ٹریفک نظام کب درست ہوگا…
اب جو بے راہ روی عام ہو گئی ہے، لوگ اس کا آبادی میں بے تحاشا اضافے کو ٹھہراتے ہیں
یہ دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ اگر کسی ملک کے لوگوں کے متعلق کوئی رائے قائم کرنی ہو تو اس کے ٹریفک کے نظام کو دیکھنا چاہیے۔ ہمارے ملک،خصوصاً کراچی میں ٹریفک کا جو حال ہے، اس سے باہر سے آنے والے کیا رائے قائم کرتے ہونگے، اس کا کیا کہا جائے۔
مجھے یاد ہے کہ جس زمانے میں موٹر سائیکل عام نہیں ہوا تھا اس زمانے میں لوگ عام طور پر سائیکل استعمال کرتے تھے، لیکن ان سائیکلوں کو میونسپلٹی میں رجسٹر کرایا جاتا تھا، جس کا ایک ٹوکن ملتا تھا جو سائیکل میں لگایا جاتا تھا۔ 1957 میں تو میں بھی سائیکل رکھتا تھا۔ لوگ ٹریفک کے لال سگنل پر رکتے تھے۔ یہ بھی رواج نہیں تھا کہ سیدھے ہاتھ کی طرف جانے کے لیے لال سگنل پر پہلے سے جا کر کھڑا ہوا جائے۔ آپ کو لال سگنل پر اپنی لائن کے اندر کھڑا ہونا تھا اور گرین سگنل ملنے کے بعد ہی حرکت کرنا تھی۔رات کو سائیکلوں، تانگوں، بگیوں، حتیٰ کہ اونٹ اور گدھا گاڑیوں میں بھی شمع دان یا لالٹین جلانا ضروری ہوتا تھا۔ اور ٹریفک کے قوانین پر سختی سے عمل کرایا جاتا تھا۔ ایک دفعہ میرا بھی چالان ہوا تھا۔ کوئی مْک مْکا نہیں ہوتی تھی۔حادثات بہت کم ہوتے تھے۔
اب جو بے راہ روی عام ہو گئی ہے، لوگ اس کا آبادی میں بے تحاشا اضافے کو ٹھہراتے ہیں۔مان لیا کہ آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور روز ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کے اندرونی علاقوں میں روزگار کے مواقعے فراہم نہیں کیے گئے، اس لیے لوگ بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔
حادثات میں جو اموات ہو رہی ہیں اس کی کسی کو پرواہ نہیں ہے۔ 1985 میں میری 20 سالہ بیٹی ایک حادثے میں شہید ہوئی۔ عینی شاہدوں کا بیان تھا کہ ہماری گاڑی اپنی سائیڈ پر تھی، جب کہ سامنے سے آنے والی سرکاری بس اتنی تیز رفتار تھی کہ وہ آکر ہماری گاڑی سے ٹکرائی اور اسے پیچھے کی طرف کافی فاصلے تک گھسیٹتی ہوئی لے گئی۔ مجھ سے ایک وکیل نے کہا کہ آپ عدالت جائیں اور حکومت سے معاوضہ طلب کریں۔ میں نے اس سے پوچھا، کیا وہ معاوضہ میری بیٹی کا نعم البدل ہوسکتا ہے؟ اس نے کہا نہیں، لیکن اس قسم کے مقدموں سے حکومت پر زور پڑے گا کہ وہ ٹریفک حادثات روکنے کے لیے اقدامات کرے۔
میں نے مقدمہ تو داخل کرایا، لیکن اس مقدمے کا فیصلہ27 سال بعد ہوا، وہ بھی اس لیے کہ وہ نچلی عدالت کی سطح پر ہی ختم ہوا، ورنہ اگر وہ اپیل در اپیل اعلی عدالت تک جاتا تو 50 سال لگتے۔ ڈرائیور کو کیا سزا ہوئی یہ معلوم نہیں، البتہ اس کی ضمانت جلد ہی ہوگئی، کیونکہ ہمارے ملک کے قانون کے مطابق یہ قتل عمد نہیں تھا۔ مجھے یہ بات ابھی تک سمجھ میں نہیں آئی کہ قتل عمد کیا ہوتا ہے؟ اتفاق کی بات ہے کہ جس بلڈنگ میں، میں رہتا تھا اس کے ایک باسی کا بیان تھا کہ اس نے اس بس کو کچھ منٹ پہلے اتنی تیز رفتار سے جاتے ہوئے دیکھا تھا کہ بے اختیار اس کی زبان سے نکلا کہ یہ بس آگے چل کر کسی نا کسی کی جان لے لے گی۔ یہ تو ایک حادثے کی بات ہے۔ ہمارے ملک میں روزانہ کتنے ماں باپ کی گودیں اجڑتی رہی ہیں، کتنے بچے یتیم ہوتے ہیں، لیکن حکومت کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی۔
حالت یہ ہے کہ موٹر سائیکلوں، گاڑیوں، ٹرکوں، بسوں میں ہیڈ لائٹیں بھی صحیح نہیں ہوتیں، بلکہ بریک لائٹس، انڈیکیٹر لائٹس، فوگ لائٹس وغیرہ کے درست نہ ہونے پر کوئی بازپرس بھی نہیں ہوتی۔ یا تو بڑے لوگوں کی گاڑیوں پر نمبر پلیٹیں ہوتی ہی نہیں ہیں یا اگر انھوں نے مہربانی کی تو APPLIED FOR REGISTRATION=AFRکی پلیٹ لگادی، جو اب ایک کلچر کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ پرائیویٹ تو پرائیویٹ، اب یہ AFR پلیٹ سرکاری گاڑیوں پر بھی لگائی جا رہی ہے۔
کچھ گاڑیوں پر صرف سینیٹر، ایم این اے اور ایم پی اے لکھا ہوتا ہے، اگر ان سے کچھ پوچھا جائے تو اس سے ان کا استحقاق مجروح ہوتا ہے اور دوسرے دن وہ اسمبلی میں تحریک پیش کرتے ہیں۔ بہرحال ان سب چیزوں سے ان سے گاڑی کے مالک کا ٹہکا ظاہر ہوتا ہے۔ اول تو کوئی بھی پولیس والا ان کو نہیں روکتا، لیکن اگر کسی سر پھرے نے کسی لاٹ (لارڈ) صاحب کو روکنے کی جسارت کی تو، وہ اول تو تو کہتا ہے، تمہیں معلوم نہیں میں کون ہوں؟ اگر وہ ان صاحب کے رعب میں نہیں آتا تو وہ ایک دم کسی بڑے صاحب کو موبائل فون پر اس کی شکایت کرتا ہے۔ بڑا صاحب پولیس والے کو ڈانٹ پلاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کو چھوڑ دو اور تم ہیڈ کوارٹر رپورٹ کرو۔
پاکستان کے قرونِ اولیٰ یعنی شروع والے زمانے میں کوئی بھی گاڑی بغیر نمبر پلیٹ کے روڈ پر نہیں آ سکتی تھی۔ نئی گاڑیوں کو ایک لال حروف والی عارضی نمبر پلیٹ جاری کی جاتی تھی، جو صرف ایک مہینے کے لیے ہوتی تھی۔ اب تو شو روم والے اپنے نام سے AFRوالی نمبر پلیٹ جاری کر دیتے ہیں اور وہ سالہا سال چلتی رہتی ہے۔
ٹریفک کے حادثات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تجاوزات کی وجہ سے سڑکیں چوڑائی میں سکڑ گئی ہیں، فٹ پاتھوں پر پتھارے اور ٹھیلے، جو بڑے طمطراق سے اعلیٰ افسران بلکہ گورنروں کی سطح پر ایک دن اٹھوائے جاتے ہیں اور دوسرے ہی دن افہام و تفہیم کے جذبے کے تحت وہ پتھارے دار اور ٹھیلے والے شان و شوکت سے موچھوں پر تاؤ دے کر واپس اسی جگہ موجود ہوتے ہیں۔یہاں تک کہ مارشل لاء بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔انگریز کے زمانے میں ایک ضلع میں کسی آدمی نے کسی کی زمیں پر قبضہ جما لیا۔
اس وقت کے کلکٹر (آج کل کے ڈپٹی کمشنر) نے جائے وقوعہ پر لوگوں سے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ واقعی وہ شکایت صحیح تھی (انگریز کا کلکٹر انصاف فراہم کرنے کے لیے اکثر خود بھی (غلام) عوام تک پہنچتا تھا، ہمارے ڈپٹی کمشنر تو اپنے ایئرکنڈیشنڈ دفتر سے باہر ہی نہیں نکلتا ۔کلکٹر صاحب نے شکایت کنندہ سے کہا، ویل جنٹلمین، آج سے یہ زمین تمہارا ہے۔ وہ آدمی بولا، صاحب میں آپ کا بات نہیں مانتا۔
یہ جو دفتروں کی لال گٹھڑی لیے آپ کے پیچھے کھڑا ہے، اگر وہ بولے تو میں اس کا بات مان لونگا، وہ تھا پٹواری۔ ہمارے لیڈر الیکشن کے زمانے میں لوگوں سے وعدے کرتے ہیں کہ اقتدار میں آکر تھانہ پٹواری کلچر ختم کریں گے، لیکن اقتدار ملنے کے بعد وہ بھول جاتے ہیں۔ تھانہ کلچر اس لیے نہیں ختم کرتے کہ انھیں اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے تھانے دار کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ پٹواری بھی انھیں سرکاری زمینوں کا پتہ بتاتا ہے، جن پر وہ صاحبان قبضے کرتے ہیں۔
ہمارے سابقہ چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ ہیوی ٹریفک (بڑے بڑے ٹرالر اور ٹرک، ڈمپر وغیرہ) کا دن کے مصروف اوقات میں بیچ شہر کے چلنا ممنوع ہو گا، لیکن بھلا ہو مْک مْکا کلچر کا، چیف کی کسی نے بھی نہیں سنی اور وہ دن کے مصروف اوقات میں دندناتے پھرتے ہیں، جس سے کئی اموات ہوتی رہتی ہیں۔ کچھ مہینے پہلے نواب شاہ (حال میں بے نظیر آباد) میں ڈمپر کی وجہ سے حادثہ پیش آیا ، جس میں 20 بچے شہید ہوئے اورکئی زخمی ہوئے۔
ہوتا یہ ہے کہ ان بڑی گاڑیوں کو پولیس والے روکتے ہیں۔ تھوڑے فاصلے پر سارجنٹ ، جس کے اختیار میں چالان کرنا ہوتا ہے، کھڑے ہوتے ہیں۔ ڈرائیور سے تھوڑی سی رسمی سلام دعا ہوتی ہے اور اس کے بعد جذبہ خیر سگالی کے تحت اسے دعائیں دے کر رخصت کیا جاتا ہے، اللہ اللہ خیر صلا۔حقیقت یہ کہ اگر ان ڈرائیوروں کو یہ یقین ہو کہ چاہے کچھ بھی ہو، انھیں بخشا نہیں جائے گا، تو وہ کبھی بھی ان اوقات میں گاڑیاں روڈ پر لانے کی ہمت نہیں کریں گے۔
ایک موٹر سائیکل پر میاں ، پانچ بچے، بیگم صاحبہ بقلم خود اور ان کی گود میں ایک عدد شہزادہ یا شہزادی، یہ بھی ایک عام سا نظارہ ہو گیا ہے۔ یہ خدا کے بندے یہ نہیں سمجھتے کہ یہ کتنا پر خطر ہوتا ہے۔ون وے نام کی کوئی چیز اب کوئی نہیں رہ گئی اور نہ ترتیب وار ، ایک دوسرے کے پیچھے گاڑی چلانا کوئی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ہر موٹر سائیکل سوار اور رکشے والا تو اپنا حق سمجھتا ہے کہ وہ سامنے آنے والی گاڑیوں کے عقب میں آئیں۔ اور گاڑیوں والے پڑھے لکھے لوگ بھی اکثر ایسا ہی کرتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ٹریفک کے قوانین پر سختی سے عمل کرایا جائے تو کتنا خرچہ آئے گا؟ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ اگر گاڑیوں کی لائٹیں وغیرہ ٹھیک کرانے کے لیے سختی کی جائے تو لوگوں کے لیے روزگار کھلے گا۔ جن کارخانوں میں یہ چیزیں بنتی ہیں ان کو بھی فائدہ ہوگا اور مستری لوگوں کے لیے بھی روزگار کھلے گا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حادثات کا سد باب ہوگا۔
مجھے یاد ہے کہ جس زمانے میں موٹر سائیکل عام نہیں ہوا تھا اس زمانے میں لوگ عام طور پر سائیکل استعمال کرتے تھے، لیکن ان سائیکلوں کو میونسپلٹی میں رجسٹر کرایا جاتا تھا، جس کا ایک ٹوکن ملتا تھا جو سائیکل میں لگایا جاتا تھا۔ 1957 میں تو میں بھی سائیکل رکھتا تھا۔ لوگ ٹریفک کے لال سگنل پر رکتے تھے۔ یہ بھی رواج نہیں تھا کہ سیدھے ہاتھ کی طرف جانے کے لیے لال سگنل پر پہلے سے جا کر کھڑا ہوا جائے۔ آپ کو لال سگنل پر اپنی لائن کے اندر کھڑا ہونا تھا اور گرین سگنل ملنے کے بعد ہی حرکت کرنا تھی۔رات کو سائیکلوں، تانگوں، بگیوں، حتیٰ کہ اونٹ اور گدھا گاڑیوں میں بھی شمع دان یا لالٹین جلانا ضروری ہوتا تھا۔ اور ٹریفک کے قوانین پر سختی سے عمل کرایا جاتا تھا۔ ایک دفعہ میرا بھی چالان ہوا تھا۔ کوئی مْک مْکا نہیں ہوتی تھی۔حادثات بہت کم ہوتے تھے۔
اب جو بے راہ روی عام ہو گئی ہے، لوگ اس کا آبادی میں بے تحاشا اضافے کو ٹھہراتے ہیں۔مان لیا کہ آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور روز ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کے اندرونی علاقوں میں روزگار کے مواقعے فراہم نہیں کیے گئے، اس لیے لوگ بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔
حادثات میں جو اموات ہو رہی ہیں اس کی کسی کو پرواہ نہیں ہے۔ 1985 میں میری 20 سالہ بیٹی ایک حادثے میں شہید ہوئی۔ عینی شاہدوں کا بیان تھا کہ ہماری گاڑی اپنی سائیڈ پر تھی، جب کہ سامنے سے آنے والی سرکاری بس اتنی تیز رفتار تھی کہ وہ آکر ہماری گاڑی سے ٹکرائی اور اسے پیچھے کی طرف کافی فاصلے تک گھسیٹتی ہوئی لے گئی۔ مجھ سے ایک وکیل نے کہا کہ آپ عدالت جائیں اور حکومت سے معاوضہ طلب کریں۔ میں نے اس سے پوچھا، کیا وہ معاوضہ میری بیٹی کا نعم البدل ہوسکتا ہے؟ اس نے کہا نہیں، لیکن اس قسم کے مقدموں سے حکومت پر زور پڑے گا کہ وہ ٹریفک حادثات روکنے کے لیے اقدامات کرے۔
میں نے مقدمہ تو داخل کرایا، لیکن اس مقدمے کا فیصلہ27 سال بعد ہوا، وہ بھی اس لیے کہ وہ نچلی عدالت کی سطح پر ہی ختم ہوا، ورنہ اگر وہ اپیل در اپیل اعلی عدالت تک جاتا تو 50 سال لگتے۔ ڈرائیور کو کیا سزا ہوئی یہ معلوم نہیں، البتہ اس کی ضمانت جلد ہی ہوگئی، کیونکہ ہمارے ملک کے قانون کے مطابق یہ قتل عمد نہیں تھا۔ مجھے یہ بات ابھی تک سمجھ میں نہیں آئی کہ قتل عمد کیا ہوتا ہے؟ اتفاق کی بات ہے کہ جس بلڈنگ میں، میں رہتا تھا اس کے ایک باسی کا بیان تھا کہ اس نے اس بس کو کچھ منٹ پہلے اتنی تیز رفتار سے جاتے ہوئے دیکھا تھا کہ بے اختیار اس کی زبان سے نکلا کہ یہ بس آگے چل کر کسی نا کسی کی جان لے لے گی۔ یہ تو ایک حادثے کی بات ہے۔ ہمارے ملک میں روزانہ کتنے ماں باپ کی گودیں اجڑتی رہی ہیں، کتنے بچے یتیم ہوتے ہیں، لیکن حکومت کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی۔
حالت یہ ہے کہ موٹر سائیکلوں، گاڑیوں، ٹرکوں، بسوں میں ہیڈ لائٹیں بھی صحیح نہیں ہوتیں، بلکہ بریک لائٹس، انڈیکیٹر لائٹس، فوگ لائٹس وغیرہ کے درست نہ ہونے پر کوئی بازپرس بھی نہیں ہوتی۔ یا تو بڑے لوگوں کی گاڑیوں پر نمبر پلیٹیں ہوتی ہی نہیں ہیں یا اگر انھوں نے مہربانی کی تو APPLIED FOR REGISTRATION=AFRکی پلیٹ لگادی، جو اب ایک کلچر کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ پرائیویٹ تو پرائیویٹ، اب یہ AFR پلیٹ سرکاری گاڑیوں پر بھی لگائی جا رہی ہے۔
کچھ گاڑیوں پر صرف سینیٹر، ایم این اے اور ایم پی اے لکھا ہوتا ہے، اگر ان سے کچھ پوچھا جائے تو اس سے ان کا استحقاق مجروح ہوتا ہے اور دوسرے دن وہ اسمبلی میں تحریک پیش کرتے ہیں۔ بہرحال ان سب چیزوں سے ان سے گاڑی کے مالک کا ٹہکا ظاہر ہوتا ہے۔ اول تو کوئی بھی پولیس والا ان کو نہیں روکتا، لیکن اگر کسی سر پھرے نے کسی لاٹ (لارڈ) صاحب کو روکنے کی جسارت کی تو، وہ اول تو تو کہتا ہے، تمہیں معلوم نہیں میں کون ہوں؟ اگر وہ ان صاحب کے رعب میں نہیں آتا تو وہ ایک دم کسی بڑے صاحب کو موبائل فون پر اس کی شکایت کرتا ہے۔ بڑا صاحب پولیس والے کو ڈانٹ پلاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کو چھوڑ دو اور تم ہیڈ کوارٹر رپورٹ کرو۔
پاکستان کے قرونِ اولیٰ یعنی شروع والے زمانے میں کوئی بھی گاڑی بغیر نمبر پلیٹ کے روڈ پر نہیں آ سکتی تھی۔ نئی گاڑیوں کو ایک لال حروف والی عارضی نمبر پلیٹ جاری کی جاتی تھی، جو صرف ایک مہینے کے لیے ہوتی تھی۔ اب تو شو روم والے اپنے نام سے AFRوالی نمبر پلیٹ جاری کر دیتے ہیں اور وہ سالہا سال چلتی رہتی ہے۔
ٹریفک کے حادثات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تجاوزات کی وجہ سے سڑکیں چوڑائی میں سکڑ گئی ہیں، فٹ پاتھوں پر پتھارے اور ٹھیلے، جو بڑے طمطراق سے اعلیٰ افسران بلکہ گورنروں کی سطح پر ایک دن اٹھوائے جاتے ہیں اور دوسرے ہی دن افہام و تفہیم کے جذبے کے تحت وہ پتھارے دار اور ٹھیلے والے شان و شوکت سے موچھوں پر تاؤ دے کر واپس اسی جگہ موجود ہوتے ہیں۔یہاں تک کہ مارشل لاء بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔انگریز کے زمانے میں ایک ضلع میں کسی آدمی نے کسی کی زمیں پر قبضہ جما لیا۔
اس وقت کے کلکٹر (آج کل کے ڈپٹی کمشنر) نے جائے وقوعہ پر لوگوں سے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ واقعی وہ شکایت صحیح تھی (انگریز کا کلکٹر انصاف فراہم کرنے کے لیے اکثر خود بھی (غلام) عوام تک پہنچتا تھا، ہمارے ڈپٹی کمشنر تو اپنے ایئرکنڈیشنڈ دفتر سے باہر ہی نہیں نکلتا ۔کلکٹر صاحب نے شکایت کنندہ سے کہا، ویل جنٹلمین، آج سے یہ زمین تمہارا ہے۔ وہ آدمی بولا، صاحب میں آپ کا بات نہیں مانتا۔
یہ جو دفتروں کی لال گٹھڑی لیے آپ کے پیچھے کھڑا ہے، اگر وہ بولے تو میں اس کا بات مان لونگا، وہ تھا پٹواری۔ ہمارے لیڈر الیکشن کے زمانے میں لوگوں سے وعدے کرتے ہیں کہ اقتدار میں آکر تھانہ پٹواری کلچر ختم کریں گے، لیکن اقتدار ملنے کے بعد وہ بھول جاتے ہیں۔ تھانہ کلچر اس لیے نہیں ختم کرتے کہ انھیں اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے تھانے دار کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ پٹواری بھی انھیں سرکاری زمینوں کا پتہ بتاتا ہے، جن پر وہ صاحبان قبضے کرتے ہیں۔
ہمارے سابقہ چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ ہیوی ٹریفک (بڑے بڑے ٹرالر اور ٹرک، ڈمپر وغیرہ) کا دن کے مصروف اوقات میں بیچ شہر کے چلنا ممنوع ہو گا، لیکن بھلا ہو مْک مْکا کلچر کا، چیف کی کسی نے بھی نہیں سنی اور وہ دن کے مصروف اوقات میں دندناتے پھرتے ہیں، جس سے کئی اموات ہوتی رہتی ہیں۔ کچھ مہینے پہلے نواب شاہ (حال میں بے نظیر آباد) میں ڈمپر کی وجہ سے حادثہ پیش آیا ، جس میں 20 بچے شہید ہوئے اورکئی زخمی ہوئے۔
ہوتا یہ ہے کہ ان بڑی گاڑیوں کو پولیس والے روکتے ہیں۔ تھوڑے فاصلے پر سارجنٹ ، جس کے اختیار میں چالان کرنا ہوتا ہے، کھڑے ہوتے ہیں۔ ڈرائیور سے تھوڑی سی رسمی سلام دعا ہوتی ہے اور اس کے بعد جذبہ خیر سگالی کے تحت اسے دعائیں دے کر رخصت کیا جاتا ہے، اللہ اللہ خیر صلا۔حقیقت یہ کہ اگر ان ڈرائیوروں کو یہ یقین ہو کہ چاہے کچھ بھی ہو، انھیں بخشا نہیں جائے گا، تو وہ کبھی بھی ان اوقات میں گاڑیاں روڈ پر لانے کی ہمت نہیں کریں گے۔
ایک موٹر سائیکل پر میاں ، پانچ بچے، بیگم صاحبہ بقلم خود اور ان کی گود میں ایک عدد شہزادہ یا شہزادی، یہ بھی ایک عام سا نظارہ ہو گیا ہے۔ یہ خدا کے بندے یہ نہیں سمجھتے کہ یہ کتنا پر خطر ہوتا ہے۔ون وے نام کی کوئی چیز اب کوئی نہیں رہ گئی اور نہ ترتیب وار ، ایک دوسرے کے پیچھے گاڑی چلانا کوئی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ہر موٹر سائیکل سوار اور رکشے والا تو اپنا حق سمجھتا ہے کہ وہ سامنے آنے والی گاڑیوں کے عقب میں آئیں۔ اور گاڑیوں والے پڑھے لکھے لوگ بھی اکثر ایسا ہی کرتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ٹریفک کے قوانین پر سختی سے عمل کرایا جائے تو کتنا خرچہ آئے گا؟ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ اگر گاڑیوں کی لائٹیں وغیرہ ٹھیک کرانے کے لیے سختی کی جائے تو لوگوں کے لیے روزگار کھلے گا۔ جن کارخانوں میں یہ چیزیں بنتی ہیں ان کو بھی فائدہ ہوگا اور مستری لوگوں کے لیے بھی روزگار کھلے گا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حادثات کا سد باب ہوگا۔