بے گناہ فلسطینی شہریوں کا قتل عام
حماس کی کارروائیوں کی فلسطینی شہریوں کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے
اسرائیل نے گزشتہ روز غزہ میں نہتے فلسطینی شہریوں پر جو قیامت ڈھائی ہے، اس پر پوری دنیا نیتن یاہو حکومت کی مذمت کر رہی ہے۔ فلسطینی شہری اقوام متحدہ کی امداد لینے کے لیے جمع تھے کہ اسرائیلی فوج نے فضائی اور زمینی بمباری کر دی۔ یوں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ فلسطینی شہری شہید ہو گئے۔
فلسطینی وزارت صحت کے اعداد وشمار کے مطابق 193 فلسطینی شہید ہوئے ہیں جب کہ 920 زخمی ہوئے ہیں۔ غزہ میں جاری اس کشت وخون میں فلسطینی شہداء کی تعداد تین ہزار سے زائد ہو گئی ہے جب کہ زخمیوں کی تعداد سات ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ اسرائیل کا یہ حملہ انتہائی دردناک ہے۔
اقوام متحدہ، امریکا، اسپین، فرانس، یورپی یونین، سعودی عرب، او آئی سی، عرب لیگ سمیت دیگر ممالک نے فلسطینیوں کے اس قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل کی شدید مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ یہ ناقابل برداشت عمل ہے۔ فلسطینیوں کی اموات کی تحقیقات کرائی جائیں۔ فرانسیسی صدر میکرون نے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ اسپین نے بھی قحط زدہ فلسطینیوں پر فائرنگ کو بلاجواز قرار دیا۔
سعودی عرب نے کہا کہ شمالی غزہ پر اسرائیلی حملہ قابل مذمت اور انسانی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ غزہ میں فلسظینیوں کی نشل کشی کے خلاف کولمبیا نے اسرائیل سے اسلحہ کی خریداری روک دی ہے۔ او آئی سی کے سفیروں نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے کوششیں تیز کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم کی عبوری صدارت میں ہونے والے او آئی سی اجلاس میں غزہ کی سنگین صورت حال پر بریفنگ دی گئی۔
اقوام متحدہ میں فلسطینی اتھارٹی کے سفیر ریاض المنصور نے مطالبہ کیا کہ عالمی برادری اسرائیل کے خلاف کارروائی کرے۔ امریکا کے صدر جوبائیڈن نے مصری صدر سے ٹیلیفونک رابطہ کیا اور قیدیوں کی رہائی اور غزہ جنگ بندی سے متعلق امور پر گفتگو کی ہے۔ امریکی صدر نے کہا فلسطینیوں پر اسرائیلی حملے مذاکرات کو مزید مشکل بنا دیں گے۔ ادھر اسرائیلی حکومت نے غرب اردن میں مزید 650ایکڑ زمین پر قبضہ کرلیا، یہ زمین مشرقی القدس کے مشرق میں ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس کا کہنا ہے کہ واقعہ بدترین قتل عام اور نسل کشی پر مبنی جنگ کا حصہ ہے۔ اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں زندگی تیزی سے ختم ہورہی ہے۔ غزہ میں نصیرت ، بوریج اور خان یونس کے کیمپوں پر اسرائیلی جنگی طیاروں نے بم پھینکے جب کہ زمین سے توپوں سے گولہ باری کی گئی جس کی وجہ سے وسیع پیمانے پر شہادتیں ہوئی ہیں۔
حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے غزہ پر بمباری کرکے اپنے ہی 7قیدیوں کو ہلاک کردیا ہے ، حماس کے مطابق ان قیدیوں کی ہلاکت کا اعلان چند ہفتوں سے جاری تحقیقات کے بعد کیا گیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او ) کا کہنا ہے کہ غزہ پر جاری بے رحمانہ بمباری کے دوران بھوک وپیاس کے شکار فلسطینی خوراک اور پانی کے حصول کے لیے اپنی جانیں خطروں میں ڈال رہے ہیں۔
یہ تمام خبریں اس حقیقت کو عیاں کرتی ہیں کہ فلسطینیوں کی عالمی سطح پر شنوائی نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ حماس کی مزاحمت بھی کہیں نظر نہیں آ رہی۔ اسرائیلی فورسز اپنی مرضی سے جہاں چاہیں کارروائی کر رہی ہیں اور اسرائیل کی ان کارروائیوں میں عام فلسطینی شہری شہید ہو رہے ہیں۔ دنیا کی طاقتور اقوام اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبوری کر سکتی ہیں مگر اس وقت کوئی طاقتور ریاست اسرائیل کو روکنے کی عملی کوشش نہیں کر رہے۔
امریکا کے لیے اسرائیل کو روکنا بہت آسان تھا لیکن امریکا خود اس جنگ میں فریق بنا ہوا ہے، وہ اسرائیل کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھتا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسرائیل حماس کو ختم کرنے کے نام پر فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے اور وہ غزہ میں یہودی آبادیاں بسانا چاہتا ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم اور وزرا بغیر کسی ڈر اور خوف کے یہ کہتے ہیں کہ غزہ کی پوری آبادی کو ہلاک کرنا پڑا تو وہ یہ کام کر گزریں گے۔
ذرا سوچیں اگر کوئی اور ملک ایسی باتیں کرتا تو امریکا نیٹو اتحادیوں کو ساتھ لے کر اس ملک پر چڑھ دوڑتا لیکن اسرائیل کے معاملے میں سب خاموش ہیں۔ اسرائیل فلسطینی علاقوں میں شہریوں، عورتوں اور بچوں کو بلا کسی امتیاز کے نشانہ بنارہا ہے۔ یہاں تک کہ شہریوں تک امدادی تنظیموں کی رسائی بھی ناممکن بنائی جا رہی ہے۔
امریکا کے اہم سیاسی رہنما برنی سینڈرز نے اسرائیل کی مذمت کرتے ہوئے کانگریس سے مطالبہ کیا ہے کہ اسے اسرائیل کی فنڈنگ فوری طور پر روک دینی چاہیے، اس لیے کہ غزہ میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی جاری ہے۔
انھوں نے کہا کہ امریکیوں کو سمجھنا چاہیے کہ امریکی ٹیکس دہندگان کو غزہ میں مزید خواتین، بچوں اور معصوم فلسطینیوں کے قتل عام پر شریک جرم نہ بنایا جائے۔ برنی سینڈرز بائیں بازو کے خیالات رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار نامزد نہیں ہو سکے تھے۔ اس بار بھی وہ کوشش کر رہے ہیں۔
اسرائیل اس کوشش میں تو کامیاب ہوا ہے کہ کوئی دوسرا ملک اس جنگ میں شریک نہ ہو تاکہ حماس کو تنہا مقابلہ کرنا پڑے، گزشتہ دنوں اسرائیلی فورسز نے لبنان میں مقیم حماس کے اہم رہنماؤں کو ڈرون کا نشانہ بنا کر شہید کردیا تھا۔ صالح العاروری کی شہادت پر لبنان کی حکومت نے اسے بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
ہالینڈ کے شہر ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف بھی اسرائیل کو غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی سے روکنے کا حکم دے چکی ہے۔ اس فیصلے سے فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرنے والی عالمی وکالت اور سرگرمی کو تقویت مل رہی ہے لیکن عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی اہمیت کا زیادہ تر انحصار بین الاقوامی برادری اور اس میں شامل فریقین کے ردعمل اور اقدامات پر ہوگا۔ اسرائیل کو اب اس حوالے سے بھی کسی دباؤ کا سامنا نہیں ہے۔
غزہ جنگ میں بے گناہ فلسطینی شہریوں کا قتل عام ہو رہا ہے، اسکول کالج، فیکٹریاں، کارخانے، سڑکیں اور دیگر انفرا اسٹرکچر کے ساتھ ثقافتی ورثہ اور آثار قدیمہ کے اہم ترین تاریخی مقامات بھی تباہ کیے گئے ہیں۔
اگر ہم ماضی کے دریچوں میں جھانک کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ جب بھی ریاستوں یا اقوام کے مابین جنگیں ہوئی ہیں، ان سب میں ایک سبب عام تھا کہ ایک ریاست کمزور ہوتی تھی اور ایک طاقتور، کوئی طاقتور سلطنت، ملک یا ریاست استبداد میں تبدیل ہوتی ہے تو وہ کمزور ریاستوں پر چڑھ دوڑتی ہے، کمزور ریاست کے وسائل پر قبضہ کرتی ہے، مزاحمت کرنے والوں کو قتل کرتی ہے، زندہ بچ جانے والوں کو غلام بنا لیتی ہے اور ان کی زمینوں، جائیدادوں کو اپنے وفاداروں میں تقسیم کردیتی ہے۔
آج زمانہ جدید میں طاقتورریاستوں کو اقوام متحدہ کاایک پلیٹ فارم مہیا کردیا گیا ہے جہاں وہ کمزور اور پسماندہ ریاستوں اور اقوام کے حقوق نہایت سہل انداز میں سلب کرتی جا رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کو ویٹو کا حق دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ریاست اپنی مرضی سے کسی بھی قرارداد کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
فلسطینیوں کے معاملے میں امریکا یہی کردار ادا کرتا چلا آ رہا ہے۔ یوںجنگ بندی کی تمام کوششیں دھری رہ گئیں۔ اب فلسطین کے حوالے سے اسرائیل کے خلاف جو قراداد پیش ہوتی ہے، اسے امریکا ویٹو کرکے بے اثر کردیتا ہے۔
اسرائیلی حکومت چاہتی ہے کہ غزہ کی جنگ کے سلسلے میں دنیا میں وہ تصویر پیش کی جائے جو اس کے پیش نظر ہے، وہ ایسی تصویر ہے جس میں اس کے جرائم کو تو سنسر کیا ہی جاتا ہے، ساتھ ہی اس کی شکستوں اور جانی و مالی نقصان کو بھی جہاں تک ممکن ہو چھپایا جاتا ہے۔
بعض بین الاقوامی نشریاتی ادارے اور میڈیا گروپس اس میں شامل ہیں جنھیں صیہونی فوج کا ساتھ دینے اور خاص حالات کو تسلیم کرنے کی شرط پر غزہ میں جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ انھیں صیہونی فوج کو ساتھ لیے بغیر غزہ میں کہیں بھی جانے کی اجازت نہیں ہوتی، امریکی اور یورپی ذرایع ابلاغ اس جنگ کی ایک الگ تصویر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بہرحال حماس کی کارروائیوں کی فلسطینی شہریوں کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ فلسطینیوں کی سیاسی قیادت باہمی طور پر بری طرح تقسیم ہے۔ اسی تقسیم نے عرب ممالک کو بھی گومگوں میں ڈال رکھا ہے۔ اس وقت سب سے اہم بات فلسطینیوںکا قتل عام بند کرانا ہے۔ اس حوالے سے سب سے اہم کردار عرب ملکوں کو ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
فلسطینی وزارت صحت کے اعداد وشمار کے مطابق 193 فلسطینی شہید ہوئے ہیں جب کہ 920 زخمی ہوئے ہیں۔ غزہ میں جاری اس کشت وخون میں فلسطینی شہداء کی تعداد تین ہزار سے زائد ہو گئی ہے جب کہ زخمیوں کی تعداد سات ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ اسرائیل کا یہ حملہ انتہائی دردناک ہے۔
اقوام متحدہ، امریکا، اسپین، فرانس، یورپی یونین، سعودی عرب، او آئی سی، عرب لیگ سمیت دیگر ممالک نے فلسطینیوں کے اس قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل کی شدید مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ یہ ناقابل برداشت عمل ہے۔ فلسطینیوں کی اموات کی تحقیقات کرائی جائیں۔ فرانسیسی صدر میکرون نے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ اسپین نے بھی قحط زدہ فلسطینیوں پر فائرنگ کو بلاجواز قرار دیا۔
سعودی عرب نے کہا کہ شمالی غزہ پر اسرائیلی حملہ قابل مذمت اور انسانی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ غزہ میں فلسظینیوں کی نشل کشی کے خلاف کولمبیا نے اسرائیل سے اسلحہ کی خریداری روک دی ہے۔ او آئی سی کے سفیروں نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے کوششیں تیز کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم کی عبوری صدارت میں ہونے والے او آئی سی اجلاس میں غزہ کی سنگین صورت حال پر بریفنگ دی گئی۔
اقوام متحدہ میں فلسطینی اتھارٹی کے سفیر ریاض المنصور نے مطالبہ کیا کہ عالمی برادری اسرائیل کے خلاف کارروائی کرے۔ امریکا کے صدر جوبائیڈن نے مصری صدر سے ٹیلیفونک رابطہ کیا اور قیدیوں کی رہائی اور غزہ جنگ بندی سے متعلق امور پر گفتگو کی ہے۔ امریکی صدر نے کہا فلسطینیوں پر اسرائیلی حملے مذاکرات کو مزید مشکل بنا دیں گے۔ ادھر اسرائیلی حکومت نے غرب اردن میں مزید 650ایکڑ زمین پر قبضہ کرلیا، یہ زمین مشرقی القدس کے مشرق میں ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس کا کہنا ہے کہ واقعہ بدترین قتل عام اور نسل کشی پر مبنی جنگ کا حصہ ہے۔ اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں زندگی تیزی سے ختم ہورہی ہے۔ غزہ میں نصیرت ، بوریج اور خان یونس کے کیمپوں پر اسرائیلی جنگی طیاروں نے بم پھینکے جب کہ زمین سے توپوں سے گولہ باری کی گئی جس کی وجہ سے وسیع پیمانے پر شہادتیں ہوئی ہیں۔
حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے غزہ پر بمباری کرکے اپنے ہی 7قیدیوں کو ہلاک کردیا ہے ، حماس کے مطابق ان قیدیوں کی ہلاکت کا اعلان چند ہفتوں سے جاری تحقیقات کے بعد کیا گیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او ) کا کہنا ہے کہ غزہ پر جاری بے رحمانہ بمباری کے دوران بھوک وپیاس کے شکار فلسطینی خوراک اور پانی کے حصول کے لیے اپنی جانیں خطروں میں ڈال رہے ہیں۔
یہ تمام خبریں اس حقیقت کو عیاں کرتی ہیں کہ فلسطینیوں کی عالمی سطح پر شنوائی نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ حماس کی مزاحمت بھی کہیں نظر نہیں آ رہی۔ اسرائیلی فورسز اپنی مرضی سے جہاں چاہیں کارروائی کر رہی ہیں اور اسرائیل کی ان کارروائیوں میں عام فلسطینی شہری شہید ہو رہے ہیں۔ دنیا کی طاقتور اقوام اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبوری کر سکتی ہیں مگر اس وقت کوئی طاقتور ریاست اسرائیل کو روکنے کی عملی کوشش نہیں کر رہے۔
امریکا کے لیے اسرائیل کو روکنا بہت آسان تھا لیکن امریکا خود اس جنگ میں فریق بنا ہوا ہے، وہ اسرائیل کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھتا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسرائیل حماس کو ختم کرنے کے نام پر فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے اور وہ غزہ میں یہودی آبادیاں بسانا چاہتا ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم اور وزرا بغیر کسی ڈر اور خوف کے یہ کہتے ہیں کہ غزہ کی پوری آبادی کو ہلاک کرنا پڑا تو وہ یہ کام کر گزریں گے۔
ذرا سوچیں اگر کوئی اور ملک ایسی باتیں کرتا تو امریکا نیٹو اتحادیوں کو ساتھ لے کر اس ملک پر چڑھ دوڑتا لیکن اسرائیل کے معاملے میں سب خاموش ہیں۔ اسرائیل فلسطینی علاقوں میں شہریوں، عورتوں اور بچوں کو بلا کسی امتیاز کے نشانہ بنارہا ہے۔ یہاں تک کہ شہریوں تک امدادی تنظیموں کی رسائی بھی ناممکن بنائی جا رہی ہے۔
امریکا کے اہم سیاسی رہنما برنی سینڈرز نے اسرائیل کی مذمت کرتے ہوئے کانگریس سے مطالبہ کیا ہے کہ اسے اسرائیل کی فنڈنگ فوری طور پر روک دینی چاہیے، اس لیے کہ غزہ میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی جاری ہے۔
انھوں نے کہا کہ امریکیوں کو سمجھنا چاہیے کہ امریکی ٹیکس دہندگان کو غزہ میں مزید خواتین، بچوں اور معصوم فلسطینیوں کے قتل عام پر شریک جرم نہ بنایا جائے۔ برنی سینڈرز بائیں بازو کے خیالات رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار نامزد نہیں ہو سکے تھے۔ اس بار بھی وہ کوشش کر رہے ہیں۔
اسرائیل اس کوشش میں تو کامیاب ہوا ہے کہ کوئی دوسرا ملک اس جنگ میں شریک نہ ہو تاکہ حماس کو تنہا مقابلہ کرنا پڑے، گزشتہ دنوں اسرائیلی فورسز نے لبنان میں مقیم حماس کے اہم رہنماؤں کو ڈرون کا نشانہ بنا کر شہید کردیا تھا۔ صالح العاروری کی شہادت پر لبنان کی حکومت نے اسے بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
ہالینڈ کے شہر ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف بھی اسرائیل کو غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی سے روکنے کا حکم دے چکی ہے۔ اس فیصلے سے فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرنے والی عالمی وکالت اور سرگرمی کو تقویت مل رہی ہے لیکن عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی اہمیت کا زیادہ تر انحصار بین الاقوامی برادری اور اس میں شامل فریقین کے ردعمل اور اقدامات پر ہوگا۔ اسرائیل کو اب اس حوالے سے بھی کسی دباؤ کا سامنا نہیں ہے۔
غزہ جنگ میں بے گناہ فلسطینی شہریوں کا قتل عام ہو رہا ہے، اسکول کالج، فیکٹریاں، کارخانے، سڑکیں اور دیگر انفرا اسٹرکچر کے ساتھ ثقافتی ورثہ اور آثار قدیمہ کے اہم ترین تاریخی مقامات بھی تباہ کیے گئے ہیں۔
اگر ہم ماضی کے دریچوں میں جھانک کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ جب بھی ریاستوں یا اقوام کے مابین جنگیں ہوئی ہیں، ان سب میں ایک سبب عام تھا کہ ایک ریاست کمزور ہوتی تھی اور ایک طاقتور، کوئی طاقتور سلطنت، ملک یا ریاست استبداد میں تبدیل ہوتی ہے تو وہ کمزور ریاستوں پر چڑھ دوڑتی ہے، کمزور ریاست کے وسائل پر قبضہ کرتی ہے، مزاحمت کرنے والوں کو قتل کرتی ہے، زندہ بچ جانے والوں کو غلام بنا لیتی ہے اور ان کی زمینوں، جائیدادوں کو اپنے وفاداروں میں تقسیم کردیتی ہے۔
آج زمانہ جدید میں طاقتورریاستوں کو اقوام متحدہ کاایک پلیٹ فارم مہیا کردیا گیا ہے جہاں وہ کمزور اور پسماندہ ریاستوں اور اقوام کے حقوق نہایت سہل انداز میں سلب کرتی جا رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کو ویٹو کا حق دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ریاست اپنی مرضی سے کسی بھی قرارداد کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
فلسطینیوں کے معاملے میں امریکا یہی کردار ادا کرتا چلا آ رہا ہے۔ یوںجنگ بندی کی تمام کوششیں دھری رہ گئیں۔ اب فلسطین کے حوالے سے اسرائیل کے خلاف جو قراداد پیش ہوتی ہے، اسے امریکا ویٹو کرکے بے اثر کردیتا ہے۔
اسرائیلی حکومت چاہتی ہے کہ غزہ کی جنگ کے سلسلے میں دنیا میں وہ تصویر پیش کی جائے جو اس کے پیش نظر ہے، وہ ایسی تصویر ہے جس میں اس کے جرائم کو تو سنسر کیا ہی جاتا ہے، ساتھ ہی اس کی شکستوں اور جانی و مالی نقصان کو بھی جہاں تک ممکن ہو چھپایا جاتا ہے۔
بعض بین الاقوامی نشریاتی ادارے اور میڈیا گروپس اس میں شامل ہیں جنھیں صیہونی فوج کا ساتھ دینے اور خاص حالات کو تسلیم کرنے کی شرط پر غزہ میں جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ انھیں صیہونی فوج کو ساتھ لیے بغیر غزہ میں کہیں بھی جانے کی اجازت نہیں ہوتی، امریکی اور یورپی ذرایع ابلاغ اس جنگ کی ایک الگ تصویر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بہرحال حماس کی کارروائیوں کی فلسطینی شہریوں کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ فلسطینیوں کی سیاسی قیادت باہمی طور پر بری طرح تقسیم ہے۔ اسی تقسیم نے عرب ممالک کو بھی گومگوں میں ڈال رکھا ہے۔ اس وقت سب سے اہم بات فلسطینیوںکا قتل عام بند کرانا ہے۔ اس حوالے سے سب سے اہم کردار عرب ملکوں کو ادا کرنے کی ضرورت ہے۔