھنا اشد ضروری ہے ۔
اس لیے سلامتی پر مامور اداروں کا یہ محسوس کرنا ناگزیر ہوگیا ہے کہ ریاستی رٹ قائم ہوئے بغیر معاملات قطعی درست نہیں ہوسکتے جب کہ ایئر پورٹ سانحہ کے بعد طالبان سے مذاکرات کرنا بذات خود ایک بڑا سوالیہ نشان اور حکومت کے لیے ایک آزمائش ہے جس سے عہدہ برآ ہونا ارباب اختیار کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ اطلاع یہ بھی ہے کہ پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال کے پیش نظر وزیراعظم اسی ہفتہ قومی سلامتی کے دیگر امور کے علاوہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے دہشت گرد کارروائیوں کے حوالے سے اہم اجلاس میں بات چیت کے ممکنہ آپشن پر غور کریں گے اور پاک فوج اور قومی سلامتی کے دیگر اداروں کے اتفاق رائے سے حکمت عملی تیار کی جائے گی ۔
دوسرا افسوس ناک واقعہ بلوچستان کے سرحدی علاقے تفتان میں ایران سے کوئٹہ آنیوالے زائرین پر فائرنگ کا ہے جس میں 25افراد جاں بحق اور 30 زخمی ہوگئے، پولیس اور لیویز کی کارروائی میں چاردہشت گرد بھی مارے گئے، سیکیورٹی فورسز اور حملہ آوروں کے مابین فائرنگ کا تبادلہ کئی گھنٹے تک جاری رہا ، حملے کی ذمے داری کالعدم جیش الاسلام نے قبول کر لی ہے ، وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ تفتان میں دہشتگردوں کے حملے میں 23 زائرین جاں بحق ہوئے ، فورسز سے فائرنگ کے تبادلے میں چار دہشتگرد بھی مارے گئے۔ تحفظ عزاداری کونسل نے زائرین پر حملے کے خلاف تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
جعفریہ الائنس نے تفتان ہوٹل پر دہشتگردوں کے حملے کی مذمت کی ہے ۔ ترجمان مجلس وحدت المسلمین نے کہا ہے کہ حملے میں کالعدم جماعتیں ملوث ہیں ۔ ادھر سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے مشترکہ سرحدی علاقے گندیاری ٹائون میں فرنٹیئر کور بلوچستان کے آپریشن میں 10 سے زائد دہشت گرد ہلاک ہوگئے ۔آئی جی ایف سی میجر جنرل اعجاز شاہد کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں اور جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی تک صوبائی حکومت کے احکامات کے مطابق ٹارگٹڈ آپریشن کیا جا ئیگا ۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی اور فرقہ واریت کے دو خونیں دھارے قومی سیاست اور وطن عزیز کے وجود کے لیے سنگین خطرہ بن چکے ہیں، فرقہ واریت کو دہشت گردی کے واقعات کے جداگانہ تناطر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ قومی یکجہتی پر وار ہے ۔اس لیے ان قوتوں پر وارادات سے قبل ہی پیشگی ہلہ بولنے کی حکمت عملی لازم ہے۔
مزید برآں ایک رپورٹ پر بھی ارباب بست و کشاد غور کریں جس میں کہا گیا کہ سائبر اسپیس کے ایک سروے '' بائٹس فار آل ''کے مطابق پاکستان میں مذہبی ، نسلی،اور صنفی بنیاد پر نفرت انگیزرجحانات میں اضافہ ہوا ہے جب کہ سوشل میڈیا پر بھی اس قسم کا مواد جو قومی یکجہتی اور اسلامی اخوت کے لیے ضرر رساں ہے فیس بک پر رومن اردو میں 74 فیصد ، انگریزی 22میں فی صد اور اردو میں 4 فی صد مواد پیش ہوتا رہا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمراں دہشت گردی ،فرقہ واریت، انتہا پسندی، عدم رواداری، ناانصافی ، ناخواندگی اور غربت و بدامنی کے عفریت سے چومکھی لڑنے کی تیاری کریں۔
کراچی ایئر پورٹ پر دہشت گردی کی واردات اور دیگر واقعات کا سدباب ممکن ہوتا اگر حکام سندھ میں دہشت گردی کے خدشہ سے متعلق ایک پیشگی خبر پر توجہ دیتے جو 5 جون کو نمایندہ ایکسپریس نے فائل کی تھی ۔ وزارت داخلہ کی طرف سے جاری مراسلہ میں خبردار کیا گیا تھا کہ سندھ میں بڑے پیمانہ پر دہشتگردی کا خطرہ ہے ، کالعدم تنظیمیں کارروائی کی منصوبہ بندی کررہی ہیں ۔ اب میڈیا اور کتنا چلائے، شور مچائے ، عوام کتنی آہ و فغاں کریں ۔ وقت آگیا ہے کہ وطن عزیز کی سالمیت اور داخلی امن و استحکام کے لیے قوم ، حکمراں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں ۔اسی میں سب کا مفاد ہے۔