کہانی سننے میں مزا نہیں آتا…

ماں کے حافظے میں سیکڑوں کہانیاں محفوظ ہیں وہ کہانیاں باہر آنے کے لیے مچل رہی ہیں۔کہ اچانک بیٹے کے سوال پرچونک جاتی ہے

ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے موجودہ زمانے کے بچوں کو کہانیاں سننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ رات میں سوتے وقت وہ اپنی ماؤں سے نہ تو کہانیاں سنانے کی فرمائش کرتے ہیں اور نہ ہی لوریاں سنانے کی۔ مائیں جیسے لوریاں بھول گئیں ہیں۔ اور یہ بھی بھول گئیں ہے بچپن میں ان کی مائیں انھیں لوریاں گا کر سنایا کرتی تھیں۔

لیکن ان کو اپنے بچوں کو لوریاں سنانے کی نوبت ہی نہیں آتی ہے۔ بچے ٹی وی پر یا میوزک سسٹم پر پاپ راک کے بے ہنگم گانے سنتے، انھیں گنگناتے سو جاتے ہیں۔

ماں کے حافظے میں سیکڑوں کہانیاں محفوظ ہیں وہ کہانیاں باہر آنے کے لیے مچل رہی ہیں۔کہ اچانک بیٹے کے سوال پر چونک جاتی ہے۔

''تو امی بتایئے نا! کیا سند باد کی کہانی میں جادو گرنی ہے۔''

اسے حیرت ہوئی لیکن مجھے جو سند باد کی کہانی یاد ہے۔ اس میں تو کسی جادوگرنی کا ذکر نہیں ہے ؟''

''لیکن ٹی وی پر تو جو سند باد کی کہانی بتائی جا رہی ہے وہ ایک جادو گرنی کے گرد گھومتی ہے۔ ''

''ٹی وی کی کہانی اور الف لیلیٰ کی کہانی ایک دوسرے سے جدا ہیں ... ''

''مجھے تو ٹی وی والا سند باد پسند ہے۔ ''بیٹا بولا ''مجھے کتاب میں کہانی پڑھنے یا کہانی سننے میں مزہ نہیں آتا ہے۔ جو کچھ کہانی میں بیان کیا جاتا ہے اسے سوچ کر تصور کی آنکھ سے دیکھنا پڑتا ہے۔ لیکن ٹی وی پر تو ہر چیز اس طرح پیش کی جاتی ہے جیسے سارے واقعات آنکھوں کے سامنے ہو رہے ہیں۔ بیٹے کی بات سن کر وہ بے بسی سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔

وہ یہ طے نہیں کر پا رہا تھی کہ کتابوں میں شایع دلچسپ کہانیاں پڑھ کر دل بہلانا مفید ہے یا ٹی وی کے رنگین پردے پر خوبصورت مناظر، دلکش موسیقی کے ذریعے پیش کی جانے والی کہانی دیکھنا۔

بیٹا اس کی ماں اور پڑوس کی ایک دو عورتیں رات دیر تک ٹی وی کے سیریل دیکھتے رہتے ہیں۔ اور وہ بیزار سا اپنے کمرے میں جلد سوجاتا ہے یا کتابیں اخبارات پڑھ کر اپنا وقت کاٹتا ہے۔

خواتین ٹی وی سیریل کی اداکاراؤں کے ملبوسات کو غور سے دیکھ کر ان کے ڈیزائن اپنی کاپی میں نقل کرتی ہیں اور دوسرے دن پڑوس کی عورتوں سے ان ملبوسات ان کی قیمت، ان کے میڑیل وغیرہ پر زور دار بحث کرتی ہے۔

اور لڑکا اکثر کارٹون چینل پر نظر آنے والے کرداروں کے بنے کھلونوں سے کھیلتا ہے۔

وہ چاہتی ہے کہ اس کا بیٹا ڈسکوری چینل دیکھے۔ نیشنل جیوگرافک چینل باقاعدگی سے دیکھے، لیکن چینل سرچ کرتے ہوئے جب بھی ٹی وی کے پردے پر یہ چینل ابھرتے ہیں وہ تیزی سے آگے بڑھ جاتا ہے۔

ہاں وہ ڈبلیو ڈبلیو ایف ریسلنگ باقاعدگی سے دیکھتا ہے۔

اکثر اس پروگرام کے لیے ماں اور بیٹے میں جنگ ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ ٹین اسپورٹس یا کسی اور چینل پر جب بھی یہ پروگرام آ رہا ہوتا ہے اسی وقت دیگر چینلز پر خواتین کے لیے بھی دلچسپ پروگرام آ رہے ہوتے ہیں۔ اس کی بہن کوئی اور پروگرام دیکھنا چاہتی ہے لیکن ڈبلیو ڈبلیو ایف دیکھنے کے لیے ضد کرتا ہے اور اس بات پر ماں بیٹے میں تکرار شروع ہوجاتی ہے اور آخر میں سمجھوتہ اس بات پر ہوتا ہے بریک کے دوران بیٹا اپنا پسندیدہ چینل دیکھے گا اور خواتین اپنی پسندیدہ سیریل ۔

اس نے اپنے بیٹے کو اکثر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے پہلوانوں کے اسٹائل میں لڑتے دیکھا ہے۔


وہ کسی پر ہاتھ بھی ان پہلوانوں کے انداز میں اٹھاتا تھا۔ یہاں تک اس نے اکثر دیکھا تھا اس کا بیٹا پلنگ کے تکیے کے ساتھ ریسلنگ کر رہا ہے۔

وہ تکیوں کو کسی مد مقابل پہلوان کی طرح حرکتیں کرتا۔ تکیے کو بار بار زمین پر یا پلنگ پر پٹکتا ہے اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کے پہلوانوں کی طرح منہ سے آوازیں نکالتا ہے اور کبھی کبھی تو عجیب و غریب الفاظ اور آواز میں پہلوانی کے کامینٹیٹروں کی طرح کامینٹری کرنے لگتا ہے پھر بھلا اسے کہانیوں میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ ایک دو بار اس نے بچے میں پڑھنے کا شوق جگانے کے لیے ٹی وی کے کرداروں پر مبنی کامکس لا کر دیں۔

کہ اس طرح اس میں پڑھنے کا شوق جاگے گا۔ پارو پاس گرلز، اسپائڈرمین پوپائی سیلروغیرہ کے کرداروں پر جو بھی کامکس کی کتاب ملی وہ لے آئی اور لا کر اس نے بیٹے کو دی۔

''دیکھو بیٹا میں نے تمھارے پسندیدہ کارٹون کے کرداروں پر مبنی کامکس لائی ہیں۔ انھیں پڑھو تمھیں بڑا مزہ آئے گا۔''

اسے پورا یقین تھا جب اس کا بیٹا یہ کامکس پڑھے گا تو اس میں پڑھنے کا شوق جاگے گا اور اس کے پاس جو ڈھیر ساری کتابیں ہیں ایک دن وہ ان کتابوں کے ڈھیر میں اپنی پسند کی کتابیں تلاش کرے گا اور انھیں پڑھے گا۔ اور ان کتابوں کا فین بن جائے گا۔ایک دن اس نے جب بیٹے سے پوچھا تھا،'بیٹا!میری لائی ہوئی کامکس کی کتابیں پڑھیں ؟''

نہیں امی!

'مگر کیوں۔۔ ؟

''بہت بور کام ہے۔ ان بور کتابوں کو پڑھنا بہت بور کام ہے۔ اس سے تو اچھا ہے ٹی وی پر ان کرداروں پر مبنی سیریل اور کارٹون فلمیں دیکھی جائیں۔

اسے اس بات کا بہت دکھ ہوتا تھا کہ اس کے بچے کو پڑھنے میں دلچسپی نہیں ہے۔

لیکن جب وہ اپنے بیٹے کے روز کے معمولات کو دیکھتی تو اسے محسوس ہوتا کہ بچے پر پڑھائی کااتنا بوجھ ہے کہ وہ دوسری کتابیں پڑھنے کے لیے وقت ہی نہیں نکال پاتا ہے۔

سویرے اسکول جاتا ہے، دوپہر میں دو جگہ ٹیوشن،کھیلنے کے لیے اسے مشکل سے ایک گھنٹہ مل پاتا ہے۔ پھر ہوم ورک کرنے میں لگ جاتا ہے۔ اور باقی تھوڑا سا وقت مل گیا تو اس میں ٹی وی نہیں دیکھے گا تو کیا کریگا۔ ؟

اس کے پاس پڑھنے کے لیے وقت کہاں ہے۔

یہی کیا کم تھا کہ پڑوسی کمپیوٹر لے آیا۔

اب اس کے بیٹے کا زیادہ تر وقت پڑوسی کے کمپیوٹر پر گیم کھیلنے میں گزرتا وہ کمپیوٹر پر گیم کھیلنے میں اتنا کھو جاتا تھا کہ اسے کسی بھی بات کی سدھ بدھ نہیں ہوتی تھی۔نہ کھانے کی نہ پینے کی اور نہ کسی اور بات کی کمپیوٹر سے اٹھانے پر وہ اٹھانے والے کے ساتھ جھگڑا کرنے لگتا۔اس کا بیٹا آئے دن موبائل فون سروس دینے والوں کی ویب سائٹ پر دیگر ویب سائٹ سے نئے گیم ڈائون لوڈ کرکے انھیں کھیلتا تھا جس کی وجہ سے اکثر اس کے سیل فون کا بیلنس کم ہوجاتا تھا۔ ان کی بڑی عجیب زندگی تھی ایک چھت کے نیچے وہ رہتے تھے لیکن ہر کسی کی الگ دنیا تھی وہ ایک دوسرے کے لیے لازم تھے لیکن اس کے خیالات کہیں بھی ایک دوسرے سے نہیں ملتے تھے، بیٹے کی اپنی الگ ایک دنیا تھی وہ جو حرکتیں اور باتیں کرتا تھا اسے وہ ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں۔

وہ جب بھی بیٹے سے کہتی بیٹا ایک کہانی سنو، بیٹا جواب دیتا تھا امی میرے پاس کہانی سننے کے لیے وقت نہیں ہے مجھے کہانی سننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مجھے کہانی سننے میں کوئی مزہ نہیں آتا ہے۔تو اسے محسوس ہوتا جس کام میں اس کے بیٹے کو کوئی دلچسپی نہیں ہے اسے اس پر وہ کام کرنے کے لیے زور ڈالنا نہیں چاہیے۔آج کے دور میں جب وہ دادا، دادی، نانا، نانی، چاچا، چاچی بن گئے ہیں اور بچوں کو کہانیاں سنانے کے بجائے دکھارہے ہیں تو اب ان جیسے انسانوں کو بزرگ بننے کی کیا ضرورت؟

''بزرگوں کا کام شاید مشینوں کو سونپا جا چکا ہے۔''
Load Next Story