ادب میں علامت کی اہمیت
ہر ملک کے ادب ’’علامت‘‘ اپنی مخصوص روایات کی کوکھ سے جنم لیتی ہے
جس طرح آواز کی خوبصورتی موسیقی، رنگوں کی خوبصورتی مصوری، جسمانی حرکات کی خوبصورتی رقص کو جنم دیتی ہے اسی طرح الفاظ کی خوبصورتی ادب کو جنم دیتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ الفاظ میں یہ خوبصورتی کیسے جنم لیتی ہے اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں پہلے چند ادبی اصطلاحات کو سمجھنا ہوگا۔ لفظ اپنے اندر ایک مکمل مفہوم رکھتا ہے جیسے پہاڑ ایک لفظ ہے جب یہ لفظ لکھا اور بولا جاتا ہے تو ذہن میں اس لفظ کے تصور سے پہاڑ کا تصور سامنے آتا ہے ہم پہاڑ کے تصور سے ہی لفظ کو سمجھتے ہیں۔ اس لیے جو شے لفظ کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے اس کی ایک صورت بن جاتی ہے اسی صورت کو علامت کا نام دیا جاتا ہے۔
تشبیہ ایک ادبی اصطلاح ہے جس سے مراد کسی صفت کی بنیاد پر ایک چیز کو کسی دوسری چیز کے مشابہ قرار دینا مثلاً اس کی نیم باز آنکھوں میں ساری مستی شراب کی سی ہے، یہاں شراب بے خودی کی علامت ہے۔
جب کسی لفظ کو اس کے حقیقی معانی کے بجائے غیر حقیقی یعنی مجازی معنی میں استعمال کیا جائے تو اسے استعارہ کہا جائے گا مثلاً ماں اپنے لاڈلے بچے کو چاند کہہ کر بلاتی ہے۔ استعارہ کلام میں حسن، شادابی اور تازگی پیدا کرتا ہے۔جب کوئی لفظ غیر حقیقی یعنی مجازی معنی میں استعمال کیا جائے مگر اس سے حقیقی مراد لیے جاتے ہیں تو اس کو کنایہ کہتے ہیں مثلاً شراب کو آتش سیال اور سورج کو آتش رخ کا نام دیا جائے۔
جب کسی لفظ کو اس کے حقیقی معنی کے علاوہ غیر حقیقی یعنی مجازی معنی میں بھی استعمال کیا جائے تو اسے مجاز مرسل کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ادبی اصطلاح گمان و قیاس سے تعلق رکھتی ہے مثلاً پلک سے پلک لگنا سے مراد نیند نہ آنا ہے، اس نے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے سے مطلب تجربہ کار بوڑھا۔
تشبیہ، استعارہ، کنایہ، مجاز مرسل اور علامات خالص ادبی اصطلاحات ہیں جب کوئی ادیب ان کو اس ڈھنگ سے استعمال کرتا ہے کہ ان کے اندر لغوی معانی کے علاوہ مزید معانی پیدا ہو جاتے ہیں اس کو علامتی انداز کہتے ہیں۔ یعنی الفاظ بے جان ہوتے ہیں ادیب ان میں علامت کے ذریعے زندگی کی لہر پیدا کر دیتا ہے۔ قافیہ، ردیف اور وزن بھی ادبی اصطلاحات ہیں جن کے استعمال سے تحریر میں ایک خاص آہنگ اور ترنم پیدا ہوتا ہے جس سے موسیقیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ موسیقیت شاعری کو جنم دیتی ہے اگر تحریر سے موسیقیت کو نکال دیا جائے تو وہ نثر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
انسانی ذہن انتہائی پیچیدہ مشین ہے یہ چوبیس گھنٹوں میں لاکھوں خیالات اور کیفیات کو جنم دیتی ہے۔ ایک ادیب و شاعر ان خیالات میں سے منفرد خیالات کا انتخاب کر لیتا ہے بعض خیالات اتنے باریک اور تاریک ہوتے ہیں جب تک کسی محسوس چیز سے تشبیہ نہ دی جائے سننے والے کے ذہن میں کوئی تصویر نظر نہیں آتی اس وجہ سے ادیب و شاعر علامت کا سہارا لیتا ہے۔
ادب میں الفاظ کا خزانہ اتنا وسیع اور ہمہ رنگ ہے کہ کوئی فرد بھی الفاظ کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ گویا ہر شاعر و ادیب الفاظ کے ان رنگ برنگے چمن سے چند پھولوں کو چن لیتا ہے ان کی ترتیب سے ادل بدل کر نئے نئے گل دستے سجاتا ہے۔علامت ہمارے ذہن کو کئی جہتوں کی طرف منتقل کرتی ہے، گل کا لفظ ایک علامت ہے جس کی معنویت محض اس کے نباتاتی وجود میں پوشیدہ ہے لیکن خصوصیت کے حوالے سے یہ باغ کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے۔
اسی طرح بلبل کا لفظ ایک علامت ہے اس کی معنویت راز اس کا حیوانی وجود ہے لیکن خوشنما اور دیدہ رنگ پروں کے ساتھ اڑتا ہے تو باغ کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے۔ادب میں لفظ گل اور بلبل جب بہ طور علامت استعمال ہوں گے تو اپنے نباتاتی اور حیوانی وجود کے ساتھ نہیں بلکہ اپنی خصوصیات کے حوالے سے استعمال ہوں گے۔
علامتی زبان ایک پراسرار زبان ہے جس کے ذریعے حقائق بیان بھی ہوتے ہیں اور پوشیدہ بھی رہتے ہیں علامتوں کی اگر تشریح کردی جائے تو وہ نشان بن جاتی ہیں اور اپنی خوبصورتی اور قوت کھو دیتی ہیں۔ ایک شخص شدید درد کی حالت میں کہتا ہے کہ میرے جسم میں درد بجلی کے کرنٹ کی طرح دور رہا ہے تو دراصل یہ شخص علامتی زبان استعمال کر رہا ہے۔
بعض علامات آفاقی ہوتی ہیں آفاقی علامات کا تعلق پوری انسانیت سے ہے کیونکہ ان کے خمیر میں تمام انسانوں کے ایسے مشترک تجربات، مشاہدات اور افکار سے لیا گیا ہوتا ہے۔
قدیم زمانے میں انسان خونخوار جانوروں کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور تھا رات آتے ہی عدم تحفظ کا شکار ہو جاتا تھا۔ رات عدم تحفظ کی ایک کیفیت بن گئی۔ لفظ رات کی تاریکی ایک علامت بن گئی۔ اسی طرح صبح کا اجالا عرصہ دراز سے جنگل کے باسیوں کے ذہن میں تحفظ، آزادی اور منزل کے احساس کو جنم دیتا تھا یہ احساس خود اعتمادی کا باعث بنا جس کے باعث صبح کا اجالا ایک علامت کے طور پر آج بھی رائج ہے۔
مذہب احساس کی قوت کو جگاتا ہے اور یہی کام ادب بھی کرتا ہے لیکن مذہب اور ادب میں بنیادی فرق ہے۔ مذہب اپنے مخاطب سے برائے راست مخاطب ہوتا ہے اور اپنے ماننے والوں سے ایمان کی نا صرف رسید طلب کرتا ہے بلکہ اس کا تقاضا بھی کرتا ہے۔ ادب اپنے ماننے والوں سے برائے راست مخاطب نہیں ہوتا بلکہ بالواسطہ مخاطب ہوتا ہے۔ یہ ایمان کا تقاضا نہیں کرتا صرف ابلاغ کا خواہش مند ہوتا ہے مذہب شعوری طور پر اثر کرتا ہے جبکہ ادب غیر شعوری طور پر اثر پذیر ہوتا ہے۔ جس طرح مذہب اور ادب کے میدان میں فرق ہے اسی طرح سائنس اور ادب میں بھی بنیادی فرق ہے۔
سائنس حقائق اور صداقتوں کے یقین اور تجزیہ کا نام ہے جو مادی اور حیاتی علوم کو تسلیم کرتی ہے جبکہ ادب بنیادی طور پر تصورات کا حامل ہے۔ سائنس کا تعلق تجزیہ سے ہے ادب کا تعلق تخیل سے ہے۔ سائنس مادہ کی ماہیت پر نظر رکھتی ہے۔ ادب اس کی صفات پر نظر رکھتا ہے۔ ادب صفات کا انکشاف نہیں کرتا ان کا احساس دلاتا ہے چیز اور اس کی ماہیت سے اسے کوئی سروکار نہیں۔ اس بنیاد پر ادب اور علامت کو سائنسی نقطہ نظر سے دیکھنے کا عمل درست نہیں۔
ہر ملک کے ادب ''علامت'' اپنی مخصوص روایات کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ جب ایک ادیب و شاعر لفظ شیطان استعمال کرتا ہے تو قاری کے ذہن میں سفاکی، ظلم اور بے رحمی کی ایک تصویر ابھرتی ہے اسی طرح لفظ فرشتہ ہے جو امن اور ہمدردی کا مظہر ہے۔ یعنی علامت کے ذریعے کسی شخص سے متعلق صفات گنوانے کے بجائے اس شخص کو ایک لفظ کی وساطت سے قاری پہچان لیتا ہے ، اسی کو علامتی بیان کہتے ہیں۔ اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ تہذیبی اور سماجی شعور کے بغیر ادب کی تخلیق ممکن نہیں ہے۔