ایک نئی سرد جنگ کی طرف
دوسری عالمی جنگ کے بعد تقریباً پچاس سال تک جو سرد جنگ جاری رہی اس کے فریقوں کے درمیان نظریاتی اختلافات تھے
QUETTA:
انسانی تاریخ کا یہ بڑا المیہ ہے کہ انسان جیسے جیسے تہذیبی ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا اس کی حیوانیت میں اسی تناسب سے اضافہ ہوتا رہا، تاریخ کے ابتدائی دورکے انسان کو ہم وحشی اور جاہل کہتے ہیں، یہ وحشی اور جاہل انسان آپس میں مل جل کر پہاڑوں اور غاروں میں رہتا تھا نہ ان کے درمیان دشمنیاں تھیں نہ خون خرابا، مل جل کر رہتے تھے، مل بانٹ کر کھاتے تھے۔
اس ابتدائی دور کے انسان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ خوراک تھی درختوں کے پتوں اور پھلوں پر گزارا کرنے والا انسان کے سامنے جنگلی جانوروں کی صورت میں خوراک کا ایک بہتر متبادل موجود تھا لیکن اس نہتے انسان کو یہ مشکل درپیش تھی کہ شکار کے لیے اس کے پاس کوئی ہتھیار نہ تھا کیوں کہ نہ اس دور میں اسلحہ ساز فیکٹریاں تھیں نہ کوئی آرڈیننس فیکٹری تھی، سو اس نے عقل کے استعمال سے پتھر کے ہتھیار بنالیے اور ان ہتھیاروں سے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے شکار کرنے لگا۔ اس وحشی اور جاہل انسان نے پتھر کے اس ہتھیار کو نہ آپس کی قتل و غارت گری میں استعمال کیا نہ ایک دوسرے کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے استعمال کیا پھر بھی وہ جاہل اور وحشی کہلایا۔
آج کا انسان جو اپنے آپ کو انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ انسان کہتا ہے ہتھیاروں کی صنعت کو اس قدر ترقی دی کہ ایٹم بم بنالیا، وہ ایٹم بم جو اگر استعمال ہو تو آن واحد میں لاکھوں زندہ انسانوں کو سوختہ لاشوں میں بدل دیتاہے جس کی تباہی کا اندازہ ہیروشیما اور ناگا ساکی کے سانحوں سے کیا جاسکتاہے ،ان شہروں کے لاکھوں انسانوں کی پلک جھپکتے میں جانیں لے لیں، آج اس کم طاقت ور ایٹم بم کے مقابلے میں سیکڑوں گنا زیادہ طاقت ور ایٹم بم ہزاروں کی تعداد میں انسان کے ہاتھوں میں موجود ہیں، روایتی لیکن جدید ہتھیاروں کے استعمال سے اب تک کروڑوں انسانوں کو قتل کردیا گیا۔ جس کی تازہ مثالیں عراق اور افغانستان کی شکل میں موجود ہیں ان جنگوں کے خالق آج کی دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہیں کیا لاکھوں، کروڑوں انسانوں کی جان لینے والوں کو مہذب انسان کہا جاسکتاہے؟
دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم اور دنیا کی واحد سپر پاور کے صدر بارک اوباما آج کل تین یورپی ملکوں کے دورے میں پولینڈ کے شہر وارسا پہنچنے کے بعد پولینڈ کے صدر کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اوباما نے کہا ہے کہ ''امریکا یورپ میں اپنی فوجی موجودگی بڑھائے گا، موصوف نے کہا کہ آج میں یہاں نیٹو کے یورپی اتحادی ملکوں کی حمایت میں اضافے کے لیے ایک نئی حکمت عملی کا اعلان کر رہا ہوں، امریکی کانگریس کی حمایت سے یورپ میں عسکری ساز و سامان میں اضافہ کیا جائے گا، واشنگٹن یورپ میں نہ صرف عسکری سامان یعنی جدید ہتھیار پہنچانا چاہتا ہے بلکہ خطے میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کرنا چاہتا ہے جس کے لیے تیاریاں جاری ہیں۔
اس منصوبے پر مزید ایک بلین ڈالر خرچ کیے جائیںگے، امریکی صدر نے جس ملک میں یہ اعلان کیا ہے وہ ملک ماضی میں روس کا اتحادی تھا اور روسی بلاک نے نیٹو کے مقابلے میں سوشلسٹ ملکوں کا جو بلاک بنایا تھا۔ اسے وارسا پیکٹ کہا جاتا تھا۔ کیوں کہ یہ معاہدہ پولینڈ کے شہر وارسا میں طے ہوا تھا، نیرنگی حالات ملاحظہ فرمایے کہ آج اوباما اسی شہر میں روس کے خلاف یورپ کے تین ملکوں کو مزید فوجی امداد اور مزید فوج مہیا کرنے کا اعلان کررہے ہیں، ہتھیار خواہ وہ ایک ٹی ٹی ہو یا ایٹمی میزائل اور ایٹم بم ہوں یہ سب انسانوں کے خلاف ہی استعمال ہوتے ہیں، یہ ہے انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور مہذب انسان جو اپنے تیار کردہ ہتھیاروں سے اب تک کروڑوں انسانوں کی جان لے چکا ہے اور کروڑوں کی جان لینے کی تیاری کر رہا ہے۔
اوباما روس کے اس سابق اتحادی ملک کا دورہ یوکرین میں روس نواز جنگجوئوں کی یوکرین کو روس کا حصہ بنانے کی کوششوں کے خلاف یوکرینی حکمرانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے کررہے ہیں، یوکرین کی ایک ریاست کریمیا ریفرنڈم کے ذریعے روس میں شامل ہوچکی ہے اب روس یوکرین کو روس کا حصہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے، امریکی صدر روس کے سابق اتحادیوں کو ہتھیار اور فوج مہیا کرکے انھیں روس کی ممکنہ جارحیت سے بچانے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ کوششیں تیزی سے ایک نئی سرد جنگ کی راہ ہموارکررہی ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد تقریباً پچاس سال تک جو سرد جنگ جاری رہی اس کے فریقوں کے درمیان نظریاتی اختلافات تھے، امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کا حمایتی تھا، روس اپنے اتحادیوں کے ساتھ سوشلزم کا حامی تھا، اس سرد جنگ کی بنیاد نظریاتی اختلاف تھا امریکا نے سوشلزم کے خلاف ایک شش جہتی جنگ لڑی کیوں کہ سرمایہ داری کے حامی ملکوں کا موقف یہ تھا کہ سوشلزم ایک ایسا نظام ہے جو جمہوریت اور انسانی حقوق، انسانی آزادیوں کی نفی کرتاہے جسے ہم جدید دنیا کے تقاضوں کے خلاف سمجھتے ہیں۔
بلاشبہ سوشلزم میں انسانی آزادیوں کو انسانی حقوق کو محدود کیا جاتاہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سوشلسٹ نظام میں عوام کو لائن لگاکر اپنی بنیادی ضرورت کی چیزیں حاصل کرنی پڑتی تھیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے عورت کو جسم فروشی اور مردوں کو بے ایمانی اور ضمیر فروشی کرنا پڑتاہے۔ سوشلسٹ معیشت میں نجی ملکیت کا حق نہیں تھا جس کی وجہ سے قوم کی دولت چند ہاتھوں میں جمع نہیں ہوجاتی تھی، سرمایہ دارانہ نظام میں نجی لا محدود ملکیت کا حق ہے بلکہ اس حق کو قانونی اور آئینی تحفظ بھی حاصل ہے جس کی وجہ سے قوم کی 80 فی صد دولت دو فی صد سے کم لوگوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہوجاتی ہے جس کا نتیجہ اکثریت کی غربت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
سوشلزم میں انسانوں کی آزادی محدود ہوتی ہے سرمایہ دارانہ نظام میں یہ آزادی اتنی لا محدود ہوتی ہے کہ انسان اس آزادی کو استعمال کرتے ہوئے بھیک مانگ سکتاہے، بھوک سے تنگ آکر انفرادی اور اجتماعی خودکشیاں کرسکتاہے، سوشلزم میں پیدا وار بوائے ضرورت کا فلسفہ موجود تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں پیداوار بوائے منافع کا فلسفہ کام کرتاہے اور لوٹ مار کی آزادی حاصل ہوتی ہے سوشلزم میں چوری، ڈاکے، بے ایمانی، ضمیر فروشی جیسی برائیاں مفقود ہوتی ہیں سرمایہ دارانہ نظام کی عمارت ان ہی برائیوں کی بنیاد پرکھڑی رہتی ہے۔ سوشلزم میں جسم فروشی کو ایک صنعت سمجھا جاتا ہے سرمایہ دارانہ نظام میں جسم فروشی کے لائسنس جاری کیے جاتے ہیں سوشلزم میں کرپشن کی گنجائش نہیں ہوتی، سرمایہ داری کی شریانوں میں کرپشن خون بن کر دوڑتی رہتی ہے۔
اب امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سازشوں اور خفیہ ایجنسیوں کی کو ششوں سے سوشلزم ختم ہوگیا اب مغربی بلاک اور سابق سوشلسٹ بلاک میں سرمایہ دارانہ نظام ہی کی پٹری پر چل رہے ہیں اور بہت کم عرصے میں سابق سوشلسٹ ملکوں میں وہ ساری غلاظتیں در آئی ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے لوازمات ہیں اب ان دو بلاکوں کے درمیان سرد جنگ کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ روس نے اگر کریمیا کو اپنا حصہ بنالیا ہے تو اس پر اعتراض کیوں؟ کیوں کہ سامراجی ملکوں کا وطیرہ ہی ملک گریبنگ ہے کمزور ملکوں پر طاقت کے ذریعے قبضہ سامراجی ملکوں کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے اگر روس بحیثیت ایک سرمایہ دار ملک اس سامراجی روایت کی پیروی کر رہا ہے تو بارک اوباما کیوں پریشان ہورہا ہے وہ اگر بغیر کسی منطقی جواز کے دس سال تک عراق پر قبضہ برقرار رکھ سکتا ہے تو پھر ریفرنڈم کے ذریعے کریمیا کی روس میں شمولیت پر وہ چراغ پا کیوں ہے؟
دنیا کا حکمران طبقہ ایسے جاہلوں جنگ پسندوں لٹیروں پر مشتمل ہے جو نام تو جمہوریت کا، انسانی حقوق کا، انسانی آزادی کا لیتے ہیں لیکن ان عناصر کا صرف نام استعمال ہوتاہے عملاً نہ کہیں جمہوریت ہے نہ انسانی حقوق نہ انسانی آزادی، ان حقائق کے پس منظر میں نیٹو کو تسلیم کرنا پھیلانا ایک ایسی نئی سرد جنگ کی طرف بڑھنا ہے پھر دنیا کو ایک زیادہ خطرناک نئی سرد جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں؟ کیا یہ کوشش ترقی یافتہ مہذب انسان کے شایان شان ہیں؟