’’دانستہ‘‘ شاعر علی شاعر کے فکرو فن کا طلسماتی پھول

شاعر علی شاعرؔ دوسروں کو محبت ،احترام اورمقام دینے کے قائل ہیں


صدام ساگر March 03, 2024

شاعر علی شاعر کے قلم سے فکر و فن کے پھول کھلتے ہیں جو گلستان ادب کو خوشبو سے آشنا کر دیتے ہیں، وہ ایسے باکمال سخن ور ہیں جو ہر خیال کو سجا کر پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں، وہ اپنا تخلیقی کام چاہے شاعری ہو یاافسانہ نگاری، ناول نگاری ہو یا تنقید نگاری نہایت سلیقہ مندی، ایمان داری، محنتِ شاقہ، جاں فشانی اور تلاش و جستجو سے انجام دیتے ہیں۔

وہ آنکھوں دیکھے حقائق کو نہایت باریک بینی اور فن کاری سے قرطاس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اُن کے قلم سے اب تک ترتیب و تدوین، تصنیف و تالیف اور تخلیق پا کر ایک سو تیس کتابیں نہ صرف شائع بلکہ فروخت بھی ہو چکی ہیں، اُن کی تخلیقاتِ نظم و نثر میں روز بہ روز اضافہ ہو تا جا رہا ہے، گزشتہ د س برسوں میں کوئی سال ، کوئی دن ایسا نہیں گزراکہ اُن کا نیا شعری مجموعہ یا تنقیدی مضامین کی کتاب منظرِ عام پر نہ آئی ہو۔

نئے سال سے قبل اُن کے آٹھ شعری مجموعوں سے منتخب غزلوں پر مبنی دیوان ''دانستہ'' کے نام سے شائع ہوا۔ اِن مجموعوں میں ''بہارو اب تو آ جائو، وہ چاند جیسا شخص، تیرے پہلو میں، غزل پہلی محبت ہے، اعلانِ محبت، ایک بحر سو غزلیں، تقلید، ہم کلامی شامل ہیں۔ شاعر علی شاعرؔ کے دیوان ''دانستہ'' میں اُن کی تخلیق کردہ دو سو غزلیات کا انتخاب کیا گیا ۔ اِن غزلیات کو حروفِ تہجی کے لحاظ سے ترتیب دیا گیا ہے تاکہ یہ دیوان کی صورت میں سامنے آ سکے۔

موصوف نے حروفِ تہجی کی ردیفوں میں اچھی غزلیں کہی ہیں جن سے اُن کے پختہ کار اور کہنہ مشق شاعر ہونے کا ثبوت مہیا ہوتا ہے۔ اُن کی شاعری کا بنیادی موضوع محبت اور عشق ہے۔ جس سے وہ اپنے محبوب کی محفل میں چاہتوں اور اُمنگوں کے چراغ روشن کیے ہوئے ہیں۔دیوان''دانستہ'' میں شامل تمام غزلیات میں کلاسیکی اور جدید روایات کا رنگ نمایاں ہے۔ اِن دونوں رنگوں میں لطافت اور نزاکت اپنا خاص اثر لیے ہوئے ہیں۔

اِن غزلیات میں استعمال ہونیوالی زبان سادہ اور عام فہم ہے جو قارئین کو پڑھتے ہوئے کسی گھٹن کا شکار نہیں ہونے دیتی۔ اُنہوں نے مشکل پسندی کی بجائے سادہ اور عام فہم انداز میں بات کرنے کی کوشش کی ہے۔ اُن کا سادہ ساشعری اُسلوب ہمیں ناصر کاظمی کی یاد دلا دیتا ہے۔ شاعر علی شاعرؔ کی غزل کا خمیر صوفیا کی سرزمین ملتان سے اُٹھا ہے۔ جس میں محبت، وفا، رواداری، ایثار اور قربانی کے اَن گنت جذبوں کا رنگ شامل ہے۔ اُن کی شاعری میں آج بھی اُس مٹی کی خوشبو رچی ہوئی ہے۔ ''دانستہ'' سے ایک خوبصورت خیال۔

فاقے سے مر گیا جو پڑوسی تو یہ کھلا

ہیں میرے جیسے حال میں کچھ لوگ مبتلا

شاعر علی شاعرؔ نے اپنے بعض اشعار میں رومانوی اور طلسماتی دنیا کے خواب کی بجائے معاشرے کے المیوں اور محرمیوں کا تذکرہ جرأتِ اظہار سے کیا ہے۔ وہ اقتدار کے نشے میںمبتلا حکمرانوں کی عیاشیاں، عوام پر ظلم وستم، ناانصافیوں اور صبر کے تسلسل کے بارے میں بھی کلمہ حق کہتے ہوئے نظر آتے ہیں جس کا ثبوت ہمیں اُن کے دیوان''دانستہ'' میں شامل اشعار کی صورت میں ملتا ہے۔

شاعر علی شاعرؔ کی غزل کے رنگ کو مزید نمایاں کرتے ہوئے پروفیسر یونس حسنؔ کے مقدمہ سے کچھ سطور حاضر ہیں کہ''شاعر علی شاعرؔ نے مختلف النوع شعری صنعتوں سے بھی اپنی غزل کو مزین کیا ہے، اُن کی شعری صنعتوں کے آنے سے جہاں استعاراتی حسن اور خوب صورتی میں اضافہ ہوا ہے، وہاں اُن میں گہرائی اور معنویت بھی پیدا ہوگئی ہے، جن شعری صنعتوں کا فن کارانہ استعمال کیا گیا ہے اُن میں صنعتِ ایہام، صنعتِ تجنیس، صنعتِ تضاد، صنعتِ لف و نشر اور صنعتِ تلمیح قابلِ ذکر ہیں۔ یہ شعری صنعتیں جہاں ہمارے سامنے شاعر علی شاعرؔ کے فکری کینوس کو اُجاگر کرتی ہیں وہاں مختلف ادوار کے معاشرتی، تہذیبی اور تاریخی واقعات سے بھی روشناس کراتی ہیں۔''

''دانستہ'' یہ دیوان شاعر علی شاعرؔ کے بچپن سے لے کر اُن کی ادھیڑ عمر تک کا نہ صرف احاطہ کرتا ہے بلکہ اُن کی زندگی سے جڑی تمام یادوں کو تازہ کر دیتا ہے۔ابتدائے سخن میں اُن کی مہر سعید ملتانی نے حوصلہ افزائی کی، بعد میں اساتذہ کے مصرعوں پر مشقِ سخن کرتے ہوئے کبھی میر تقی میرؔ تو کبھی غالبؔ کے مصرعوں پر غزلیں کہتے رہے، جیسے جیسے مطالعے میں اضافہ ہوتا گیا ویسے ویسے مشقِ سخن میں نکھار آتا گیا۔اُن کے پسندیدہ شاعر قتیل شفائی تھے، اُن کی زمین میں ایک شعر :

کیسا یہ باغبانِ چمن کا اُصول تھا

نکلا وہی چمن سے، مخاطب جو پھول تھا

اِسی طرح پاکستان کے نمائندہ غزل کوشاعر انور شعور کی معروف غزل کی ردیف ''اپنی جگہ'' میں کہی گئی اُن کی غزل سے ایک شعرملاحظہ ہو :

پونچھیے کس کس کے آنسو، کیا مداوا کیجیے

سب سے بڑھ کر ہے دُکھی ہر آدمی اپنی جگہ

ملتان سے کراچی سکونت اختیار کرنے پر کراچی کے گمبھیر حالات کی منظر کشی کرتے ہوئے ایک خیال دیکھیے:

فسادِ شہر میں ذکرِ صنم ہم سے نہیں ہوتا

یہ نالے سن کے تو نغمہ رقم ہم سے نہیں ہوتا

شاعر علی شاعرؔ کی دیگر کتب کی طرح یہ دیوان''دانستہ'' بھی اپنی مقبولیت کے جھنڈے گاڑ چکا ہے، میں ذاتی طور پر اِس دیوان میں شامل بہت سی غزلیات سے بہت متاثر ہُوا ہوں۔ ''دانستہ'' مجھے اِس لیے بھی پسند ہے کہ اِس کا انتساب شعروادب کے تابندہ و تاب ناک مینارمیرے اُستاد محترم جلیل عالی کے نام کیاگیاہے۔

شاعر علی شاعرؔ دوسروں کو محبت ،احترام اور مقام دینے کے قائل ہیں۔ وہ نفرت کے بیج بونے والوں سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ وہ کراچی میں ایک طویل مدت سے رنگِ ادب کے نام سے اشاعتی ادارہ قائم کیے ہوئے ہیں جس کے ذریعے وہ دنیائے اُردوادب کو اپنی کتاب دوستی کا ثبوت دیتے رہتے ہیں۔ شاعر علی شاعرؔ جیسا بے نیاز آدمی مہنگائی کے اِس دور میں بھی کسی تاج و تختِ شاہی اور صلہ و ستائش سے غرض نہیں رکھتے بس وہ تو محنت ولگن اور تلاش و جستجو سے تخلیقاتِ نثر و نظم کرتے جارہے ہیں۔سلیم کوثر کی زمین میں کہی اُن کی غزل کے چند اشعار ۔

وہ چاند چھپ گیا ہے مجھے رات سونپ کر

''آنکھوں میں انتظار کے لمحات سونپ کر''

اِک شخص تھا حسین جو مجھ سے بچھڑ گیا

آنکھوں کو میری دائمی برسات سونپ کر

شاعر علی شاعرؔ نے سچی اور کھری زندگی اور اعلیٰ صفات کی بدولت اپنی شاعری میں بالکل نئی قدریں، انوکھی جہتیں اور منفرد لب و لہجہ تخلیق کیا ہے جو اُنہیں اپنے عہد کے ہم عصراور ہم عمر شعرا میں منفرد وممتاز کرگیا ہے۔ وہ محض زندگی کے لیے ادب نہیں تخلیق کرتے بلکہ ادب کو زندگی بنا دیتے ہیں۔اُن کے اشعار دل سے ہوتے ہوئے روح میں اُترجاتے ہیں۔ آخر میں یہی کہوں گا کہ اُن کے دیوان''دانستہ'' سے آپ بھی میری طرح شعروں کی کلیاں چن سکتے ہیں۔

شاعرؔ کے شعر دل میں اُترتے ہیں برملا

لفظوں میں اُس کے جیسا اثر کس کے پاس ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں